اپنے جسم کو پھندا بنا کر درخت پر چڑھنے والے سانپ کی ویڈیو وائرل
درختوں کا مکین بھورا سانپ درخت یا ستون کے گرد خود کو لپیٹ کراوپر چڑھتا ہے جس کا پہلا انکشاف ہوا ہے۔
ماہرین نے درخت پر رہنے والے ایک سانپ کی حیرت انگیز صلاحیت پہلی مرتبہ دریافت کی ہے جس میں وہ اپنے جسم کو پھندا بنا کر درخت تو کیا انتہائی ہموار اور پھسلن والے ستون اور کھمبے پر بھی چڑھ سکتا ہے۔
ماہرین درختوں پر رہنے والے بھورے سانپ (براؤن ٹری اسنیک) کو پانچ مرتبہ ایک ہموار اور سیدھے دھاتی سیلنڈر پر چڑھتے ہوئے دیکھا ہے جس کے اوپر پرندوں کے ڈبے رکھے تھے۔ تو Boiga irregularis حیاتیاتی نام والے سانپوں نے پہلے خود کو کھمبے پر لپیٹا اور اس درمیان میں اپنی دم کا ہک بنالیا۔ اس طرح وہ اوپر کی جانب رینگتے ہوئے اپنے شکار کی جانب بڑھنے لگے۔ یہ عین اسی طرح کا عمل ہے جس میں ناریل یا کھجور توڑنے والا کوئی کارکن اپنی پشت پر چمڑے کا پٹہ باندھ کر اسے درخت پر سرکا کر اوپر چڑھتا ہے۔
ماہرین نے سانپوں میں یہ صلاحیت پہلی مرتبہ دیکھی ہے ۔ یونیورسٹی آف سنسناٹی کے بروس جین کہتےہیں کہ درخت کے گرد سانپ کا چھلہ اسے پھسل کر نیچے گرنے سے بچاتا ہے ۔ اس انکشاف کے بعد سانپوں کے آگے بڑھنے کی چار قسمیں دریافت ہوچکی ہیں اور ان میں سے یہ طریقہ سب سے سست رفتار ہے۔
سب سے پلے کولاراڈو اسٹیٹ یونیورسٹی کے جولی ساوج اور تھامس سائبرٹ نے افریقی ملک گوم میں ایک جگہ اس کی حرکت کو نوٹ کیا۔ انہوں نے پرندوں کے ڈربوں کو محفوظ انداز میں ایک دھاتی سلینڈر پر رکھا اور سانپوں کو لبھایا کہ وہ ان کا شکار کریں لیکن پرندوں کو محفوظ رکھا گیا تھا۔ اس کے بعد رات کو دیکھا گیا کہ درخت کے گرد اپنے جسم کو رسی کی صورت میں لپیٹنے کے بعد سانپ نے اوپر چڑھنا شروع کیا اور دو گھنٹے میں دس فٹ ہی اوپر چڑھ سکتا جو ایک بہت سست عمل ہے۔
ماہرین نے اسے 'لاسو لوکوموشن' کا نام دیا ہے اور جانور نے بدلتے تناظر میں خود کوڈھالا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سانپ بجلی کےکھمبوں پر چڑھ کر بجلی کے تعطل کی وجہ بھی بنتے رہتے ہیں۔ اس بات کا انکشاف گوم اور ہوائی جزیرے پر بھی ہوا ہے۔
ماہرین درختوں پر رہنے والے بھورے سانپ (براؤن ٹری اسنیک) کو پانچ مرتبہ ایک ہموار اور سیدھے دھاتی سیلنڈر پر چڑھتے ہوئے دیکھا ہے جس کے اوپر پرندوں کے ڈبے رکھے تھے۔ تو Boiga irregularis حیاتیاتی نام والے سانپوں نے پہلے خود کو کھمبے پر لپیٹا اور اس درمیان میں اپنی دم کا ہک بنالیا۔ اس طرح وہ اوپر کی جانب رینگتے ہوئے اپنے شکار کی جانب بڑھنے لگے۔ یہ عین اسی طرح کا عمل ہے جس میں ناریل یا کھجور توڑنے والا کوئی کارکن اپنی پشت پر چمڑے کا پٹہ باندھ کر اسے درخت پر سرکا کر اوپر چڑھتا ہے۔
ماہرین نے سانپوں میں یہ صلاحیت پہلی مرتبہ دیکھی ہے ۔ یونیورسٹی آف سنسناٹی کے بروس جین کہتےہیں کہ درخت کے گرد سانپ کا چھلہ اسے پھسل کر نیچے گرنے سے بچاتا ہے ۔ اس انکشاف کے بعد سانپوں کے آگے بڑھنے کی چار قسمیں دریافت ہوچکی ہیں اور ان میں سے یہ طریقہ سب سے سست رفتار ہے۔
سب سے پلے کولاراڈو اسٹیٹ یونیورسٹی کے جولی ساوج اور تھامس سائبرٹ نے افریقی ملک گوم میں ایک جگہ اس کی حرکت کو نوٹ کیا۔ انہوں نے پرندوں کے ڈربوں کو محفوظ انداز میں ایک دھاتی سلینڈر پر رکھا اور سانپوں کو لبھایا کہ وہ ان کا شکار کریں لیکن پرندوں کو محفوظ رکھا گیا تھا۔ اس کے بعد رات کو دیکھا گیا کہ درخت کے گرد اپنے جسم کو رسی کی صورت میں لپیٹنے کے بعد سانپ نے اوپر چڑھنا شروع کیا اور دو گھنٹے میں دس فٹ ہی اوپر چڑھ سکتا جو ایک بہت سست عمل ہے۔
ماہرین نے اسے 'لاسو لوکوموشن' کا نام دیا ہے اور جانور نے بدلتے تناظر میں خود کوڈھالا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سانپ بجلی کےکھمبوں پر چڑھ کر بجلی کے تعطل کی وجہ بھی بنتے رہتے ہیں۔ اس بات کا انکشاف گوم اور ہوائی جزیرے پر بھی ہوا ہے۔