علی ظفر پر ہراسانی کا ایک اور الزام 50 کروڑ روپے ہرجانے کا دعویٰ
علی ظفر نے 2014 لندن میں پاکستانی فیشن شو کے دوران ہراساں کیا اور نازیبا گفتگو کی، خاتون کا الزام
ISLAMABAD:
معروف گلوکار علی ظفر پر خاتون کی جانب سے ہراسانی کا الزام عائد کرتے ہوئے 50 کروڑ روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا گیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ میں لینا غنی نامی خاتون کی جانب سے معروف گلوکار علی ظفر کے خلاف 50 کروڑ روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ علی ظفر نے پہلی مرتبہ 2014 لندن میں پاکستانی فیشن شو کے دوران حراساں کیا اور جون 2014 میں 2 مرتبہ پھر اس طرح نازیبا گفتگو کی، علی ظفر نے جولائی 2014 میں بہت بڑی فرم میں کام کی آفر بھی کی جس پر میں نے شائستگی سے انکار کردیا۔
درخواست میں مزید کیا گیا ہے کہ 19 مارچ 2018 کو گلوکارہ میشا شفیع اور اداکارہ صباء قمر نے بھی علی ظفر پر حراساں کرنے کے الزامات عائد کئے، درخواستگزار نے اس حوالے سے اپنی بہن اور دوستوں کو بھی آگاہ کیا جب کہ علی ظفر کا 20 دسمبر 2020 کا ری ٹوئٹ اور 22 دسمبر کا ٹوئٹ جھوٹ پر مبنی ہے لہذا علی ظفر کے ان ٹوئٹس کو بد نیتی پر مبنی قرار دیا جائے۔
درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ دونوں ٹوئٹ اور ری ٹوئٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ علی ظفر مہم میں لینا غنی کا ہاتھ ہے، دونوں ٹوئٹس لینا غنی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور عوام کی نظروں میں نیچا دیکھانے کے لئے کئے گئے تھے لہذا قرار دیا جائے کہ علی ظفر کے خلاف درخواست گزار کسی آن لائن مہم کا حصہ نہیں ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ علی ظفر کو میرے خلاف سوشل میڈیا سمیت آن لائن، ٹی وی چینلز پر مواد اور خبریں چھپوانے سے روکا جائے، خدشہ ہے کہ ایسے مواد اور خبروں سے مجھے نیچا دیکھانے کی کوشش کی جائے گی جب کہ درخواست گزار کا میشا شفیع سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا درخواست گزار کو ذہنی اذیت دینے پر علی ظفر سے 50 کروڑ روپے معاوضہ دلوایا جائے۔
سندھ ہائی کورٹ نے سیشن جج لاہور کے ذریعے علی ظفر کو 25 جنوری کے لئے نوٹس جاری کردیے۔
معروف گلوکار علی ظفر پر خاتون کی جانب سے ہراسانی کا الزام عائد کرتے ہوئے 50 کروڑ روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا گیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ میں لینا غنی نامی خاتون کی جانب سے معروف گلوکار علی ظفر کے خلاف 50 کروڑ روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ علی ظفر نے پہلی مرتبہ 2014 لندن میں پاکستانی فیشن شو کے دوران حراساں کیا اور جون 2014 میں 2 مرتبہ پھر اس طرح نازیبا گفتگو کی، علی ظفر نے جولائی 2014 میں بہت بڑی فرم میں کام کی آفر بھی کی جس پر میں نے شائستگی سے انکار کردیا۔
درخواست میں مزید کیا گیا ہے کہ 19 مارچ 2018 کو گلوکارہ میشا شفیع اور اداکارہ صباء قمر نے بھی علی ظفر پر حراساں کرنے کے الزامات عائد کئے، درخواستگزار نے اس حوالے سے اپنی بہن اور دوستوں کو بھی آگاہ کیا جب کہ علی ظفر کا 20 دسمبر 2020 کا ری ٹوئٹ اور 22 دسمبر کا ٹوئٹ جھوٹ پر مبنی ہے لہذا علی ظفر کے ان ٹوئٹس کو بد نیتی پر مبنی قرار دیا جائے۔
درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ دونوں ٹوئٹ اور ری ٹوئٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ علی ظفر مہم میں لینا غنی کا ہاتھ ہے، دونوں ٹوئٹس لینا غنی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور عوام کی نظروں میں نیچا دیکھانے کے لئے کئے گئے تھے لہذا قرار دیا جائے کہ علی ظفر کے خلاف درخواست گزار کسی آن لائن مہم کا حصہ نہیں ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ علی ظفر کو میرے خلاف سوشل میڈیا سمیت آن لائن، ٹی وی چینلز پر مواد اور خبریں چھپوانے سے روکا جائے، خدشہ ہے کہ ایسے مواد اور خبروں سے مجھے نیچا دیکھانے کی کوشش کی جائے گی جب کہ درخواست گزار کا میشا شفیع سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا درخواست گزار کو ذہنی اذیت دینے پر علی ظفر سے 50 کروڑ روپے معاوضہ دلوایا جائے۔
سندھ ہائی کورٹ نے سیشن جج لاہور کے ذریعے علی ظفر کو 25 جنوری کے لئے نوٹس جاری کردیے۔