جذباتی نعروں کی سیاست کب تک

جمہوریت کو اپنی خواہشوں اور من مانے اُصولوں کے سانچے میں ڈھالنے کی روشن مثالیں دنیا میں شاید ہی کہیں مل سکے۔۔۔


Dr Mansoor Norani December 30, 2013
[email protected]

جمہوریت کو اپنی خواہشوں اور من مانے اُصولوں کے سانچے میں ڈھالنے کی روشن مثالیں دنیا میں شاید ہی کہیں مل سکے جیسی ہمارے معاشرے میں دکھائی دیتی ہیں۔ کوئی اِن خواہشوں کے حصول کی خاطر جان کی بازی ہارجائے تو شہیدِ جمہوریت کا تمغہ سینے پر سجا کر رہتی دنیا تک امر ہوجاتا ہے۔ شہدائے جمہوریت کی ایک بڑی تعداد پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتی ہے اِس لیے اُسے دوسری جماعتوں پر سبقت حاصل ہے اور وہ اِس زعم اور تکبر میں مبتلا ہے کہ جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے والوں میں وہی سب سے مقدم اور افضل ہے۔اِن شہدائے جمہوریت کو خراجِ تحسین ادا کرنے کے لیے ہر سال گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں ایک میلہ سجایا جاتا ہے اور تمام جذباتی اور شعلہ بیان مقررین کو یہاں اپنے دلوں کا غبار نکالنے کا بھر پور موقعہ مرحمت فرمایاجاتا ہے۔

زبان پر لگام اور سوچ پرقدغن سے آزاد ماحول میں یہاں ہر شخص خود کو ایک بڑا لیڈر ثابت کرنے کے لیے تیز،تلخ اور ترش لفظوں اور جملوں کا سہارا لے کر دوسرے سیاسی رہنماؤں پر خوب تیر برساتا ہے اور سارے سال کا قرض صرف اِسی ایک دن میں پورا کرنے کی حتی المقدور کوشش کرجاتاہے۔پارٹی آج کل اپنی لیڈر شپ اور قیادت کے انتخاب کے مرحلے سے گذر رہی ہے اِس لیے بلاول زرداری کو بھی سیاست کے داؤ پیچ سیکھنے پڑ رہے ہیں اُنہیں اِس مقصد کے لیے سیاسی تربیت اور تدریب کے سخت گیر مراحل بھگتنے پڑ رہے ہیں اور وہ یورپ اور انگلینڈ کی پُر آسائش زندگی چھوڑ کر پاکستان کے سخت گیر ماحول اور آب و ہوا میں اپنا سیاسی سفر شروع کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ اُنکے اندازِ تکلم سے کہیں بھی یہ گمان نہیں ہوتا کہ تیسری دنیا کے ایک پسماندہ ملک کی جمہوریت اور سیاست سے اُنہیں کوئی غیر معمولی لگاؤ اور دلچسپی ہے ایسا لگتا ہے وہ صرف کسی کی خواہشوں کی بھینٹ چڑھائے جا رہے ہیں جنھوں نے محترمہ کی شہادت کے موقعے پر ایک مشکوک اور حیران کن وصیت کا سہارا لے کر پارٹی کی لیڈر شپ اپنے ہاتھوں میں لے لی تھی اور جسے وہ اب اپنی اولادِ نرینہ کے سپرد کرنا چاہتے ہیں۔

بلاول زرداری کو گذشتہ ایک سال سے بھر پور سیاسی تربیت دی جاتی رہی تاکہ وہ بہت جلد پارٹی کی کمان سنبھال لیں اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرز پرایک عوامی انداز اپناکر معصوم اور غریب لوگوں کے دل موہ لیں۔ لیکن عجب اتفاق ہے کہ بھر پور محنت اور مشقت کے باوجود بھی وہ ایک بالغ نظر ، ذہین اور ہشیار سیاست داں کے طور پرہنوز اُبھر کر سامنے نہیں آئے ہیں۔اُنکے کے خیالات میں یکسوئی اور ذہانت کا فقداں مکمل طور پر عیاں دکھائی دیتا ہے۔ وہ کسی ایک موضوع پر با معنی گفتگواور مباحثے سے کتراتے اور جان چھڑاتے معلوم ہوتے ہیں۔ اپنے خیالات کو کسی اور کی لکھی تحریروں کے ساتھ ملاکرجان دینے اور خون دینے کے جذباتی کلمات کی آمیزش کرکے وہ اپنے خطاب کو پُر اثر بنانے کی کوشش اور سعی تو بہت کرتے ہیں لیکن جب کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہوتا تو چیخ چیخ کر بلند آواز میں مارنے اور مرجانے کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔

کبھی غیر مسلموں کی ہمدردیاں بٹورنے کے لیے اُنہیں پاکستان کا وزیرِ اعظم بنانے کا غیر آئینی مطالبہ کرنے لگتے ہیں تو کبھی سندھ ثقافت کی فروغ کے لیے صوبہ سندھ میں بسنت منانے کا اعلان کر جاتے ہیں۔قطع نظر اِس کے کہ بسنت تہوار کا تعلق کبھی بھی سندھ کی ثقافت سے نہیں رہا ۔اِس کا اصل مرکز تو پنجاب اور لاہور ہی ہے۔سیاسی بیانوں میں اِس قدر نا پختگی اور ناہم آہنگی دیکھ کر یہی معلوم ہوتا ہے کہ بلاول بھٹو ابھی سیاست میں اُس معیار پر نہیں پہنچے ہیں جس کی پارٹی کو اشد ضرورت ہے۔ پچیس برس کی عمر کو چھو لینے کے باوجودوہ ابھی محترمہ کے اُس سیاسی شعور، بالغ نظری اور ذہانت کی اُس معراج کو نہیں پہنچ پائے ہیں جو پارٹی کی قیادت کے لیے لازمی ضروری تصور کی جاتی ہے ۔

محترمہ کی برسی کے دن کو سیاسی ڈرامے کی ریہرسل کے لیے استعمال کرتے ہوئے اُنہوں نے اِس بار پہلے کی نسبت اداکاری کے بہتر جوہر دکھائے اورسابقہ غلطیوں کو دہرانے سے مکمل اجتناب کیا۔لیکن پوری تقریر ذہانت اور دانشمندی سے عاری ایک کنفیوزڈ ذہن کی عکاسی کر رہی تھی۔ 27دسمبر کوبی بی کی شہادت کے حوالے سے کوئی بات کرنے کی بجائے وہ ماضی کی تلخ یادوں کو دہراتے ہوئے کبھی پنجابی اِسٹیبلشمنٹ کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں اور کبھی طالبان کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے اُن سے مذاکرات کرنے والوں پرغداری کا لیبل لگا کر خوب لعنت و ملامت کرتے ہیں۔ اپنی والدہ محترمہ کے مبینہ قاتلوں کی عدم گرفتاری اور پانچ سال میں صرف بلند بانگ شیخیاں بگھارنے کے بعد اب وہ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بزدل خان کہکر اُن کا تمسخر اُڑانا چاہتے ہیں اور سونامی کو چند لوٹوں میں بھرے ہوئے پانی سے تشبیہ دیکر بلاوجہ اُنہیں اشتعال دلاناچاہتے ہیں ۔اور کبھی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کو زبردست دھاندلی کہہ کر عمران خان کی پارٹی سے ہمدردیاں بٹورنے لگتے ہیں۔اُنہیں ابھی اپنی سیاسی سمت اور ایجنڈے کا کچھ علم نہیں ہے ۔ سیاسی شعور اور بالغ نظری کا فقدان اُن کے اب تک کے اہم خطابات اور بیانوں میں واضح طور پر دِکھائی دیتا ہے۔

در حقیقت اپنے سے سینئر سیاسی رہنماؤں کی عزت و تکریم خود اپنی تعظیم اور پذیرائی کے لیے اہم ضرورت ہوا کرتی ہے ۔ایک کم عمر اور کمسن سیاستداں سمجھ کر اُنکی باتوں کو نظر انداز کردینا اب ممکن نہیں رہا۔خاص کر جب وہ ایک بڑی ملک گیر پارٹی کی قیادت سنبھالنے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کی لیڈرشپ اپنے اندر جن خوبیوں اور صلاحیتوں کا تقاضا کرتی ہے اُنہیں پانے میں بلاول زرداری کوابھی خاصہ وقت درکار ہے۔ انھیں سنجیدگی سے سیاست کرنے کا ادراک حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ جدید دور کے اِس سیاسی ماحول میں جہاں ایک طرف انتہائی فعال ،چاک و چوبند اور مستعد الیکٹرانک میڈیا ہے تو دوسری جانب عام آدمی کا بڑھتا ہوا سیاسی شعور ،ذہانت ا ور دانشمندی ہے جس کی موجودگی میں کسی بھی سیاسی نومولود کے لیے اپنا مقام بنانا کوئی اتنا آسان بھی نہیں ہے۔

بلاول زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی حکمرانی کی ایک آئینی مدت حال ہی میں گذار چکی ہے۔ لوگوں نے اُنہیں پانچ سالہ کارکردگی پر جانچتے ہوئے ہی انتخابات میں مسترد کیا ہے۔اپنی ناکامیوں کا الزام اِسٹیبلشمنٹ یا الیکشن کمیشن کے سر تھوپناکوئی درست اور مناسب عمل گردانہ نہیں جا سکتا ۔ پچھلے انج سال اہل وطن کے لیے روح فرسا چابت ہوئے ہیں۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازسرِ نو جائزہ لے کر اُن کے اسباب و محرکات کا پتہ لگاکراور اُن کے اصلاح کی تدابیرسوچ کر ہی عوام کی دوبارہ پذیرائی حاصل کی جا سکتی ہے۔آپس کی چپقلش اور جذباتی نعروں کی سیاست بہت ہو چکی اب یہاں صرف وہی کامیاب و کامران ہوگا جو اپنے فعل اور عمل سے خود کوملک و قوم کا حقیقی خادم ثابت کریگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں