گوادر میں باڑ کی تنصیب کا معاملہ صوبائی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سپرد

کمیٹی گوادر کا دورہ کرکے دس دن کے اندر اپنی رپورٹ مرتب کرکے ایوان میں پیش کرے گی۔

کمیٹی گوادر کا دورہ کرکے دس دن کے اندر اپنی رپورٹ مرتب کرکے ایوان میں پیش کرے گی۔

گوادر میں باڑکی تنصیب کے معاملے پر بلوچستان اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں گرما گرم بحث و مباحثہ کے بعد جام حکومت نے اس معاملے کو فی الحال موخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ بلوچستان اسمبلی نے باڑ لگانے کے معاملے کو اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے15 ارکان کو کمیٹی میں شامل کردیا۔

کمیٹی گوادر کا دورہ کرکے دس دن کے اندر اپنی رپورٹ مرتب کرکے ایوان میں پیش کرے گی۔ گوادر میں باڑ کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں نے بھرپور احتجاج کرتے ہوئے اس معاملے کو نہ صرف اسمبلی بلکہ عدالت عالیہ میں بھی اُٹھایا بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس جمال خان مندوخیل اور جناب جسٹس عبدالحمید بلوچ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے اس اہم نوعیت کے معاملے پر اپنا فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس اہم معاملے پر بحث کیلئے صوبائی اسمبلی ہی بہترین اور مناسب فورم ہے حکومت کے مطابق گوادر ٹاؤن کو مزید محفوظ بنانے کے ارادے سے اُٹھایا گیا یہ اقدام پہلے ہی صوبائی اسمبلی میں زیر بحث ہے جو کہ اس مسئلے کے حل کا صحیح فورم بھی ہے۔

عدالت توقع کرتی ہے کہ حکومت اور صوبائی اسمبلی مذکورہ مسئلے کو زیر بحث لاتے ہوئے اُٹھائے گئے معاملات پر غور کرے گی یہاں یہ پوچھنا مناسب ہوگا کہ کیا حکومت اور ممبران صوبائی اسمبلی گوادر سٹی کو اس امکان کے ساتھ محفوظ بنانا چاہتے ہیں کہ آیا اس عمل سے دہشت گردی سے بچاؤ ممکن بنایا جا سکے گا اور کیا اس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھایا جا سکے گا ۔

معزز بنچ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو حکومتی اُمور یا کسی بھی مسئلے پر پالیسی بنانے کا اختیار حاصل ہے لیکن یہ بھی لازمی ہے کہ ہر فیصلہ آئین کے مطابق ہو ۔ خصوصاً جبکہ مسئلے کا تعین آئین کے آرٹیکل15 سے جڑتا ہو جیسا کہ مذکورہ کیس میں درخواست گزاروں کی جانب سے اعتراض اُٹھایا گیا ہے ۔ فیصلے میں معزز عدالت نے اُمید ظاہر کی کہ اسمبلی میں اس معاملے میں بحث و مباحثہ کے بعد توقع کی جاتی ہے کہ دانشمندی ہی غالب آئے گی۔

عدالت عالیہ کی جانب سے باڑ کے حوالے سے آنے والے اس فیصلے کے بعد بلوچستان اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے گوادر میں باڑ کی تنصیب کے فیصلے کو موخر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی احکامات کی روشنی میں وہ جلد گوادر کا دورہ کرکے وہاں کے عوام اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد اسمبلی کو اعتماد میں لے کر فیصلے کریں گے۔


گوادر کے معاملات کوحقائق سے ہٹ کر پیش نہ کیا جائے ۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلوچستان اور گوادر کی ترقی کسی بھی صورت سبوتاژ نہیں ہونے دیں گے، گوادر کی ترقی سے ناخوش عناصر ترقی نہیں چاہتے ، ہم گوادر کو بے یارومددگار نہیں چھوڑ سکتے ۔ فینسنگ کا منصوبہ سمارٹ سٹی کا حصہ ہے اور سماٹ سٹی منصوبہ گوادر ماسٹر پلان میں شامل ہے پھر بھی اگر کسی کو تحفظات ہیں تو ہم اُن کودور کریں گے۔

اس سے قبل بلوچستان اسمبلی کے اپوزیشن ارکان کی جانب سے ریکوزٹ کئے گئے خصوصی اجلاس میں ارکان اسمبلی نے گوادر میں باڑ کی تنصیب ، امن و امان کی صورتحال، آئین کی پامالی، قبائل کی زمینوں پر قبضے اور منشیات کی روک تھام کے حوالے سے دھواں دار تقاریر کیں اور جام حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ۔

اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا کہ2000ء سے گوادر میں ترقیاتی عمل شروع ہوا لیکن پورٹ بننے سے لے کر کوسٹل ہائی وے سمیت کسی بھی منصوبے سے گوادر کے عوام کے حالات زندگی میں بہتری نہیں آئی ، اُلٹا گوادر میں باڑ لگائی جا رہی ہے ، وزیراعلیٰ نے ماسٹر پلان پر تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اس پر بھی کوئی عملدرآمد نہیں ہوا ۔ حکومت بے بس نظر آتی ہے ہماری معدنیات سمندری حیات کا فائدہ صوبے کے بجائے سندھ میں جاتا ہے اگر وزیراعلیٰ یقین دہانی کرادیں کہ باڑ لگانے کے بعد دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوگا تو ہم خود اس باڑ کی حمایت کریں گے ۔

گوادر کو سمارٹ سٹی بنایا جارہا ہے دُنیا بھر میں کیمروں سے نگرانی ہورہی ہے اور ہم یہاں باڑ لگارہے ہیں اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ گوادر ماسٹر پلان میں کہیں بھی باڑ کا ذکر نہیں تھا ۔ بلوچستان اسمبلی کے قائم مقام اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے رولنگ دیتے ہوئے گوادر میں باڑ کی تنصیب کے معاملے کو قائمہ کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے اپوزیشن بنچوں سے مزید5 ارکان کو کمیٹی کا حصہ بنادیا اور کمیٹی کو ہدایت جاری کی کہ وہ دس دن کے اندر اندر گوادر کا دورہ کرکے رپورٹ ایوان میں پیش کرے ۔

دوسری جانب نیب بلوچستان نے بھی اپنی کارروائیوں میں تیزی پیدا کر دی ہے ۔ سرکاری محکموں میں کرپشن کے کیسز کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں ۔ محکمہ صحت، فشریز کے بعد دیگر سرکاری محکمے بھی نیب بلوچستان کے نشانے پر آگئے ہیں جبکہ دو موجودہ ڈائریکٹر جنرلز اور ایک سیکرٹری پر فرد جرم عائد کر دی گئی اور مزید سرکاری اعلیٰ افسران کی گرفتاری کی توقع کی جا رہی ہے جبکہ نیب عدالت نے مہر گڑھ ورثہ بحالی کی مد میں ملنے والے فنڈز سے متعلق ریفرنس میں عدم پیشی پر سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی اور ان کے ایک عزیز کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں نے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور موجودہ رکن صوبائی اسمبلی نواب اسلم رئیسانی کے خلاف نیب ریفرنس کو سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن ارکان کو ایسے ہتھکنڈوں سے مرعوب نہیں کیا جا سکتا ، سلیکٹڈ حکومت کے دن پورے ہو چکے اور اُسے اب جانا ہوگا ۔
Load Next Story