ڈاکٹر طاہرالقادری نے عوام کی دکھتی رگ چھیڑ کر ریلی کامیاب بنادی
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ملک میں ہوشربا مہنگائی ، حکومت کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ملک میں ہوشربا مہنگائی ، حکومت کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں اوربری طرز حکمرانی کے خلاف نکالی جانے والی احتجاجی ریلی کے اثرات ابھی سیاسی فضا میں موجود تھے کہ پاکستان عوامی تحریک کے قائد طاہرالقادری نے بھی مہنگائی کے خلاف تاریخی ریلی کااعلان کردیا اور پھر مقررہ تاریخ کو ان کی اپیل پر شہر کاشہر مال روڈ پر امْڈ آیا۔
یہ ریلی بلا شبہ تاریخی ریلی ہی کادرجہ رکھتی تھی کہ حکومت کی طر ف سے تمام تر رکاوٹوں ، حربوں اور کوششوں کے باوجود ، موسم کی شدت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہر عمر کے خواتین و حضرات نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ ناصر باغ سے اسمبلی ہال تک نکالی جانے والی اس ریلی کے لیے حکومت نے اہلکار اور وارڈنز تعینات کر رکھے تھے ۔ جبکہ سکیورٹی کا انتظام پولیس کے علاوہ عوامی تحریک کے رضاکاروں نے سنبھال رکھاتھا ۔ شرکاء کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ شہر میں ٹریفک کا نظام مکمل طور پر درہم برہم ہو کر رہ گیا ۔ ریلی کی قیادت ڈاکٹر طاہرالقادری کے صاحبزادے ڈاکٹر حسین محی الدین کر رہے تھے ۔ جبکہ اس کے مرکزی، صوبائی اور ضلعی سطح کے عہدیدار بھی پوری طرح مستعدی کے ساتھ مصروف عمل تھے ۔
اس ریلی کی نمایاں بات یہ تھی کہ بہت بڑی تعداد کے باوجود یہ مکمل طور پر پرامن رہی جس طرح تحریک انصاف کے کارکنوں نے پورے نظم کا مظاہرہ کیا اسی طرح عوامی تحریک ،تحریک منہاج القرآن اور اس سے وابستہ ذیلی تنظیموں کے کارکنوں نے بھی پوری ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اسی طرح پرامن اور منظم رکھا جس طرح ایک سال قبل گزشتہ دور حکومت میں انتخابی نظام اور کرپشن کے خلاف نکالی جانے والی ریلی اور لانگ مارچ کے موقع پر رکھا گیا تھا۔ایک اور نمایاں بات یہ تھی کہ اس ریلی میں عوامی تحریک کے قائد خود تو موجود نہیں تھے لیکن ان کی ہدایات اور مانیٹرنگ کینیڈا سے مسلسل جاری تھی، جہاں سے انہوں نے ریلی کے شرکاء سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا ۔
اپنے خطاب میں انہوں نے حکمرانوں کی سات ماہ کی کارکردگی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے انہیں انتباہ کیا کہ اگر انہوں نے عوام کو ان کے حقوق نہ دیے تو وہ خود چھین لیں گے۔ اپنے خطاب میں ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری نے حکومت کی جن غیرقانونی پالیسیوں ، آئین سے متصادم اقدامات اور عوام دشمن فیصلوں کو موضوع بنایا اور ان کے اخلاقی ، قانونی ،آئینی اور انسانی جواز کو چیلنج کیا وہ اہل اقتدار کی نااہلیت ثابت کرنے کے لیے کافی تھے۔ حکومت کی طرف سے گزشتہ سات ماہ کے عرصہ کے دوارن دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے فیصلوں پر عمل درآمد سے گریز، نجکاری عمل کی غیرشفافیت ، سود کے فروغ کے لیے بیروز گار نوجوانوں کو قرضہ دینے کی سکیم کا اجراء، اختیارات کا ارتکاز، وزراء کا بلا استحقاق ہیلی کاپٹر اور دوسرے ذرائع سے سرکاری خزانے پرعیاشتی کرنا اور مہنگائی ، گرانی، افراط زر، امن وامان اور لاقانونیت کی بگڑتی ہوئی صورت حال ایسے ایشوز تھے کہ جنہوں نے حکمرانوں کے عوامی خدمت کے تمام دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ، گڈ گورننس کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا ہے اور نام نہاد جمہوریت کے نام پر شخصی آمریت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ اسی ریلی ہی کا مثبت رد عمل ہی تھا کہ وزیر اعظم میاں نوازشریف بیروزگار نوجوانوں کیلئے قرضہ کی اس سکیم کی شرائط پر نظرثانی کرنے اور انہیں نرم کرنے پر مجبور ہوگئے جس کی تعریفوں میں وہ خود اور ان کے وزراء تک زمین وآسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے تھے ۔
عوامی تحریک کی کامیاب ریلی اور اس کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری کے خطاب کے مقابلے میں اگرچہ حکومتی ترجمانوں اوربعض وزراء نے ''جواب آں غزل ''کے طورپر بیانات داغے ہیں لیکن ان کی حقیقت کھسیانی بلی کھمبا نوچے سے زیادہ کچھ نہیں ۔ڈاکٹر طاہرالقادری بھلے ملک سے باہر ہیں اور پارلیمنٹ میں ان کی جماعت کا کوئی حصہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے حکمرانوں کی کمزوری (مہنگائی اور کرپشن )کو اپنے احتجاج کا عنوان دے کر عوامی تائید وحمایت حاصل کرلی ہے ۔ عوام کی دکھتی رگ کو چھیڑ کر ان کے دلوں میں حکمرانوں کے خلاف دہکتے الاؤ اور نفرت کو مزید ہوا دے دی ہے ۔
22 دسمبر کو تحریک انصاف کی احتجاجی ریلی (کہ جس میں دودوسری جماعتیں جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ بھی شامل تھیں )کے مقابلے میں کسی دوسری جماعت کی بیساکھیوں کا سہارا لیے بغیر عوامی تحریک نے اس سے کہیں بڑی ریلی نکال کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری اب بھی عوام کے ایک طبقے میں اثرو رسوخ رکھتے اور اپنی ایک کال پر ہزاروں کی تعداد میں مردوں اور خواتین کو سڑکوں پر لا سکتے اور اس ہجوم بے کراں سے شہر کا نظم ونسق تہہ وبالا کر سکتے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ ان کے بعض دعوے اور اعلانات قابل عمل دکھائی نہیں دیتے اور دیوانے کی بڑ قرار دیے جا سکتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ریلی کی کامیابی کے پیچھے کسی حد تک ڈاکٹر طاہرالقادری کی کرشماتی شخصیت بھی ہو سکتی ہے لیکن بڑی وجہ وہ ایشو (مہنگائی ) ہے جو عوام کے دل کو چھْوتا ہے اور جس سے معاشرے کا کو ئی فرد اور طبقہ بھی محفوظ نہیں رہا ۔
سو اگر حکمرانوں کا رویہ یونہی برقرار رہا ،عوام دشمن پالیسیاں جاری رہیں ، روپے کی قدر مزید گرتی رہی ، مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے انہیں کوئی ریلیف نہ ملا تو حکمران عوامی حمایت کھو بیٹھیں گے اور اگر ڈاکٹرطاہرالقادری تحریک انصاف اور جماعت اسلامی ایسی حکومت مخالف دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر ملک گیر احتجاج کی کال دے کر سڑکوں پر نکل آئے تو پھر یقینی طور پر اس بھر پور عوامی ریلے کو روکنا مشکل ہو جائے گا ۔ بے شک عوام کی اکثریت کے سڑکوں پر آنے اور مضبوط اور موثر انداز میں صدائے احتجاج بلند کیے بغیر محض ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان ایسے دیگر انقلابی لیڈروں کی تقاریر اور تحریک سے انقلاب برپا نہیں ہو سکتا لیکن اس سے استحصال اور نا انصافی پر مبنی اس نظام ِ کہنہ میں تبدیلی کا راستہ ضرور کھل سکتا ہے ۔ عوامی شعور میں یہی بیداری اس تحریک کا حاصل ہو سکتی ہے کہ جب محروم طبقات اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور ان کے ہاتھ ان جھوٹے ،کرپٹ ،دھوکے باز سیاستدانوں کے گریبانوں تک جا پہنچیں اور استحصال سے پاک انصاف اور انسانی مساوات پر مبنی نظام کی راہ ہموار ہو سکے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ حکمران ان احتجاجی ریلیوں سے عوامی مزاج اور موڈ کو سمجھیں ، نوشتہ دیوار کو پڑھیں اور اصلاحِ احوال کے لیے فی الفور اقدامات کریں اس کے علاوہ کوئی راہ نجات نہیں ہے۔
یہ ریلی بلا شبہ تاریخی ریلی ہی کادرجہ رکھتی تھی کہ حکومت کی طر ف سے تمام تر رکاوٹوں ، حربوں اور کوششوں کے باوجود ، موسم کی شدت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہر عمر کے خواتین و حضرات نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ ناصر باغ سے اسمبلی ہال تک نکالی جانے والی اس ریلی کے لیے حکومت نے اہلکار اور وارڈنز تعینات کر رکھے تھے ۔ جبکہ سکیورٹی کا انتظام پولیس کے علاوہ عوامی تحریک کے رضاکاروں نے سنبھال رکھاتھا ۔ شرکاء کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ شہر میں ٹریفک کا نظام مکمل طور پر درہم برہم ہو کر رہ گیا ۔ ریلی کی قیادت ڈاکٹر طاہرالقادری کے صاحبزادے ڈاکٹر حسین محی الدین کر رہے تھے ۔ جبکہ اس کے مرکزی، صوبائی اور ضلعی سطح کے عہدیدار بھی پوری طرح مستعدی کے ساتھ مصروف عمل تھے ۔
اس ریلی کی نمایاں بات یہ تھی کہ بہت بڑی تعداد کے باوجود یہ مکمل طور پر پرامن رہی جس طرح تحریک انصاف کے کارکنوں نے پورے نظم کا مظاہرہ کیا اسی طرح عوامی تحریک ،تحریک منہاج القرآن اور اس سے وابستہ ذیلی تنظیموں کے کارکنوں نے بھی پوری ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اسی طرح پرامن اور منظم رکھا جس طرح ایک سال قبل گزشتہ دور حکومت میں انتخابی نظام اور کرپشن کے خلاف نکالی جانے والی ریلی اور لانگ مارچ کے موقع پر رکھا گیا تھا۔ایک اور نمایاں بات یہ تھی کہ اس ریلی میں عوامی تحریک کے قائد خود تو موجود نہیں تھے لیکن ان کی ہدایات اور مانیٹرنگ کینیڈا سے مسلسل جاری تھی، جہاں سے انہوں نے ریلی کے شرکاء سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا ۔
اپنے خطاب میں انہوں نے حکمرانوں کی سات ماہ کی کارکردگی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے انہیں انتباہ کیا کہ اگر انہوں نے عوام کو ان کے حقوق نہ دیے تو وہ خود چھین لیں گے۔ اپنے خطاب میں ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری نے حکومت کی جن غیرقانونی پالیسیوں ، آئین سے متصادم اقدامات اور عوام دشمن فیصلوں کو موضوع بنایا اور ان کے اخلاقی ، قانونی ،آئینی اور انسانی جواز کو چیلنج کیا وہ اہل اقتدار کی نااہلیت ثابت کرنے کے لیے کافی تھے۔ حکومت کی طرف سے گزشتہ سات ماہ کے عرصہ کے دوارن دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے فیصلوں پر عمل درآمد سے گریز، نجکاری عمل کی غیرشفافیت ، سود کے فروغ کے لیے بیروز گار نوجوانوں کو قرضہ دینے کی سکیم کا اجراء، اختیارات کا ارتکاز، وزراء کا بلا استحقاق ہیلی کاپٹر اور دوسرے ذرائع سے سرکاری خزانے پرعیاشتی کرنا اور مہنگائی ، گرانی، افراط زر، امن وامان اور لاقانونیت کی بگڑتی ہوئی صورت حال ایسے ایشوز تھے کہ جنہوں نے حکمرانوں کے عوامی خدمت کے تمام دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ، گڈ گورننس کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا ہے اور نام نہاد جمہوریت کے نام پر شخصی آمریت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ اسی ریلی ہی کا مثبت رد عمل ہی تھا کہ وزیر اعظم میاں نوازشریف بیروزگار نوجوانوں کیلئے قرضہ کی اس سکیم کی شرائط پر نظرثانی کرنے اور انہیں نرم کرنے پر مجبور ہوگئے جس کی تعریفوں میں وہ خود اور ان کے وزراء تک زمین وآسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے تھے ۔
عوامی تحریک کی کامیاب ریلی اور اس کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری کے خطاب کے مقابلے میں اگرچہ حکومتی ترجمانوں اوربعض وزراء نے ''جواب آں غزل ''کے طورپر بیانات داغے ہیں لیکن ان کی حقیقت کھسیانی بلی کھمبا نوچے سے زیادہ کچھ نہیں ۔ڈاکٹر طاہرالقادری بھلے ملک سے باہر ہیں اور پارلیمنٹ میں ان کی جماعت کا کوئی حصہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے حکمرانوں کی کمزوری (مہنگائی اور کرپشن )کو اپنے احتجاج کا عنوان دے کر عوامی تائید وحمایت حاصل کرلی ہے ۔ عوام کی دکھتی رگ کو چھیڑ کر ان کے دلوں میں حکمرانوں کے خلاف دہکتے الاؤ اور نفرت کو مزید ہوا دے دی ہے ۔
22 دسمبر کو تحریک انصاف کی احتجاجی ریلی (کہ جس میں دودوسری جماعتیں جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ بھی شامل تھیں )کے مقابلے میں کسی دوسری جماعت کی بیساکھیوں کا سہارا لیے بغیر عوامی تحریک نے اس سے کہیں بڑی ریلی نکال کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری اب بھی عوام کے ایک طبقے میں اثرو رسوخ رکھتے اور اپنی ایک کال پر ہزاروں کی تعداد میں مردوں اور خواتین کو سڑکوں پر لا سکتے اور اس ہجوم بے کراں سے شہر کا نظم ونسق تہہ وبالا کر سکتے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ ان کے بعض دعوے اور اعلانات قابل عمل دکھائی نہیں دیتے اور دیوانے کی بڑ قرار دیے جا سکتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ریلی کی کامیابی کے پیچھے کسی حد تک ڈاکٹر طاہرالقادری کی کرشماتی شخصیت بھی ہو سکتی ہے لیکن بڑی وجہ وہ ایشو (مہنگائی ) ہے جو عوام کے دل کو چھْوتا ہے اور جس سے معاشرے کا کو ئی فرد اور طبقہ بھی محفوظ نہیں رہا ۔
سو اگر حکمرانوں کا رویہ یونہی برقرار رہا ،عوام دشمن پالیسیاں جاری رہیں ، روپے کی قدر مزید گرتی رہی ، مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے انہیں کوئی ریلیف نہ ملا تو حکمران عوامی حمایت کھو بیٹھیں گے اور اگر ڈاکٹرطاہرالقادری تحریک انصاف اور جماعت اسلامی ایسی حکومت مخالف دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر ملک گیر احتجاج کی کال دے کر سڑکوں پر نکل آئے تو پھر یقینی طور پر اس بھر پور عوامی ریلے کو روکنا مشکل ہو جائے گا ۔ بے شک عوام کی اکثریت کے سڑکوں پر آنے اور مضبوط اور موثر انداز میں صدائے احتجاج بلند کیے بغیر محض ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان ایسے دیگر انقلابی لیڈروں کی تقاریر اور تحریک سے انقلاب برپا نہیں ہو سکتا لیکن اس سے استحصال اور نا انصافی پر مبنی اس نظام ِ کہنہ میں تبدیلی کا راستہ ضرور کھل سکتا ہے ۔ عوامی شعور میں یہی بیداری اس تحریک کا حاصل ہو سکتی ہے کہ جب محروم طبقات اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور ان کے ہاتھ ان جھوٹے ،کرپٹ ،دھوکے باز سیاستدانوں کے گریبانوں تک جا پہنچیں اور استحصال سے پاک انصاف اور انسانی مساوات پر مبنی نظام کی راہ ہموار ہو سکے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ حکمران ان احتجاجی ریلیوں سے عوامی مزاج اور موڈ کو سمجھیں ، نوشتہ دیوار کو پڑھیں اور اصلاحِ احوال کے لیے فی الفور اقدامات کریں اس کے علاوہ کوئی راہ نجات نہیں ہے۔