بحران میڈیا پہ ہے
ملک میں بحران دیکھنا ہے تو ٹی وی آن کریں اور نیوز چینلز لگا لیں اور پھر دیکھیں خالی خولی کا تماشا۔
QUETTA:
اوہ حالات بہت خراب ہو چلے ہیں، اوہ ہو صورت حال روز بروز بگڑتی جا رہی ہے، اوہ نو بحران نہایت سنگین ہو گیا ہے۔ کیا واقعی؟ مگرکہاں، کدھر؟
ملک میں صنعتیں چل رہی ہیں بلکہ 2008 میں جمہوریت کے انتقام کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک سے کہیں زیادہ صنعتیں چل رہی ہیں، یہاں تک کہ دیہی سندھ کی جمہوریت کے انتقام کے شکار لاوارث شہرکراچی میں بھی جس کے صنعتی علاقوں کی سڑکوں پر اگرچہ گاڑیوں کا چلنا محال ہے۔
فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری جو پچھلے بارہ سالوں سے دم گھونٹتی پالیسیوں کے جاں لیوا وینٹی لیٹر میں بے یار و مددگار پڑی تھی، اب فروغ پذیر ہے وہ بھی کچھ ایسی سرعت پذیری سے کہ شہر میں ٹیکسٹائل ورکرزکا کال پڑ گیا ہے۔ ہم نے غالباً غور نہیں کیا مگر واقعہ یہ ہے کہ نصف صدی کے بعد اب پاکستان میں ڈیم تعمیر ہو رہے ہیں۔
سی پیک پرکام بیرونی اور اندرونی دشمنوں کی سازشوں کے باوجود جاری ہے۔ ہر سال اس غریب ملک کے غریب عوام کے کئی کئی سو ارب روپے ہڑپ کرکے بھی مسلسل خسارے میں چلنے والے سفید ہاتھیوں پی آئی اے ، اسٹیل مل وغیرہ کا بوجھ ملک پر سے کم کیا جا رہا ہے۔ سڑکیں، ہائی وے، ریلیں، جہاز رواں ہیں، دکانوں، بازاروں، کارخانوں، دفتروں، گوداموں میں کام جاری ہے۔ اگر آپ ملک میں بحران ڈھونڈنے نکلے ہیں تو ایسے اِدھر اُدھر گھومنے پر تو آپ کے ہاتھ مایوسی ہی لگے گی۔
ملک میں بحران دیکھنا ہے تو ٹی وی آن کریں اور نیوز چینلز لگا لیں اور پھر دیکھیں خالی خولی کا تماشا۔ اب یہ آپ پر ہے چاہیں تو اس گھسی پٹی دھما چوکڑی کو بحران سمجھ کر انجوائے کریں۔ آپ نیوز چینلز کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلتے چلے جائیں آپ کو وہی گھسے پٹے ٹاک شو اینکر اپنے اپنے سیاسی سرپرستوں کے ساتھ اپنی اپنی ٹاک شوزکی دکان کھولے نظر آئیں گے اور وہی گھسا پٹا کرپشن کا ملاوٹ زدہ سیاسی سودا بیچ رہے ہوں گے جو یہ قوم پچھلے پچاس سال سے کھا کھا کر لاغر و دیوالیہ ہونے کو پہنچ گئی ہے اور ٹی وی اینکروں کے سیاسی سرپرستوں کی فربہی پھیلتے پھیلتے پھولتے پھولتے دبئی، اسپین، لندن، نیویارک تک پہنچ گئی ہے، مگر ان کے پیٹ ہیں کہ بھرتے ہی نہیں۔
پی ڈی ایم کے صف اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم صف کے سیاستدانوں کی تقاریر و بیانات ایسی عقیدت اورکڑی پابندی سے دکھائی جا رہی ہیں کہ جنگوں کے درمیان ملکوں کے میڈیا فوجی پریس کانفرنسز بھی ایسے تواتر سے نہیں دکھاتے ہوں گے۔ بریکنگ نیوز تو اب مذاق بن گئی ہیں اور لگتا ہے کہ عنقریب ''فلاں نے ڈکار لی، فلاں نے جمائی لی'' والی بریکنگ نیوز چل رہی ہوں گی اور یہی نہیں بلکہ ایک ایک بیان پر پورے پورے ٹاک شو برپا ہوتے ہیں اور ہوتے ہی چلے جاتے ہیں۔
عوام کی جگہ عملی طور پر میڈیا کا ایک بڑا حصہ ہے جو پی ڈی ایم کی تحریک چلا رہا ہے اور ایسے چلا رہا ہے جیسے یہ 1977 کے دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف قومی اتحاد کی عوامی تحریک ہو جس میں حکومت نے تین سو سے زائد بے گناہ شہری شہید کر دیے تھے جو منصفانہ انتخابات کے اپنے جمہوری حق کے لیے احتجاج کا جمہوری حق استعمال کر رہے تھے۔ آپ ہمہ وقت قائد عوام کے لیے گریہ کناں ٹی وی اینکروں اور چیدہ کالم نگاروں سے کبھی ان 300 سے زائد شہیدوں کے لیے غم کا ایک لفظ بھی نہیں پائیں گے۔ 2011 میں الیکشن کمیشن اور نادرا کے ملک بھر میں شناختی کارڈز کی تصدیق کے عمل سے 2008 کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر جعلی ووٹوں کا استعمال ثابت ہوا اور اس وقت کی پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن اور نادرا کی ان رپورٹس کو چیلنج بھی نہیں کیا۔
2008 کے انتخابات میں یہ انتخابی دھاندلی کس بڑے پیمانے پر ہوئی تھی آپ اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگائیں کہ صرف لاڑکانہ میں ہی سوا سات لاکھ ووٹوں میں سے چار لاکھ چوراسی ہزار ووٹ جعلی نکلے۔ اس تصدیق شدہ دھاندلی پر آپ نے کبھی بھی ٹاک شو اینکروں کو بات کرتے نہیں سنا ہوگا۔ اس کے بعد 2013 کے الیکشن میں دھاندلی کے بارے میں آج کے پی ڈی ایم کی جماعت پیپلز پارٹی نے الزام عائد کیا کہ یہ ریٹرننگ آفیسرز کے الیکشن تھے، مگر ان دونوں بھاری دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی متنازعہ مینڈیٹ کی حامل حکومتوں کو اپنی اپنی مدت پوری کرنے دی گئیں۔
اب اگر ٹی وی نیوز چینلز پر چلنے والی پی ڈی ایم کی تحریک حکومتی کارکردگی کے خلاف ہے تو پی ڈی ایم کے سیاستدان حکومتی کارکردگی بہتر بنانے کے اپنے متبادل پلان اور آئیڈیاز قوم کے سامنے لائیں مثلاً کیسے اس ناپسندیدہ حکومت کے خاتمے کے بعد آنے والی ان کی حکومت کی کیا پالیسیاں ہوں گی کہ ملک بھر میں صنعتوں کا جال بچھ جائے گا، ٹیکس دہندگان کی تعداد دگنی ہو جائے گی۔
برآمدات تگنی ہو جائیں گی،گردشی قرضے ختم ہو جائیں گے جو شروع بھی انھی کے دور حکومت میں ہوئے تھے، ملک میں قدرتی گیس کا بحران حل ہو جائے گا ویسے 2008 سے 2018 تک کی زرداری اور شریف حکومتوں کے دور میں قدرتی گیس دریافت کرنے کے ایک بھی نئے بلاک پرکام نہیں کیا گیا، پولیس کا نظام کیسے بہتر ہوگا ویسے ان کی صوبائی حکومتوں میں تو پنجاب اور بالخصوص سندھ کی پولیس میں ہزاروں جرائم پیشہ افراد نیچے سے اوپر تک بھرتی کیے گئے، پٹواریوں سے انسانوں کی جان کیسے چھڑوائی جائے گی۔
کرپشن کے گڑھ اداروں کی کیسے اصلاح کی جائے گی، اسپتالوں کا نظام کیسے بہتر بنایا جائے گا، سرکاری اسکولوں کی حالت کیسے بدلے گی، بھارت اور افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کیسے روک تھام کی جائے گی۔ ویسے پی ڈی ایم والے اس دہشت گردی کی مذمت تک کرنے کو تیار نہیں نہ ہی کبھی کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف لب کشائی کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔
چلیے اگر آپ کے پاس ایسا کوئی بھی پلان، آئیڈیا یا پالیسیوں کا تصور تک موجود نہیں تو یہی بتا دیجیے کہ پچھلی نصف صدی سے جو آپ کی جماعتوں کی کبھی بار بار اور کبھی مسلسل وفاقی و صوبائی حکومتیں رہی ہیں ان میں آپ نے ان تمام معاملات میں کیا حسن کارکردگی دکھائی۔ صرف 2008 سے 2018 میں پاکستان پر چڑھے قرضے 6 کھرب روپوں سے بڑھ کر 30 کھرب سے زیادہ ہوگئے نہ کوئی ڈیم بنا نہ کوئی صنعتی تعلیمی و سماجی ترقی ہوئی۔
پیپلز پارٹی کی سندھ میں 13 سال کی حکومت میں سندھ خصوصاً کراچی کھنڈر اور کچرے کا ڈھیر بن گیا، ہر سال ہزاروں لوگ تو آوارہ کتوں کے کاٹنے سے ہی زخمی و معذور ہوتے ہیں اور بچوں سمیت کئی جان سے جاتے ہیں۔ چلیے کراچی کو چھوڑیے آپ لاڑکانہ ہی کی حالت بدل دیتے اور کچھ نہیں تو رائس کینال میں گرتے فضلے کا ہی کوئی حل نکال لیتے۔
مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں کئی عشرے حکومت رہی پورے پنجاب میں ایک اسپتال بھی ایسا نہیں بنا پائے کہ جسے حکمران خاندان اپنے علاج کرائے جانے کے قابل سمجھتا ، زور زور سے چیخنے اور 1970 کی دہائی والے گھسے پٹے نعروں اور تقریروں سے اب نہ کوئی لیڈر بن سکتا ہے اور نہ ہی اصلی عوامی تحریک چلائی جاسکتی ہے البتہ نیوز ٹی وی چینلز پر سیاسی بحران ضرور پیدا کیا جاسکتا ہے، شوق جاری رکھیے۔
اوہ حالات بہت خراب ہو چلے ہیں، اوہ ہو صورت حال روز بروز بگڑتی جا رہی ہے، اوہ نو بحران نہایت سنگین ہو گیا ہے۔ کیا واقعی؟ مگرکہاں، کدھر؟
ملک میں صنعتیں چل رہی ہیں بلکہ 2008 میں جمہوریت کے انتقام کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک سے کہیں زیادہ صنعتیں چل رہی ہیں، یہاں تک کہ دیہی سندھ کی جمہوریت کے انتقام کے شکار لاوارث شہرکراچی میں بھی جس کے صنعتی علاقوں کی سڑکوں پر اگرچہ گاڑیوں کا چلنا محال ہے۔
فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری جو پچھلے بارہ سالوں سے دم گھونٹتی پالیسیوں کے جاں لیوا وینٹی لیٹر میں بے یار و مددگار پڑی تھی، اب فروغ پذیر ہے وہ بھی کچھ ایسی سرعت پذیری سے کہ شہر میں ٹیکسٹائل ورکرزکا کال پڑ گیا ہے۔ ہم نے غالباً غور نہیں کیا مگر واقعہ یہ ہے کہ نصف صدی کے بعد اب پاکستان میں ڈیم تعمیر ہو رہے ہیں۔
سی پیک پرکام بیرونی اور اندرونی دشمنوں کی سازشوں کے باوجود جاری ہے۔ ہر سال اس غریب ملک کے غریب عوام کے کئی کئی سو ارب روپے ہڑپ کرکے بھی مسلسل خسارے میں چلنے والے سفید ہاتھیوں پی آئی اے ، اسٹیل مل وغیرہ کا بوجھ ملک پر سے کم کیا جا رہا ہے۔ سڑکیں، ہائی وے، ریلیں، جہاز رواں ہیں، دکانوں، بازاروں، کارخانوں، دفتروں، گوداموں میں کام جاری ہے۔ اگر آپ ملک میں بحران ڈھونڈنے نکلے ہیں تو ایسے اِدھر اُدھر گھومنے پر تو آپ کے ہاتھ مایوسی ہی لگے گی۔
ملک میں بحران دیکھنا ہے تو ٹی وی آن کریں اور نیوز چینلز لگا لیں اور پھر دیکھیں خالی خولی کا تماشا۔ اب یہ آپ پر ہے چاہیں تو اس گھسی پٹی دھما چوکڑی کو بحران سمجھ کر انجوائے کریں۔ آپ نیوز چینلز کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلتے چلے جائیں آپ کو وہی گھسے پٹے ٹاک شو اینکر اپنے اپنے سیاسی سرپرستوں کے ساتھ اپنی اپنی ٹاک شوزکی دکان کھولے نظر آئیں گے اور وہی گھسا پٹا کرپشن کا ملاوٹ زدہ سیاسی سودا بیچ رہے ہوں گے جو یہ قوم پچھلے پچاس سال سے کھا کھا کر لاغر و دیوالیہ ہونے کو پہنچ گئی ہے اور ٹی وی اینکروں کے سیاسی سرپرستوں کی فربہی پھیلتے پھیلتے پھولتے پھولتے دبئی، اسپین، لندن، نیویارک تک پہنچ گئی ہے، مگر ان کے پیٹ ہیں کہ بھرتے ہی نہیں۔
پی ڈی ایم کے صف اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم صف کے سیاستدانوں کی تقاریر و بیانات ایسی عقیدت اورکڑی پابندی سے دکھائی جا رہی ہیں کہ جنگوں کے درمیان ملکوں کے میڈیا فوجی پریس کانفرنسز بھی ایسے تواتر سے نہیں دکھاتے ہوں گے۔ بریکنگ نیوز تو اب مذاق بن گئی ہیں اور لگتا ہے کہ عنقریب ''فلاں نے ڈکار لی، فلاں نے جمائی لی'' والی بریکنگ نیوز چل رہی ہوں گی اور یہی نہیں بلکہ ایک ایک بیان پر پورے پورے ٹاک شو برپا ہوتے ہیں اور ہوتے ہی چلے جاتے ہیں۔
عوام کی جگہ عملی طور پر میڈیا کا ایک بڑا حصہ ہے جو پی ڈی ایم کی تحریک چلا رہا ہے اور ایسے چلا رہا ہے جیسے یہ 1977 کے دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف قومی اتحاد کی عوامی تحریک ہو جس میں حکومت نے تین سو سے زائد بے گناہ شہری شہید کر دیے تھے جو منصفانہ انتخابات کے اپنے جمہوری حق کے لیے احتجاج کا جمہوری حق استعمال کر رہے تھے۔ آپ ہمہ وقت قائد عوام کے لیے گریہ کناں ٹی وی اینکروں اور چیدہ کالم نگاروں سے کبھی ان 300 سے زائد شہیدوں کے لیے غم کا ایک لفظ بھی نہیں پائیں گے۔ 2011 میں الیکشن کمیشن اور نادرا کے ملک بھر میں شناختی کارڈز کی تصدیق کے عمل سے 2008 کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر جعلی ووٹوں کا استعمال ثابت ہوا اور اس وقت کی پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن اور نادرا کی ان رپورٹس کو چیلنج بھی نہیں کیا۔
2008 کے انتخابات میں یہ انتخابی دھاندلی کس بڑے پیمانے پر ہوئی تھی آپ اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگائیں کہ صرف لاڑکانہ میں ہی سوا سات لاکھ ووٹوں میں سے چار لاکھ چوراسی ہزار ووٹ جعلی نکلے۔ اس تصدیق شدہ دھاندلی پر آپ نے کبھی بھی ٹاک شو اینکروں کو بات کرتے نہیں سنا ہوگا۔ اس کے بعد 2013 کے الیکشن میں دھاندلی کے بارے میں آج کے پی ڈی ایم کی جماعت پیپلز پارٹی نے الزام عائد کیا کہ یہ ریٹرننگ آفیسرز کے الیکشن تھے، مگر ان دونوں بھاری دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی متنازعہ مینڈیٹ کی حامل حکومتوں کو اپنی اپنی مدت پوری کرنے دی گئیں۔
اب اگر ٹی وی نیوز چینلز پر چلنے والی پی ڈی ایم کی تحریک حکومتی کارکردگی کے خلاف ہے تو پی ڈی ایم کے سیاستدان حکومتی کارکردگی بہتر بنانے کے اپنے متبادل پلان اور آئیڈیاز قوم کے سامنے لائیں مثلاً کیسے اس ناپسندیدہ حکومت کے خاتمے کے بعد آنے والی ان کی حکومت کی کیا پالیسیاں ہوں گی کہ ملک بھر میں صنعتوں کا جال بچھ جائے گا، ٹیکس دہندگان کی تعداد دگنی ہو جائے گی۔
برآمدات تگنی ہو جائیں گی،گردشی قرضے ختم ہو جائیں گے جو شروع بھی انھی کے دور حکومت میں ہوئے تھے، ملک میں قدرتی گیس کا بحران حل ہو جائے گا ویسے 2008 سے 2018 تک کی زرداری اور شریف حکومتوں کے دور میں قدرتی گیس دریافت کرنے کے ایک بھی نئے بلاک پرکام نہیں کیا گیا، پولیس کا نظام کیسے بہتر ہوگا ویسے ان کی صوبائی حکومتوں میں تو پنجاب اور بالخصوص سندھ کی پولیس میں ہزاروں جرائم پیشہ افراد نیچے سے اوپر تک بھرتی کیے گئے، پٹواریوں سے انسانوں کی جان کیسے چھڑوائی جائے گی۔
کرپشن کے گڑھ اداروں کی کیسے اصلاح کی جائے گی، اسپتالوں کا نظام کیسے بہتر بنایا جائے گا، سرکاری اسکولوں کی حالت کیسے بدلے گی، بھارت اور افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کیسے روک تھام کی جائے گی۔ ویسے پی ڈی ایم والے اس دہشت گردی کی مذمت تک کرنے کو تیار نہیں نہ ہی کبھی کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف لب کشائی کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔
چلیے اگر آپ کے پاس ایسا کوئی بھی پلان، آئیڈیا یا پالیسیوں کا تصور تک موجود نہیں تو یہی بتا دیجیے کہ پچھلی نصف صدی سے جو آپ کی جماعتوں کی کبھی بار بار اور کبھی مسلسل وفاقی و صوبائی حکومتیں رہی ہیں ان میں آپ نے ان تمام معاملات میں کیا حسن کارکردگی دکھائی۔ صرف 2008 سے 2018 میں پاکستان پر چڑھے قرضے 6 کھرب روپوں سے بڑھ کر 30 کھرب سے زیادہ ہوگئے نہ کوئی ڈیم بنا نہ کوئی صنعتی تعلیمی و سماجی ترقی ہوئی۔
پیپلز پارٹی کی سندھ میں 13 سال کی حکومت میں سندھ خصوصاً کراچی کھنڈر اور کچرے کا ڈھیر بن گیا، ہر سال ہزاروں لوگ تو آوارہ کتوں کے کاٹنے سے ہی زخمی و معذور ہوتے ہیں اور بچوں سمیت کئی جان سے جاتے ہیں۔ چلیے کراچی کو چھوڑیے آپ لاڑکانہ ہی کی حالت بدل دیتے اور کچھ نہیں تو رائس کینال میں گرتے فضلے کا ہی کوئی حل نکال لیتے۔
مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں کئی عشرے حکومت رہی پورے پنجاب میں ایک اسپتال بھی ایسا نہیں بنا پائے کہ جسے حکمران خاندان اپنے علاج کرائے جانے کے قابل سمجھتا ، زور زور سے چیخنے اور 1970 کی دہائی والے گھسے پٹے نعروں اور تقریروں سے اب نہ کوئی لیڈر بن سکتا ہے اور نہ ہی اصلی عوامی تحریک چلائی جاسکتی ہے البتہ نیوز ٹی وی چینلز پر سیاسی بحران ضرور پیدا کیا جاسکتا ہے، شوق جاری رکھیے۔