قیامت خیز ادوار
ہزارہ برادری کے لوگ اس طرح کے ظلم اور تخریب کاری کے عمل سے بار بار گزر رہے ہیں۔
آج کے زمانے میں بے شمار غم اور بیماریاں اجتماعی بن گئی ہیں،کورونا کا عذاب پوری دنیا بھگت رہی ہے، ایک سال کا عرصہ ہونے کو آیا ہے ختم ہونے کے بجائے اس عذاب نما بیماری میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
ان دنوں سپرکووڈ نے بھی لوگوں کو مزید خوف و ہراس میں مبتلا کردیا ہے، یہ وائرس نہ صرف یہ کہ جلد ہی زندگیوں کو نگل لیتا ہے بلکہ صحت مند لوگوں کو تیزی سے متاثرکرتا ہوا موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے لیکن اب پاکستان میں بھی اس کی ویکسین آگئی ہے اورکچھ والینٹری طور پر لگوائی بھی جا رہی ہے،گویا لوگوں نے اپنے آپ کو تجربے کے لیے وقف کردیا ہے، یہ بڑی بات ہے۔
کراچی، لاہور، اسلام آباد میں ویکسینیشن کی سہولیات موجود ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ اس کے سائیڈ افیکٹس بھی نہیں ہوتے، بہرحال اللہ بہترکرے گا۔ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ اللہ سے رجوع کریں، وضو اور طہارت کا خیال رکھیں،اس سے اچھی اور آزمودہ ویکسین کوئی نہیں۔ یہ بیماری کتنے عرصے تک چلے گی کسی کو نہیں معلوم، لیکن اپنے بارے میں تو ہرشخص جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ سونے سے قبل اپنا محاسبہ کرنا بہت ضروری ہے۔
ہو سکتا ہے ہم جب اپنے عیوب کو اپنے سامنے برہنہ دیکھیں تو شایدکچھ شرم آجائے اور آیندہ دوسروں کے حقوق غصب کرنے سے توبہ کرلیں آج کا دور درندگی کا دور ہے، جانور شرما جائیں انسان کے کرتوت دیکھ کر۔ لیکن انسان کی شرم مرچکی ہے وہ بصیرت وبصارت دونوں سے محروم ہے، حرام مال کھاتا ہے اور بے حیائی کے کام کھل کرکرتا ہے کبھی معصوم بچوں کی زندگیوں کو اپنی سفاکی اور درندگی کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے توکبھی اغوا کرکے ان سے ساری زندگی برے کام کرواتا ہے۔
دین و دنیا کی تعلیم سے ناآشنا بے ضمیر تو یہ کام کرتے ہی ہیں، انھیں معلوم ہے قانون ، سفارش اور رشوت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے چند دن جیل کی ہوا کھانے کے بعد وہی آزادی کے دن۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بات سو فیصد افسوس کی ہے کہ جب ذمے دار لوگ قانون کے رکھوالے اور محافظ معمولی سی بات پر لوگوں کے گھروں کا چراغ بجھا دیں، والدین کے جگر گوشوں کو سرراہ خون میں نہلا دیں، تو دل تڑپتا ہے، روتا ہے، سسکتا ہے اور یہ درد سب کا سانجھا بن جاتا ہے۔
قاتل، قانون اور پولیس قابل نفرت بن جاتی ہے، اس طرح کے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں چونکہ جنگل میں جنگل کا ہی قانون نافذ ہے لیکن شیرکی حکومت نہیں ہے، شیرکے توکچھ اصول ہوتے ہیں، اسے ہم اندھیر نگری کہہ سکتے ہیں۔ بار بار ایسے واقعات کا ظہور پذیر ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ہر طاقتور اور صاحب اسلحہ اپنے اسلحے اور طاقت کا مظاہرہ ببانگ دہل کرنے کا حق دار ہے، اسامہ ستی بھی ایسا ہی ایک مظلوم نوجوان تھا جو اسلام آباد کی شاہراہ سے گزر رہا تھا، پولیس کا کہنا ہے کہ اس کی گاڑی کے شیشے سیاہ رنگ کے تھے اور اس نے گاڑی کو رکوانے کے باوجود روکی نہیں تو انھیں فائرنگ کرنا پڑی اور پوری 24 گولیاں اس نوجوان کو لگیں۔
ویسے تو 22 سالہ نوجوان اسامہ ستی کا ایک دوگولیوں میں ہی کام ہو جاتا 22 گولیاں خوامخواہ ضایع کیں۔ حفاظت کرنی چاہیے تھی اسلحے کی، ابھی تو بے شمار نوجوان ہیں، جنھیں معمولی سی بات پر قتل ہونا ہے۔ طاقت کا مظاہرہ اور اسلحے کا کھیل اور امرا کے بچوں کا شکار جاری رہے گا۔ اسامہ کے والد صاحب تڑپتے دل کے ساتھ کانفرنس کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اگر ان کے بچے کو روکنا ہی مقصود تھا تو گولیاں ٹائروں پر ماری جاتیں گاڑی رک جاتی لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ہماری پولیس نوجوانوں کی گاڑیاں نہیں روکتی بلکہ زندگیاں ہی روک دیتی ہے۔
زیست کا سفر ختم ہو کر سفر آخرت شروع ہو جاتا ہے۔ اسامہ کے والد صاحب نے مزید کہا کہ اسامہ کا پولیس والوں سے جھگڑا ہوا تھا۔ پولیس والوں کی اپنی بھی اولادیں ہوتی ہیں، اگر ان کے بیٹوں سے ان کا اختلاف ہو جائے تب کیا وہ انتہائی راستہ اختیارکریں گے ۔ صاحب اولاد ہوتے ہوئے بھی اتنے سخت دل؟ اللہ کو جان نہیں دینی ہے کیا؟ کس طرح رسول پاکؐ کا سامنا کریں گے؟بہرحال اسامہ دوسرے مقتول نوجوانوں کی طرح اپنے والدین، بہن بھائیوں سے رخصت ہوا، جوان اولاد کی رخصتی گھروں میں قیامت ڈھا گئی۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
کوئلے کی کانوں میں کام کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا ہے لیکن بے چارے کان کن رزق کے حصول کے لیے بڑی سے بڑی مصیبت اٹھانے کے لیے تیار رہتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں لیکن ایسے حالات میں بھی دہشتگرد انھیں بے دردی سے قتل کردیتے ہیں۔کبھی بسوں سے اتارکرگولی مار دیتے ہیں تو کبھی کسی اور طرح۔ ہفتہ اور اتوارکی درمیانی شب 11 کان کنوں کو اغوا کیا گیا اور ہاتھ پیر باندھ کر اور تیز دھار آلے سے قتل کردیا، اس خونی واقعے کو سن کر ہر شخص کی آنکھ اشکبار ہوگئی۔
ہزارہ برادری کے لوگ اس طرح کے ظلم اور تخریب کاری کے عمل سے بار بار گزر رہے ہیں، سابقہ اور موجودہ حکومتوں نے ان کے جان و مال کی حفاظت کے لیے کسی قسم کے ٹھوس اقدامات نہیں کیے، اب اگر وہ سخت سردی کے دنوں میں اپنے پیاروں کی گلا کٹی لاشوں کے ساتھ شاہراہوں پر احتجاجاً دھرنا دینے پر مجبور ہوئے اور وہ اس بات کا مطالبہ کر رہے تھے کہ وزیر اعظم عمران خان بہ نفس نفیس خود تشریف لائیں اور قاتلوں کو سخت سے سخت سزائیں اور ان کی آیندہ کے لیے حفاظت کو ممکن بنائیں تاکہ وہ اور ان کی آنیوالی نسلیں زندگی کے دن اطمینان اور چین کے ساتھ بسرکرسکیں تو وزیر اعظم ہفتے کو کوئٹہ پہنچ گئے اور معاملات کا جائزہ لیا۔
پاکستان میں قاتلوں اور اغوا کاروں کے لیے فوری سزا دینے کے لیے قانون بنانے اور اسے حرکت میں لانے کی اشد ضرورت ہے، مدینے کی ریاست نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا، غربت افلاس کے خاتمے، خواتین کے تحفظ ، خوشی اورخوشحالی کے لیے دن رات کام کیا تب ہر شخص کو اطمینان اور مکمل آزادی حاصل ہوسکی،کیا عمران خان ایسا کرسکیں گے؟
ان دنوں سپرکووڈ نے بھی لوگوں کو مزید خوف و ہراس میں مبتلا کردیا ہے، یہ وائرس نہ صرف یہ کہ جلد ہی زندگیوں کو نگل لیتا ہے بلکہ صحت مند لوگوں کو تیزی سے متاثرکرتا ہوا موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے لیکن اب پاکستان میں بھی اس کی ویکسین آگئی ہے اورکچھ والینٹری طور پر لگوائی بھی جا رہی ہے،گویا لوگوں نے اپنے آپ کو تجربے کے لیے وقف کردیا ہے، یہ بڑی بات ہے۔
کراچی، لاہور، اسلام آباد میں ویکسینیشن کی سہولیات موجود ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ اس کے سائیڈ افیکٹس بھی نہیں ہوتے، بہرحال اللہ بہترکرے گا۔ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ اللہ سے رجوع کریں، وضو اور طہارت کا خیال رکھیں،اس سے اچھی اور آزمودہ ویکسین کوئی نہیں۔ یہ بیماری کتنے عرصے تک چلے گی کسی کو نہیں معلوم، لیکن اپنے بارے میں تو ہرشخص جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ سونے سے قبل اپنا محاسبہ کرنا بہت ضروری ہے۔
ہو سکتا ہے ہم جب اپنے عیوب کو اپنے سامنے برہنہ دیکھیں تو شایدکچھ شرم آجائے اور آیندہ دوسروں کے حقوق غصب کرنے سے توبہ کرلیں آج کا دور درندگی کا دور ہے، جانور شرما جائیں انسان کے کرتوت دیکھ کر۔ لیکن انسان کی شرم مرچکی ہے وہ بصیرت وبصارت دونوں سے محروم ہے، حرام مال کھاتا ہے اور بے حیائی کے کام کھل کرکرتا ہے کبھی معصوم بچوں کی زندگیوں کو اپنی سفاکی اور درندگی کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے توکبھی اغوا کرکے ان سے ساری زندگی برے کام کرواتا ہے۔
دین و دنیا کی تعلیم سے ناآشنا بے ضمیر تو یہ کام کرتے ہی ہیں، انھیں معلوم ہے قانون ، سفارش اور رشوت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے چند دن جیل کی ہوا کھانے کے بعد وہی آزادی کے دن۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بات سو فیصد افسوس کی ہے کہ جب ذمے دار لوگ قانون کے رکھوالے اور محافظ معمولی سی بات پر لوگوں کے گھروں کا چراغ بجھا دیں، والدین کے جگر گوشوں کو سرراہ خون میں نہلا دیں، تو دل تڑپتا ہے، روتا ہے، سسکتا ہے اور یہ درد سب کا سانجھا بن جاتا ہے۔
قاتل، قانون اور پولیس قابل نفرت بن جاتی ہے، اس طرح کے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں چونکہ جنگل میں جنگل کا ہی قانون نافذ ہے لیکن شیرکی حکومت نہیں ہے، شیرکے توکچھ اصول ہوتے ہیں، اسے ہم اندھیر نگری کہہ سکتے ہیں۔ بار بار ایسے واقعات کا ظہور پذیر ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ہر طاقتور اور صاحب اسلحہ اپنے اسلحے اور طاقت کا مظاہرہ ببانگ دہل کرنے کا حق دار ہے، اسامہ ستی بھی ایسا ہی ایک مظلوم نوجوان تھا جو اسلام آباد کی شاہراہ سے گزر رہا تھا، پولیس کا کہنا ہے کہ اس کی گاڑی کے شیشے سیاہ رنگ کے تھے اور اس نے گاڑی کو رکوانے کے باوجود روکی نہیں تو انھیں فائرنگ کرنا پڑی اور پوری 24 گولیاں اس نوجوان کو لگیں۔
ویسے تو 22 سالہ نوجوان اسامہ ستی کا ایک دوگولیوں میں ہی کام ہو جاتا 22 گولیاں خوامخواہ ضایع کیں۔ حفاظت کرنی چاہیے تھی اسلحے کی، ابھی تو بے شمار نوجوان ہیں، جنھیں معمولی سی بات پر قتل ہونا ہے۔ طاقت کا مظاہرہ اور اسلحے کا کھیل اور امرا کے بچوں کا شکار جاری رہے گا۔ اسامہ کے والد صاحب تڑپتے دل کے ساتھ کانفرنس کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اگر ان کے بچے کو روکنا ہی مقصود تھا تو گولیاں ٹائروں پر ماری جاتیں گاڑی رک جاتی لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ہماری پولیس نوجوانوں کی گاڑیاں نہیں روکتی بلکہ زندگیاں ہی روک دیتی ہے۔
زیست کا سفر ختم ہو کر سفر آخرت شروع ہو جاتا ہے۔ اسامہ کے والد صاحب نے مزید کہا کہ اسامہ کا پولیس والوں سے جھگڑا ہوا تھا۔ پولیس والوں کی اپنی بھی اولادیں ہوتی ہیں، اگر ان کے بیٹوں سے ان کا اختلاف ہو جائے تب کیا وہ انتہائی راستہ اختیارکریں گے ۔ صاحب اولاد ہوتے ہوئے بھی اتنے سخت دل؟ اللہ کو جان نہیں دینی ہے کیا؟ کس طرح رسول پاکؐ کا سامنا کریں گے؟بہرحال اسامہ دوسرے مقتول نوجوانوں کی طرح اپنے والدین، بہن بھائیوں سے رخصت ہوا، جوان اولاد کی رخصتی گھروں میں قیامت ڈھا گئی۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
کوئلے کی کانوں میں کام کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا ہے لیکن بے چارے کان کن رزق کے حصول کے لیے بڑی سے بڑی مصیبت اٹھانے کے لیے تیار رہتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں لیکن ایسے حالات میں بھی دہشتگرد انھیں بے دردی سے قتل کردیتے ہیں۔کبھی بسوں سے اتارکرگولی مار دیتے ہیں تو کبھی کسی اور طرح۔ ہفتہ اور اتوارکی درمیانی شب 11 کان کنوں کو اغوا کیا گیا اور ہاتھ پیر باندھ کر اور تیز دھار آلے سے قتل کردیا، اس خونی واقعے کو سن کر ہر شخص کی آنکھ اشکبار ہوگئی۔
ہزارہ برادری کے لوگ اس طرح کے ظلم اور تخریب کاری کے عمل سے بار بار گزر رہے ہیں، سابقہ اور موجودہ حکومتوں نے ان کے جان و مال کی حفاظت کے لیے کسی قسم کے ٹھوس اقدامات نہیں کیے، اب اگر وہ سخت سردی کے دنوں میں اپنے پیاروں کی گلا کٹی لاشوں کے ساتھ شاہراہوں پر احتجاجاً دھرنا دینے پر مجبور ہوئے اور وہ اس بات کا مطالبہ کر رہے تھے کہ وزیر اعظم عمران خان بہ نفس نفیس خود تشریف لائیں اور قاتلوں کو سخت سے سخت سزائیں اور ان کی آیندہ کے لیے حفاظت کو ممکن بنائیں تاکہ وہ اور ان کی آنیوالی نسلیں زندگی کے دن اطمینان اور چین کے ساتھ بسرکرسکیں تو وزیر اعظم ہفتے کو کوئٹہ پہنچ گئے اور معاملات کا جائزہ لیا۔
پاکستان میں قاتلوں اور اغوا کاروں کے لیے فوری سزا دینے کے لیے قانون بنانے اور اسے حرکت میں لانے کی اشد ضرورت ہے، مدینے کی ریاست نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا، غربت افلاس کے خاتمے، خواتین کے تحفظ ، خوشی اورخوشحالی کے لیے دن رات کام کیا تب ہر شخص کو اطمینان اور مکمل آزادی حاصل ہوسکی،کیا عمران خان ایسا کرسکیں گے؟