پارلیمنٹ کی بالادستی ترقی اور خوشحالی کا راستہ
ہم نے تو ریاست کی ترقی کی خواہش میں متعدد تجربات بھی کیے ہیں لیکن افسوس ہمیں ہر بار ناکامی کا سامنا ہوا۔
QUETTA:
کورونا وباء سے ساری دنیا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔ اس بیماری کی بے پناہ تباہ کاریوں نے عالمی سطح پر شدید کسادبازاری، غربت اور بیروزگاری جیسے مسائل کو جنم دیا ہے، جس سے دنیا بھر کے ممالک کسی نہ کسی طور نبردآزما ہیں اور اس وباء کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی اپنی معیشتوں کو اس کے اثرات سے محفوظ رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں اور انھوں نے کسی نہ کسی حد تک اس کا مقابلہ کیا بھی ہے، اس وباء کے مضمرات کی زد میں جہاں دنیا کے کم و بیش تمام ممالک آئے ہیں۔
وہیں اس موذی مرض سے ہم بھی محفوظ نہیں رہ سکے لیکن ہمارے یہاں اس کی شدت باقی ممالک سے کچھ زیادہ محسوس ہوئی کیونکہ یہاں سیاسی عدم استحکام کی بناء پر ہماری معیشت پہلے سے ہی لڑکھڑائی ہوئی تھی، اس پر جب یہ افتاد آن پڑی تو اس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں پہلے سے پھیلی ہوئی غربت، مہنگائی اور بیروزگاری میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔
ان حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ہم اگر ساری دنیا کو نظر انداز بھی کر دیں تب بھی خطے کے دیگر ممالک اور بالخصوص بنگلہ دیش کی تیز رفتار ترقی کا برقرار رہنا ہمیں اس کی ترقی کے راز کو جاننے کی دعوت فکر دیتا ہے کہ ہم سے نکل کر جانے والا ملک آخر کیوںکر ہم سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتا جارہا ہے جب کہ دوسری جانب ریاست کی ترقی اور کامیابی کے خواب کو پانے کے لیے حقیقی جمہوریت کے نفاذ اور منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم نہ کرنے اور اسے موقع فراہم نہ کرنے کے علاوہ ہم نے کونسی غلطی کی ہے؟
ہم نے تو ریاست کی ترقی کی خواہش میں متعدد تجربات بھی کیے ہیں لیکن افسوس ہمیں ہر بار ناکامی کا سامنا ہوا، اب بنگلہ دیش کی تیز رفتار ترقی سے جو حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ حقیقی جمہوریت کی بحالی کے بغیر ہمارے لیے ترقی کرنا شاید ناممکن ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ریاست میں حقیقی جمہوریت سے محرومی کی بناء پر ہم اپنی قومی زندگی کے کئی سال ضایع کر چکے ہیں، جس میں کبھی غیر جمہوری قوت براہِ راست حکومت میں رہی ہے تو کبھی پیچھے رہ کر عوامی نمایندوں کے ذریعے ملک کی باگ ڈور سنبھالے رکھی ہے۔
شاید آج ہم اپنی اسی غلطی کی قیمت چلارہے ہیں۔ بحیثیت قوم قدرت کی جانب سے ہمیں آج بھی یہ موقع میسر ہے کہ ہم دنیا کی ترقی سے سبق سیکھیں اور اپنے ملک میں جمہوریت کی بحالی کی راہ میں حائل ہونے کے بجائے ہر رکاوٹ کو دور کردیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مکمل جمہوری نظام قائم ہو، ملک کی تمام سیاسی جماعتیں از سر نو غیر جانبدار الیکشن کمیشن کے ذریعے ملک میں آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے انعقاد پر اتفاق کریں۔ جو جماعت منتخب ہو کر آئے ، اقتدار اور اختیار عوام کے منتخب کردہ پارلیمنٹ کے حوالے کردیا جائے، ریاست کا ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر ملک اور قوم کی خدمت کا قومی فریضہ انجام دے، پھر کوئی اندرونی یا بیرونی دشمن ہماری یکجہتی کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
آج بھی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ کسی کی نا کامی یا اپنی کامیابی کے شادیانے بجانے کے بجائے، اس تاثر کو زائل کرے کہ ریاست میں حقیقی جمہوری پارلیمانی نظام حکومت نہیں اور آج بھی مقتدر قوتیں ہی در پردہ نظام حکومت چلارہی ہیں۔
حکومت کے علاوہ اس تاثر کو زائل کرنے کی ذمے داری مقتدر قوتوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ حزب اختلاف کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کی اپنی آمرانہ پالیسی کو ترک کر کے اس سے با مقصد مذاکرات کا فی الفور آغاز کرے تاکہ حکومت پر غیر جمہوری طرزِ عمل کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا وہ خود جواب بھی دے سکے۔
ساتھ ہی ساتھ حکومت، حزب اختلاف کے ساتھ ملکر ریاست میں ایسی حقیقی پارلیمانی جمہوریت کے قیام کی راہ ہموار کر ے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ جہاں اقتدار اور اختیار کی منتقلی کے ساتھ ساتھ نظام حکومت پر شکوک وشبہات بھی ختم ہو سکیں۔ ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ اس طرح کرنا ہوگا کہ ہم باہمی مشاورت کے ساتھ مستقبل کے لیے درست فیصلے کریں۔ ریاست کو صحیح سمت میں آگے بڑھاتے ہوئے منزل کی جانب لے جائیں۔ منزل کہ جس کا تعین بہر کیف عوام کی اجتماعی دانش گاہ یعنی منتخب پارلیمنٹ نے ہی کرنا ہے، جو اس کا آئینی اور قانونی استحقاق ہے۔
ہمیں اپنی تلخ روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پارلیمنٹ کو یہ حق دینا ہو گا اور اس کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم بھی کرنا ہو گا۔ پاکستان میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی ارتقاء پر ریاستی جبر اور قدغن نے معاشرے کو بانجھ پن اور تنزلی کا شکار کردیا ہے۔ آج ریاست میں یہ تاثر عام ہے کہ یہاں سوال کرنے پر غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے اور سوچ وفکر پر پہرے ہیں۔ اس کا خمیازہ معاشی اور معاشرتی ابتری کی صورت میں پوری قوم بھگت بھی رہی ہے، اب اگر ہم نے اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہے تو عہد حاضر کی جدید ترقی یافتہ دنیا کے تقاضوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایسے اقدامات سے اجتناب برتنا ہو گا جس سے ہم نے اپنا بے پناہ نقصان کیا ہے، اب ہمیں ایسے سودمند اقدامات کرنا ہونگے جن کی بناء پر ہمارا قومی مستقبل، تکلیف دہ ماضی سے مختلف ہو سکے۔
ہمیں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ جس طرح ماضی میں مارشل لاء ادوار کی حکومتوں میں کیے گئے غلط فیصلوں کی قیمت ریاست اور یہاں بسنے والے عوام آج تک ادا کر رہے ہیں۔
ریاست کا موجودہ چلن آخر کس کے لیے پیغام ہے؟ کہ اس ملک میں ریاست کو آئین اور قانون کے تابع بنانے اور چلانے کے لیے ہرطرح کے خطرات مول لے کر سخت ترین فیصلے اور اقدامات کرنے والوں کو نہ تو ان کی زندگی میں پزیرائی مل پاتی ہے اور نہ ہی ان کے انتقال کے بعد ہمارا معاشرہ ان قومی ہیروز کو ان کی خدمات پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہے، لیکن دوسری جانب معاشرے میں دلیل کے بجائے اپنے موقف کو تسلیم کروانے کے لیے لسانی، گروہی، قومیتی، مذہبی اور مسلکی بنیادوں پر نفرت کو فروغ دیکر پورے معاشرے کو اس کی لپیٹ میں لینے اور اس کی تقسیم کو بڑھاوا دینے والے افراد کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے، معاملہ بس یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ پھر معاشرے میں اس احساس کو اجاگر بھی کیا جاتا ہے، یہ سب کچھ غیر شعوری ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ پورے شعور کے ساتھ چلائی جانے والی ایک تحریک ہے، اب اس رویہ پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کے پس پشت کیا عوامل ہوسکتے ہیں؟ اور اس سے کس کو کیا فائدہ پہنچانا مقصود ہے؟
بہرحال فیصلے کی اس گھڑی میں ہمیں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ من حیثیت القوم ہم اپنا بہت وقت ضایع کر چکے ہیں اور اب مزید وقت ضایع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، لہٰذا پارلیمنٹ کی بالادستی کے اصول کو تسلیم کرکے ہی قومی یکجہتی کو قائم رکھتے ہوئے ترقی اور خوشحالی کی منزل طے کی جاسکتی ہے۔
کورونا وباء سے ساری دنیا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔ اس بیماری کی بے پناہ تباہ کاریوں نے عالمی سطح پر شدید کسادبازاری، غربت اور بیروزگاری جیسے مسائل کو جنم دیا ہے، جس سے دنیا بھر کے ممالک کسی نہ کسی طور نبردآزما ہیں اور اس وباء کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی اپنی معیشتوں کو اس کے اثرات سے محفوظ رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں اور انھوں نے کسی نہ کسی حد تک اس کا مقابلہ کیا بھی ہے، اس وباء کے مضمرات کی زد میں جہاں دنیا کے کم و بیش تمام ممالک آئے ہیں۔
وہیں اس موذی مرض سے ہم بھی محفوظ نہیں رہ سکے لیکن ہمارے یہاں اس کی شدت باقی ممالک سے کچھ زیادہ محسوس ہوئی کیونکہ یہاں سیاسی عدم استحکام کی بناء پر ہماری معیشت پہلے سے ہی لڑکھڑائی ہوئی تھی، اس پر جب یہ افتاد آن پڑی تو اس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں پہلے سے پھیلی ہوئی غربت، مہنگائی اور بیروزگاری میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔
ان حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ہم اگر ساری دنیا کو نظر انداز بھی کر دیں تب بھی خطے کے دیگر ممالک اور بالخصوص بنگلہ دیش کی تیز رفتار ترقی کا برقرار رہنا ہمیں اس کی ترقی کے راز کو جاننے کی دعوت فکر دیتا ہے کہ ہم سے نکل کر جانے والا ملک آخر کیوںکر ہم سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتا جارہا ہے جب کہ دوسری جانب ریاست کی ترقی اور کامیابی کے خواب کو پانے کے لیے حقیقی جمہوریت کے نفاذ اور منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم نہ کرنے اور اسے موقع فراہم نہ کرنے کے علاوہ ہم نے کونسی غلطی کی ہے؟
ہم نے تو ریاست کی ترقی کی خواہش میں متعدد تجربات بھی کیے ہیں لیکن افسوس ہمیں ہر بار ناکامی کا سامنا ہوا، اب بنگلہ دیش کی تیز رفتار ترقی سے جو حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ حقیقی جمہوریت کی بحالی کے بغیر ہمارے لیے ترقی کرنا شاید ناممکن ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ریاست میں حقیقی جمہوریت سے محرومی کی بناء پر ہم اپنی قومی زندگی کے کئی سال ضایع کر چکے ہیں، جس میں کبھی غیر جمہوری قوت براہِ راست حکومت میں رہی ہے تو کبھی پیچھے رہ کر عوامی نمایندوں کے ذریعے ملک کی باگ ڈور سنبھالے رکھی ہے۔
شاید آج ہم اپنی اسی غلطی کی قیمت چلارہے ہیں۔ بحیثیت قوم قدرت کی جانب سے ہمیں آج بھی یہ موقع میسر ہے کہ ہم دنیا کی ترقی سے سبق سیکھیں اور اپنے ملک میں جمہوریت کی بحالی کی راہ میں حائل ہونے کے بجائے ہر رکاوٹ کو دور کردیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مکمل جمہوری نظام قائم ہو، ملک کی تمام سیاسی جماعتیں از سر نو غیر جانبدار الیکشن کمیشن کے ذریعے ملک میں آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے انعقاد پر اتفاق کریں۔ جو جماعت منتخب ہو کر آئے ، اقتدار اور اختیار عوام کے منتخب کردہ پارلیمنٹ کے حوالے کردیا جائے، ریاست کا ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر ملک اور قوم کی خدمت کا قومی فریضہ انجام دے، پھر کوئی اندرونی یا بیرونی دشمن ہماری یکجہتی کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
آج بھی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ کسی کی نا کامی یا اپنی کامیابی کے شادیانے بجانے کے بجائے، اس تاثر کو زائل کرے کہ ریاست میں حقیقی جمہوری پارلیمانی نظام حکومت نہیں اور آج بھی مقتدر قوتیں ہی در پردہ نظام حکومت چلارہی ہیں۔
حکومت کے علاوہ اس تاثر کو زائل کرنے کی ذمے داری مقتدر قوتوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ حزب اختلاف کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کی اپنی آمرانہ پالیسی کو ترک کر کے اس سے با مقصد مذاکرات کا فی الفور آغاز کرے تاکہ حکومت پر غیر جمہوری طرزِ عمل کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا وہ خود جواب بھی دے سکے۔
ساتھ ہی ساتھ حکومت، حزب اختلاف کے ساتھ ملکر ریاست میں ایسی حقیقی پارلیمانی جمہوریت کے قیام کی راہ ہموار کر ے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ جہاں اقتدار اور اختیار کی منتقلی کے ساتھ ساتھ نظام حکومت پر شکوک وشبہات بھی ختم ہو سکیں۔ ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ اس طرح کرنا ہوگا کہ ہم باہمی مشاورت کے ساتھ مستقبل کے لیے درست فیصلے کریں۔ ریاست کو صحیح سمت میں آگے بڑھاتے ہوئے منزل کی جانب لے جائیں۔ منزل کہ جس کا تعین بہر کیف عوام کی اجتماعی دانش گاہ یعنی منتخب پارلیمنٹ نے ہی کرنا ہے، جو اس کا آئینی اور قانونی استحقاق ہے۔
ہمیں اپنی تلخ روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پارلیمنٹ کو یہ حق دینا ہو گا اور اس کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم بھی کرنا ہو گا۔ پاکستان میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی ارتقاء پر ریاستی جبر اور قدغن نے معاشرے کو بانجھ پن اور تنزلی کا شکار کردیا ہے۔ آج ریاست میں یہ تاثر عام ہے کہ یہاں سوال کرنے پر غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے اور سوچ وفکر پر پہرے ہیں۔ اس کا خمیازہ معاشی اور معاشرتی ابتری کی صورت میں پوری قوم بھگت بھی رہی ہے، اب اگر ہم نے اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہے تو عہد حاضر کی جدید ترقی یافتہ دنیا کے تقاضوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایسے اقدامات سے اجتناب برتنا ہو گا جس سے ہم نے اپنا بے پناہ نقصان کیا ہے، اب ہمیں ایسے سودمند اقدامات کرنا ہونگے جن کی بناء پر ہمارا قومی مستقبل، تکلیف دہ ماضی سے مختلف ہو سکے۔
ہمیں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ جس طرح ماضی میں مارشل لاء ادوار کی حکومتوں میں کیے گئے غلط فیصلوں کی قیمت ریاست اور یہاں بسنے والے عوام آج تک ادا کر رہے ہیں۔
ریاست کا موجودہ چلن آخر کس کے لیے پیغام ہے؟ کہ اس ملک میں ریاست کو آئین اور قانون کے تابع بنانے اور چلانے کے لیے ہرطرح کے خطرات مول لے کر سخت ترین فیصلے اور اقدامات کرنے والوں کو نہ تو ان کی زندگی میں پزیرائی مل پاتی ہے اور نہ ہی ان کے انتقال کے بعد ہمارا معاشرہ ان قومی ہیروز کو ان کی خدمات پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہے، لیکن دوسری جانب معاشرے میں دلیل کے بجائے اپنے موقف کو تسلیم کروانے کے لیے لسانی، گروہی، قومیتی، مذہبی اور مسلکی بنیادوں پر نفرت کو فروغ دیکر پورے معاشرے کو اس کی لپیٹ میں لینے اور اس کی تقسیم کو بڑھاوا دینے والے افراد کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے، معاملہ بس یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ پھر معاشرے میں اس احساس کو اجاگر بھی کیا جاتا ہے، یہ سب کچھ غیر شعوری ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ پورے شعور کے ساتھ چلائی جانے والی ایک تحریک ہے، اب اس رویہ پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کے پس پشت کیا عوامل ہوسکتے ہیں؟ اور اس سے کس کو کیا فائدہ پہنچانا مقصود ہے؟
بہرحال فیصلے کی اس گھڑی میں ہمیں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ من حیثیت القوم ہم اپنا بہت وقت ضایع کر چکے ہیں اور اب مزید وقت ضایع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، لہٰذا پارلیمنٹ کی بالادستی کے اصول کو تسلیم کرکے ہی قومی یکجہتی کو قائم رکھتے ہوئے ترقی اور خوشحالی کی منزل طے کی جاسکتی ہے۔