پی ڈی ایم کو مقاصد کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا

اپوزیشن جماعتوں کو ماہ فروری کے آغاز پر اسلام آباد لانگ مارچ کے حوالے سے واضح لائن لینی ہوگی۔

اپوزیشن جماعتوں کو ماہ فروری کے آغاز پر اسلام آباد لانگ مارچ کے حوالے سے واضح لائن لینی ہوگی۔

حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی جانب سے حکومت کے خلاف جاری تحریک کے دوسرے مرحلے کے لیے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق خیبرپختونخوا میں ریلیوں اور جلسوں کا انعقاد تمام ہوا، نومبر کے مہینہ میں پشاور میں جلسہ کے انعقاد کے بعد دسمبر میں مردان میں ریلی اور جلسہ کا انعقاد کیا گیا جس کے بعد جنوری میں بنوں اور ملاکنڈ میں بھی ایسی ہی ریلیاں اور جلسے منعقد کرتے ہوئے حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی۔

یہ دباؤ صرف مرکزی حکومت پر نہیں بلکہ خیبرپختونخوا حکومت پر بھی ہے کیونکہ خیبرپختونخوا میں بھی کسی اور کی نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف ہی کی حکومت ہے اور وزیراعلیٰ محمودخان پی ٹی آئی ہی کے نمائندہ ہیں،اپوزیشن کی جانب سے ڈالا جانے والا یہ دباؤ حکومتی صفوں میں محسوس تو ضرور ہوتا ہے تاہم اس دباؤ کی وجہ سے ایسی کوئی صورت حال نہیں بن پا رہی کہ جو اپوزیشن کے حق میں جاتی ہو، اپوزیشن جلسے پہ جلسہ اور ریلی پہ ریلی کا انعقاد تو کر رہی ہے تاہم جس مقصد کے حصول کے لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے وہ حاصل نہیں ہو پا رہا ۔

انہی سطور میں اس سے پہلے بھی کہا گیا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں سینٹ انتخابات کے بائیکاٹ اور اسمبلیوں سے استعفوں کی بات تو کر رہی ہیں لیکن شاید ہی ایسا ہو پائے کیونکہ اس کا واضح مطلب پاکستان تحریک انصاف کو پارلیمان کے ایوان بالا میں دوتہائی اکثریت پلیٹ میں رکھ کر دینے کے مترادف ہوگا اور حسب توقع نہ صرف یہ کہ اپوزیشن جماعتیں سردست اسمبلیوں سے استعفے دینے سے پیچھے ہٹ گئی ہیں بلکہ ساتھ ہی سینٹ اور ضمنی انتخابات میں حصہ بھی لے رہی ہیں کیونکہ کسی بھی الیکشن کے بائیکاٹ کا مطلب اپوزیشن جماعتیں بخوبی جانتی ہیں۔

اگر اپوزیشن جماعتوں نے بائیکاٹ ، بائیکاٹ ہی کھیلنا ہوتا تو وہ 2008 ء کے انتخابات کے حوالے سے یہ کام کرتیں جب اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر انتخابات کے بائیکاٹ کی تجویز آئی تو تمام پارٹیوں نے اس سے اتفاق تو کیا تاہم جب انتخابات کے انعقاد کااعلان ہوا تو سوائے تین پارٹیوں کے سب ایک، ایک کرکے پیچھے ہٹ گئیں اور ان تین پارٹیوں میں پاکستان تحریک انصاف، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور جماعت اسلامی شامل تھیں۔ خود جماعت اسلامی میں مذکورہ انتخابات کے بائیکاٹ کے حوالے سے انتہائی منقسم رائے پائی جاتی تھی اور جماعت اسلامی کی اکثریت انتخابات کے بائیکاٹ کے حق میں نہ تھی۔

تاہم اس وقت کے امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد مرحوم کی رائے سے اختلاف کرنا مشکل ترین کام تھا یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی ان انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسمبلیوں سے باہر رہ گئی تاہم اپنی اس غلطی کا احساس جماعت اسلامی کو فوری طور پر ہوا اور بعدازاں 2008ء کے انتخابات کے نتیجہ میں وجود میں آنے والی اسمبلیوں کے لیے منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں جماعت اسلامی حصہ لیتی رہی جبکہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کے نتائج بھی سب کے سامنے ہی ہیں اس لیے سیاسی جماعتیں ماضی کی غلطیوں کا اعادہ نہیں کرنا چاہتیں تاہم حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے بائیکاٹ اور استعفوں کی بات کی گئی لیکن جس طرح سینٹ اور ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ سے اپوزیشن پیچھے ہٹ گئی ہے اسی طرح استعفوں کا معاملہ بھی بھول جائیے کیونکہ ایسا ہونے والا نہیں ۔


فروری کے مہینہ میں ضمنی انتخابات اور مارچ میں سینٹ الیکشن سے جو گرد اٹھے گی اس کے بیٹھتے، بیٹھتے رمضان اور پھر بجٹ سر پر ہوگا جس سے استعفوں اور احتجاج کی بجائے اسمبلیوں کے اندر کا بزنس زیادہ زور پکڑ لے گا جس کی وجہ سے اپوزیشن تحریک کے لیے مزید مشکلات پیدا ہونگی، گوکہ اپوزیشن جماعتیں یہ بات کر رہی ہیں کہ اگر وزیراعظم عمران خان حکومت نے 31 جنوری تک استعفیٰ نہ دیا تو یکم فروری کو پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کر دے گا لیکن ان حالات میں جبکہ فروری ہی میں ملک کے دیگرصوبوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی اورکزئی میں قومی اور نوشہرہ میں صوبائی اسمبلی کے لیے ضمنی انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہو اور ساتھ ہی ماہ فروری ہی سے سینٹ انتخابات کے شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی کے اجراء اور جمع ہونے کے بعد مزید کاروائی شروع ہو جائے گی۔

ان حالات میں اپوزیشن کے لیے سب سے بڑا مسلہ یہ ہوگا کہ وہ انتخابات پر فوکس کرے گی یا پھر لانگ مارچ کی سیاست پر ، پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کو اس پر بھی غور کرنا ہوگا۔ پی ڈی ایم کو حکومت مخالف تحریک کے سلسلے میں ماہ جنوری کے اختتام پر تیسرے مرحلے کے لیے بھی احتجاجی پروگرام کا اعلان کرنا پڑے گا جس کے تحت اگر ایک مرتبہ پھر اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کے انعقاد میں تاخیر کی گئی اور اس کی جگہ ایک بار پھر جلسے ، جلوسوں اور مظاہروں کی راہ لی گئی تو اس سے اپوزیشن کی تحریک تو زندہ رہے گی لیکن اس میں وہ جان باقی نہیں رہے گی کہ جس کے لیے یہ شروع کی گئی تھی۔

اپوزیشن جماعتوں کو ماہ فروری کے آغاز پر اسلام آباد لانگ مارچ کے حوالے سے واضح لائن لینی ہوگی، یا تو اپوزیشن کو فروری میں حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنا ہوگا یا پھر لانگ مارچ کے اس اعلان سے پیچھے ہٹتے ہوئے حکومت مخالف تحریک کو کوئی نیا رخ دینا ہوگا،ان تمام حالات میں بظاہر تو یہی دکھائی دے رہا ہے کہ عمران خان حکومت سکون اور اطمینان کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہے اور اپوزیشن کو منہ توڑ جواب دینے کے ساتھ وہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان حالات میں جبکہ سینٹ انتخابات بھی مارچ میں ہونے ہیں اور پھر جون کے پہلے ہفتے میں اگلے مالی سال کا بجٹ بھی پیش ہونا ہے ، حکومت کے جانے کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔

ان حالات میں جہاں حکومت کے لیے یہ امتحان ہے کہ اس نے اپوزیشن کی جانب سے لانگ مارچ کرنے کی صورت میں اس سے نمٹنا ہو گا اور ساتھ ہی سینٹ انتخابات اور اگلے مالی سال کے بجٹ پر بھی فوکس کرنا ہوگا وہیں پر اپوزیشن کے لیے اصل امتحان یہ ہوگا کہ اگر اس کی جاری تحریک کے نتیجے میں عمران خان حکومت کا کچھ نہیں بگڑتا تو اس صورت میں اپوزیشن کیا کرے گی؟ کیا اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کو سینے سے لگائے اپنی ،اپنی مچانوں میں خاموشی سے بیٹھ کر وقت کا انتظار کرنے کی پالیسی اپنائیں گی یا پھر گرمی اور حالات کی پرواہ کیے بغیر اپنی تحریک جاری رکھیں گی ؟ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ طویل عرصے تک حکومت مخالف تحریک کو جاری رکھنا بھی جان جوکھوں میں ڈالنے والا کام ہے جو اپوزیشن کے لیے کرنا مشکل ہوگا۔

ان حالات میں اپوزیشن کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی واپسی کے لیے بھی محفوظ راستہ ضرور تلاش کرے تاکہ جو سبکی 2019ء کے آزادی مارچ کی ناکامی کی وجہ سے ہوئی تھی اسی طرح کی سبکی کا سامنا دوبارہ نہ کرنا پڑے اور خیبر پختونخوا حکومت کا حال یہ ہے کہ وہ صحت انصاف کارڈ سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کو سمیٹنے اور اس پر شادیانے بجانے میں تو مصروف ہے ہی لیکن ساتھ ہی دیگر امور پر بھی فوکس کیے ہوئے ہے جن میں سب سے بڑا اور بنیادی کام جاری ترقیاتی کاموں اور منصوبوں کو مکمل کرنا ہے جس کے لیے وزیراعلیٰ کی جانب سے مسلسل اجلاسوں کے انعقاد کے ساتھ ہی محکموں کو بھی تواتر کے ساتھ ہدایات دینے کا سلسلہ جاری ہے اور ان حالات میں صوبائی حکومت کو یہ بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے صوبائی حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کے لیے ریٹائرمنٹ کے عمر کو 60 سے بڑھاکر63 سال کرنے کا فیصلہ بحال کردیا ہے، چونکہ صوبائی حکومت نے اگلے کئی سالوں کے حوالے سے اسی فیصلے اور قانون سازی کی بنیاد پر منصوبہ بندی کی تھی جس کا رخ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے تبدیل ہوگیا تھا۔
Load Next Story