ڈینیل پرل قتل کیس توہین عدالت کیس میں چیف سیکریٹری سندھ سمیت دیگر طلب

بادی النظر میں سپریم کورٹ نے ملزمان کو مزید حراست میں رکھنے کا نہیں کہا، سندھ ہائی کورٹ


کورٹ رپورٹر January 07, 2021
سندھ ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے تمام فیصلے بھی طلب کر لیے فوٹو: فائل

سندھ ہائی کورٹ نے ڈینیل پرل قتل کیس میں احمد عمر شیخ و دیگر ملزمان کو جیل سے رہا نہ کرنے سے متعلق چیف سیکریٹری، محکمہ داخلہ، جیل حکام و دیگر کے خلاف توہین عدالت درخواست پر آئندہ سماعت پر تمام اعلی حکام کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے روبرو ڈینیل پرل قتل کیس میں احمد عمر شیخ و دیگر ملزمان کو جیل سے رہا نہ کرنے سے متعلق چیف سیکریٹری، محکمہ داخلہ، جیل حکام و دیگر کیخلاف توہین عدالت درخواست کی سماعت ہوئی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین، سیکریٹری محکمہ داخلہ عثمان چاچڑ اور سپرینڈنٹنٹ سینٹرل جیل حسن سہتو سمیت پولیس حکام عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ممتاز علی شاہ کہاں ہیں۔ جونیئر افسر نے کہا کہ میں ان کی نمائندگی کرنے آیا ہوں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے توہین عدالت درخواست کے زیر سماعت ہونے تک سب اعلی افسران کو آنا پڑے گا۔ چیف سیکرٹری سندھ ممتاز علی شاہ کی عدم پیشی پر عدالت نے اظہار ناراضی کیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے توہین عدالت کی درخواست ہے جونئیر افسر نمائندگی نہیں کر سکتا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ جنہیں توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے، کیا آج پیش ہوئے؟ عدالت نے آبزرویشن دی کیا وہ ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے آج؟ جسٹس اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیئے توہین عدالت کی درخواست ہے سب کو خود آنا پڑے گا۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے موقف دیا کہ اپیل کی سماعت آج سپریم کورٹ میں ہو رہی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے قتل کیس کی اپیل اور حراست میں رکھنا 2 الگ معاملے ہیں۔ قتل کیس کی سماعت تو سپریم کورٹ میں چل رہی ہے۔ حراست میں رکھنے کا معاملہ آپ قتل کیس اپیل سے کیسے ملا سکتے ہیں۔ جونیئر وکیل نے موقف دیا کہ محمود اے شیخ سپریم کورٹ میں آج دلائل دیں گے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ عدالتی آرڈر کے باوجود ملزمان کو کیوں رہا نہیں کیا جارہا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے مگر اب ہمارے سامنے توہین عدالت کی درخواست ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل نے موقف دیا ہم یہاں نظر بندی کے احکامات کا دفاع کررہے ہیں۔ محکمہ داخلہ و دیگر کیخلاف توہین عدالت کی درخواست نہیں بنتی۔ اس درخواست کو غیر ضروری قرار دے کر مسترد کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے 28 ستمبر کا فیصلہ موجود ہے۔ سپریم کورٹ نے 28 ستمبر کو ملزمان رہا نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کیا سپریم کورٹ نے 28 ستمبر کے بعد کوئی حکم جاری کیا۔

جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارکس میں کہا کہ کل سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی اس کا فیصلہ کہاں ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل نے موقف دیا کہ سپریم کورٹ نے رہائی سے متعلق کوئی فیصلہ جاری نہیں کیا۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ عین ممکن ہے سپریم کورٹ نے سمجھا کہ اپیل کا فیصلہ ہوگا، مزید ضروری نہیں۔ بادی النظر میں سپریم کورٹ نے ملزمان کو مزید حراست میں رکھنے کا نہیں کہا۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے موقف دیا کہ بہتر رہے گا سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر لیا جائے۔ عدالت نے سماعت 13 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر تمام اعلی حکام کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے سپریم کورٹ کے تمام فیصلے بھی طلب کر لیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں