آیئے ہاتھ اُٹھائیں ہم بھی
کیا ہمارے دل واقعی پتھر ہوگئے ، کیا ہم اتنے خودغرض ہوگئے ہیں کہ ایسے وحشت ناک قتل پر ایک لفظ احتجاج کا نہ لکھ سکیں۔
مچھ میں بے گناہ اور معصوم کان کنوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر پوری قوم اشکبار ہے اور اس بات کا تقاضا کررہی ہے کہ اس کے مجرموں کو جلد از جلدکیفر کردارتک پہنچایا جائے اور آیندہ کے لیے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کا کوئی مستقل اور پائیدار انتظام کرکے ہزارہ کمیونٹی کو وہ حفاظت دی جائے جو پاکستان کے ہر شہری کا حق ہے۔
اس معاملے کو سیاسی کیوں بنایا گیا نہ تو یہ وقت اس بحث میں پڑنے کا ہے اور نہ ہی میں اس میں اُلجھنے کا روادار ہوں کہ میرے نزدیک اصل مسئلہ اس ظلم کی خوفناک واردات، اس کے تسلسل، محرکات اور تاریخ پر غور کرنے کا ہے۔ بلاشبہ ہزارہ کمیونٹی کا شیعہ عقیدے سے تعلق اس سارے معاملے کا مرکزی نقطہ ہے مگر جس طرح سے اس کی آڑ میں شیعہ سُنی مسئلے کو پھر سے ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے اُس کی طرف توجہ دینا انتہائی ضروری ہے کہ شائد ان بے گناہ معصوم لوگوں کو اس بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے و الوں کا اصل مقصد بھی یہی ہے، اس خیال کو مزید تقویت مجھے اپنے بہت عزیز امیر حسین جعفری کے ایک فیس بک پیغام سے بھی ملی ہے۔
میں سمجھ سکتا ہوں کہ ایسے شدید صدمے کے ردّعمل میں کی جانے والی اس طرح کی باتوں کو کسی کانقطہ نظر نہیں سمجھ لینا چاہیے مگر ان کی تسلسل یا تکرار سے بھی بچنے کی ضرورت ہے کہ یوں ہم چند گمراہ اور قابلِ نفرت لوگوں کے جُرم کی سزا اُس عظیم ، معصوم اور بے گناہ اکثریت کو دینا شروع کر دیتے ہیں جس کے نام پر یہ جرم کیا جاتا ہے۔ ہم سب کو اس دکھ ، تکلیف اور اذّیت کی گھڑی میں ایک دوسرے کے ساتھ برابر کا شریک ہوکررہنا چاہیے۔ عقیدے اور فرقے ہم انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں۔رب کریم نے تو سب کے لیے ایک ہی پیغمبر اور ایک ہی کتاب بھیجی تھی ۔
اس حادثے پر اہلِ قلم کی طرف سے بھی شدیدردّعمل، افسوس اور احتجاج کیا جارہا ہے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ چند جذباتی تحریروں سے قطع نظر سب نے اسے ایک قومی سانحہ قرار دیا ہے اوریوں اس سازش کو ناکام بنایا ہے جس کا مقصد فرقہ بندی کے نام پر لوگوں کو آپس میں لڑانا تھا، اس ضمن میں نسیم سیّد کی ایک نثری تحریر اور سرور جاوید کی ایک دلدوز نظم نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے لیکن اُن کے ذکر سے پہلے میں عزیزی قمر رضا شہزاد کے دو شعر نقل کرنا چاہوں گا جن میں موجود دردمندی میرے نزدیک ہم سب کی اُس اجتماعی کیفیت کا اظہار ہے جس میں کسی کا شیعہ سنی یا کچھ بھی ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
مہک اُٹھی یہ زمیں خون سے تو سوچتا ہوں
میں کیوں گلاب کی فصلیں یہاں اُگاتا تھا
وہیں دھرے ہیں جنازے قطار میں صاحب
جہاں میں روز دیے سے دیا جلاتا تھا
نسیم سیّد کا شمار دورِ حاضر کے بہترین اور اہلِ نظر لکھنے والوں میں ہوتاہے انسانی حقوق کی بحالی اور پاسداری کے ضمن میں اُن کی تحریریں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں اور ہر طرح کے ظلم اور بے انصافی کے خلاف لکھنا اُن کا مخصوص موضوع ہی نہیں ایک سماجی کمٹ منٹ بھی ہے سانحہ مچھ کے حوالے سے اُن کی یہ تحریر اپنی تُندی سمیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے بار بار غور سے پڑھا اور سمجھا جائے وہ کہتی ہیں۔
''یہ سانحہ پہلی بار نہیں ہوا، اس سے پہلے بھی ایسے ہی برف باری کے موسم میں ہزارہ اپنے سو بچوں کی لاشیں لیے کُھلے میدان میں کئی ہفتہ بیٹھے رہے کہ انھیں انصاف چاہیے تھا۔ایسا کیوں ہے؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ کیا ہم چہروں سے کفن سرکا کے یقین کرلیتے ہیں پہلے کہ یہ ہمارے مسلک، ہماری جماعت، ہماری برادری کا ہے یا نہیں ،دل میں درد کی لہر پیدا ہوتی ہے؟تب پُرسہ دیتے ہیں ان ماں باپ کو جن کے جوان قتل کردیے جاتے ہیں۔ مجھے گزشتہ سانحہ کے وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ ہزارے اکثر شیعہ ہوتے ہیں کہ میں کوئی تیس پینتیس سال سے پاکستان سے باہر رہ رہی ہوں اور اپنے لوگوں کی نسلی اور مسلکی منافقتوں یا تقسیم سے زیادہ واقف نہیں تھی، سو ہزارہ کی سو لاشوں پر آنسو بہاتی رہی ۔بعد میں میرے لیے میرے یہ آنسو ہی طعنہ بن گئے۔
''شیعہ ہیں نا آپ اسی لیے ہزارہ کے غم میں شریک تھیں'' اللہ اللہ ایسی سوچ بھی رکھ سکتے ہیں سوکالڈ نامور تخلیق کار۔کل فیس بک پر نہیں آئی کہ ان گیارہ ہزارہ مزدوروںکے ہاتھ پیر باندھ کے انھیں ذبح کرنے کی خبر پڑھ لی تھی۔ سارا دن اپنے بچوں کا چہرہ نظر میں تھا اور ان عورتوں کے بین میرے وجود کو کترن کترن کررہے تھے جن کی گود اُجڑ گئی ۔ ان گیارہ لوگوں نے کیا گناہ کیا تھا، کیا کوئی بتائے گا؟۔میں خود کو سمجھا رہی ہوں، ہزارہ کا ناک نقشہ ہم سے مختلف ہے۔ ان کی زبان مختلف ہے، وہ ہو بہو ہم جیسے نہیں ہیں۔مگر مجھے پھر بھی ان کا غم بولا رہا ہے۔ دل ہے کہ مانتا نہیں، ذہن ہے کہ سوال پر سوال کیے جارہا ہے۔
کیا ہمارے دل واقعی پتھر ہوگئے ، کیا ہم اتنے خودغرض ہوگئے ہیں کہ ایسے وحشت ناک قتل پر ایک لفظ احتجاج کا نہ لکھ سکیں۔کیا ہم ان ہزارہ مائوں کو جو اپنے بچوں کی لاشیں لیے برفیلی زمین پر بیٹھی ہیں اس لیے پُرسہ نہیں دیں گے اس لیے ان کے احتجاج میں شریک نہیں ہوں گے کہ یہ ہزارہ ہیں، یہ ہم میں سے نہیں ہیں، اگر ایسا ہے تو لعنت ہے ہمارے وجود پر''اس تحریر پر صرف یہی تبصرہ بنتا ہے کہ اس کے درد کو سمجھا اور اس میں شامل ہوا جائے۔ اس طرح کوئٹہ سے برادرِ عزیز سرور جاوید کی یہ نظم''میری چیخیں سُن پائو گے'' بھی اس صورت حال کے اُس احتجاجی تاثر کو پیش کر رہی ہے جو اسی وقت ہر اہلِ دل پر طاری ہے ۔
سخت گھڑی ہے ، لاش پڑی ہے، ماں روتی ہے
لاش سرہانے ، دُکھ سے گھائل
باپ کھڑا ہے، پوچھ رہا ہے، کون مرا ہے؟
لاش سے اک بھائی لپٹا ہے
کیوں سوئے ہو، کب جاگو گے؟
اک بچی ہے ، بلک رہی ہے
مجھ سے ایسا کر نہیں سکتا
میر ا بابا مر نہیں سکتا
لوگ کھڑے ہیں ، دیکھ رہے ہیں
میں شاعر ہوں
لفظوں کا سنسار ہے میرا
دکھ کا کاروبار ہے میرا
رنگوں کا بیوپار ہے میرا
یہ مٹی ہے، خاکی مٹی
اس مٹی پر خون جما ہے
سرخ چمکتا خون ہے کس کا؟
کیسے رنگ ہیں مل نہیں پاتے
زخم ہیں کیسے سل نہیںپاتے
رات آتی ہے رات ہے کالی
لوگ کھڑے ہیں پوچھتا ہوں میں
چپ کے جُرم میں شامل لوگو، تخت نشینو
کیا تم ان رنگوں کو گُوندھ کے
پھر سے جیون بن پائوگے
میں شاعر ہُوں
میری چیخیں سُن پائو گے
اس معاملے کو سیاسی کیوں بنایا گیا نہ تو یہ وقت اس بحث میں پڑنے کا ہے اور نہ ہی میں اس میں اُلجھنے کا روادار ہوں کہ میرے نزدیک اصل مسئلہ اس ظلم کی خوفناک واردات، اس کے تسلسل، محرکات اور تاریخ پر غور کرنے کا ہے۔ بلاشبہ ہزارہ کمیونٹی کا شیعہ عقیدے سے تعلق اس سارے معاملے کا مرکزی نقطہ ہے مگر جس طرح سے اس کی آڑ میں شیعہ سُنی مسئلے کو پھر سے ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے اُس کی طرف توجہ دینا انتہائی ضروری ہے کہ شائد ان بے گناہ معصوم لوگوں کو اس بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے و الوں کا اصل مقصد بھی یہی ہے، اس خیال کو مزید تقویت مجھے اپنے بہت عزیز امیر حسین جعفری کے ایک فیس بک پیغام سے بھی ملی ہے۔
میں سمجھ سکتا ہوں کہ ایسے شدید صدمے کے ردّعمل میں کی جانے والی اس طرح کی باتوں کو کسی کانقطہ نظر نہیں سمجھ لینا چاہیے مگر ان کی تسلسل یا تکرار سے بھی بچنے کی ضرورت ہے کہ یوں ہم چند گمراہ اور قابلِ نفرت لوگوں کے جُرم کی سزا اُس عظیم ، معصوم اور بے گناہ اکثریت کو دینا شروع کر دیتے ہیں جس کے نام پر یہ جرم کیا جاتا ہے۔ ہم سب کو اس دکھ ، تکلیف اور اذّیت کی گھڑی میں ایک دوسرے کے ساتھ برابر کا شریک ہوکررہنا چاہیے۔ عقیدے اور فرقے ہم انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں۔رب کریم نے تو سب کے لیے ایک ہی پیغمبر اور ایک ہی کتاب بھیجی تھی ۔
اس حادثے پر اہلِ قلم کی طرف سے بھی شدیدردّعمل، افسوس اور احتجاج کیا جارہا ہے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ چند جذباتی تحریروں سے قطع نظر سب نے اسے ایک قومی سانحہ قرار دیا ہے اوریوں اس سازش کو ناکام بنایا ہے جس کا مقصد فرقہ بندی کے نام پر لوگوں کو آپس میں لڑانا تھا، اس ضمن میں نسیم سیّد کی ایک نثری تحریر اور سرور جاوید کی ایک دلدوز نظم نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے لیکن اُن کے ذکر سے پہلے میں عزیزی قمر رضا شہزاد کے دو شعر نقل کرنا چاہوں گا جن میں موجود دردمندی میرے نزدیک ہم سب کی اُس اجتماعی کیفیت کا اظہار ہے جس میں کسی کا شیعہ سنی یا کچھ بھی ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
مہک اُٹھی یہ زمیں خون سے تو سوچتا ہوں
میں کیوں گلاب کی فصلیں یہاں اُگاتا تھا
وہیں دھرے ہیں جنازے قطار میں صاحب
جہاں میں روز دیے سے دیا جلاتا تھا
نسیم سیّد کا شمار دورِ حاضر کے بہترین اور اہلِ نظر لکھنے والوں میں ہوتاہے انسانی حقوق کی بحالی اور پاسداری کے ضمن میں اُن کی تحریریں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں اور ہر طرح کے ظلم اور بے انصافی کے خلاف لکھنا اُن کا مخصوص موضوع ہی نہیں ایک سماجی کمٹ منٹ بھی ہے سانحہ مچھ کے حوالے سے اُن کی یہ تحریر اپنی تُندی سمیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے بار بار غور سے پڑھا اور سمجھا جائے وہ کہتی ہیں۔
''یہ سانحہ پہلی بار نہیں ہوا، اس سے پہلے بھی ایسے ہی برف باری کے موسم میں ہزارہ اپنے سو بچوں کی لاشیں لیے کُھلے میدان میں کئی ہفتہ بیٹھے رہے کہ انھیں انصاف چاہیے تھا۔ایسا کیوں ہے؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ کیا ہم چہروں سے کفن سرکا کے یقین کرلیتے ہیں پہلے کہ یہ ہمارے مسلک، ہماری جماعت، ہماری برادری کا ہے یا نہیں ،دل میں درد کی لہر پیدا ہوتی ہے؟تب پُرسہ دیتے ہیں ان ماں باپ کو جن کے جوان قتل کردیے جاتے ہیں۔ مجھے گزشتہ سانحہ کے وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ ہزارے اکثر شیعہ ہوتے ہیں کہ میں کوئی تیس پینتیس سال سے پاکستان سے باہر رہ رہی ہوں اور اپنے لوگوں کی نسلی اور مسلکی منافقتوں یا تقسیم سے زیادہ واقف نہیں تھی، سو ہزارہ کی سو لاشوں پر آنسو بہاتی رہی ۔بعد میں میرے لیے میرے یہ آنسو ہی طعنہ بن گئے۔
''شیعہ ہیں نا آپ اسی لیے ہزارہ کے غم میں شریک تھیں'' اللہ اللہ ایسی سوچ بھی رکھ سکتے ہیں سوکالڈ نامور تخلیق کار۔کل فیس بک پر نہیں آئی کہ ان گیارہ ہزارہ مزدوروںکے ہاتھ پیر باندھ کے انھیں ذبح کرنے کی خبر پڑھ لی تھی۔ سارا دن اپنے بچوں کا چہرہ نظر میں تھا اور ان عورتوں کے بین میرے وجود کو کترن کترن کررہے تھے جن کی گود اُجڑ گئی ۔ ان گیارہ لوگوں نے کیا گناہ کیا تھا، کیا کوئی بتائے گا؟۔میں خود کو سمجھا رہی ہوں، ہزارہ کا ناک نقشہ ہم سے مختلف ہے۔ ان کی زبان مختلف ہے، وہ ہو بہو ہم جیسے نہیں ہیں۔مگر مجھے پھر بھی ان کا غم بولا رہا ہے۔ دل ہے کہ مانتا نہیں، ذہن ہے کہ سوال پر سوال کیے جارہا ہے۔
کیا ہمارے دل واقعی پتھر ہوگئے ، کیا ہم اتنے خودغرض ہوگئے ہیں کہ ایسے وحشت ناک قتل پر ایک لفظ احتجاج کا نہ لکھ سکیں۔کیا ہم ان ہزارہ مائوں کو جو اپنے بچوں کی لاشیں لیے برفیلی زمین پر بیٹھی ہیں اس لیے پُرسہ نہیں دیں گے اس لیے ان کے احتجاج میں شریک نہیں ہوں گے کہ یہ ہزارہ ہیں، یہ ہم میں سے نہیں ہیں، اگر ایسا ہے تو لعنت ہے ہمارے وجود پر''اس تحریر پر صرف یہی تبصرہ بنتا ہے کہ اس کے درد کو سمجھا اور اس میں شامل ہوا جائے۔ اس طرح کوئٹہ سے برادرِ عزیز سرور جاوید کی یہ نظم''میری چیخیں سُن پائو گے'' بھی اس صورت حال کے اُس احتجاجی تاثر کو پیش کر رہی ہے جو اسی وقت ہر اہلِ دل پر طاری ہے ۔
سخت گھڑی ہے ، لاش پڑی ہے، ماں روتی ہے
لاش سرہانے ، دُکھ سے گھائل
باپ کھڑا ہے، پوچھ رہا ہے، کون مرا ہے؟
لاش سے اک بھائی لپٹا ہے
کیوں سوئے ہو، کب جاگو گے؟
اک بچی ہے ، بلک رہی ہے
مجھ سے ایسا کر نہیں سکتا
میر ا بابا مر نہیں سکتا
لوگ کھڑے ہیں ، دیکھ رہے ہیں
میں شاعر ہوں
لفظوں کا سنسار ہے میرا
دکھ کا کاروبار ہے میرا
رنگوں کا بیوپار ہے میرا
یہ مٹی ہے، خاکی مٹی
اس مٹی پر خون جما ہے
سرخ چمکتا خون ہے کس کا؟
کیسے رنگ ہیں مل نہیں پاتے
زخم ہیں کیسے سل نہیںپاتے
رات آتی ہے رات ہے کالی
لوگ کھڑے ہیں پوچھتا ہوں میں
چپ کے جُرم میں شامل لوگو، تخت نشینو
کیا تم ان رنگوں کو گُوندھ کے
پھر سے جیون بن پائوگے
میں شاعر ہُوں
میری چیخیں سُن پائو گے