پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کے ساتھ ساتھ ضمنی الیکشن کی بھی تیاریاں

پی ڈی ایم کی جانب سے اسمبلیوں سے استعفے دینے کے اعلان سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے تحریک کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے۔

پی ڈی ایم کی جانب سے اسمبلیوں سے استعفے دینے کے اعلان سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے تحریک کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں پرمشتمل اتحاد پی ڈی ایم اسمبلیوں سے استعفے دینے اوراسمبلیوں کے اندر کی بجائے باہر کی راہ لینے کے چکر میں تھا تاہم حکومت نے قبل ازوقت سینٹ انتخابات کرانے کا پتا پھینکتے ہوئے جو ہلچل پیدا کی اس کا مقصد پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو اسمبلیوں سے باہر جانے کی بجائے اندر رکھنے کی راہ دکھانے کی کوشش تھی جس کے لیے ضمنی انتخابات کے انعقاد کا ڈول بھی ڈالا گیا جس کے نتیجے میں پی ڈی ایم جو استعفے ،استعفے کھیلنے کے موڈ میں تھا وہ اب انتخابات کی راہ پر آگیا ہے۔

اگلے ماہ فروری میں سینٹ انتخابات منعقد ہوتے ہیں یا نہیں لیکن ضمنی انتخابات ضرور منعقد ہو رہے ہیں جس میں خیبرپختونخوا میں بھی دو حلقوں پر انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے، این اے 45 اورکزئی اور پی کے 63 نوشہرہ کی نشستوں پر منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات بنیادی طور پر حکومت بمقابلہ اپوزیشن ہونگے کیونکہ ان دونوں ضمنی انتخابات کے لیے اپوزیشن جماعتیں یکجا ہوکر میدان میں اتریں گی، این اے 45 اورکزئی کی نشست جو منیر اورکزئی کی وفات سے خالی ہوئی تھی ، جے یو آئی کو ملنے کا امکان ہے ۔ چونکہ منیر اورکزئی کا تعلق جمعیت علماء اسلام سے تھا۔

اس لیے اپوزیشن کی دیگر جماعتیں اس سیٹ پرجے یوآئی کو سپورٹ کر سکتی ہیں جبکہ دوسری جانب پی کے 63 نوشہرہ کی صورت حال یہ ہے کہ مذکورہ نشست پر عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے میاں جمشید الدین کاکاخیل کامیاب ہوئے تھے جو کورونا کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے ، مذکورہ نشست پر عام انتخابات کے دوران پاکستان مسلم لیگ ن کے اختیار ولی خان رنر اپ تھے اور اب انہوں نے دوبارہ بھی انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ دیگر اپوزیشن جماعتیں اختیار ولی خان کی حمایت کریں گی جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کی صورت حال یہ ہے کہ پارٹی کے اندر ٹکٹ کے معاملے پر رائے منقسم ہے۔

پرویزخٹک فیملی مذکورہ ٹکٹ کے حصول کی خواہش مند ہے جس کی وجہ سے خود اس خاندان میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں کیونکہ ایک جانب وفاقی وزیر پرویز خٹک اپنے صاحبزادے کو مذکورہ نشست کے لیے میدان میں اتارنے کے خواہش مند ہیں تو دوسری جانب ان کے بھائی صوبائی وزیرلیاقت خٹک کے صاحبزادے بھی اس نشست میں دلچسپی لے رہے ہیں ۔لیکن میاں جمشید الدین کاکاخیل مرحوم جو 2013 ء کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوکر اسمبلی پہنچے اور صوبائی وزیر رہے۔

انہوں نے 2018ء کے انتخابات میں دوبارہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ہی کامیابی حاصل کی تھی جنھیں وزارت تو نہیں سونپی گئی تاہم وہ سینئر رکن کی حیثیت سے اسمبلی کا حصہ تھے اور اب ان کی وفات کے بعد ان کا پورا خاندان اس بات کا خواہش مند ہے کہ ضمنی الیکشن کے لیے ٹکٹ میاں جمشید الدین کاکاخیل کی صاحبزادے کو دیا جائے حالانکہ ان کے بھائی بھی امیدوار کے طور پر میدان میں موجود ہیں تاہم اتفاق رائے ان کے صاحبزادے پر ہی ہے یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کو اس نشست کے حوالے سے ٹکٹ دینے کے معاملے پر مشکلات درپیش ہیں۔


گو کہ پی ٹی آئی ذرائع اس بات کو واضح طور پر کہتے ہیں کہ مذکورہ نشست کے لیے ٹکٹ میاں جمشید الدین کاکاخیل کے صاحبزادے ہی کو دیا جائے گا تاہم وفاقی وزیر پرویزخٹک بہرکیف اپنے آبائی ضلع نوشہرہ کی سیاست کو پوری طرح اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کریں گے ہی ۔

چونکہ انتخابی میدان بھی گرم ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی بھی استعفے دینے کے لیے تیار نہیں اس لیے پی ڈی ایم فی الحال استعفوں کی راہ سے ہٹ کر الیکشن کی راہ پر آگیا ہے لیکن جہاں تک پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک کا تعلق ہے تو وہ جاری ہے جس کے تحت پنجاب کے شہر بہاولپور میں میدان گرمانے کے لیے پی ڈی ایم کے قائدین 6جنوری کو جبکہ یہ سطور آپ کے زیر مطالعہ ہونگی ،خیبرپختونخوا کے شہر بنوں میں میدان سجائے گی،بنوں میں جلسہ کرنے کا مقصد صرف بنوں شہر ہی کو کور کرنا نہیں بلکہ پورے جنوبی اضلاع اور ان سے جڑے قبائلی اضلاع کو بھی کور کرنا ہے۔

پی ڈی ایم کی نگاہ انتخاب کوہاٹ پر بھی پڑ سکتی تھی تاہم بنوں میں ریلی اور جلسہ اس لیے کیاجا رہا ہے کہ یہ اکرم خان درانی کا شہر ہے جو صوبہ کے سابق وزیراعلیٰ بھی ہیں اور ساتھ ہی جے یوآئی کے لیڈر بھی اور وہ بنوں میں میدان اس لیے گرم کر رہے ہیں تاکہ وہاں ڈی آئی خان ،ٹانک،کرک ،لکی مروت ،شمالی وجنوبی وزیرستان اور کوہاٹ کے علاوہ اورکزئی سے بھی بڑی تعداد میں لوگوں کو اکٹھا کیاجا سکے ۔ بنوں کے بعد پی ڈی ایم کا اگلا میدان سجے گا ملاکنڈ میں ، جہاں ملاکنڈڈویژن کے آٹھوں اضلاع کے لوگ ریلی اور جلسہ میں شرکت کریں گے۔

تاہم پی ڈی ایم کی جانب سے اسمبلیوں سے استعفے دینے کے اعلان سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے تحریک کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے اور یہ بھی حقیقت ہی ہے کہ ایک مرتبہ سینٹ انتخابات ہوگئے تو اس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک شاید ہی وہ رنگ جما پائے جو اس وقت ہے کیونکہ مارچ کے بعد اپریل آئے گا جس میں ماہ رمضان کا آغاز ہو جائے گا اور عید کے بعد وفاقی اور صوبائی بجٹس کی تیاری اور انھیں پیش کرنے کا مرحلہ آجائے گا جس کی وجہ سے حکومت کے کہیں جانے کے امکانات ختم ہو کر رہ جائیں گے ۔

اس سال اگست میں موجودہ حکومتیں اپنا تیسرا سال مکمل کرتے ہوئے چوتھے سال میں داخل ہوجائیں گی اور سیاسی حکومتیں اپنے چوتھے سال کے دوران اگلے عام انتخابات کو مد نظررکھتے ہوئے تیاری شروع کر دیتی ہیں جس کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ نئے منصوبے بھی میدان میں لائے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمودخان کی جانب سے مسلسل تمام محکموں کو ہدایات جاری کی جا رہی ہیں کہ جاری مالی سال کے دوران جن منصوبوں پر کام ہو رہا ہے ان منصوبوں کی تکمیل کو اسی سال یقینی بنایاجائے جن کے لیے فنڈز کی فراہمی بھی جاری ہے۔
Load Next Story