سرکاری اداروں کا آڈٹ اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹیاں
آج کل تو افسر شاہی پہلے ہی ڈری ہوئی ہے، اس نے گو سلو کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔
مختلف سرکاری محکموں کا آڈٹ کرنے کے لیے حکومت نے ایک ادارہ قائم کیا ہوا ہے۔ اس ادارے کا بنیادی کام سرکاری محکموں کا نہ صرف آڈٹ کرنا ہے بلکہ اگر وہاں کوئی قانونی بے ضابطگی پائی جائے اور مالی بدعنوانی سامنے آئے تو اس کا ریکارڈ اور نتائج اکٹھے کرکے پیپرز تیار کرنا ہوتا ہے ۔
ان آڈٹ پیپرز کی بنیاد پر سزا اور جزا کا ایک الگ نظام مو جود ہے اور یہی آڈٹ پیپرز منتخب اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں تک جاتے ہیں۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بنیادی طور پر پارلیمان کے احتساب کا سب سے بڑا فورم ہے جہاں ان آڈٹ پیروں پر احتساب کیا جاتا ہے۔
ویسے تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی کارکردگی پر بہت بات کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں کام کی رفتار بہت سست ہے۔ منتخب نمایندوں پر مشتمل یہ کمیٹی اس مستعدی سے اپنا کام نہیں کر رہی جتنا کہ ضروری ہے۔ گزشتہ دس سال سے وہاں کام التوا کا شکار ہے۔ اب یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی جس کا کام وفاقی محکموں کے آڈٹ پیروں کا جائزہ لینا ہے، اس نے اضافی اختیارات مانگ لیے ہیں۔ وہ وزیراعظم کو خط لکھ رہے ہیں کہ آڈٹ پیپرز میں عدم تعاون پر انھیں وفاقی سیکریٹری کو معطل کرنے کا اختیار بھی دیا جائے۔
ابھی ان کے پاس وفاقی سیکریٹری کی اے سی آر میں منفی ریمارکس دینے کا اختیار ہے۔ لیکن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا موقف ہے کہ اکثر سیکریٹریز پہلے ہی گریڈ 22میں ہوتے ہیں، اس لیے اے سی آر میں منفی ریمارکس ان کے لیے کوئی سزا نہیں ہوتی۔ ان کی اب مزید ترقی ممکن ہی نہیں ہوتی، اس لیے وہ اے سی آر میں منفی ریمارکس کی پروا نہیں کرتے۔ لہٰذا وہ اپنے محکموں کے آڈٹ پیپرز کے جائزے کے دوران قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے تعاون نہیں کرتے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ وفاقی سیکریٹری اپنے محکمے کا پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر بھی ہوتا ہے، اس لیے اس کے عدم تعاون کی وجہ سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا کام رک جاتا ہے اور یہی التوا کی بنیادی وجہ بھی ہے۔
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اصل مسئلہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے بھی زیادہ محکمہ آڈٹ اینڈا کاؤنٹس کے کام کرنے کا ہے۔ جیسے دیگر سرکاری اداروں میں ریڈ ٹیپ ازم، بے ضابطگیوں اور بدعنوانی کا چلن ہے، یہاں بھی ایسا ہی کلچر ہے۔پھر جب اس محکمے کے افسر واہلکار کسی بھی سرکاری محکمے کے آڈٹ کے لیے جاتے ہیں تو وہاں کیا ادھم مچاتاہے، یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ بعض اوقات معمولی نوعیت کی مالی بدانتظامیوں کو بھی کرپشن بنایا جاتا ہے اور پھر کیا ہوتا ہے، کسی ایسے سرکاری محکمے کے افسروں سے پوچھ لیں، جن کا آڈٹ ہوا۔
آڈٹ سے پہلے ہی متعلقہ سرکاری ادارے میں خوف کی فضا بن جاتی ہے۔ ایسی باتیں بھی عام سننے میں آتی ہیں کہ اصل کرپشن کو موقعے پر سودے بازی کر کے دبا لیا جاتا ہے جب کہ غلط آڈٹ پیرے بنا کر اپنے نمبر بھی بنائے جاتے ہیں اور کرپشن کرنے والے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ کرنے میں محکمہ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کا بنیادی کردار ہوتا ہے،اگر یہ ادارہ فعالیت ، فرض شناسی اور ایمانداری کا مظاہرہ کرے، کسی قسم کی مصلحت یا دباؤ کا شکار نہ ہو تو سرکاری اداروں سے بدعنوانی کا خاتمہ کرنا قدرے آسان ہوجائے گا۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں آج کیا کہانی لے کر بیٹھ گیاہوں۔ یہ درست ہے کہ محکمہ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کا تعلق براہ راست عوام سے نہیں ہے۔ اس لیے عام آدمی کو اس محکمے کا شاید نام بھی معلوم نہ ہو۔ میڈیا کی بھی ان پر توجہ کم ہے۔ لیکن سرکاری محکموں کا سروے کریں تو حیران کن حقائق سامنے آئیں گے ۔ محکمہ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس میں غضب کی کہانیاں موجود ہیں، شائد ہم تک وہ نہیں پہنچتیں۔ جیسے دیگر ایسے سرکاری محکمے جن کا پبلک ڈیلنگ سے تعلق نہیں، ان کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ یہ مشاہدے کی بات ہے کہ اکثر آڈٹ پیرے غلط ہوتے ہیں۔
بعض اوقات کسی سرکاری افسرکو پھنسانے کے لیے ایسے آڈٹ پیرے بنائے جاتے ہیں۔ جب کسی افسر کے خلاف آڈٹ پیرا بن جاتا ہے، چاہے ، وہ آگے جاکر غلط ہی ثابت ہو لیکن وہ بیچارہ سرکاری افسرکئی سال کے لیے خوار ہوتا رہتا ہے۔ اس کے کیریئر پر دھبہ لگ جاتا ہے اور جب تک یہ آڈٹ پیرا ختم نہیں ہوتا اس کی جان پھنسی رہتی ہے۔ اگر آڈٹ پیرا درست ہو تو متعلقہ سرکاری افسر کو خرد برد کی رقم واپس بھی کرنی پڑتی ہے۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے۔
ویسے تو قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ معاملے کی سنگینی کو سامنے رکھتے ہوئے اسے ایف آئی اے اور نیب کو بھیج سکتی ہے۔ اس لیے سرکاری افسران کا خیال ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کومزید اختیارات کی کوئی ضرورت نہیں جب کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا موقف ہے کہ معاملہ نیب یا ایف آئی اے کو تو تب بھیجا جا سکتا ہے جب اس کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔ جب جائزہ لینے میں رکاوٹیں پیدا کی جائیں تو پھر عوام کے منتخب نمایندے کیا کریں۔ جب کوئی وفاقی سیکریٹری لیول کا افسرپبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہی نہ ہو تو کیا کیا جائے، اس لیے انھیں معطل کرنے کا اختیار ضروری ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ آڈٹ پیرا کا جس بھی سطح پر جائزہ لیا جائے اور یہ ثابت ہو جائے کہ یہ آڈٹ پیرا غلط بنایا گیا ہے تو جس افسر نے یہ آڈٹ پیرا بنایا ہو اس کے خلاف بھی ایکشن لینے کا حکم دیا جائے۔ جہاں درست آڈٹ پیرے بننا ضروری ہیں وہاں غلط آڈٹ پیروں کو بننے سے رو کنا بھی ضروری ہے۔
آج کل تو افسر شاہی پہلے ہی ڈری ہوئی ہے، اس نے گو سلو کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ ایسے حالات میں آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن نیب، ایف آئی اے اور محکمہ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کی خوب چاندی ہوئی ہے۔ وہ اس ماحول کا خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ اگر اس نے ملک میں کرپشن روکنی ہے، افسر شاہی کو کام کے لیے تیار کرنا ہے تو اگر نیب کو مختلف وجوہات کی بنیاد پر لگام نہیں ڈالی جا سکتی تو کم از کم محکمہ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس میں ہی اصلاحی اور احتسابی عمل شروع کردیں۔
ان آڈٹ پیپرز کی بنیاد پر سزا اور جزا کا ایک الگ نظام مو جود ہے اور یہی آڈٹ پیپرز منتخب اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں تک جاتے ہیں۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بنیادی طور پر پارلیمان کے احتساب کا سب سے بڑا فورم ہے جہاں ان آڈٹ پیروں پر احتساب کیا جاتا ہے۔
ویسے تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی کارکردگی پر بہت بات کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں کام کی رفتار بہت سست ہے۔ منتخب نمایندوں پر مشتمل یہ کمیٹی اس مستعدی سے اپنا کام نہیں کر رہی جتنا کہ ضروری ہے۔ گزشتہ دس سال سے وہاں کام التوا کا شکار ہے۔ اب یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی جس کا کام وفاقی محکموں کے آڈٹ پیروں کا جائزہ لینا ہے، اس نے اضافی اختیارات مانگ لیے ہیں۔ وہ وزیراعظم کو خط لکھ رہے ہیں کہ آڈٹ پیپرز میں عدم تعاون پر انھیں وفاقی سیکریٹری کو معطل کرنے کا اختیار بھی دیا جائے۔
ابھی ان کے پاس وفاقی سیکریٹری کی اے سی آر میں منفی ریمارکس دینے کا اختیار ہے۔ لیکن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا موقف ہے کہ اکثر سیکریٹریز پہلے ہی گریڈ 22میں ہوتے ہیں، اس لیے اے سی آر میں منفی ریمارکس ان کے لیے کوئی سزا نہیں ہوتی۔ ان کی اب مزید ترقی ممکن ہی نہیں ہوتی، اس لیے وہ اے سی آر میں منفی ریمارکس کی پروا نہیں کرتے۔ لہٰذا وہ اپنے محکموں کے آڈٹ پیپرز کے جائزے کے دوران قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے تعاون نہیں کرتے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ وفاقی سیکریٹری اپنے محکمے کا پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر بھی ہوتا ہے، اس لیے اس کے عدم تعاون کی وجہ سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا کام رک جاتا ہے اور یہی التوا کی بنیادی وجہ بھی ہے۔
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اصل مسئلہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے بھی زیادہ محکمہ آڈٹ اینڈا کاؤنٹس کے کام کرنے کا ہے۔ جیسے دیگر سرکاری اداروں میں ریڈ ٹیپ ازم، بے ضابطگیوں اور بدعنوانی کا چلن ہے، یہاں بھی ایسا ہی کلچر ہے۔پھر جب اس محکمے کے افسر واہلکار کسی بھی سرکاری محکمے کے آڈٹ کے لیے جاتے ہیں تو وہاں کیا ادھم مچاتاہے، یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ بعض اوقات معمولی نوعیت کی مالی بدانتظامیوں کو بھی کرپشن بنایا جاتا ہے اور پھر کیا ہوتا ہے، کسی ایسے سرکاری محکمے کے افسروں سے پوچھ لیں، جن کا آڈٹ ہوا۔
آڈٹ سے پہلے ہی متعلقہ سرکاری ادارے میں خوف کی فضا بن جاتی ہے۔ ایسی باتیں بھی عام سننے میں آتی ہیں کہ اصل کرپشن کو موقعے پر سودے بازی کر کے دبا لیا جاتا ہے جب کہ غلط آڈٹ پیرے بنا کر اپنے نمبر بھی بنائے جاتے ہیں اور کرپشن کرنے والے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ کرنے میں محکمہ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کا بنیادی کردار ہوتا ہے،اگر یہ ادارہ فعالیت ، فرض شناسی اور ایمانداری کا مظاہرہ کرے، کسی قسم کی مصلحت یا دباؤ کا شکار نہ ہو تو سرکاری اداروں سے بدعنوانی کا خاتمہ کرنا قدرے آسان ہوجائے گا۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں آج کیا کہانی لے کر بیٹھ گیاہوں۔ یہ درست ہے کہ محکمہ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کا تعلق براہ راست عوام سے نہیں ہے۔ اس لیے عام آدمی کو اس محکمے کا شاید نام بھی معلوم نہ ہو۔ میڈیا کی بھی ان پر توجہ کم ہے۔ لیکن سرکاری محکموں کا سروے کریں تو حیران کن حقائق سامنے آئیں گے ۔ محکمہ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس میں غضب کی کہانیاں موجود ہیں، شائد ہم تک وہ نہیں پہنچتیں۔ جیسے دیگر ایسے سرکاری محکمے جن کا پبلک ڈیلنگ سے تعلق نہیں، ان کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ یہ مشاہدے کی بات ہے کہ اکثر آڈٹ پیرے غلط ہوتے ہیں۔
بعض اوقات کسی سرکاری افسرکو پھنسانے کے لیے ایسے آڈٹ پیرے بنائے جاتے ہیں۔ جب کسی افسر کے خلاف آڈٹ پیرا بن جاتا ہے، چاہے ، وہ آگے جاکر غلط ہی ثابت ہو لیکن وہ بیچارہ سرکاری افسرکئی سال کے لیے خوار ہوتا رہتا ہے۔ اس کے کیریئر پر دھبہ لگ جاتا ہے اور جب تک یہ آڈٹ پیرا ختم نہیں ہوتا اس کی جان پھنسی رہتی ہے۔ اگر آڈٹ پیرا درست ہو تو متعلقہ سرکاری افسر کو خرد برد کی رقم واپس بھی کرنی پڑتی ہے۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے۔
ویسے تو قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ معاملے کی سنگینی کو سامنے رکھتے ہوئے اسے ایف آئی اے اور نیب کو بھیج سکتی ہے۔ اس لیے سرکاری افسران کا خیال ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کومزید اختیارات کی کوئی ضرورت نہیں جب کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا موقف ہے کہ معاملہ نیب یا ایف آئی اے کو تو تب بھیجا جا سکتا ہے جب اس کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔ جب جائزہ لینے میں رکاوٹیں پیدا کی جائیں تو پھر عوام کے منتخب نمایندے کیا کریں۔ جب کوئی وفاقی سیکریٹری لیول کا افسرپبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہی نہ ہو تو کیا کیا جائے، اس لیے انھیں معطل کرنے کا اختیار ضروری ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ آڈٹ پیرا کا جس بھی سطح پر جائزہ لیا جائے اور یہ ثابت ہو جائے کہ یہ آڈٹ پیرا غلط بنایا گیا ہے تو جس افسر نے یہ آڈٹ پیرا بنایا ہو اس کے خلاف بھی ایکشن لینے کا حکم دیا جائے۔ جہاں درست آڈٹ پیرے بننا ضروری ہیں وہاں غلط آڈٹ پیروں کو بننے سے رو کنا بھی ضروری ہے۔
آج کل تو افسر شاہی پہلے ہی ڈری ہوئی ہے، اس نے گو سلو کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ ایسے حالات میں آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن نیب، ایف آئی اے اور محکمہ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کی خوب چاندی ہوئی ہے۔ وہ اس ماحول کا خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ اگر اس نے ملک میں کرپشن روکنی ہے، افسر شاہی کو کام کے لیے تیار کرنا ہے تو اگر نیب کو مختلف وجوہات کی بنیاد پر لگام نہیں ڈالی جا سکتی تو کم از کم محکمہ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس میں ہی اصلاحی اور احتسابی عمل شروع کردیں۔