ایک تھا بادشاہ

ہمارے زمینی بادشاہ کو اس کی حماقتوں اور حالات نے معزول کردیا لیکن وہ اس زُعم میں تھا کہ وہ اب بھی بادشاہ ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

ایک تھا بادشاہ، ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔ ہمارے زمینی بادشاہ کو اس کی حماقتوں اور حالات نے معزول کر دیا لیکن وہ اس کا دماغ ابھی شاہی خُو بُو والا تھا اور وہ اس زُعم میں تھا کہ وہ اب بھی بادشاہ ہے۔ اس کے چند پرانے دوستوں اور خیر خواہوں نے اس کی یہ حالت دیکھ کر اسے محل کے سامنے ڈیرہ ڈالنے کی اجازت دلوا دی چنانچہ وہ محل کے دروازے پر ایک ٹوٹی ہوئی چار پائی پر پڑا رہتا تھا۔ دریں اثناء اسے غربت نے بھی آن لیا تھا کیونکہ بادشاہی جا چکی تھی اور اس کی وہ چار پائی یا معزولی والا تخت بھی پرانا ہو چکا تھا جس پر وہ پڑا رہتا تھا۔ اس چار پائی کے ایک ٹوٹے ہوئے پائے کے نیچے پرانے محل کی ایک دیوار سے چند اینٹیں نکال کر رکھ دی گئی تھیں۔ رعایا محل کے سامنے سے ادب کے ساتھ گزرتی رہتی تھی اور ان کا بادشاہ رعایا کی اس روش کا پنکھا ہلا کر جواب دے دیتا تھا۔

جہاں پناہ کی دو بیٹیاں تھیں جو قریب کی ندی سے ہر روز اپنے غریب بادشاہ باپ کے کپڑے دھو کر لے آتی تھیں اور اپنے باپ کو یہ شاہی پوشاک پہنا دیتی تھیں۔ ایک بیٹی شاہی مطبخ کی دیکھ بھال کے لیے گھر پر رہتی تھی اور بادشاہ کی پسند کا کھانا تیار کرتی تھی۔ بادشاہ کے پرانے دوست کبھی کبھار اسے کوئی خبر سنا جاتے تھے، ایک خبر یہ ملی کہ حکومت نے بادشاہ کو مکمل سرکاری خرچ پر آرام دلانے کے لیے قاضی کے پاس نالش کر دی ہے۔ بادشاہ اس ناقابل تصور گستاخی پر تڑپ اٹھا اور اس نے اعلان کر دیا کہ میری فوج اندر سے میرے ساتھ ہے میں دیکھوں گا کہ کون میرے خلاف مقدمہ چلاتا ہے۔ بادشاہ نے اہل خانہ کو حکم جاری کیا کہ وہ رعایا سے رابطہ کریں اور اسے بادشاہ کی ناراضگی اور غم و غصہ سے آگاہ کریں۔

بادشاہ جو فوج سے خاص تعلق رکھتا تھا اور جس کی فتوحات ظاہر ہے کہ اسی فوج کی وجہ سے تھیں اسے اپنی فوج پر بہت ناز تھا کہ وہ اس کی مدد کو ضرور آئے گی اور شاہی تخت و تاج کی عزت بچائے گی چنانچہ وہ بار بار اعلان کرتا کہ فوج اس کے ساتھ ہے کیونکہ وہ فوج کا سپریم کمانڈر ہے مگر چھاؤنیوں کی صورت حال بہت مختلف تھی۔ عام سپاہی اپنے سپریم کمانڈر پر ترس کھا رہا تھا لیکن وہ سخت فوجی ڈسپلن کی وجہ سے خاموشی پر مجبور تھا اور افسر لوگ مزید کسی ایسی ذمے داری کو قبول کرنے پر تیار نہ تھے جو عوام کو پسند نہ ہو کہ اس پر کوئی محاذ آرائی ہو جائے۔


بادشاہ سلامت اسی غم و غصے اور فکر میں پیج و تاب کھا رہے تھے۔ ان کی بادشاہی ایک معمول کی روایتی بادشاہت تھی اور شاہی رعب داب اور سزاؤں پر مشتمل تھی ،کوئی ایسی بڑی وجہ بھی موجود نہیں تھی کہ فوج بادشاہ کا ہر حال میں ساتھ دیتی۔ پرانی یادوں میں غلطاں و پیچاں بادشاہ کو ایسے ایسے خیالات آ رہے تھے جن پر اسے خود بھی ہنسی آ جاتی تھی لیکن پھر بھی وہ اپنے آخری سہارے فوج کی طرف اپنے پیغامات بھیج رہا تھا اور اس سے اپنی حمائت کی توقع کر رہا تھا۔ لوگوں سے کہہ رہا تھا کہ فوج میرے ساتھ ہے اور وہ حکومت کی طرف سے میرے خلاف کارروائیوں پر ناراض بھی ہے۔ ملک کے وزیر اعظم کو تو میں نے برطرف کر دیا تھا نہ معلوم وہ کیا چکر چلا کر واپس آ گیا ہے۔ حماقت تو مجھ سے بھی ہوئی کہ باہر سے واپس ملک لوٹ آیا اور خود کو اس جال میں پھنسا دیا۔ اب جس وزیر اعظم کو میں نے برطرف، قید اور ملک بدر کر دیا تھا وہ مجھ سے گن گن کر بدلے نہ لے تو کیا کرے۔ فوج وزیر اعظم کی کارروائیوں کو دیکھ رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ یا تو مارشل لاء لگا دے یا پھر مجھے کسی امریکی جاسوس کی طرح پاکستان سے نکال کر لے جائے۔ امریکا سے بہت دوستی رہی بلکہ میں نے تو مارشل لاء بھی اس سے پوچھ کر لگایا تھا لیکن میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ امریکا نے شاہ ایران کے ساتھ کیا سلوک کیا، اسے قبر کی جگہ بھی مانگ کر لینی پڑی، اندریں حالات میں اپنی فوج ہے یا پھر میری معزول کی گئی حکومت جو میری قید و بند تک رعایت کر دے اس سے آگے نہ بڑھے جیسے میں نے بگٹی وغیرہ کے ساتھ کیا تھا۔ مجھے اس سے بہت ڈر لگ رہا ہے۔

صورت حال ایسی ہے کہ فوج کو اپنے سابقہ افسر اعلیٰ کے ساتھ ہمدردی ضرور ہے۔ فوج میں افسران بالا کا ڈسپلن بہت چلتا ہے اور افسر چلا بھی جائے تو اس کا احترام باقی رہتا ہی ہے۔ مگر اس وقت تک فوج کے ریٹائرڈ جرنیلوں کے جو بیانات آ رہے ہیں، ان میں افسوس کہ اپنے اس جرنیل کے ساتھ ان کی کوئی ہمدردی دکھائی نہیں دیتی۔ ان سے زیادہ ہمدردی تو میرے جیسے صحافیوں کو ہے جنرل مشرف نے میڈیا کو بہت آزادی دی تھی اور اس آزادی میں ہم نے نہ صرف مزے کیے بلکہ اب تک اس آزادی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور لگتا ہے کہ ہوتے رہیں گے کیونکہ حکمرانوں کے لیے ممکن نہیں کہ وہ میڈیا کی آزادی پر کوئی قدغن لگا سکیں۔ جنرل مشرف میں تحمل بھی تھا میں نے ملک بھر کے صحافیوں کی بھری مجلس میں ان سے اختلاف کیا اور اسے گستاخی بھی سمجھا گیا لیکن انھوں نے اس کا برا نہ منایا بلکہ اس کے بعد اپنے ہاں ایک مختصر سی پریس بریفنگ میں چند صحافیوں کے ساتھ مجھے بھی بلایا گیا۔ ان کے پاس مکمل اختیار تھا اور بازاری قسم کے لوگ ان کے اطلاعات کے شعبے میں با اختیار تھے لیکن ان کی حکومت کی طرف سے مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ دوسرے اخبار نویسوں کو بھی انھوں نے کوئی تکلیف نہیں دی، پریس کی آزادی کی حد تک صحافی ان کے ساتھ ہوں گے لیکن انھوں نے مارشل لاء کا اتنا بڑا جرم کر دیا کہ اس کی معافی عدالت بھی دے گی یا نہیں دیکھیں گے۔ بہر حال ہمارا ایک بادشاہ تھا جو اپنے محل کے سامنے اب تک بادشاہ بن کر ایک ٹوٹی ہوئی چار پائی پر آزادانہ بیٹھا تھا نہ جانے کب تک۔

پس نوشت: معافی چاہتا ہوں کہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے گزشتہ کالم اکھڑا اکھڑا سا تھا جس سے قارئین کو کوفت ہوئی۔ ڈاکٹروں کے مطابق سخت سردی میرے لیے بیماری ہے۔ ہر سو پھیلی ہوئی سردی سے کوئی کیسے بچ سکتا ہے۔ بہر کیف معذرت قبول فرمائیے۔
Load Next Story