حکومت کے لئے گندم آٹا چیلنجز میں سنگین اضافہ ہو سکتا ہے
پاکستان کو ’’اناج گھر‘‘ کہا جاتا تھا لیکن گندم آٹا کے حوالے سے اب یہ ’’اندھیر نگری‘‘ بن چکا ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی معاشی ترقی کا راز، سرکاری محکموں کی بزنس فرینڈلی پالیسیاں اور اقدامات ہیں، صنعتکار کو سرکاری تحفظ، تعاون کی فراہمی اور انڈسٹری کیلئے درکار خام مال کی بلا تعطل وافر دستیابی کسی بھی ملک کی صنعت سازی اور سرمایہ کاری کی سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان کی بات کریں تو یہاں الٹی گنگا بہتی ہے،کوئی شریف بندہ کاروبار کرنے کا ارادہ کر لے تو تمام متعلقہ سرکاری محکمے ''ماما کیدو'' بن جاتے ہیں اور ''آٹا گہندی ہلدی کیوں ایں'' والے محاورے کی مانند ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ معاملات کو الجھایا اور لٹکایا جائے۔
سرکاری بحر ظلمات عبور کرنے کے بعد فیکٹری یا کاروبار شروع ہوجائے تو پھر اسے چلانے کیلئے''سپیڈ منی''کے نام پر سرکاری محکموں کو ''بھتہ'' دینا لازم ہوجاتا ہے۔ اس تصویر کا دوسرا رخ ایک تلخ حقیقت ہے، قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہماری معیشت ''ان ڈاکومنٹڈ'' ہے جس کی ایک بڑی وجہ ہمارے محکموں کے بنائے ایسے قوانین اورقواعد وضوابط ہیں جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے، ان میں اتنے سقم اور ابہام ہیں کہ کاروباری افراد کبھی ناجائز منافع خوری کیلئے اور کبھی جائز منافع کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بچنے کیلئے غیر قانونی کام کر جاتے ہیں۔
اپنے بچپن سے ہم سب یہی سنتے اور کہتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی معیشت کی بنیاد زراعت پر منحصر ہے لیکن آج یہ حالت ہے کہ ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود غذائی خودکفالت سے محروم ہو چکے ہیں، پاکستان میں سالانہ 2کروڑ60 لاکھ ٹن سے زائد گندم پیدا ہوتی ہے جو ملکی آبادی کے تناسب سے وافر ہے لیکن تبدیلی سرکار کی غیر مستحکم، نمائشی اور زمینی حقائق کے مخالف پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت35 لاکھ ٹن گندم دوسرے ممالک سے خرید کر پاکستان لائی جا رہی ہے۔
ماضی کی حکومت پر مصنوعی طریقہ سے ڈالر کی قدر کم رکھ کر قوم کو دھوکہ دینے اور معیشت کو تباہ کرنے کا الزام عائد کرنے والے وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن اور عوام کے شدید ردعمل کے خوف سے آٹا قیمت کو مصنوعی طور پر کم رکھنے پر مجبور ہیں اور اس کیلئے اربوں روپے ماہانہ کی سبسڈی کا بوجھ اٹھایا جا رہا ہے۔2 ہزار روپے فی من لاگت والی مقامی اور 2500 روپے فی من لاگت والی امپورٹڈگندم فلورملز کو 1475 روپے میں فروخت کی جا رہی ہے تا کہ آٹا قیمت 860 روپے فی تھیلا پر برقرار رہے۔
اس وقت ملک بھر میں 1400 کے لگ بھگ فلور ملز موجود ہیں جن میں سے 985 سے زائد پنجاب میں ہیں ۔ فلورملز کا خام مال گندم ہے اور گندم کی ملکی پیداوار کا 70 فیصد سے زائد فلورملز ہی استعمال کرتی ہیں۔ چونکہ ہماری حکومت ہر کسی کو''چور'' کہنے اور سمجھنے میں آزاد ہے لہذا جینوئن کاروبار کرنے والی ملز اور سیزنل فلورملز کو بلا تفریق ''چور' ' قرار دیکر انہیں گندم خریداری کے عمل سے باہر کر کے حکومت نے اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری اور آئندہ سیزن میں بھی یہی غلطی دہرائے جانے کا خدشہ ہے۔
پنجاب کے سینئر وزیر اور وزیر خوراک عبدالعلیم خان کا یہ موقف نہایت درست اور حقیقت پر مبنی ہے کہ حکومت کو ٹارگٹڈ سبسڈی کا نظام بنانے کے بعد گندم خریداری کے عمل سے باہر آنا چاہئے، حکومت صرف مستحق افراد کو سستا آٹا فراہم کرے اور فوڈ سکیورٹی کیلئے ایک محدود مقدار میں گندم خرید کر ذخیرہ کرے، آٹا گندم کی مارکیٹ پر سرکاری کنٹرول ختم کر کے اسے آزاد کردیا جائے تاکہ مارکیٹ کی طلب اور رسد اور آٹا کے معیار کے مطابق انڈسٹری میں باہمی صحت مند مقابلہ ہونے سے عوام کوآٹا ملے۔
انتہائی غریب خاندانوں کو کسی بھی شفاف طریقہ کے ذریعے سبسڈی دیکر سستا آٹا فراہم کیا جا سکتا ہے۔ رہ گیا گندم خریداری کا معاملہ تو 20 سے30 فیصد فلورملز کو چھوڑ کر باقی تمام ملز آٹا بناتی اور بیچتی ہیں، یہ ملیں اپنی خام مال ضروریات کی تکمیل کیلئے کسان سے گندم خریدیں گی اور ان کی باہمی مسابقت کے نتیجہ میں کسان کو بہتر قیمت بھی ملے گی ۔گندم آٹا کے حوالے سے سب انتظامی، مالیاتی خرابیوں کی ''ماں'' سرکاری کوٹہ سسٹم ہے، اگر حکومت مارکیٹ آزاد کر دے اور سرکاری گندم کوٹہ ختم ہو جائے تو سب معاملات فوری ٹھیک ہو سکتے ہیں ۔
پاکستان کو ''اناج گھر'' کہا جاتا تھا لیکن گندم آٹا کے حوالے سے اب یہ ''اندھیر نگری'' بن چکا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ اچھے بیج کی عدم دستیابی ہے، پاکستان میں اربوں روپے ''تحقیق'' کے نام پر خرچ کرنے کے باوجود اچھی پیداوار دینے والا بیج دستیاب نہیں اور نہ ہی سنجیدگی سے یہ حکومت اس بارے کام کر رہی ہے، ہمسایہ ملک میں ڈرل فارمنگ سے گندم کی پیداوار فی ایکڑ 60 من سے تجاوز کر چکی لیکن ہم آج بھی بیچ راستے میں ہیں۔
کسان کو مہنگے زرعی لوازمات اور مہنگی بجلی ملتی ہے،کاشت کے دوران ہی وہ اپنے خرچے پورے کرنے کیلئے کھڑی فصل ہی آڑھتی کو فروخت کر دیتا ہے،کسان کے نام پر آڑھتی یہ گندم محکمہ خوراک کو فروخت کرتا ہے، محکمہ خوراک کا سنٹر سٹاف فی بوری ایک تا دو کلو اضافی وزن لیئے بغیر گندم نہیں خریدتا کیونکہ سٹاف کو اوپر تک حصہ بقدر جثہ پہنچانا ہوتا ہے۔
گندم خریداری کے دوران بھی مختلف سطح کے افسروں کیلئے 2تا3 روپے فی بوری ''سپیڈ منی'' فکس ہے اور ریلیز سیزن میں بھی یہی ریٹ ہوتا ہے۔ محکمہ خوراک کے اصل ڈاکو وہ افسر یا ملازم ہیں جو گرا ہوا پھل کھانے کی بجائے پورا درخت ہی کاٹ کر گھر لیجانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوٹہ بیچنے والی یا سرکاری گندم سے آٹا تیار کر کے پشاور بھیجنے والی مل سے ماہانہ لاکھوں روپے وصول کر کے سرکاری آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں۔
ویسے تو باردانہ ، ترپالوں کی خریداری میں کروڑوں روپے کمیشن کے قصے بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے زبان زد عام ہیں لیکن حیرت اس امر کی ہے کہ گندم بحران کو ختم کرنے کیلئے تحریک انصاف کی حکومت نے دودھ کی رکھوالی پر بلے بٹھا دیئے ہیں۔
ہر معاملہ کی تحقیقات ''انٹیلیجنس بیورو'' سے کروانے کے عادی ہمارے وزیر اعظم اور ان کے وسیم اکرم پلس وزیر اعلی کو آج تک کیوں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ محکمہ خوراک پنجاب کی 9 فیلڈ پوسٹس میں سے 7 پر تعینات ڈیپوٹیشن پر آئے ڈپٹی ڈائریکٹرز میں سے تین، چار کے ''اثاثوں'' میں کس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، نیب کے اعلی ترین حکام بھی کسی غیر جانبدار اور محنتی افسر کی ڈیوٹی لگائیں تو اس محکمہ میں تھوک کے حساب سے''اثاثوں سے زائد آمدن'' کے مصدقہ کیس مل جائیں گے۔
ڈیپوٹیشن پر آئے چند افسر وں نے ''روزہ'' نہیں توڑا ہے اور وہ کسی کرپشن میں ملوث نہیں لیکن انہیں ضلعی انتظامیہ کی روایتی رنگ باز ی اور جوڑ توڑ کی سازشی حرکتوں سے سخت پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔ سیکرٹری فوڈ شہریار سلطان نہایت ایماندار افسر ہیں، بسا اوقات وہ لہجے اور رویے میں سختی یا اکھڑ پن کا شکار ضرور ہو جاتے ہیں لیکن منافقت اور خیانت نہیں کرتے بالکل ایسے ہی ڈائریکٹر فوڈ دانش افضال نے چند ماہ کے دوران ہی معاملات کو سٹریم لائن کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کیلئے سب سے بڑا چیلنج گندم خریداری ہے۔
دوسری جانب وفاقی سیکرٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی عبدالغفران میمن بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں آٹاگندم اور دیگر زرعی اجناس کی مناسب داموں وافر دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے،اس مقصد کیلئے وہ مختلف تجاویز پر کام کر رہے ہیں اور وزیر اعظم بھی ان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ موجودہ اور مستقبل کے حالات کے تناظر میںآٹا گندم کا آنے والا بحران زیادہ سنگین ہو سکتا ہے اس کیلئے سنجیدہ اور قابل عمل اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان کی بات کریں تو یہاں الٹی گنگا بہتی ہے،کوئی شریف بندہ کاروبار کرنے کا ارادہ کر لے تو تمام متعلقہ سرکاری محکمے ''ماما کیدو'' بن جاتے ہیں اور ''آٹا گہندی ہلدی کیوں ایں'' والے محاورے کی مانند ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ معاملات کو الجھایا اور لٹکایا جائے۔
سرکاری بحر ظلمات عبور کرنے کے بعد فیکٹری یا کاروبار شروع ہوجائے تو پھر اسے چلانے کیلئے''سپیڈ منی''کے نام پر سرکاری محکموں کو ''بھتہ'' دینا لازم ہوجاتا ہے۔ اس تصویر کا دوسرا رخ ایک تلخ حقیقت ہے، قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہماری معیشت ''ان ڈاکومنٹڈ'' ہے جس کی ایک بڑی وجہ ہمارے محکموں کے بنائے ایسے قوانین اورقواعد وضوابط ہیں جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے، ان میں اتنے سقم اور ابہام ہیں کہ کاروباری افراد کبھی ناجائز منافع خوری کیلئے اور کبھی جائز منافع کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بچنے کیلئے غیر قانونی کام کر جاتے ہیں۔
اپنے بچپن سے ہم سب یہی سنتے اور کہتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی معیشت کی بنیاد زراعت پر منحصر ہے لیکن آج یہ حالت ہے کہ ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود غذائی خودکفالت سے محروم ہو چکے ہیں، پاکستان میں سالانہ 2کروڑ60 لاکھ ٹن سے زائد گندم پیدا ہوتی ہے جو ملکی آبادی کے تناسب سے وافر ہے لیکن تبدیلی سرکار کی غیر مستحکم، نمائشی اور زمینی حقائق کے مخالف پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت35 لاکھ ٹن گندم دوسرے ممالک سے خرید کر پاکستان لائی جا رہی ہے۔
ماضی کی حکومت پر مصنوعی طریقہ سے ڈالر کی قدر کم رکھ کر قوم کو دھوکہ دینے اور معیشت کو تباہ کرنے کا الزام عائد کرنے والے وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن اور عوام کے شدید ردعمل کے خوف سے آٹا قیمت کو مصنوعی طور پر کم رکھنے پر مجبور ہیں اور اس کیلئے اربوں روپے ماہانہ کی سبسڈی کا بوجھ اٹھایا جا رہا ہے۔2 ہزار روپے فی من لاگت والی مقامی اور 2500 روپے فی من لاگت والی امپورٹڈگندم فلورملز کو 1475 روپے میں فروخت کی جا رہی ہے تا کہ آٹا قیمت 860 روپے فی تھیلا پر برقرار رہے۔
اس وقت ملک بھر میں 1400 کے لگ بھگ فلور ملز موجود ہیں جن میں سے 985 سے زائد پنجاب میں ہیں ۔ فلورملز کا خام مال گندم ہے اور گندم کی ملکی پیداوار کا 70 فیصد سے زائد فلورملز ہی استعمال کرتی ہیں۔ چونکہ ہماری حکومت ہر کسی کو''چور'' کہنے اور سمجھنے میں آزاد ہے لہذا جینوئن کاروبار کرنے والی ملز اور سیزنل فلورملز کو بلا تفریق ''چور' ' قرار دیکر انہیں گندم خریداری کے عمل سے باہر کر کے حکومت نے اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری اور آئندہ سیزن میں بھی یہی غلطی دہرائے جانے کا خدشہ ہے۔
پنجاب کے سینئر وزیر اور وزیر خوراک عبدالعلیم خان کا یہ موقف نہایت درست اور حقیقت پر مبنی ہے کہ حکومت کو ٹارگٹڈ سبسڈی کا نظام بنانے کے بعد گندم خریداری کے عمل سے باہر آنا چاہئے، حکومت صرف مستحق افراد کو سستا آٹا فراہم کرے اور فوڈ سکیورٹی کیلئے ایک محدود مقدار میں گندم خرید کر ذخیرہ کرے، آٹا گندم کی مارکیٹ پر سرکاری کنٹرول ختم کر کے اسے آزاد کردیا جائے تاکہ مارکیٹ کی طلب اور رسد اور آٹا کے معیار کے مطابق انڈسٹری میں باہمی صحت مند مقابلہ ہونے سے عوام کوآٹا ملے۔
انتہائی غریب خاندانوں کو کسی بھی شفاف طریقہ کے ذریعے سبسڈی دیکر سستا آٹا فراہم کیا جا سکتا ہے۔ رہ گیا گندم خریداری کا معاملہ تو 20 سے30 فیصد فلورملز کو چھوڑ کر باقی تمام ملز آٹا بناتی اور بیچتی ہیں، یہ ملیں اپنی خام مال ضروریات کی تکمیل کیلئے کسان سے گندم خریدیں گی اور ان کی باہمی مسابقت کے نتیجہ میں کسان کو بہتر قیمت بھی ملے گی ۔گندم آٹا کے حوالے سے سب انتظامی، مالیاتی خرابیوں کی ''ماں'' سرکاری کوٹہ سسٹم ہے، اگر حکومت مارکیٹ آزاد کر دے اور سرکاری گندم کوٹہ ختم ہو جائے تو سب معاملات فوری ٹھیک ہو سکتے ہیں ۔
پاکستان کو ''اناج گھر'' کہا جاتا تھا لیکن گندم آٹا کے حوالے سے اب یہ ''اندھیر نگری'' بن چکا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ اچھے بیج کی عدم دستیابی ہے، پاکستان میں اربوں روپے ''تحقیق'' کے نام پر خرچ کرنے کے باوجود اچھی پیداوار دینے والا بیج دستیاب نہیں اور نہ ہی سنجیدگی سے یہ حکومت اس بارے کام کر رہی ہے، ہمسایہ ملک میں ڈرل فارمنگ سے گندم کی پیداوار فی ایکڑ 60 من سے تجاوز کر چکی لیکن ہم آج بھی بیچ راستے میں ہیں۔
کسان کو مہنگے زرعی لوازمات اور مہنگی بجلی ملتی ہے،کاشت کے دوران ہی وہ اپنے خرچے پورے کرنے کیلئے کھڑی فصل ہی آڑھتی کو فروخت کر دیتا ہے،کسان کے نام پر آڑھتی یہ گندم محکمہ خوراک کو فروخت کرتا ہے، محکمہ خوراک کا سنٹر سٹاف فی بوری ایک تا دو کلو اضافی وزن لیئے بغیر گندم نہیں خریدتا کیونکہ سٹاف کو اوپر تک حصہ بقدر جثہ پہنچانا ہوتا ہے۔
گندم خریداری کے دوران بھی مختلف سطح کے افسروں کیلئے 2تا3 روپے فی بوری ''سپیڈ منی'' فکس ہے اور ریلیز سیزن میں بھی یہی ریٹ ہوتا ہے۔ محکمہ خوراک کے اصل ڈاکو وہ افسر یا ملازم ہیں جو گرا ہوا پھل کھانے کی بجائے پورا درخت ہی کاٹ کر گھر لیجانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوٹہ بیچنے والی یا سرکاری گندم سے آٹا تیار کر کے پشاور بھیجنے والی مل سے ماہانہ لاکھوں روپے وصول کر کے سرکاری آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں۔
ویسے تو باردانہ ، ترپالوں کی خریداری میں کروڑوں روپے کمیشن کے قصے بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے زبان زد عام ہیں لیکن حیرت اس امر کی ہے کہ گندم بحران کو ختم کرنے کیلئے تحریک انصاف کی حکومت نے دودھ کی رکھوالی پر بلے بٹھا دیئے ہیں۔
ہر معاملہ کی تحقیقات ''انٹیلیجنس بیورو'' سے کروانے کے عادی ہمارے وزیر اعظم اور ان کے وسیم اکرم پلس وزیر اعلی کو آج تک کیوں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ محکمہ خوراک پنجاب کی 9 فیلڈ پوسٹس میں سے 7 پر تعینات ڈیپوٹیشن پر آئے ڈپٹی ڈائریکٹرز میں سے تین، چار کے ''اثاثوں'' میں کس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، نیب کے اعلی ترین حکام بھی کسی غیر جانبدار اور محنتی افسر کی ڈیوٹی لگائیں تو اس محکمہ میں تھوک کے حساب سے''اثاثوں سے زائد آمدن'' کے مصدقہ کیس مل جائیں گے۔
ڈیپوٹیشن پر آئے چند افسر وں نے ''روزہ'' نہیں توڑا ہے اور وہ کسی کرپشن میں ملوث نہیں لیکن انہیں ضلعی انتظامیہ کی روایتی رنگ باز ی اور جوڑ توڑ کی سازشی حرکتوں سے سخت پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔ سیکرٹری فوڈ شہریار سلطان نہایت ایماندار افسر ہیں، بسا اوقات وہ لہجے اور رویے میں سختی یا اکھڑ پن کا شکار ضرور ہو جاتے ہیں لیکن منافقت اور خیانت نہیں کرتے بالکل ایسے ہی ڈائریکٹر فوڈ دانش افضال نے چند ماہ کے دوران ہی معاملات کو سٹریم لائن کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کیلئے سب سے بڑا چیلنج گندم خریداری ہے۔
دوسری جانب وفاقی سیکرٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی عبدالغفران میمن بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں آٹاگندم اور دیگر زرعی اجناس کی مناسب داموں وافر دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے،اس مقصد کیلئے وہ مختلف تجاویز پر کام کر رہے ہیں اور وزیر اعظم بھی ان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ موجودہ اور مستقبل کے حالات کے تناظر میںآٹا گندم کا آنے والا بحران زیادہ سنگین ہو سکتا ہے اس کیلئے سنجیدہ اور قابل عمل اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔