دہشت گردی کے خلاف قوم سیسہ پلائی دیوار
ملک کو داخلی خطرات کا سامنا ہے جبکہ ملکی سالمیت کومجموعی نقصان پہنچانے پرکمربستہ عناصر نے مذاکرات کی پیشکش کو ٹھکرادیا
KABUL:
2014 کے نئے سال کا سورج ملکی سیاسی ، اقتصادی ، عسکری اور تزویراتی افق پر صبر آزما اور اعصاب شکن چیلنجوں کے ساتھ نمودار ہوا ہے۔ایک طرف عالمی تبدیلیوں سے دوچار دنیا ہے جس کے بارے میں گلوبل یورپ اینٹی سپیشن بلیٹن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2013 میں دنیا شکست وریخت کی دنیا تھی جب کہ نئے سال میں اس بربادی کی باقیات رہ جائیں گی،جسے اینٹوں کے بلاک سے مزین ایک نظام کی تعمیر سے روکا بھی جاسکتا ہے،نئے سال کے لیے پیش گوئی کی جارہی ہے کہ امریکا جاپان اور یورپی یونین کے دشمن سیاسی،اقتصادی سطح پر جیو پولیٹیکل خلاء کو پر کرنے کی جستجو کریں گے تاہم امریکا کے دنیا پر کمزور پڑنے والے کنٹرول کے باعث 2014 اہم ڈرامائی سال کہلانے کا مستحق ہوگا،جس میں مختلف نظاموں سے وابستہ اقوام ایک مرکز اتصال کی طرف رجوع کریں گی۔
در حقیقت اسی امکانی منظر نامے کے تناظر میں وزیراعظم نوازشریف نے قومی سلامتی ،خطے میں دہشت گردی ، غربت، معاشی ترجیحات اور اقتصادی و سیاسی محاذ پر عسکری اور سیاسی قیادت کے موقف میں یکسانیت کا دور اندیشی پر مبنی استدلال پیش کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں پر حملے کرنیوالے انتہاپسندوں سے امن مذاکرات کے امکانات معدوم ہونے اور شرپسندوں کی جانب سے بڑھتے حملوں کے پیش نظر وزارت داخلہ، وزارت قانون وانصاف اور وزارت پارلیمانی امور کے حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ انسداد دہشتگردی سے متعلق قانون سازی کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیاجائے تاکہ موسمی شدت کم ہوتے ہی صوبہ خیبرپختونخوا، صوبہ بلوچستان اور فاٹا میں حکومتی رٹ قائم کرنے اور امن وامان کی مکمل بحالی کے لیے انتہاپسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جاسکے۔
وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں اعلیٰ سطح اجلاس میں وزیراعظم نے کراچی میں شرپسندوں اور امن دشمنوں کے خلاف جاری ٹارگٹڈ آپریشن کی کامیابیوں پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ کراچی، فاٹا اور پاٹا کے علاقوں میں دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے سول انتظامیہ اور فوج کا موقف یکساں ہے۔ اجلاس میں وزیرداخلہ چوہدری نثار علی، وزیرخزانہ اسحاق ڈار، وزیراطلاعات پرویزرشید کے علاوہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف ،چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس اور متعلقہ وزارتوں کے سیکریٹریوں نے شرکت کی۔ علاوہ ازیں کراچی میں امن وامان کی مکمل بحالی کے لیے کراچی آپریشن کا تیسرا اور سخت ترین مرحلہ شروع کرنے کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس کی نوعیت اور اس میں ہونے والے فیصلوں کی اہمیت غیر معمولی ہے جس کے بین السطور میں یہ واضح پیغام بھی موجود ہے کہ دہشت گردوں، عسکریت پسندوں کو اب پھلنے پھولنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔
بلاشبہ نئے عسکری ڈاکٹرائن میں یہ بات قطعی طور پر طے کی گئی تھی کہ ریاست کو اصل خطرہ خارجی نہیں بلکہ داخلی نان سٹیٹ ایکٹرز سے ہے۔داخلی خطرات اور طالبان سمیت دیگر دہشت گرد اور مجرمانہ نیٹ ورکس کی طر ف سے فوج ، اہم تنصیبات اور شہریوں پر دہشت گردانہ حملوں کا ایک ہی موثر جواب ہوسکتا ہے کہ عسکری اور سویلین انداز نظر اورعملی میکنزم میں ہم آہنگی ہو تاکہ دشمن کو بتادیا جائے کہ قوم ان کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے گی ۔اب یہ حقیقت بھی حکمرانوں اور عسکری قیادت کے اتفاق رائے نے واضح کردی ہے کہ کوئی طاغوتی طاقت مذاکرات کی پیشکش کو ریاست یا حکومت کی کمزوری نہ سمجھے۔طالبان سے مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنے کا اعادہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا ، ریاستی و قومی مفادات اور عوامی زندگیوں کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے جن اہداف اور حکمت عملی کا اعلان کیا گیا ہے اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کلییر سگنل مل گیا ہے۔
یہ بھی خوش آیند امر ہے کہ معاشی شعبے میں بھی اہم اور جامع اصلاحات ، ٹیکس سسٹم اور ریکوریزکو زیر غور لایا گیا۔وزیراعظم نوازشریف نے وزارت خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حکام سے کہا ہے کہ وہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے حکومتی معاہدوں کی مجبوریوں کا خیال ضرور رکھیں مگر ٹیکسوں کے نظام میں ایسی اصلاحات لائیں جس سے عام آدمی پر کم سے کم بوجھ پڑے۔ حکومتی پالیسیاں سرمایہ کار دوست نظر آئیں اور ملک میں اقتصادی کاروباری وتجارتی فروغ کا باعث بنیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں ایف بی آر میں اصلاحات اور ٹیکس دہندگان کو سہولتیں دینے کے حوالے سے اجلاس میں انھوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کوششیں جاری رکھی جائیں مگر پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں کو سہولیات دینے کا بھی اہتمام کیا جائے۔
وزیراعظم نے کہا کہ حکام ایک ایسا جامع اصلاحاتی پیکیج سامنے لائیں جس سے ٹیکس جمع کرانے کا عمل آسان اور عام آدمی کے لیے قابل فہم ہو۔ وزیراعظم نے ایف بی آر حکام کو ایک ماہ کے اندر ان کے ویژن کے مطابق عوام، سرمایہ کار، تاجر اور صنعتکار دوست ٹیکسوں کا جامع اصلاحاتی پیکیج تیار کرکے حتمی منظوری کے لیے لانے کا حکم جاری کیا۔ انھوں نے ایف بی آرکے حوالے سے پائی جانے والی بدعنوانیوں کی شکایات کے بارے میں بھی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں تمام مسائل کی بنیادی جڑ کرپشن ہے، جس سے ہماری معیشت کو بے تحاشا نقصان ہورہا ہے۔ وزیراعظم نے کرپشن کا نکتہ اٹھا کرقومی سطح پر اقتصادی نظام کی کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو ریلیف مہیا کرنے کا مکمل روڈ میپ بھی دیا جائے۔
اس تلخ حقیقت سے نظریں چرا کر صرف احکامات پر انحصار سے صورتحال میں بہتری نہیں آئیگی بلکہ صوبوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دے کر عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے براہ راست مستفیض ہونے کو یقینی بنایا جائے۔حکومت گیس، سی این جی کی قلت ،ملک گیر لوڈ شیڈنگ ، بیروزگاری ، غربت کے خاتمے اور بدامنی کے خلاف حکومت ٹھوس اقدامات کرے،دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کو روکے ۔اس ضمن میں سینیٹ کی خصوصی کمیٹی نے متفقہ طور پر جو فیصلہ کیا ہے وہ قابل تعریف ہے جس میں زور دیا گیا ہے 18ویں ترمیم کے تحت اختیارات کی منتقلی کے اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے اور اس ضمن میں ذیلی کمیٹی بنائی جائے جو صوبائی حکومتوں کے ساتھ رکاوٹوں اور معاملات کا تفصیلی جائزہ لے کر سفارشات مرتب کرے اور رپورٹ کمیٹی کو پیش کرے۔
اس امر کی بھی وضاحت کی گئی کہ وفاقی حکومت کا 18ویں ترمیم کے تحت اختیارات کی منتقلی کو رول بیک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، یہ ابہام غلط ہے بلکہ 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات ملیں گے، رضاربانی نے کہاکہ ذیلی کمیٹی 2 ہفتے میں اپنے قواعد و ضوابط مرتب کرے گی اور موجودہ اور گزشتہ وفاقی حکومت کی جانب سے 18ویں ترمیم کے برعکس کیے گئے اقدامات کو متعلقہ وزارتوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔یہ ایک واشگاف حقیقت ہے کہ ملک کو داخلی خطرات کا سامنا ہے جب کہ ملکی سالمیت کو مجموعی نقصان پہنچانے پر کمر بستہ عناصر نے مزاکرات کی پیشکش کو ٹھکرایا اور قومی مفادات ، فوج اور ریاستی اداروں سمیت شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ وارداتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔اس کا قومی سلامتی کے حوالے سے وفاقی حکومت نے آج مسکت جواب دے کر بلاشبہ قومی امنگوں کی صحیح معنوں میں ترجمانی کی ہے ۔
2014 کے نئے سال کا سورج ملکی سیاسی ، اقتصادی ، عسکری اور تزویراتی افق پر صبر آزما اور اعصاب شکن چیلنجوں کے ساتھ نمودار ہوا ہے۔ایک طرف عالمی تبدیلیوں سے دوچار دنیا ہے جس کے بارے میں گلوبل یورپ اینٹی سپیشن بلیٹن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2013 میں دنیا شکست وریخت کی دنیا تھی جب کہ نئے سال میں اس بربادی کی باقیات رہ جائیں گی،جسے اینٹوں کے بلاک سے مزین ایک نظام کی تعمیر سے روکا بھی جاسکتا ہے،نئے سال کے لیے پیش گوئی کی جارہی ہے کہ امریکا جاپان اور یورپی یونین کے دشمن سیاسی،اقتصادی سطح پر جیو پولیٹیکل خلاء کو پر کرنے کی جستجو کریں گے تاہم امریکا کے دنیا پر کمزور پڑنے والے کنٹرول کے باعث 2014 اہم ڈرامائی سال کہلانے کا مستحق ہوگا،جس میں مختلف نظاموں سے وابستہ اقوام ایک مرکز اتصال کی طرف رجوع کریں گی۔
در حقیقت اسی امکانی منظر نامے کے تناظر میں وزیراعظم نوازشریف نے قومی سلامتی ،خطے میں دہشت گردی ، غربت، معاشی ترجیحات اور اقتصادی و سیاسی محاذ پر عسکری اور سیاسی قیادت کے موقف میں یکسانیت کا دور اندیشی پر مبنی استدلال پیش کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں پر حملے کرنیوالے انتہاپسندوں سے امن مذاکرات کے امکانات معدوم ہونے اور شرپسندوں کی جانب سے بڑھتے حملوں کے پیش نظر وزارت داخلہ، وزارت قانون وانصاف اور وزارت پارلیمانی امور کے حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ انسداد دہشتگردی سے متعلق قانون سازی کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیاجائے تاکہ موسمی شدت کم ہوتے ہی صوبہ خیبرپختونخوا، صوبہ بلوچستان اور فاٹا میں حکومتی رٹ قائم کرنے اور امن وامان کی مکمل بحالی کے لیے انتہاپسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جاسکے۔
وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں اعلیٰ سطح اجلاس میں وزیراعظم نے کراچی میں شرپسندوں اور امن دشمنوں کے خلاف جاری ٹارگٹڈ آپریشن کی کامیابیوں پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ کراچی، فاٹا اور پاٹا کے علاقوں میں دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے سول انتظامیہ اور فوج کا موقف یکساں ہے۔ اجلاس میں وزیرداخلہ چوہدری نثار علی، وزیرخزانہ اسحاق ڈار، وزیراطلاعات پرویزرشید کے علاوہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف ،چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس اور متعلقہ وزارتوں کے سیکریٹریوں نے شرکت کی۔ علاوہ ازیں کراچی میں امن وامان کی مکمل بحالی کے لیے کراچی آپریشن کا تیسرا اور سخت ترین مرحلہ شروع کرنے کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس کی نوعیت اور اس میں ہونے والے فیصلوں کی اہمیت غیر معمولی ہے جس کے بین السطور میں یہ واضح پیغام بھی موجود ہے کہ دہشت گردوں، عسکریت پسندوں کو اب پھلنے پھولنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔
بلاشبہ نئے عسکری ڈاکٹرائن میں یہ بات قطعی طور پر طے کی گئی تھی کہ ریاست کو اصل خطرہ خارجی نہیں بلکہ داخلی نان سٹیٹ ایکٹرز سے ہے۔داخلی خطرات اور طالبان سمیت دیگر دہشت گرد اور مجرمانہ نیٹ ورکس کی طر ف سے فوج ، اہم تنصیبات اور شہریوں پر دہشت گردانہ حملوں کا ایک ہی موثر جواب ہوسکتا ہے کہ عسکری اور سویلین انداز نظر اورعملی میکنزم میں ہم آہنگی ہو تاکہ دشمن کو بتادیا جائے کہ قوم ان کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے گی ۔اب یہ حقیقت بھی حکمرانوں اور عسکری قیادت کے اتفاق رائے نے واضح کردی ہے کہ کوئی طاغوتی طاقت مذاکرات کی پیشکش کو ریاست یا حکومت کی کمزوری نہ سمجھے۔طالبان سے مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنے کا اعادہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا ، ریاستی و قومی مفادات اور عوامی زندگیوں کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے جن اہداف اور حکمت عملی کا اعلان کیا گیا ہے اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کلییر سگنل مل گیا ہے۔
یہ بھی خوش آیند امر ہے کہ معاشی شعبے میں بھی اہم اور جامع اصلاحات ، ٹیکس سسٹم اور ریکوریزکو زیر غور لایا گیا۔وزیراعظم نوازشریف نے وزارت خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حکام سے کہا ہے کہ وہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے حکومتی معاہدوں کی مجبوریوں کا خیال ضرور رکھیں مگر ٹیکسوں کے نظام میں ایسی اصلاحات لائیں جس سے عام آدمی پر کم سے کم بوجھ پڑے۔ حکومتی پالیسیاں سرمایہ کار دوست نظر آئیں اور ملک میں اقتصادی کاروباری وتجارتی فروغ کا باعث بنیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں ایف بی آر میں اصلاحات اور ٹیکس دہندگان کو سہولتیں دینے کے حوالے سے اجلاس میں انھوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کوششیں جاری رکھی جائیں مگر پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں کو سہولیات دینے کا بھی اہتمام کیا جائے۔
وزیراعظم نے کہا کہ حکام ایک ایسا جامع اصلاحاتی پیکیج سامنے لائیں جس سے ٹیکس جمع کرانے کا عمل آسان اور عام آدمی کے لیے قابل فہم ہو۔ وزیراعظم نے ایف بی آر حکام کو ایک ماہ کے اندر ان کے ویژن کے مطابق عوام، سرمایہ کار، تاجر اور صنعتکار دوست ٹیکسوں کا جامع اصلاحاتی پیکیج تیار کرکے حتمی منظوری کے لیے لانے کا حکم جاری کیا۔ انھوں نے ایف بی آرکے حوالے سے پائی جانے والی بدعنوانیوں کی شکایات کے بارے میں بھی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں تمام مسائل کی بنیادی جڑ کرپشن ہے، جس سے ہماری معیشت کو بے تحاشا نقصان ہورہا ہے۔ وزیراعظم نے کرپشن کا نکتہ اٹھا کرقومی سطح پر اقتصادی نظام کی کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو ریلیف مہیا کرنے کا مکمل روڈ میپ بھی دیا جائے۔
اس تلخ حقیقت سے نظریں چرا کر صرف احکامات پر انحصار سے صورتحال میں بہتری نہیں آئیگی بلکہ صوبوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دے کر عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے براہ راست مستفیض ہونے کو یقینی بنایا جائے۔حکومت گیس، سی این جی کی قلت ،ملک گیر لوڈ شیڈنگ ، بیروزگاری ، غربت کے خاتمے اور بدامنی کے خلاف حکومت ٹھوس اقدامات کرے،دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کو روکے ۔اس ضمن میں سینیٹ کی خصوصی کمیٹی نے متفقہ طور پر جو فیصلہ کیا ہے وہ قابل تعریف ہے جس میں زور دیا گیا ہے 18ویں ترمیم کے تحت اختیارات کی منتقلی کے اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے اور اس ضمن میں ذیلی کمیٹی بنائی جائے جو صوبائی حکومتوں کے ساتھ رکاوٹوں اور معاملات کا تفصیلی جائزہ لے کر سفارشات مرتب کرے اور رپورٹ کمیٹی کو پیش کرے۔
اس امر کی بھی وضاحت کی گئی کہ وفاقی حکومت کا 18ویں ترمیم کے تحت اختیارات کی منتقلی کو رول بیک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، یہ ابہام غلط ہے بلکہ 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات ملیں گے، رضاربانی نے کہاکہ ذیلی کمیٹی 2 ہفتے میں اپنے قواعد و ضوابط مرتب کرے گی اور موجودہ اور گزشتہ وفاقی حکومت کی جانب سے 18ویں ترمیم کے برعکس کیے گئے اقدامات کو متعلقہ وزارتوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔یہ ایک واشگاف حقیقت ہے کہ ملک کو داخلی خطرات کا سامنا ہے جب کہ ملکی سالمیت کو مجموعی نقصان پہنچانے پر کمر بستہ عناصر نے مزاکرات کی پیشکش کو ٹھکرایا اور قومی مفادات ، فوج اور ریاستی اداروں سمیت شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ وارداتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔اس کا قومی سلامتی کے حوالے سے وفاقی حکومت نے آج مسکت جواب دے کر بلاشبہ قومی امنگوں کی صحیح معنوں میں ترجمانی کی ہے ۔