پنجاب بیوروکریسی میں وسیع پیمانے پر تبدیلیوں کا بڑھتا امکان
اپوزیشن نے استعفوں کے معاملے پر جلد بازی اور عدم اتفاق کا مظاہرہ کر کے خود کو کمزور بنایا ہے۔
پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک اندرونی اختلاف رائے کا شکار ضرور ہے لیکن اس کی ضربوں نے حکومتی قلعہ کی فصیل میں دراڑیں ضرور ڈال دی ہیں۔
اپوزیشن بالخصوص مریم نواز کی جانب سے چند غلطیاں نہ سرزد ہوتیں تو نتائج مزید بہتر آنے کی توقع تھی۔ اپوزیشن نے استعفوں کے معاملے پر جلد بازی اور عدم اتفاق کا مظاہرہ کر کے خود کو کمزور بنایا ہے۔ تاہم اس تمام صورتحال میں پیپلز پارٹی بہت سیاسی فہم وفراست کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
آصف علی زرداری کو معلوم ہے کہ ضمنی انتخابات اور سینٹ الیکشن میں شرکت کرنا اپوزیشن کے مفاد میں ہے ویسے بھی سینٹ میں اپوزیشن لیڈر پیپلزپارٹی میں سے منتخب کیا جائے گا۔ حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ اس نے اپوزیشن کی یلغار کو ناکام بنایا ہے لیکن یہ حکومت کی خام خیالی ہے ۔
ریاستی ادارے اس وقت شدیددباو میں ہیں بالخصوص پی ڈی ایم رہنماوں کی جانب سے راولپنڈی کی جانب لانگ مارچ کرنے کا عندیہ اس دباو کو بڑھانے میں اہم ثابت ہوا ہے ۔ باخبر حلقوں کو معلوم ہے کہ نہایت رازداری اور خاموشی کے ساتھ گہرے پردوں کے پیچھے اپوزیشن سے ''بات چیت'' ہو رہی ہے اور جیسے جیسے بات آگے بڑھ رہی ہے حکومت کیلئے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آئندہ چند مہینوں میں حکومت گر جائے گی شاید ایسا ہو جائے اور شاید ایسا نہ ہو لیکن یہ طے ہے کہ حکومت نے کارکردگی بہتر نہ بنائی تو آئندہ الیکشن میں اس کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
ریاستی اداروں سے قریبی مراسم رکھنے والے محمد علی درانی کا اچانک نہایت متحرک ہونا اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتا ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ ڈھائی سالہ دور اقتدار میں حکومت ''ڈیلیور'' کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے ،معیشت اور حکومتی خدمات سمیت ہر سیکٹر میں زوال ہی آیا ہے ۔حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج الفاظ اور اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کے ساتھ عوام کو مزید دھوکہ نہیں دے سکتی۔ گورننس کے معاملہ میں حکومت شدید مسائل کا شکار ہے۔
سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے سرکاری محکموں میں نئے اقدامات لینے سے گریز کیا جارہا ہے۔ افسر بالخصوص محکمانہ سربراہ کسی بھی فائل پر دستخط کرنے سے خوفزدہ ہیں ،تقرر وتبادلوں کی رفتار اتنی غیر معمولی ہے کہ آنے والا ابھی محکمہ کو سمجھنے میں مصروف ہوتا ہے کہ اسے رخصتی کا پروانہ تھما دیا جاتا ہے۔
ویسے تو حکومت کے ناقدین اور مخالفین تقرر وتبادلوں کے حوالے سے بہت سے الزامات عائد کرتے ہیں کوئی''نیلام گھر'' کہتا ہے تو کسی سرکاری دفتر کو''کسٹمر سروس سنٹر'' کا نام دیا جاتا ہے ،گو کہ ان الزامات کو ثابت کرنے کیلئے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاتا لیکن غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ اس وقت ٹرانسفر پوسٹنگ کے معاملہ میں وزیر اعظم اور وزیر اعلی شدید سیاسی دباو کا شکار ہیں ،کوئی تنہا طاقتور چلا آئے یا چند لوگوں کا مشترکہ ٹولہ پہنچ جائے، ان کی ''فرمائش'' پر تقرری یا تبادلہ کردیا جاتا ہے۔
اسی سبب بیوروکریسی شدید مایوسی کا شکار ہے اوربہت سے بہترین افسر بھی اس وقت کوئی سائیڈ لائن پوسٹنگ لیکر وقت گزارنا چاہتے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ وہ جتنی بھی محنت کر لیں ان کے کام کی قدر نہیں کی جا رہی۔ڈھائی برس کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے اپنی وفاقی ٹیم کی مشاورت سے پنجاب بیوروکریسی کی متعدد مرتبہ صف بندی کی ہے لیکن ہر مرتبہ نئی ٹیم چند ماہ سے زیادہ عرصہ نہیں چل پائی ،کبھی سیاسی سائیڈ سے خرابی پیدا ہوئی تو کبھی طاقت اور بیک اپ کے گھمنڈ میں بیوروکریٹ نے ایوان وزیر اعلی کو بائی پاس کرنے کی کوشش کی۔ ایک کہاوت ہے کہ کسی ملک میں بادشاہ بننے کی شرط تھی کہ بادشاہ بننے کے ایک برس بعد اس کا سر قلم کردیا جائے گا کچھ اسی سے ملتی جلتی صورتحال پنجاب بیوروکریسی میں ہے ۔
گزشتہ کئی دنوں سے بیوروکریسی اور حکومتی حلقوں میں ایک مرتبہ پھر چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ مستقبل قریب میں ایک مرتبہ پھر سے پنجاب بیوروکریسی میں بڑی اکھاڑ پچھاڑ ہونے والی ہے بالخصوص چیف سیکرٹری کے عہدے پر ممکنہ تبدیلی کے امکانات بیان کیئے جا رہے ہیں ۔موجودہ چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک ایک عمدہ انسان ہیں اور بلا وجہ کی محاذ آرائیاں پیدا کرنے سے ہمیشہ گریز کرتے ہیں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس وقت وزیر اعلی کے سب سے بہترین ''ماتحت'' ہیں۔
بطور ڈیپارٹمنٹل رپورٹر میں سمجھتا ہوں کہ انہیں ابھی تبدیل کرنے سے گریز کرنا چاہئے اور انہیں چند ماہ مزید مہلت دینا بہتر ہوگا لیکن وزیر اعظم اور وزیر اعلی کیلئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جواد رفیق ملک سول بیوروکریسی کے صوبائی سربراہ کی حیثیت سے محکمانہ نظام میں نمایاں بہتری نہیں لا سکے ہیں بالخصوص مہنگائی کے حوالے سے معاملات ہمیشہ الجھاو کا شکار رہے ہیں ، دوسری جانب بیوروکریسی کو اپنے چیف سیکرٹری سے یہ شکوہ ہے کہ وہ سیاسی دباو پر ہونے والے تقرر وتبادلوں کے حوالے سے مزاحمت نہیں کرتے۔ پنجا ب میں تعینات سینئر افسروں کا موقف ہے کہ اوپر سے آنے والی ہر ''چٹ'' پر احکامات جاری نہیں کرنا چاہئے بلکہ افسر کی کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ ہونا چاہیے۔
نئے ممکنہ چیف سیکرٹری کے حوالے سے ویسے تو یوسف نسیم کھوکھر،سردار اعجازجعفر سمیت کئی نام زیر گردش ہیںلیکن گریڈ22 کے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب بابر حیات تارڈ کا نام بہت زور وشور سے سنائی دے رہا ہے، سول بیوروکریسی کی بہت بڑی تعداد چاہتی ہے کہ بابر حیات تارڈ اگلے چیف سیکرٹری پنجاب ہوں ۔بابر حیات تارڈ کا سروس کیرئر نہایت شاندار اور جاندار ہے وہ اپنے حکومتی باسز کو بھرپور مشاورت دینے اور ان کی پالیسیوں کی عملداری میں بھرپور جدوجہد کرتے ہیں تو دوسری جانب وہ اپنے ماتحت افسروں کیلئے ''شاک آبزرور'' اور ''دفاعی حصار'' بھی بن جاتے ہیں۔
اگر پنجاب کے آئندہ چیف سیکرٹری کے طور پر ان کا انتخاب ہوتا ہے تو پھر یقینی طور پر وینٹی لیٹر پر سسکتی بیوروکریسی کو نئی و توانا زندگی مل جائے گی۔ جواد رفیق ملک کو برقرار رکھنا ہے یا نیا چیف سیکرٹری لانا ہے اس حوالے سے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کی رائے نہایت اہم ہو گی کیونکہ پچھلے چند ماہ کے دوران وزیرا عظم نے تقرر وتبادلوں کے حوالے سے سردار صاحب کو کافی اختیار دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اعظم خان ، ارباب شہزاد سمیت چند طاقتور وزراء اور بیوروکریٹس کی رائے بھی اہمیت کی حامل ہے۔
وزیر اعظم اور وزیر اعلی کا پرنسپل سیکرٹری اس کی آنکھ اور کان ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان پر غیر معمولی اعتماد کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف ،اراکین اسمبلی اور کابینہ ارکان کی ایک نمایاں تعداد کے تحفظات اور اعتراضات کے باوجود اعظم خان آج بھی اپنے عہدے پر قائم ہیں جبکہ سردار عثمان بزدار کو بھی اپنے پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید پر بہت بھروسہ ہے۔ طاہر خورشید کا شمار تجربہ کار، باصلاحیت اور تیز رفتار ایسے افسر وں میں کیا جاتا ہے جن کی قوت فیصلہ بہت مضبوط ہے۔
سیکرٹری انڈسٹری پنجاب کے طور پر انہوں نے جو کام کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ چیف سیکرٹری ہو یا ایڈمنسٹریٹو سیکرٹری اسے کارکردگی دکھانے کیلئے مناسب وقت درکار ہوتا ہے اور سب سے بڑھکر یہ کہ اسے اختیار درکار ہوتا ہے ،اختیار سے مراد تقرر وتبادلے کا اختیار ہر گز نہیں بلکہ اسے پالیسی بنانے، بدلنے اور اس پر عمل کروانے کا اختیار ہونا چاہئے۔
گزشتہ دو برس میں جب بھی کوئی نیا چیف سیکرٹری آیا اس نے ایوان وزیر اعظم اور ایوان وزیر اعلی کی مشاورت سے نئی ٹیم تشکیل دی ہے لیکن اکثر ایسا دیکھنے میں آیا کہ اہم ترین محکموں کے سیکرٹریز یا ڈائریکٹر جنرلز کی تعیناتی کرتے وقت افسر کی استعداد اور معیار کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا، اس وقت بھی بہت سے قابل اور باصلاحیت افسر کم اہم عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور کئی نکمے اور کام چور افسر بڑے محکموں میں تعینات ہیں لہذا ''اگر'' مستقبل قریب میں پنجاب بیوروکریسی میں ممکنہ تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو پھر لازم ہے کہ ''BEST PERSON FOR JOB '' کا فارمولہ اپنایا جائے ۔
اپوزیشن بالخصوص مریم نواز کی جانب سے چند غلطیاں نہ سرزد ہوتیں تو نتائج مزید بہتر آنے کی توقع تھی۔ اپوزیشن نے استعفوں کے معاملے پر جلد بازی اور عدم اتفاق کا مظاہرہ کر کے خود کو کمزور بنایا ہے۔ تاہم اس تمام صورتحال میں پیپلز پارٹی بہت سیاسی فہم وفراست کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
آصف علی زرداری کو معلوم ہے کہ ضمنی انتخابات اور سینٹ الیکشن میں شرکت کرنا اپوزیشن کے مفاد میں ہے ویسے بھی سینٹ میں اپوزیشن لیڈر پیپلزپارٹی میں سے منتخب کیا جائے گا۔ حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ اس نے اپوزیشن کی یلغار کو ناکام بنایا ہے لیکن یہ حکومت کی خام خیالی ہے ۔
ریاستی ادارے اس وقت شدیددباو میں ہیں بالخصوص پی ڈی ایم رہنماوں کی جانب سے راولپنڈی کی جانب لانگ مارچ کرنے کا عندیہ اس دباو کو بڑھانے میں اہم ثابت ہوا ہے ۔ باخبر حلقوں کو معلوم ہے کہ نہایت رازداری اور خاموشی کے ساتھ گہرے پردوں کے پیچھے اپوزیشن سے ''بات چیت'' ہو رہی ہے اور جیسے جیسے بات آگے بڑھ رہی ہے حکومت کیلئے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آئندہ چند مہینوں میں حکومت گر جائے گی شاید ایسا ہو جائے اور شاید ایسا نہ ہو لیکن یہ طے ہے کہ حکومت نے کارکردگی بہتر نہ بنائی تو آئندہ الیکشن میں اس کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
ریاستی اداروں سے قریبی مراسم رکھنے والے محمد علی درانی کا اچانک نہایت متحرک ہونا اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتا ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ ڈھائی سالہ دور اقتدار میں حکومت ''ڈیلیور'' کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے ،معیشت اور حکومتی خدمات سمیت ہر سیکٹر میں زوال ہی آیا ہے ۔حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج الفاظ اور اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کے ساتھ عوام کو مزید دھوکہ نہیں دے سکتی۔ گورننس کے معاملہ میں حکومت شدید مسائل کا شکار ہے۔
سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے سرکاری محکموں میں نئے اقدامات لینے سے گریز کیا جارہا ہے۔ افسر بالخصوص محکمانہ سربراہ کسی بھی فائل پر دستخط کرنے سے خوفزدہ ہیں ،تقرر وتبادلوں کی رفتار اتنی غیر معمولی ہے کہ آنے والا ابھی محکمہ کو سمجھنے میں مصروف ہوتا ہے کہ اسے رخصتی کا پروانہ تھما دیا جاتا ہے۔
ویسے تو حکومت کے ناقدین اور مخالفین تقرر وتبادلوں کے حوالے سے بہت سے الزامات عائد کرتے ہیں کوئی''نیلام گھر'' کہتا ہے تو کسی سرکاری دفتر کو''کسٹمر سروس سنٹر'' کا نام دیا جاتا ہے ،گو کہ ان الزامات کو ثابت کرنے کیلئے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاتا لیکن غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ اس وقت ٹرانسفر پوسٹنگ کے معاملہ میں وزیر اعظم اور وزیر اعلی شدید سیاسی دباو کا شکار ہیں ،کوئی تنہا طاقتور چلا آئے یا چند لوگوں کا مشترکہ ٹولہ پہنچ جائے، ان کی ''فرمائش'' پر تقرری یا تبادلہ کردیا جاتا ہے۔
اسی سبب بیوروکریسی شدید مایوسی کا شکار ہے اوربہت سے بہترین افسر بھی اس وقت کوئی سائیڈ لائن پوسٹنگ لیکر وقت گزارنا چاہتے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ وہ جتنی بھی محنت کر لیں ان کے کام کی قدر نہیں کی جا رہی۔ڈھائی برس کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے اپنی وفاقی ٹیم کی مشاورت سے پنجاب بیوروکریسی کی متعدد مرتبہ صف بندی کی ہے لیکن ہر مرتبہ نئی ٹیم چند ماہ سے زیادہ عرصہ نہیں چل پائی ،کبھی سیاسی سائیڈ سے خرابی پیدا ہوئی تو کبھی طاقت اور بیک اپ کے گھمنڈ میں بیوروکریٹ نے ایوان وزیر اعلی کو بائی پاس کرنے کی کوشش کی۔ ایک کہاوت ہے کہ کسی ملک میں بادشاہ بننے کی شرط تھی کہ بادشاہ بننے کے ایک برس بعد اس کا سر قلم کردیا جائے گا کچھ اسی سے ملتی جلتی صورتحال پنجاب بیوروکریسی میں ہے ۔
گزشتہ کئی دنوں سے بیوروکریسی اور حکومتی حلقوں میں ایک مرتبہ پھر چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ مستقبل قریب میں ایک مرتبہ پھر سے پنجاب بیوروکریسی میں بڑی اکھاڑ پچھاڑ ہونے والی ہے بالخصوص چیف سیکرٹری کے عہدے پر ممکنہ تبدیلی کے امکانات بیان کیئے جا رہے ہیں ۔موجودہ چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک ایک عمدہ انسان ہیں اور بلا وجہ کی محاذ آرائیاں پیدا کرنے سے ہمیشہ گریز کرتے ہیں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس وقت وزیر اعلی کے سب سے بہترین ''ماتحت'' ہیں۔
بطور ڈیپارٹمنٹل رپورٹر میں سمجھتا ہوں کہ انہیں ابھی تبدیل کرنے سے گریز کرنا چاہئے اور انہیں چند ماہ مزید مہلت دینا بہتر ہوگا لیکن وزیر اعظم اور وزیر اعلی کیلئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جواد رفیق ملک سول بیوروکریسی کے صوبائی سربراہ کی حیثیت سے محکمانہ نظام میں نمایاں بہتری نہیں لا سکے ہیں بالخصوص مہنگائی کے حوالے سے معاملات ہمیشہ الجھاو کا شکار رہے ہیں ، دوسری جانب بیوروکریسی کو اپنے چیف سیکرٹری سے یہ شکوہ ہے کہ وہ سیاسی دباو پر ہونے والے تقرر وتبادلوں کے حوالے سے مزاحمت نہیں کرتے۔ پنجا ب میں تعینات سینئر افسروں کا موقف ہے کہ اوپر سے آنے والی ہر ''چٹ'' پر احکامات جاری نہیں کرنا چاہئے بلکہ افسر کی کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ ہونا چاہیے۔
نئے ممکنہ چیف سیکرٹری کے حوالے سے ویسے تو یوسف نسیم کھوکھر،سردار اعجازجعفر سمیت کئی نام زیر گردش ہیںلیکن گریڈ22 کے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب بابر حیات تارڈ کا نام بہت زور وشور سے سنائی دے رہا ہے، سول بیوروکریسی کی بہت بڑی تعداد چاہتی ہے کہ بابر حیات تارڈ اگلے چیف سیکرٹری پنجاب ہوں ۔بابر حیات تارڈ کا سروس کیرئر نہایت شاندار اور جاندار ہے وہ اپنے حکومتی باسز کو بھرپور مشاورت دینے اور ان کی پالیسیوں کی عملداری میں بھرپور جدوجہد کرتے ہیں تو دوسری جانب وہ اپنے ماتحت افسروں کیلئے ''شاک آبزرور'' اور ''دفاعی حصار'' بھی بن جاتے ہیں۔
اگر پنجاب کے آئندہ چیف سیکرٹری کے طور پر ان کا انتخاب ہوتا ہے تو پھر یقینی طور پر وینٹی لیٹر پر سسکتی بیوروکریسی کو نئی و توانا زندگی مل جائے گی۔ جواد رفیق ملک کو برقرار رکھنا ہے یا نیا چیف سیکرٹری لانا ہے اس حوالے سے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کی رائے نہایت اہم ہو گی کیونکہ پچھلے چند ماہ کے دوران وزیرا عظم نے تقرر وتبادلوں کے حوالے سے سردار صاحب کو کافی اختیار دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اعظم خان ، ارباب شہزاد سمیت چند طاقتور وزراء اور بیوروکریٹس کی رائے بھی اہمیت کی حامل ہے۔
وزیر اعظم اور وزیر اعلی کا پرنسپل سیکرٹری اس کی آنکھ اور کان ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان پر غیر معمولی اعتماد کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف ،اراکین اسمبلی اور کابینہ ارکان کی ایک نمایاں تعداد کے تحفظات اور اعتراضات کے باوجود اعظم خان آج بھی اپنے عہدے پر قائم ہیں جبکہ سردار عثمان بزدار کو بھی اپنے پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید پر بہت بھروسہ ہے۔ طاہر خورشید کا شمار تجربہ کار، باصلاحیت اور تیز رفتار ایسے افسر وں میں کیا جاتا ہے جن کی قوت فیصلہ بہت مضبوط ہے۔
سیکرٹری انڈسٹری پنجاب کے طور پر انہوں نے جو کام کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ چیف سیکرٹری ہو یا ایڈمنسٹریٹو سیکرٹری اسے کارکردگی دکھانے کیلئے مناسب وقت درکار ہوتا ہے اور سب سے بڑھکر یہ کہ اسے اختیار درکار ہوتا ہے ،اختیار سے مراد تقرر وتبادلے کا اختیار ہر گز نہیں بلکہ اسے پالیسی بنانے، بدلنے اور اس پر عمل کروانے کا اختیار ہونا چاہئے۔
گزشتہ دو برس میں جب بھی کوئی نیا چیف سیکرٹری آیا اس نے ایوان وزیر اعظم اور ایوان وزیر اعلی کی مشاورت سے نئی ٹیم تشکیل دی ہے لیکن اکثر ایسا دیکھنے میں آیا کہ اہم ترین محکموں کے سیکرٹریز یا ڈائریکٹر جنرلز کی تعیناتی کرتے وقت افسر کی استعداد اور معیار کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا، اس وقت بھی بہت سے قابل اور باصلاحیت افسر کم اہم عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور کئی نکمے اور کام چور افسر بڑے محکموں میں تعینات ہیں لہذا ''اگر'' مستقبل قریب میں پنجاب بیوروکریسی میں ممکنہ تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو پھر لازم ہے کہ ''BEST PERSON FOR JOB '' کا فارمولہ اپنایا جائے ۔