کوچۂ سخن

خطوں کا سلسلہ جو میرا اُس حسیں تک تھا،<br /> وہ تیسری سے شروع ہو کے آٹھویں تک تھا۔


Arif Aziz January 10, 2021
مزاج ان کے مناسب ہوئے تو روئے ہم، ہماری سمت وہ راغب ہوئے تو روئے ہم۔ فوٹو : فائل

غزل



رو پڑی ہوں کہ زخم گہرا تھا
ورنہ آنکھوں پہ سخت پہرا تھا
میں تو سمجھی قبیلہ پیچھے ہے
مڑ کے دیکھا تو صرف صحرا تھا
تیرے تحفے کی جوگھڑی تھی نا!
اُس پہ فرقت کا وقت ٹھہرا تھا
میری چُنری کے رنگ پھیکے تھے
اُس کی آنکھوں کا رنگ گہرا تھا
جس کوپڑھنے پہ سخت پہرے تھے
سطر در سطر بس وہ چہرہ تھا
کس طرح دل سے دل ملا پاتے؟
عشق گونگا تھا، حسن بہرہ تھا
(ایمان قیصرانی ۔رحیم یار خان)


۔۔۔
غزل



آنکھوں کی من مانی سے
جلتا ہے کچھ پانی سے
تم سے عشق بھی کیسے ہو
ملتے ہو آسانی سے
کس لذت سے ملتا تھا
مصرع ِاولیٰ ثانی سے
بھیڑ میں مجھ کو پہچانا
چہرے کی ویرانی سے
تم کو پورا دیکھیں تو
مر جائیں حیرانی سے
دو ،دو گھر برباد ہوئے
چھوٹی سی نادانی سے
اس کا غصہ ملتا تھا
دریا کی طغیانی سے
(ندیم راجہ۔ راجن پور)


۔۔۔
غزل



دل کہہ رہا ہے مجھ کو مچل جا نا چاہیے
سمجھا رہی ہوں اس کو سنبھل جانا چاہیے
ہم زندگی کو ٹھوکروں کی نذر کیوں کریں
گرنے سے قبل خود ہی سنبھل جانا چاہیے
پھر تنگی ٔ مکان کا شکوہ بھی کس لیے
بڑھنے لگے جو حبس نکل جانا چاہیے
جب وردِ اسم یار کیے جارہی ہوں میں
پھر سانحات ِ ہجر کو ٹل جانا چاہیے
گو میرے بام و در کو ہے یہ تیرگی عزیز
پر اک چراغِ وصل تو جل جانا چاہیے
آیا ہے منہ اٹھا کے تُو لاہور کس لیے
گر ہے اسیرِ عشق تو تھل جانا چاہیے
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)


۔۔۔
غزل



راز جونہی زبان سے نکلا
واہمہ امتحان سے نکلا
بات نکلی ترے مراسم کی
واقعہ آن بان سے نکلا
جھاڑیوں میں چھپا شکاری ایک
اک درندہ مچان سے نکلا
ہجرتی بے زمین لوگوں کا
کچھ گلہ آسمان سے نکلا
جو بھی آیا ترے محلے میں
ّپھر بہت کھینچ تان سے نکلا
اک تھکن خاک چھان کر آئی
ایک صحرا مکان سے نکلا
گم شدہ ایک وقت کا لمحہ!
آج کارِ جہان سے نکلا
شست لینے کا آخری موقع
ناوکِ نیم جان سے نکلا
(کامران نفیس۔ کراچی)


۔۔۔
غزل



دیکھنے کو پھول میں مشغول ہے
خار دامن میں ہیں سر پہ دھول ہے
ایک تو لہجہ ترا ہے نا روا
اس پہ، تیری بات نا معقول ہے
گریہ و ماتم ہے صاحب زندگی
مسکرانا آدمی کی بھول ہے
جانے والے لوگ کب کے جا چکے
دھول ہے اب راہ میں بس دھول ہے
ہیں غلط یہ آپ کی خوش فہمیاں
مسکرانا تو مرا معمول ہے
کھا گئیں اس کو بھی یہ گم نامیاں
چھوڑیے عارف کہاں مقبول ہے
(عارف نظیر۔کراچی)


۔۔۔
غزل



درمیاں پیار ہے، نہیں بھی ہے
ہم سے بیزا ہے ،نہیں بھی ہے
وہ ہمیں چاہتا تو ہے پر یوں
کہ طلب گار ہے نہیں بھی ہے
گھر کے آنگن میں گرتی پڑتی سی
ایک دیوار ہے، نہیں بھی ہے
ساحلوں کی ہوا سے مت پوچھو
لہر بیزار ہے، نہیں بھی ہے
ہم کو تیرے قریب آنا ہے
کام دشوار ہے، نہیں بھی ہے
عشق دیتا تو ہے خوشی لیکن
پھر بھی آزار ہے، نہیں بھی ہے
تجھ کو اے زیست اس محبت کا
زخم درکار ہے، نہیں بھی ہے
(سارا خان۔ اسلام آباد)


۔۔۔
غزل



نیند مشکل سے فقط ایک گھڑی رہتی ہے
پھر مری آنکھ میں خوابوں کی لڑی رہتی ہے
دل وہ صحرا ہے جہاں پھول کھلا کرتے تھے
آنکھ وہ جھیل جہاں اوس پڑی رہتی ہے
یاد کرنے کا کوئی وقت مقرر ہے بھلا؟
یہ مصیبت تو مرے سر پہ کھڑی رہتی ہے
تجھ سے ویسے تو کوئی کام نہیں ہے مجھ کو
تجھ سے ملنے کی مگر، چاہ بڑی رہتی ہے
میں بہت زور سے ہنستا ہوں، اداسی کے سمے
آہ چپکے سے کہیں دل میں گڑی رہتی ہے
وہ بہت دن سے مرے پاس نہیں ہے راشدؔ
ایک مدت سے مری چائے کڑی رہتی ہے
(راشد علی مرکھیانی۔ کراچی)


...
غزل



کھیل کتنا ہے خطرناک نہیں جانتے تھے
ڈوب سکتے ہیں یہ تیراک نہیں جانتے تھے
عشق کو میلا کیا میلی نظر والوں نے
کتنا پاکیزہ ہے ناپاک نہیں جانتے تھے
رونا روئیں گے وہی لوگ تیری سادگی کا
جو تجھے پہلے سے چالاک نہیں جانتے تھے
ان کو لگتا تھا کہ پہچان نہیں ہوگی کبھی
بیٹھ جائے گی مگر خاک نہیں جانتے تھے
خواب کا ٹوٹنا آنکھوں سے نکل آتا ہے
ہم اسے اتنا خطرناک نہیں جانتے تھے
(امن شہزادی۔ لاہور)


...
غزل



خاموشی کے آگے کہاں لفظوں کا تماشہ
بہروں کی ادائیں ہیں یہ باتوں کا تماشہ
تھے ذہن میں چبھتے ہوئے لفظوں کے کئی تیر
اس پر تری پھیلی ہوئی بانہوں کا تماشہ
اتروں گا حسیں جھیل میں دیکھوں گا نئے خواب
ان آنکھوں میں ہوگا مرے خوابوں کا تماشہ
مقتل میں کئی لوگ ہیں اور سارے ہی خوش ہیں
رکنے کا نہیں ان حسیں آنکھوں کا تماشہ
اک ساز کی صورت ہے مرے جسم میں ہلچل
دیکھوں جو تمہیں ہوتا ہے سانسوں کا تماشہ
اظہار کے الفاظ کو ترتیب دوں کیسے
قابو میں نہیں ہے مرے جذبوں کا تماشہ
تن اوڑھ کے آیا شب ہجراں کی مسافت
ہے دھوپ زدہ جسم پہ راہوں کا تماشہ
(ابو لویزا علی۔ کراچی)


...
غزل



خطوں کا سلسلہ جو میرا اُس حسیں تک تھا
وہ تیسری سے شروع ہو کے آٹھویں تک تھا
وہ کپکپاتے ہوئے ہونٹ یوں ہوئے گویا
تمہارے ساتھ ہمارا سفر یہیں تک تھا
چلو چراغ کی فطرت ہے گھر جلانے کی
مگر مکان بچانا تو اُس مکیں تک تھا
تُو ایک قیمتی موتی تہِ زمیں کا ہے
میں ایک بارشی قطرہ ہوں بس زمیں تک تھا
ہمارے اگلے ہدف تیرے عارض و لب ہیں
ہمارا آج سفر بس تری جبیں تک تھا
بچھڑ چکا ہے تو پھر تیرا ڈر نہیں مجھ کو
ترا معاملہ جتنا تھا، آستیں تک تھا
(اویس احمد ویسی۔ زیارت معصوم،ایبٹ آباد)


...
غزل



مزاج ان کے مناسب ہوئے تو روئے ہم
ہماری سمت وہ راغب ہوئے تو روئے ہم
سخن سرائی نے ہم کو عروج بخشا ہے
عطا ہمیں بھی مراتب ہوئے تو روئے ہم
ہمیں ملے ہیں وراثت میں غم ،الم، ماتم
ہمیشہ رنج ہی واجب ہوئے تو روئے ہم
نجانے کتنے صحیفے رقم کیے لیکن
تمہارے نام کے کاتب ہوئے تو روئے ہم
جدا جدا تھے تو پھر بھی غموں میں ڈوبے تھے
جب ایک جان دو قالب ہوئے تو روئے ہم
سنا رہا تھا کوئی بے وفائی کے قصے
سبھی کے رخ تری جانب ہوئے تو روئے ہم
تمہاری یاد سے غافل نہیں ہوئے ہیں نورؔ
غمِ معاش جو غالب ہوئے تو روئے ہم
(حضرت نور تنہا۔کراچی)


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں