سانحہ مچھ دہشت گردی کی روک تھام کیلئے موثر حکمت عملی کی ضرورت
کوئٹہ دھرنے کو اگر پہلے دن ہی صحیح طریقے سے ’’ہینڈل‘‘ کیا جاتا تو یہ اتنا بڑا ایشو نہیں بنتا۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں سانحہ مچھ کے دس شہداء کی میتوں کو لے کر دیا جانے والا دھرنا6 روز تک سخت سردی اور یخ بستہ ہوائوں میں بیٹھے لواحقین اور ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد جن میں خواتین بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ نوجوان بھی شامل تھے نے بالآخر ختم کرنے کا اعلان کیا اور لواحقین نے میتوں کو دفنانے کی اجازت دے دی۔
تدفین کے بعد وزیراعظم عمران خان کوئٹہ آئے اور اُنہوں نے دھرنا کے شرکاء اور لواحقین سے ملاقات اور تعزیت کی۔ اس موقع پر اُن کا کہنا تھا کہ اس افسوسناک سانحے میں ملوث دہشت گردوں کو ختم کرکے دم لیں گے، بھارت بلوچستان میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے، 35 سے40 لوگ دہشت گردی میں ملوث ہیں انہیں ختم کردیا جائے گا۔
اُنہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ اُنہوں نے سانحہ مچھ کیلئے دھرنا دینے والوں کیلئے بلیک میل کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ یہ لفظ اُنہوں نے پی ڈی ایم کیلئے استعمال کیا تھا۔ واضح رہے کہ سانحہ مچھ کے شہداء کیلئے کوئٹہ کی سخت سردی منفی درجہ حرارت میں6 روز تک جاری رہنے والے اس دھرنے نے ایک سیاسی دھرنے کا بھی روپ دھار لیا تھا۔
جہاں پی ڈی ایم کی لیڈر شپ بھی آئی جس میں پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز ' وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ' سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی' سابق وفاقی وزراء احسن اقبال' مریم اورنگزیب اور سابق ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری قابل ذکر ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی کوئٹہ کے دھرنے میں آکر سانحہ مچھ پر افسوس کا اظہار کیا اور تعزیت کی۔
سانحہ مچھ پر دیا جانے والا یہ دھرنا نہ صرف کوئٹہ میں جاری رہا بلکہ ملک کے دیگر شہروں خصوصاً کراچی' لاہور' اسلام آباد میں بھی احتجاجی دھرنے دیئے گئے اور اس افسوسناک واقعہ پر مظاہرے کئے گئے۔ کوئٹہ میں دیئے جانے والے اس دھرنے کے شرکاء نے جہاں دیگر مطالبات رکھے وہاں اُن کے ایک مطالبے جس میں اُن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان جب تک خود کوئٹہ نہیں آتے اُس وقت تک میتوں کو دفنایا نہیں جائے گا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے دھرنے کے شرکاء اور لواحقین کے دیگر تمام مطالبات شروع میں ہی تسلیم کر لئے تھے تاہم وزیراعظم عمران خان کے کوئٹہ آنے کے حوالے سے اُن کے اس مطالبے کو غیر مناسب قرار دیتے ہوئے پہلے میتوں کو دفنانے کی بات کی اور خود وزیراعظم عمران خان کا بھی یہ کہنا تھا کہ پہلے وہ میتیں دفنا دیں وہ فوراً کوئٹہ آجائیں گے ۔6 روز میں دھرنے کے شرکاء اور لواحقین سے مذاکرات کے متعدد دور بھی ہوئے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد' وزیر مملکت علی زیدی' وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری خصوصی طور پر کوئٹہ آئے لیکن دھرنے کے شرکاء اور لواحقین کے ساتھ ہونے والے مذاکرات وزیراعظم عمران خان کی دھرنے میں آنے کی شرط پر ڈیڈ لاک کا شکار ہوئے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال جو کہ اس سانحہ سے دو روز قبل اپنی فیملی کے ہمراہ چھٹیاں گزارنے دبئی چلے گئے تھے سانحہ کے3 دن بعد چھٹیاں منسوخ کرکے کوئٹہ واپس پہنچے اور دھرنے میں گئے، تاہم دھرنے کے شرکاء اپنے مطالبات پر اڑے رہے۔
پی ڈی ایم کی قیادت نے کوئٹہ دھرنے میں آکر وزیراعظم عمران خان کے رویئے کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان اپنی انا چھوڑ کر کوئٹہ آئیں ۔ عمران خان نہ آئے تو قوم انہیں اب کرسی پر بیٹھنے نہیں دے گی ۔
نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرتے ہوئے دھشت گردوں کی کمر توڑنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن دہشت گردوں کی کمر ابھی تک نہیں ٹوٹی ۔ کوئٹہ دھرنا جس پر 6 روز تک پوری قوم کی نظریں مرکوز تھیں ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اور ان کے وزراء و ارکان اسمبلی کی ٹیم بارہا دھرنے کے شرکاء سے رابطے کرتے رہے اور انہیں راضی کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔
پی ڈی ایم کی قیادت سمیت دیگر سیاسی شخصیات کی دھرنے میں شرکت حکومت پر تنقید اور پھر حکومتی وزراء کی جانب سے جوابی وار کے بیانات نے اس دھرنے کو''سیاسی دھرنے'' میں تبدیل کردیا جس سے صورتحال بہتری کے بجائے خرابی کی طرف چل نکلی حالانکہ بلوچستان میں بسنے والی تمام اقوام اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے اس واقعے کو افسوسناک قرار دیا، یہاں تک کہ کوئٹہ میں اس واقعے پر ہڑتال کی گئی۔
اس نازک صورتحال کو دیکھتے ہوئے بعض سنجیدہ حلقوں اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے ہمت نہ ہاری اور دھرنے کے شرکاء و لواحقین سے وقتاً فوقتاً رابطے کر کے اُنہیں آمادہ کرنے کی کوششیں جاری رکھیں اور بالٓاخر 6 روز بعد دھرنے کے شرکاء اور لواحقین میتوں کو دفنانے پر رضا مند ہوگئے اور اُن کی رضا مندی کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی کوئٹہ آنے کا اعلان کردیا۔
چنانچہ میتوں کو سپرد خاک کرنے کے بعد کچھ گھنٹے میں وزیراعظم عمران خان کوئٹہ پہنچے اور اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت اور اس سانحہ کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت پر بریفنگ کے بعد دھرنے کے شرکاء و لواحقین سے ملاقات اور تعزیت کی۔ تاہم وزیراعظم عمران خان کے اس مختصر دورے کے دوران پرائیویٹ میڈیا کو دور رکھا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے صرف سرکاری میڈیا سے حسب روایت بات چیت کی اور اسے سرکاری ٹی وی سے اُس وقت نشر کیا گیا جب وہ کوئٹہ سے اسلام آباد کیلئے روانہ ہوئے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق کوئٹہ دھرنے کو اگر پہلے دن ہی صحیح طریقے سے ''ہینڈل'' کیا جاتا تو یہ اتنا بڑا ایشو نہیں بنتا اور نہ ہی سیاسی شکل اختیار کرتا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنی خامیوں پر نظر ڈالنی چاہیے اور اس دوران اُن سے جو غلطیاں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہوئی ہیں اُنہیں درست اور ایسی غلطیوں سے اجتناب کرتے ہوئے اپنی کمزوریوں کو دور کرنا چاہیے۔
ان مبصرین کے مطابق دھرنے کے شرکاء کا رویہ بھی مناسب نہیں تھا وہ بھی معاملے کوبند گلی کی طرف لے جا رہے تھے جس سے ملک دُشمن قوتوں کے عزائم کو فائدہ پہنچ رہا تھا اور فرقہ واریت ' نفرت اور تعصب کو ہوا مل رہی تھی اگر یہ دھرنا مزید طول پکڑتا تو یقیناً اس کے نتائج اچھے نہ نکلتے جس کا خمیازہ آنے والے دنوں میں اُن سب کو بھگتنا پڑتا جس میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ دھرنے پر بیٹھے لوگ او روہ سیاسی قوتیں جو اس دھرنے کو تقویت دینے کی باتیں کر رہی تھیں بری الذمہ نہ ہوتیں ۔ تاہم ان مبصرین کے مطابق اب بھی یہ دھرنا ہزارہ کمیونٹی میں تقسیم کا باعث بنا ہے جس کے اثرات مستقبل میں دکھائی دیں گے ؟
تدفین کے بعد وزیراعظم عمران خان کوئٹہ آئے اور اُنہوں نے دھرنا کے شرکاء اور لواحقین سے ملاقات اور تعزیت کی۔ اس موقع پر اُن کا کہنا تھا کہ اس افسوسناک سانحے میں ملوث دہشت گردوں کو ختم کرکے دم لیں گے، بھارت بلوچستان میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے، 35 سے40 لوگ دہشت گردی میں ملوث ہیں انہیں ختم کردیا جائے گا۔
اُنہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ اُنہوں نے سانحہ مچھ کیلئے دھرنا دینے والوں کیلئے بلیک میل کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ یہ لفظ اُنہوں نے پی ڈی ایم کیلئے استعمال کیا تھا۔ واضح رہے کہ سانحہ مچھ کے شہداء کیلئے کوئٹہ کی سخت سردی منفی درجہ حرارت میں6 روز تک جاری رہنے والے اس دھرنے نے ایک سیاسی دھرنے کا بھی روپ دھار لیا تھا۔
جہاں پی ڈی ایم کی لیڈر شپ بھی آئی جس میں پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز ' وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ' سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی' سابق وفاقی وزراء احسن اقبال' مریم اورنگزیب اور سابق ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری قابل ذکر ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی کوئٹہ کے دھرنے میں آکر سانحہ مچھ پر افسوس کا اظہار کیا اور تعزیت کی۔
سانحہ مچھ پر دیا جانے والا یہ دھرنا نہ صرف کوئٹہ میں جاری رہا بلکہ ملک کے دیگر شہروں خصوصاً کراچی' لاہور' اسلام آباد میں بھی احتجاجی دھرنے دیئے گئے اور اس افسوسناک واقعہ پر مظاہرے کئے گئے۔ کوئٹہ میں دیئے جانے والے اس دھرنے کے شرکاء نے جہاں دیگر مطالبات رکھے وہاں اُن کے ایک مطالبے جس میں اُن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان جب تک خود کوئٹہ نہیں آتے اُس وقت تک میتوں کو دفنایا نہیں جائے گا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے دھرنے کے شرکاء اور لواحقین کے دیگر تمام مطالبات شروع میں ہی تسلیم کر لئے تھے تاہم وزیراعظم عمران خان کے کوئٹہ آنے کے حوالے سے اُن کے اس مطالبے کو غیر مناسب قرار دیتے ہوئے پہلے میتوں کو دفنانے کی بات کی اور خود وزیراعظم عمران خان کا بھی یہ کہنا تھا کہ پہلے وہ میتیں دفنا دیں وہ فوراً کوئٹہ آجائیں گے ۔6 روز میں دھرنے کے شرکاء اور لواحقین سے مذاکرات کے متعدد دور بھی ہوئے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد' وزیر مملکت علی زیدی' وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری خصوصی طور پر کوئٹہ آئے لیکن دھرنے کے شرکاء اور لواحقین کے ساتھ ہونے والے مذاکرات وزیراعظم عمران خان کی دھرنے میں آنے کی شرط پر ڈیڈ لاک کا شکار ہوئے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال جو کہ اس سانحہ سے دو روز قبل اپنی فیملی کے ہمراہ چھٹیاں گزارنے دبئی چلے گئے تھے سانحہ کے3 دن بعد چھٹیاں منسوخ کرکے کوئٹہ واپس پہنچے اور دھرنے میں گئے، تاہم دھرنے کے شرکاء اپنے مطالبات پر اڑے رہے۔
پی ڈی ایم کی قیادت نے کوئٹہ دھرنے میں آکر وزیراعظم عمران خان کے رویئے کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان اپنی انا چھوڑ کر کوئٹہ آئیں ۔ عمران خان نہ آئے تو قوم انہیں اب کرسی پر بیٹھنے نہیں دے گی ۔
نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرتے ہوئے دھشت گردوں کی کمر توڑنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن دہشت گردوں کی کمر ابھی تک نہیں ٹوٹی ۔ کوئٹہ دھرنا جس پر 6 روز تک پوری قوم کی نظریں مرکوز تھیں ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اور ان کے وزراء و ارکان اسمبلی کی ٹیم بارہا دھرنے کے شرکاء سے رابطے کرتے رہے اور انہیں راضی کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔
پی ڈی ایم کی قیادت سمیت دیگر سیاسی شخصیات کی دھرنے میں شرکت حکومت پر تنقید اور پھر حکومتی وزراء کی جانب سے جوابی وار کے بیانات نے اس دھرنے کو''سیاسی دھرنے'' میں تبدیل کردیا جس سے صورتحال بہتری کے بجائے خرابی کی طرف چل نکلی حالانکہ بلوچستان میں بسنے والی تمام اقوام اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے اس واقعے کو افسوسناک قرار دیا، یہاں تک کہ کوئٹہ میں اس واقعے پر ہڑتال کی گئی۔
اس نازک صورتحال کو دیکھتے ہوئے بعض سنجیدہ حلقوں اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے ہمت نہ ہاری اور دھرنے کے شرکاء و لواحقین سے وقتاً فوقتاً رابطے کر کے اُنہیں آمادہ کرنے کی کوششیں جاری رکھیں اور بالٓاخر 6 روز بعد دھرنے کے شرکاء اور لواحقین میتوں کو دفنانے پر رضا مند ہوگئے اور اُن کی رضا مندی کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی کوئٹہ آنے کا اعلان کردیا۔
چنانچہ میتوں کو سپرد خاک کرنے کے بعد کچھ گھنٹے میں وزیراعظم عمران خان کوئٹہ پہنچے اور اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت اور اس سانحہ کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت پر بریفنگ کے بعد دھرنے کے شرکاء و لواحقین سے ملاقات اور تعزیت کی۔ تاہم وزیراعظم عمران خان کے اس مختصر دورے کے دوران پرائیویٹ میڈیا کو دور رکھا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے صرف سرکاری میڈیا سے حسب روایت بات چیت کی اور اسے سرکاری ٹی وی سے اُس وقت نشر کیا گیا جب وہ کوئٹہ سے اسلام آباد کیلئے روانہ ہوئے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق کوئٹہ دھرنے کو اگر پہلے دن ہی صحیح طریقے سے ''ہینڈل'' کیا جاتا تو یہ اتنا بڑا ایشو نہیں بنتا اور نہ ہی سیاسی شکل اختیار کرتا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنی خامیوں پر نظر ڈالنی چاہیے اور اس دوران اُن سے جو غلطیاں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہوئی ہیں اُنہیں درست اور ایسی غلطیوں سے اجتناب کرتے ہوئے اپنی کمزوریوں کو دور کرنا چاہیے۔
ان مبصرین کے مطابق دھرنے کے شرکاء کا رویہ بھی مناسب نہیں تھا وہ بھی معاملے کوبند گلی کی طرف لے جا رہے تھے جس سے ملک دُشمن قوتوں کے عزائم کو فائدہ پہنچ رہا تھا اور فرقہ واریت ' نفرت اور تعصب کو ہوا مل رہی تھی اگر یہ دھرنا مزید طول پکڑتا تو یقیناً اس کے نتائج اچھے نہ نکلتے جس کا خمیازہ آنے والے دنوں میں اُن سب کو بھگتنا پڑتا جس میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ دھرنے پر بیٹھے لوگ او روہ سیاسی قوتیں جو اس دھرنے کو تقویت دینے کی باتیں کر رہی تھیں بری الذمہ نہ ہوتیں ۔ تاہم ان مبصرین کے مطابق اب بھی یہ دھرنا ہزارہ کمیونٹی میں تقسیم کا باعث بنا ہے جس کے اثرات مستقبل میں دکھائی دیں گے ؟