آزاد ملک کا آزاد شہری
چلو چوبیس سال بعد ہی سہی لیکن تم لوگوں نے اپنی انا کے بتوں کودفن کر کے ایک اچھا فیصلہ کیا ۔شاید یہ فیصلہ بہت سے ۔۔۔
چلو چوبیس سال بعد ہی سہی لیکن تم لوگوں نے اپنی انا کے بتوں کودفن کر کے ایک اچھا فیصلہ کیا ۔شاید یہ فیصلہ بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے بہت ہو جو اب تک یا تو ماضی کے انگاروں کو اپنی ٹوپیوں میں چھپا کر لوگوں کو ڈراتے ہیں یا پھر اپنی دکان چلانے کے لیے ہر وقت لوگوں کے درمیان بڑی بڑی فصیلیں کھڑی کر دیتے ہیں ۔
جمعرات کو جب مقبو ضہ کشمیر میں مختلف فرقوں کے علماء جمع تھے تو کسی کو امید نہیں تھی کہ یہ لوگ کسی ایک نقطے پر متفقہ کوئی فیصلہ دیں سکیں گے ۔
ویسے ہی ہمارے معاشرے میں عورت کو آدھا انسان سمجھا جاتا ہے ۔ ایسے میں ''آدھی بیوہ'' یعنی '' آدھی شادی شدہ'' عورت کس عذاب میں ہو گی اُس کا احساس ہم جیسے انا پرست تو ہرگز نہیں کر سکتے ۔ جنت نظیر کشمیر جس کے ایک ایک حصے سے اب خون کی یادیں تازہ ہوتی ہیں وہاں گزشتہ 24 سالوں میں 70 ہزار سے زائد لوگوں کو موت کے گھاٹ اتا ر دیا گیا ۔ نوجوان گھروں سے نکلتے تو لاپتہ ہو جاتے ۔بالکل ایسے ہی جیسے اب پاکستان میں لوگ لاپتہ ہونے لگے ہیں ۔ ایسا ہی اپنا دکھ بیگم جان سنا رہی تھی ۔بیگم جان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے جس کے ایک ایک قطرے میں 15 سالوں کا دکھ سمایا ہوا تھا ۔ 1998 میں یعنی آج سے پندرہ سال پہلے بیگم جان کے شوہر شمس الدین اپنے گھر سے نکلے اور اُس کے بعد اُن کا کوئی پتہ نہ چلا ۔
بیگم جان نے اپنی غربت کے باوجود بھارتی سرکار کا ہر دروازہ کھٹکھٹایا لیکن ہر جانب سے مایوسی ہوئی ۔جیب میں پیسے نہیں تھے اور سفر بہت طویل تھا ۔ لوگوں نے بھارتی ظلم سے ڈرایا اور کہا کہ تم نہیں جانتی کہ یہ لوگ کس قدر درندے ہیں جب کسی کو اٹھاتے ہیں تو پھر وہ کبھی واپس نہیں آتا ۔ مگر اُسے ایک امید تھی ۔ ایک طرف اس بات کا یقین کہ وہ کبھی واپس نہیں آئے گا ۔ آس پڑوس کے لوگوں کی نظر میں اب وہ شمس الدین کی بیوی نہیں بلکہ اُس کی بیوہ تھی ۔ زندگی کا ہر دن اُس کا آدھا تھا اسی لیے تو اس جیسی 1500 عورتوں کو ''آدھی بیوہ '' کہا جاتا ہے ۔ اگر آپ کو معلوم ہو تو مجھے ضرور بتایے گا جن کے باپ کو لاپتہ کر دیاجاتا ہے اُن کو میں بلوچستان میں کس نام سے پکارو؟ اور اُس بہن کو میں کیسے پوری بہن لکھوں گا جس کے بھائی کی سری نگر یا تربت سے مسخ شدہ لاش ملی ہو ۔
خیر پچھلے 24 سال سے یہ مسئلہ کشمیر میں ہر ایک کی آنکھ کے سامنے تھا کہ ان عورتوں کا کیا کیا جائے کہ جن کے شوہر برسوں سے لاپتہ ہیں اور ان کے ملنے کی کوئی امید نہیں ۔اس خطے کے ممالک میں ایک عورت کا اکیلا جینا کتنا مشکل ہوتا ہے یہ داستان کراچی سے لے کر دلی تک ہر محلے میں سنی جاسکتی ہے ۔ اپنے بچوں کو لے کروہ ان کی پرورش کیسے کریں ؟ سوالات تو بہت ہیں ۔ جب سب کو معلوم ہو کہ بھارت کی طاقت ور فوج کے پنجوں نے انھیں اپنی گرفت میں لیا ہے تو کون کھول کر ان کی مدد کر سکتا ہے ؟ ایسے میں اگر خاندانی نظام اور برادری کی عزت کی خاطر، کوئی مذہبی اور اخلاقی طور پر، ان کا ہاتھ پکڑنا چاہے اور شادی کرنا چاہے تو اسے مذہب اور قانون کے خلاف قرار دیا جاتا تھا ۔ عورت جہاں ریاست کے ظلم کا شکار تھی وہی سماج کی بھی پابندیاں اس کے سر پر منڈلا رہی تھی ۔ یہ 1500 آدھی بیوائیں کسی ایک فرقہ سے تعلق نہیں رکھتی تھیں اس لیے سب کا متفق ہونا بھی ضروری تھا ۔ اور دوسرا سب سے اہم مسئلہ یہ بھی تھا کہ اگر ایک حمایت کرتا تھا تو دوسرا فورا اس کی مخالفت شروع کر دیتا تھا ۔
انڈیا میں رائج مسلم میریج ڈیزولیوشن ایکٹ یا انڈین پینل کوڈ میں یہ بات موجود ہے کہ اگر کسی کا شوہر لاپتہ ہو جائے تو وہ کتنے سال کے بعد شادی کر سکتی ہے مگر یہاں تو معاملہ مشکل کا شکار تھا ۔ میں نے اکثر ہمارے یہاں کے مذہبی رہنماؤں کو باہر کے علماء کے بیانات یا فتاوی کو پاکستان میں استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہے بلکہ کشمیر میں بھی یہ روایت استعمال ہوتی ہے ۔ مجھے یاد تھا کہ ایک بار اس قسم کا سوال مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب سے بھی پوچھاگیا تھا ۔ جب ان کے قریبی رفقا سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ بالکل دیا تھا اور یہ فتوی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے جس میں مولانا صاحب سے کسی نے پوچھا تھا کہ ان کا بھائی 4سال سے لاپتہ ہے اور کیا ان کی بھابھی دوسرا نکاح کر سکتی ہے تو مولانا صاحب نے تحریری جواب دیا تھا کہ عورت مسلم عدالت سے رابطہ کریں اور اس پر جو فیصلہ ہو گا اسے تسلیم کیا جائے ۔خیرکشمیر کا مسئلہ ہی کچھ اور ہے جہاں کا سماج کئی مسائل میں گھرا ہوا ہے ۔
اب جب خبریں عام ہوئیں اور تھوڑا دباؤ بنا تو تمام فرقہ کے لوگ ایک چھت کے نیچے نظر آئے، مگر اختلاف سامنے تھا ۔ ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے اور دوسری طرف باہر میڈیا ان پر نظر لگائے بیٹھا تھا ۔ وہ جانتے تھے کہ اگر اختلاف لے کر باہر نکلے تو ایک تماشہ ہو گا ۔ خیر سب متفق ہو گئے۔ اور آدھی بیوہ کو اپنے شوہر کے لاپتہ ہونے کے چار سال بعد پوری بیوہ ہونے کا حق حاصل ہو گیا ۔ خبر رساں ادارے کے مطابق وسطی کشمیر کے میر واعظ سید لطیف بخاری نے کہا کہ علماء کے درمیان اس پر اختلاف تھا لیکن 1500 خواتین کی زندگی کو علماء کے اختلاف کی نذر نہیں کیا جاسکتا ۔ واہ واہ کیا خوبصورت بات کی ہے کہ زندگیوں کو علماء کے اختلاف کی نذر نہیں ہونا چاہیے ۔ پاکستان کے تمام علماء کو بھی یہ جملہ یاد رکھنا چاہیے کہ زندگیوں کو اختلاف اور انا کی نذر مت کیجیے ۔
پولیو ، تعلیم ، صحت اور لوگوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے برائے مہربانی کشمیر کے ان علماء سے کچھ سبق سیکھیں ۔ بات اپنی مکمل کر ہی چکا تھا کہ ایک خبر نظر سے گزری کہ ایک ڈیڑھ سال کی بچی کی تدفین روک دی گئی۔ ہم نے سنا تھا بچے معصوم ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد میرے پر جلنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ اس لیے معذرت کہ آزاد ملک کا میں آزاد شہری کچھ نہیں لکھ سکتا ۔