بے گور نسل

آج ہزارہ کے بے گناہ ذبح کیے گئے سے اظہار افسوس سے زیادہ پوری قوم حکمرانوں کے نقاب اتارنے پر یکسو دکھائی دیتی ہے۔

Warza10@hotmail.com

کفن پہنی ہوئی کئی روزکی بے گور لاشیں... ذبح کیے گئے بے جان ماؤں کے سپوت ...آہ و بکا کرتی ماں، بہن اور بیٹیوں کی صدائے ہائے... جوانوں کا مشتعل جذبات کا ضبط اور بوڑھوں کی ناتواں کمریں اس سفاکی پر بھی پرنم ملتی آنکھوں کے ساتھ صداقت بھرے قدموں پہ کھڑی،کسی طور بے حس حکمران اور ان کی قومی سلامتی کے احساس کو جگانے میں ناکام نہیں بلکہ ان عوام دشمن سہولت کاروں کے چہروں کو بے نقاب کرنے میں کامیاب وکامران ہیں۔

مہنگائی سے مارے اور بجلی وگیس کی ہوش ربائی سے ستائے ملک کے عوام ہزارہ برادری کے مسلسل قتل وغارت پر ان کے ہم رکاب و ہم نشین ہیں،صحافتی قلم و زبان ہزارہ برادری کے بے دردی سے ذبح کیے جانے والے ان شہیدوں پر ماتم کناں ہیں جو مشقت کے جرم میں انتظامی بے حسی کی بھینٹ چڑھ کر دہشت و وحشت کی بربریت کا شکار ہوئے۔آج ہزارہ کے بے گناہ ذبح کیے گئے سے اظہار افسوس سے زیادہ پوری قوم حکمرانوں کے نقاب اتارنے پر یکسو دکھائی دیتی ہے،جب کہ حکمران اپنے اجلاسوں میں ملکی امن و امان پر مطمئن ہونے کی نوید دے کر دراصل نامعلوم دہشت گرد عناصر کو اپنی محفوظ کمین گاہوں میں واپس جانے کا عندیہ دے رہے ہیں۔

بلوچستان اور بطورخاص کوئٹہ میں آباد یہ ہزارہ برادری دہائیوں سے آباد ایک تعلیم یافتہ اور محنت کشوں پر مشتمل وہ قوم ہے جو ملکی ترقی وتعمیر میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے، پسماندہ بلوچستان میں ہزارہ قوم کی معیشت اور سرکاری نوکریوں میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کی یہ کوشش اس ریاست میں تسلسل سے قتل و غارت کی شکل میں جاری ہے۔ جاری کردہ محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے موجودہ سرد موسم میں سیاسی حرارت میں تیزی کے اشارے دن بدن بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہدف کی تکمیل میں آگے بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

ملکی کساد بازاری اور عوام کی خرید سے دور ہوتی مہنگائی میں عوام کا مطالبہ یا توقع سیاسی جماعتوں اور بطور خاص پی ڈی ایم میں شامل ان جماعتوں یعنی پی پی اور ن لیگ سے بنتا جا رہا ہے، جنھوں نے اپنے دور اقتدار میں عوام کے حقوق سے زیادہ اسٹبلشمنٹ کی باتوں کو مانا اور ملکی آئین و جمہوری اصولوں کو مل کر پامال کیا، لہٰذا نہ چاہتے ہوئے دور جدید کی ٹیکنالوجی اور باخبر سوشل میڈیا سیاسی جماعتوں کو اس بات پر مجبورکررہا ہے کہ وہ چاپلوسی یا فرمانبرداری سے باز رہیں ۔

اب ماضی کی جملہ پارٹیاں عوامی کردار کا ہدف حاصل نہ بھی کریں تو کم از کم مسلم لیگ ن نے بہت جرات سے عوام دشمن کردار کو واضح کیا ہے جس کا کم سے کم فائدہ عوام میں غیر آئینی کردار اور موجودہ سلیکٹیڈ حکومت کو سمجھنے میں ملا ہے اور نتیجے کے طور پر عوام مستقبل میں کسی کی منہ زوری کو قبول نہیں کرنے کے کسی بھی موڈ میں دکھائی نہیں دیتے۔اس پوری دلچسپ صورتحال میں پی ڈی ایم کی موجودہ حرکی سیاست نے بہت دانائی سے پی پی کی موروثی اسٹبلشمنٹ دوستی اور قربت کو بے نقاب کرتے ہوئے اپنی صفوں میں باندھ کر رکھا ہے جو خود پیپلز پارٹی کے لیے ایک کڑا اور مشکل امتحان ہے۔


اب سوال یہ ہے کہ کیا اسٹبلشمنٹ اور ماضی میں اس کے زیر اثر رہنے والی پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتیں واقعی اسٹبلشمنٹ سے آئین و قانون کے تحت رابطوں میں رہیں گی یا پھر دیگر ملکی تحریکوں کا انجام بھی پہلے جیسا ہو گا؟ یا کہ پی ڈی ایم عوام کی خواہشات سے قریب تر ن لیگ کے بیانیے پر مکمل کاربند رہ کر آئین و قانون کی عملداری کروانے میں کامیاب ہو جائیں گی یا عوام و قانون پسند افراد صرف منہ تکتے رہ جائیں گے؟مذکورہ سنجیدہ سوالات کے ساتھ پی ڈی ایم تحریک کے نتیجے میں سب سے بڑا مثبت پہلو ، پہلی مرتبہ عوامی سطح پر عوام کے بے لاگ تبصرے اور بات کرنا ہے،جو کہ عوام سے قومی سلامتی کے نقاب میں اب تک پوشیدہ رہے تھے یا جن کا اس طرح برملا اظہار نہیں کیا جاتا تھا۔

عوام کی جانب سے بعض غیر جمہوری قوتوں کے سیاست میں دخل اندازی کے خلاف رجحان جہاں پی ڈی ایم کی تحریک کے لیے نیک شگون ہے وہیں پی ڈی ایم کی عوام دوست حکمت عملی اپنانے کی طرف مثبت عوامی اشارہ بھی ہے۔

اس درمیان پی ڈی ایم مخالف قوتیں ؐکرتی رہیںکہ عوام اس کے خلاف اپنے غم وغصہ کا اظہار سوشل میڈیا پرکرتی رہیں اور کسی بھی طرح عوام کا یہ غصہ موجودہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر نہ آنے پائے۔اس اہم نکتے کی موجودگی میں پی ڈی ایم کی قیادت کے لیے تحریک کے ساتھ عوام کو جوڑے رکھنے کا ٹھوس لائحہ عمل طے کرنا پڑے گا،جس میں سماج کے تمام بے چین اور متحرک طلبہ،اساتذہ، ڈاکٹرز ، مزدور ، وکلا، خواتین، لاپتہ افراد کے لواحقین،صحافتی افراد کو نہ صرف ملانا ہوگا بلکہ ان کی عملی شرکت کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔

اور دوسری جانب سماج میں اثر ورسوخ رکھنے والی وسیع ذہن اور ترقی پسند جماعتوں کو اپنی صفوں میں لا کر انھیں پی ڈی ایم کا حصہ بنانا ہوگا، وگرنہ غیر جمہوری کردار منفی دلیلوں سے سماج کے عام فرد میں مایوسی پھیلانے کا سبب ہونگے،جس کو لگام دینا بھی پی ڈی ایم کی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔ نوازشریف کی لندن گھروں کے کیس میں ملکی خزانے سے 4 ارب سے زائد رقم برطانوی حکومت کو بطور جرمانہ دینے کی رہی ہے، جس کو عوامی سطح پر مسلسل اجاگر کرنا بھی پی ڈی ایم جماعتوں کا فرض ہے۔

پسندیدہ افراد کے غیر احتسابی عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کا سیاست میں عملی طور سے کردار موجود ہے، جس سے یہ قوتیں فی الحال الگ ہونے پر تیار نظر نہیں آتیں۔ اس ساری صورتحال میں امکانی نتیجہ یہی نظر آرہا ہے کہ پی ڈی ایم مخالف قوتیں اپنے وفاداروں کو احتساب سے بچانے اور عوامی اداروں میں کارندوں کی خرد برد کو آئینی تحفظ دینے کی شرط رکھنے میں نظر آتی ہیں،اور یہی ''گرینڈ مذاکرات'' کا اہم ایجنڈا ہے جس کو پی ڈی ایم اب تک ماننے کو تیار نہیں، مگر پی ڈی ایم ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی بیروزگاری اور ملکی اثاثوں کی فروخت کو بھی اپنا اہم نکتہ بنانے میں اب تک وہ عوامی پذیرائی نہیں لے سکی ہے جو کہ پی ڈی ایم کی تحریک کا بنیادی اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے۔

ان پیچیدہ حالات میں پی ڈی ایم اگر مخالف قوتوں کو رعایتیں دینے پر آمادہ ہو جاتی ہے تو سوال پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں پر عوام کے اعتماد اور بھروسے کے اٹھنے کا ہوگا، جس کا متحمل ملک کا سیاسی نظام نہیں ہو سکتا۔
Load Next Story