بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

طلب کے لمحے
(مشاہیر کا دور طالب علمی)
مصنف: زاہد منیر عامر، قیمت:100 روپے، صفحات:124
ناشر: قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، والٹن روڈ، لاہور کینٹ (03000515101)
عظیم اور بڑی شخصیات کس طرح اس مقام تک پہنچیں یہ ہر کوئی جاننے کا خواہش مند ہوتا ہے تاکہ وہ بھی ان کی تقلید کر سکے ۔ ڈاکٹر زاہد منیر استاد ، دانشور، تجزیہ کار، ادیب اور سب سے بڑھ کر مصلح ہیں، ان کے سینے میں معاشرے میں اصلاح کا جذبہ موجزن ہے جو انھیں نئی نسل کی رہنمائی پر کاربند رکھتا ہے۔

وہ متعدد کتابوں کے مصنف اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں بطور صدر شعبہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں، یوں ان کو اللہ نے قلم سے اصلاح کے ساتھ ساتھ نئی نسل سے بلاواسطہ رابطے کا وسیلہ بھی عطا کیا ہے، اور وہ فکر کے چراغ روشن کئے اندھیرے دور کر رہے ہیں ۔



طلب کے لمحے ان کی انتہائی شاندار کتاب ہے ۔ چھوٹی سی کتاب گویا روشن آفتاب کی طرح ہے کیونکہ اس میں جن عظیم شخصیات کا ذکر خیر کیا گیا ہے وہ اپنے زمانے کے ماہتاب اور آفتاب تھے۔ سرسید احمد خان، الطاف حسین حالی، علامہ شبلی نعمانی، علامہ اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح، محمد علی جوہر، عبیداللہ سندھی، حسرت موہانی، ظفر علی خان، چودھری افضل حق اور احسان دانش، ان شخصیات کی عظمت سے کون واقف نہیں، ان میں ہر ایک نے معاشرے میں مثبت بدلائو کے لئے اپنا کردار ادا کیا ۔

پروفیسر صاحب انھی شخصیات کی طالب علمی کی زندگی کے چند گوشے بے نقاب کر کے نئی نسل کو دعوت فکر اور آگے بڑھنے کا جذبہ عطا کرتے ہیں کہ کیسے یہ شخصیات عظمت کے مینارے بنیں، پروفیسر صاحب کے لئے تحقیق کے ذریعے طالب علمی کے ان واقعات کو یکجا کرنا شاید اتنا مشکل نہ ہو کیونکہ ان کو خدا نے وسعت مطالعہ عطا کی ہے مگر عام قاری کے لئے یہ بہت ہی کٹھن بلکہ ناممکن بات ہے، انھوں نے یہ واقعات ایک جگہ اکٹھا کر کے گویا نئی نسل پر ایک احسان عظیم کیا ہے، بالخصوص طالبعلموں کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ ہمارے یہ مشاہیر ہمارے ہیروز ہمارا سب کچھ ہیں، ان کی زندگی کے بارے میں آگاہی بہت ضروری ہے یہ کتاب نوجوان نسل کے لئے بہت بڑا محرک ثابت ہو سکتی ہے ۔

کمپنی تو یہی چلے گی
مصنف : ندیم اپل، قیمت: 1500 ، صفحات: 175
ناشر: قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، بینک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور (03000515101)

نشہ کوئی سا بھی ہو اس سے جان چھڑانا بڑا مشکل ہے کیونکہ وہ خون میں سرایت کر جاتا ہے، کرپشن کا زہر بھی ایک نشے کی طرح ہمارے معاشرے میں پھیل چکا ہے، معمولی تنخواہ پر کام کرنے والا اپنی تنخواہ سے زیادہ کمائی نہ کر لے تو بے چین رہتا ہے جسے وہ اوپر کی آمدن کہتا ہے، جس دن اسے اوپر کی آمدن نہیں ہوتی تو مایوسی اور بے چینی اسے گھیر لیتی ہے۔

گویا اس کے ذہن میں یہ تصور تک نہیں ہے کہ وہ کوئی غلط کام کر رہا ہے ایسے ہی جیسے کوئی نشی اپنی لت کو ہر حال میں پورا کرتا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم کرپشن اور بددیانتی میں گردن گردن ڈوبے ہوئے ہیں اگر کوئی اس نظام کو بدلنے کی بات کرتا ہے تو اس کا ساتھ دینے کی بجائے اکثریت اسے پاگل یا دیوانہ کہتی ہے ۔

موجودہ حکومت بھی سالہا سے سال سے جاری کرپشن کے نظام کو بدلنے کی کوشش میں مصروف ہے مگر کرپٹ مافیا بھرپور مزاحمت کر رہا ہے اور ایسے حالات بنا دیئے گئے ہیں کہ سچ اور جھوٹ کی سمجھ نہیں آ رہی اس میں ہمارے میڈیا کا کردار بہت نمایاں ہے، ایسی تجزیہ کاری کی جاتی ہے کہ عوام کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کس کا ساتھ دیں ۔ موجودہ حکومت تمام تر نامساعد حالات کے باوجود اندھیرے میں چراغ جلائے جا رہی ہے۔



سینئر صحافی ندیم اپل نے حکومت کی انھی کاوشوں کو عوام کے سامنے لانے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کہتے ہیں'' فاضل مصنف ندیم اپل نے جس کمپنی کا حوالہ دیا ہے یہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام اور اداروں کی مشترکہ کمپنی ہیء جو مل کر اس کرپٹ مافیا کا مقابلہ کر رہی ہے جس نے گزشتہ کئی ادوار میں ملک کے وسائل پر قابض ہر کر غریب عوام کو کنگال کر دیا اور ان کے خون پسینے کی کمائی سے بیرون ملک اپنی اولادوں کیلئے عالیشان محل کھڑے کر لیے مگر پاکستان تحریک انصاف کی عوامی حکومت نے دو سال کے قلیل عرصہ میں جس طرح نامساعد معاشی حالات کے باوجود ترقیاتی منصوبے شروع کیے۔

ریاست مدینہ کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے معاشرے کے کمزور طبقوں کو ریلیف دیا ندیم اپل کی یہ کتاب ان اقدامات کا احاطہ کرتی ہے۔'' حکومتی اقدامات سے آگاہی کے لیے اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

دریچے کچھ نقد و نظر کے
مصنف: حفیظ الرحمٰن خان، ناشر: دارالنوادر، الحمد مارکیٹ، اردو بازار، لاہور

علمی و ادبی حلقوں میں حفیظ الرحمٰن خان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ملتان کی علمی، ادبی اور تہذیبی زندگی ان کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے۔ زیر نظر کتاب نقد ادب و تحقیق کی دنیا میں ان کی دسویں تصنیف ہے، جس میں تنقید و تجزیے، خاکے اورادبی و فکری کالم شامل ہیں۔ پروفیسر حفیظ الرحمٰن خان کا اپنا منفرد اسلوب ہے، کیونکہ انہیں مصلحت و مفاہمت سے سروکار نہیں، اس لیے ان کی تحریروں میں کوئی الجھن نہیں ہوتی۔ مثلاً ''طرز غالب میں ریختہ کہنا'' میں ان کے قلم کی جولانی ملاحظہ کریں:

''شعر و ادب میں غالب ایک قدآور شخصیت تھے۔ غالب اتنا بڑا تھا کہ اس کے اپنے دور کے اہل ادب کی نظریں اس کے پورے وجود کا احاطہ نہ کر سکیں۔ اس زمانے کے لوگ دراصل زیادہ بلندی کی طرف دیکھنے کے عادی ہی نہ تھے کیوں کہ اس طرح پگڑی سنبھالنے کا مسئلہ درپیش ہو جاتا تھا۔



اس لیے وہ شعر و ادب اور فن کے معاملے میں بھی ناک کی سیدھ میں دیکھنے کے عادی تھے۔ لیکن خدا بھلا کرے حالی کا اس نے نقد و نظر کی سیڑھی لگا کر عظمت غالب کی سمتیں اور جہتیں متعین کیں۔ پھر کیا تھا۔ پھر تو صاحبان بصیرت جوں جوں غور کرتے گئے، توں توں غالب کی شخصیت کی ہمہ گیری اور شعری قد کاٹھ کی بڑائی کا آغاز ہوتا گیا۔ چنانچہ مطالعہ غالب نے کسی کو سخن فہم بنا دیا تو کچھ غالب کے طرفدار بن گئے۔''

حفیظ الرحمٰن خان کی تحریروں کا مطالعہ بھی پڑھنے والے کو سخن فہم بنا دیتا ہے۔ طرفداری کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ وہ اسلامی اقدار اور پاکستانیت کی صرف بات ہی نہیں کرتے بلکہ اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کی اپنی شخصیت اور کردار جس کا مظہر ہے۔ یہ چیزیں آج کل ''آئوٹ آف فیشن'' ہیں، لیکن پھر بھی ان کے استدلال کی قوت اور شخصیت کی سچائی بہت سوں کو ان کا نہ صرف طرفدار بلکہ گرویدہ بنا لیتی ہے۔ 112 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایک، دو نشستوں میں آسانی سے پڑھی جا سکتی ہے۔

علامہ خادم حسین رضوی ، حیات و خدمات
مولفین : علامہ عبدالستار عاصم، ضیغم رسول قادری

قیمت : 600 روپے، ناشر: قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل ، والٹن روڈ، بینک سٹاپ
لاہور کینٹ، 03000515101

علامہ خادم حسین رضوی پاکستان کے ایک حیران کن لیڈر ثابت ہوئے، جو اچانک منظرعام پر آئے اور انھوں نے پاکستان بھر میں لاکھوں لوگوں کے اذہان و قلوب کو مسخر کر لیا ۔ 2016ء تک وہ لاہور کی ایک مسجد میں خطیب تھے، ایک مخصوص اور محدود حلقے تک ہی ان کا تعارف تھا لیکن پھر ممتازقادری کی پھانسی کے بعد وہ سراپا احتجاج ہوئے، اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے پاکستان میں لاکھوں لوگوں کے قائد بن گئے ۔

انھوں نے '' تحریک لبیک پاکستان'' ( ٹی ایل پی) کے نام سے ایک جماعت کھڑی کی، نوازشریف کے دور حکومت میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر دھرنا دیا اور دونوں شہروں کی زندگی معطل کر دی، پھر ایک دوسرے موقع پر بھی پورے پاکستان میں پہیہ جام کروا کے اپنا لوہا منوایا ۔ تیسرا پاور فل شو عمران خان دور میں ہونے والا احتجاج اور دھرنا تھا ۔ ان کی قیادت میں ' تحریک لبیک پاکستان' نے 2018ء کے عام انتخابات میں حیران کن کارکردگی دکھائی، تقریبا ً ہر حلقے میں کم وبیش دس ہزار ووٹ لئے ۔



یہ واقعتاً حیران کن امر تھا ۔ تحریک لبیک ووٹوں کے اعتبار سے پاکستان کی پانچویں بڑی جماعت بن کر ابھری ۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، اے این پی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ قاف سمیت چھ درجن پارٹیاں ان سے نچلے مقام پر کھڑی رہ گئیں ۔ پنجاب میں تو تحریک لبیک نے چھ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل سے بھی کئی گنا زیادہ ووٹ حاصل کئے ۔ ٹی ایل پی کی یہ مقبولیت ،کرشمہ تھا علامہ خادم حسین رضوی کی قیادت کا ۔

زیر نظر کتاب علامہ مرحوم کی شخصیت کے بارے میں آپ کو مزید کئی حقائق سے آگاہ کرے گی ۔، اگرچہ ان کا ذکر اختصار سے کیا گیا ہے ورنہ ان کی شخصیت اس قدر بھاری بھرکم تھی، اگر اس پر مفصل کتاب

لکھی جائے تو کئی جلدوں پر مشتمل ہو گی ۔ کتاب کا زیادہ تر حصہ لوگوں کے تاثرات پر مبنی ہے ۔ شاید یہ علامہ مرحوم پر لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے، یقیناً یہ ایک بڑا اعزاز ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب علامہ خادم حسین رضوی سے محبت رکھنے والوں کے لئے ایک قیمتی متاع ثابت ہو گی ۔

ارطغرل غازی
مصنف : رحمت اللہ ترکمن، قیمت : 1200روپے
ناشر: بک کارنر ، جہلم (054)4278051

'ارطغرل غازی' تاریخی ڈرامہ سیریل کی مقبولیت کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔ یہ بار بار دیکھی جا رہی ہے ۔ سب سے پہلے 2014ء سے 2019ء تک ، پانچ برسوں میں ترکی میں دیکھی گئی ۔ ترک تاریخ میں اس قدر مقبول ڈرامہ سیریل کبھی نہیں بنائی گئی ۔ اس نے نہ صرف جمہوریہ ترکی میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے بلکہ افغانستان ، البانیہ ، الجزائر ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ، آذربائیجان، بنگلہ دیش ، بوسنیا ہرزگوینا، برازیل،کینیڈا، چلی ، انڈونیشیا، بھارت، اردن، قزاقستان ، رومانیہ، صومالیہ، جنوبی افریقہ، شمالی قبرص ، تیونس ، متحدہ عرب امارات ، برطانیہ ، امریکا، ازبکستان، وینزویلا ، تنزانیہ ، پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلم اور غیر مسلم ممالک میں سب لوگوں کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیا ۔ ' ارطغرل غازی ' اور اس کا قائی قبیلہ مذکورہ بالا سب اقوام کا ہیرو بن چکا ہے ۔

ڈرامہ دیکھنے والے ارطغرل اور اس کے خاندان کی زبان سے اوغوز خان کا ذکر بار بار سنتے ہیں ، زیرنظر کتاب کے مصنف بھی اسی اوغوز خان کی آل اولاد میں سے ہیں ۔ انھوں نے اس کتاب کی صورت میں ارطغرل کی پوری زندگی کا احاطہ کیا ہے ۔



کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ حصہ اول میں ترکوں کی سیاسی و معاشرتی تاریخ ( قبل از اسلام و بعد از اسلام ) بیان کی گئی ہے ، حصہ دوم میں ارطغرل غازی کی شخصیت اور کارناموں کا ذکر کیا گیا ہے ، وہ قائی قبیلے کا سربراہ کیسے بنا ، اس کے خاندان اور سپہ سالاری کا ذکر ہے، اولاد کا تذکرہ ہے ۔ ان روحانی شخصیات کے بارے میں بتایا گیا ہے جن سے ارطغرل غازی متاثر تھا ۔ عثمانی تاریخ کی ابتدا میں ارطغرل غازی کی زندگی کا احوال بھی بیان کیا گیا ہے اور پھر بتایا گیا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کیسے قائم ہوئی ۔

قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ارطغرل غازی کی زندگی اس سے کہیں زیادہ شاندار ہے جو ڈرامہ میں دکھائی گئی ہے ۔ یہ کتاب ان کی پوری زندگی کااحاطہ کرتی ہے، ان کی شخصیت کے تمام پہلوئوں سے آگاہ کرتی ہے۔ خوبصورت ، عمدہ کاغذ، مضبوط جلد اور شاندار طباعت کی حامل اس کتاب میں درجنوں چہار رنگی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں جنھیں دیکھنے سے ارطغرل غازی کی زندگی کا مطالعہ مکمل ہوتا ہے۔

پاکستان جنگیں اور سیاست
مصنف :ڈاکٹر عرفان احمد بیگ(تمغہ امتیاز)

کسی ملک کے اردگرد موجود جغرافیہ ماحول اُس کی ترجیحات کو طے کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اسکینڈے نیویا میں موجود مثالی امن و امان اور اس کے نتیجے میں فلاحی معاشروں کا وجود اس لئے ممکن ہوا کہ اس خطے میں موجود ممالک کے مابین تنازعات اور مفادات کے شدید تصادم کی کیفیت موجود نہیں ہمسایہ ممالک کے درمیان امن مکمل طور پر اختیاری عمل نہیں ہوتا بلکہ عالمی اور علاقائی سیاست ریاستوں کے رویوں کی صورت گری کرتی ہے۔ عظیم جرمن ماہر عسکریات کارل فان کلاز ویٹس نے ریاستوں کے باہمی رویوں کے حوالے سے بالکل درست بات کہی تھی:

War is the Continuation of Policy by other means

یعنی ریاستیں نظریات اور مفادات کے تصادم میں اپنی پالیسی پر اصرار کرتی ہیں اور مقاصد کا حصول اگر پُر امن ذرائع سے ممکن نہ رہے تو مسلح تصادم یعنی جنگ کا ذریعہ بروئے کار لایا جاتا ہے۔

بدقسمتی یا خوش قسمتی سے پاکستان کو اپنے وجود میں آنے کے ساتھ ہی ایک ایسا ہمسایہ بھی ملا جو نظریاتی اعتبار سے اس کے وجود کی ضد ہے۔ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کی نوعیت اس لئے ہمیشہ غیر معمولی رہی کہ پاکستان کا وجود میں آجانا برصغیر کی ہندو اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے اُس بیانیے کی مکمل شکست تھی جو اُس نے برطانوی تسلط کے خلاف جدوجہد آزادی کے لئے اختیار کر رکھا تھا اور درحقیقت اس بیانیے کی تہہ میں ایک تیر سے دو شکار کرنے کی پالیسی کار فرما تھی جس کے ذریعے برطانیہ کے تسلط سے آزادی کا حصول اور آزادی کے بعد برصغیر کے دس کروڑ مسلمانوں کو اپنے زیرنگیں لانے کے دونوں اہداف حاصل کرنا مقصود تھا۔ لیکن برصغیر کے سیاسی افق پر قائد اعظم محمد علی جناح دوبارہ طلوع ہوئے تو ہندوستان پر گاندھی جی کے 'رام راج، کا خواب چکنا چور ہوگیا۔



لہٰذا پاک بھارت ہمسائیگی کی بنیاد ہی ایک نظریئے کی شکست اور دوسرے نظریئے کی فتح پر استوار ہے۔ ایسے پس منظر کے ساتھ اگر دونوں ملکوں کے درمیان جغرافیائی تنازعات بھی موجود ہوں تو پھر جنگوں کا اندیشہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ زیر نظر کتاب ''پاکستان جنگیں اور سیاست،، ڈاکٹر عرفان احمد بیگ (تمغہ امتیاز) کے پاک بھارت تصادم کی تاریخ اور اس میں دیگر ممالک کے کردار کے حوالے سے روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں سلسلہ وار شائع ہونے والے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں قیام پاکستان سے لے کر موجودہ دور تک دونوں ممالک کے مابین جاری کشمکش کا جائزہ لیا گیا ہے۔ پاکستان کے ممتاز سفارت کار نجم الثاقب اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:

''صدیوں پر محیط علم و دانش پر نظر رکھنے والے یہ تو طے نہیں کرسکے کہ جنگ ضروری ہے بھی کہ نہیں، لیکن تاریخ فلسفے اور جنگوں کے جنگجوئوں اور افلاطون کا مطالعہ کرنے کے بعد اس فیصلے پر ضرور پہنچا جاسکتا ہے کہ امن اور جنگ اپنی اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔زیر نظر کتاب اسی مسلمہ حقیقت کی جنوبی ایشیائی پرتیں اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے جب ہم ڈاکٹر عرفان احمد بیگ کی کتاب ''پاکستان جنگیں اور سیاست،، کا ذکر کرتے ہیں تو Hybrid War کے اس جدید دور میں یہ موضوع تاریخی حوالے سے دلچسپ معلوم ہوتا ہے۔،،

کتاب کی پیشکش کا معیار شاندار ہے تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے اس میں دلچسپی کا بڑا سامان موجود ہے، جسے الحمد پبلی کیشنز رانا چیمبر (چوک پرانی انارکلی) لیک روڈ لاہور نے شائع کیا ہے(042-37310944) قیمت 500 روپے ہے۔
Load Next Story