معیشت کی پائیدار نمو زراعت کی ترقی سے وابستہ

کلیدی اہمیت کے باوجود زرعی شعبہ اپنی گنجائش کے مطابق ترقی نہیں کرسکا

کلیدی اہمیت کے باوجود زرعی شعبہ اپنی گنجائش کے مطابق ترقی نہیں کرسکا

ذرائع ابلاغ میں یہ غلغلہ مچا ہوا ہے کہ سیاسی گرما گرمی اور کورونا کی وبا کے باوجود معیشت بحال ہورہی ہے۔

ستمبر 2020ء سے ملکی سیاست میں ہلچل بپا ہے جب کہ دسمبر میں کورونا کی دوسری لہر بھی شروع ہو گئی۔ عموماً سیاسی عدم استحکام معاشی غیریقینی کو جنم دیتا ہے جس کا منفی اثر اقتصادی صورتحال پر پڑتا ہے۔ کووڈ 19 کی پہلی لہر کے بعد کچھ مالیاتی اور زری مطابقت پذیری کی وجہ سے معیشت میں کسی قدر بہتری آئی۔


مالی سال 2021 کے ابتدائی چار ماہ میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کی نمو 5.5 فیصد رہی۔ رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ کے دوران مرچنڈائزڈ ایکسپورٹ ڈالر میں 7 فیصد نیچے آگئیں جبکہ درآمدات میں 1 فیصد کمی آئی۔ معاشی سست روی کی قیمت پر تجارتی خسارے میں کمی لائی گئی۔ حوالہ اور ہنڈی کے راستے رقم کی ترسیل کے امکانات محدود ہونے کے باعث قانونی ذرائع سے تارکین وطن کی ترسیلات زر میں اضافہ ہوا۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں پائیدار توسیع میں زرعی شعبے کی نمو کا کردار نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

تاہم اپنی اہمیت کے باوجود یہ شعبہ ترقی نہیں کر سکا۔ 2000 ء کے عشرے میں زرعی ترقی کی نمو 2 فیصد رہی۔ اسی طرح گذشتہ عشرے میں زراعت کی شرح نمو 2.2 فیصد رہی جو نمو کی گنجائش کی نسبت کم ہے۔ ترقی کی دوڑ میں زراعت کے مینوفیکچرنگ سیکٹر سے پیچھے رہ جانے کے باعث غذائی افراطِ زر بڑھتا چلا گیا۔

گنا، گندم اور دوسری فصلیں مہنگی ہوتی چلی گئیں۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی ( ای سی سی ) نے گندم کی امدادی قیمت 1650 روپے فی من کردی تاہم مارکیٹ کی قیمت اور امدادی قیمت میں 25 فیصد کا فرق موجود ہے۔ حکومت کے انتظامی اقدامات کے نتیجے میں غذائی اجناس کے نرخ کسی قدر نیچے آئے تاہم موجودہ اقتصادی صورتحال کے پیش نظر غذائی اجناس کی قیمتیں پھر سے بڑھ جانے کا امکان موجود ہے۔ اس صورت حال میں زرعی شعبے کی ترقی کے لیے پالیسیوں پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔
Load Next Story