سینیٹ الیکشن ایک معرکہ ۔۔۔

ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک جہاں سالہا سال کے تجربات کے بعد بھی یہاں مضبوط جمہوری کلچر پروان نہیں چڑھ سکا ہے۔



ملک میں حکومت اور مخالف جماعتوں کے مابین موجودہ سیاسی رسہ کشی اب نئے مراحل میں داخل ہوچکی ہے ۔

ایک طرف پی ڈی ایم ہے جو بڑے سیاسی جلسوں اور اُن میں مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت کی جانب سے اختیار کیے گئے سخت اینٹی گورنمنٹ اور اینٹی اسٹبلشمنٹ موقف کی بدولت اب ایسے موڑ پر پہنچ گئی ہے کہ وہ اگلے محاذوں پر لڑنے کا اعلان کرچکی ہے ، تو دوسری جانب حکومت نیب کو مزید فعال کرنے کی تیاری کررہی ہے ۔ اس تما م تر سیاسی جنگی صورتحال میں جو سب سے بڑا محاذ یا سب سے بڑا معرکہ ہوگا وہ آیندہ ہونیوالے سینیٹ انتخابات ہیں ۔

جو حکومت کو سیاسی تقویت دینے کا باعث بن سکتے ہیں ۔کیونکہ آیندہ مارچ میں پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 52 سینیٹرز ریٹائر ہوجائیں گے ۔ جن میں نون لیگ کے 17، پی پی پی کے7،بی اے پی کے 3، جے یو آئی اور پی کے میپ کے 2، 2 سینیٹرز شامل ہیں ۔

جن کی موجودگی سے سینیٹ میں مخالف جماعتوں کو اکثریت حاصل ہے اور انتخابات کے بعد تحریک انصاف اور اُن کی اتحادی جماعتوں کو اکثریت حاصل ہوجائے گی ۔ اس لیے حکومت چاہتی ہے کہ جلد سے جلد سینیٹ انتخابات ہوں ۔جب کہ حزب ِ اختلاف کے لیے پارلیمانی اداروں میں سینیٹ واحد فورم ہے جہاں وہ اس وقت اکثریتی طاقت رکھتی ہے۔

اس لیے وہ چاہے گی کہ کسی طرح انتخابات سے قبل حکومت کو گھر بھیج کر اِس مورچے کو بچانے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی و دیگر اسمبلیوں میں بھی اپنی پوزیشن مضبوط کرلی جائے۔ جس کے لیے وہ سینیٹ انتخابات کو مؤخر کروانے کے لیے مختلف احتجاجی و قانونی داؤ پیچ سے لڑنے کے لیے کمربستہ ہے ۔ ایک طرف مرکز کی جانب لانگ مارچ کو دھرنے میں تبدیل کرنے کے آپشن بھی زیر غور رہے تو دوسری طرف استعفوں کے ذریعے صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے جیسی آئینی و قانونی رکاوٹیں پیدا کرنے پر بھی غور و خوض ہوتا رہا ۔ چونکہ سینیٹ کے انتخابات براہ راست صوبائی اسمبلیوں سے ووٹنگ کی بنیاد پر ہوتے ہیں اس لیے تمام صوبائی اسمبلیوں کا انتخابات کے وقت موجود ہونا اور ووٹنگ میں حصہ لینا لازم ہے۔

مگر وہ جو مشہور ہے ناں کہ ''یہ پاکستان ہے ، یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے '' ، وہ اپنی عملی صورت دکھانے کے اس طرح قریب ہے کہ حکومت کی قانونی ٹیم نے پاکستانی آئین میں سے ایسی شقیں کھوج نکالی ہیں ، جس کے ذریعے یہ ممکن کیا جاسکے گا کہ جس کے بعد حزب ِ اختلاف کی بڑی جماعت پی پی پی اپنے مورچے سندھ اسمبلی کو اپنے خود ساختہ استعفیٰ بم حملے سے توڑ بھی دے تو بھی سینیٹ انتخابات ہوں گے اور وہ صرف تین صوبائی اسمبلیوں کے حصہ لینے سے بھی ہوجائیں گے۔

اس کے ملکی استحکام پر کتنے بُرے اثرات مرتب ہوں گے یہ موجودہ حکومت کا Moto نہیں ہے یا پھراُسے اِس کی سمجھ بالکل اِسی طرح نہیں ہے جس طرح بقول وزیر اعظم ''انھیں اب تک حکومتی اُمور کی سمجھ نہیں ہے ''۔ یہ دیکھ کر ہمیں بہرحال آئین و قانون سے متعلق یہ کہاوت اچھی طرح سمجھ آگئی ہے کہ ''پاکستان کا قانون مکڑی کے جالے کی طرح ہے ، جس میں کمزور مکھی و مچھر تو پھنس جاتے ہیں مگر طاقتور بیل اُسے ٹکر مار کر آگے نکل جاتا ہے ''۔

حکومت کوآئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں مطلوبہ 2/3اکثریت حاصل نہیں اور سینیٹ کی موجودہ پوزیشن بھی اُس کے حق میں نہیں ہے۔ اس لیے حکومت جلد سے جلد سینیٹ کے انتخابات چاہتی ہے تاکہ وہ صوبائی اسمبلیوں کی موجودہ پوزیشن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کم از کم ایوان ِ بالا میں طاقت حاصل کرلے اور پھر وہاں سے قانونسازی کروانے کی اہل بن جائے ۔

مگر بقول خود حکمرانوں کے قبل از وقت سینیٹ انتخابات اور انتخابات میں اوپن بیلٹ یا شو ہینڈ والے کھلے طریقے کے لیے مطلوبہ قانونسازی کا انھیں علم ہی نہیں تھا، اور جب تک پتا چلا تب تک بہت دیر ہوچکی تھی ۔ایسے میں حکومت کو ایک دھچکا یہ لگا کہ الیکشن کمیشن جو گلگت بلتستان کے انتخابات کے دوران حکومتی ہمنوا تھا ، اُس نے بھی حکومت کو لال جھنڈی دکھادی ہے ۔الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات مقررہ وقت سے قبل کرانے سے متعلق موقف اختیار کیا ہے کہ آئین کی آرٹیکل 224کے ذیلی آرٹیکل 3 کے تحت یہ ممکن ہی نہیں کہ میعاد پوری کرنیوالی نشستوں پر 30دن قبل انتخابات کروائے جاسکیں ۔

جس کا اظہار الیکشن کمیشن نے کچھ اس طرح کیا ہے کہ'' آئین کی آرٹیکل 218کی شق 3، 224کی شق 3اور الیکشن ایکٹ 2017کی شق 107کے تحت سینیٹ انتخابات الیکشن کمیشن کی آئینی و قانونی ذمے داری ہے۔ حکومت اگر قبل از وقت انتخابات چاہتی ہے تو ترمیم ضروری ہے ، جس کا موقع حکومت گنوا چکی ہے ، اب اتنا وقت نہیں کہ یہ سب کچھ کیا جاسکے ''۔ یوں تو وقت گذر چکا ہے مگر اب حکومتی قانونی مشیر اپنی پھُرتی دکھانے یا پھر شاید کپتان کی نگاہوں میں اپنی عزت بچانے کے لیے آئین و قانون کی کمزور شقوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے حکومت کو ایسے مشورے دے رہے ہیں جو اٹھارویں ترمیم کے بعد براہ راست غیر آئینی اقدامات کی روک تھام کے بعد شاید پھر غیر جمہوری قوتوں کو تقویت دینے کا باعث بن جائیں۔ انھوں نے حکومت کوسینیٹ انتخابات اور انتخابات کا طریقہ کارطے کرنا پارلیمان کا استحقاق ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کو ملوث کرنے کا مشورہ دیا۔

ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک جہاں سالہا سال کے تجربات کے بعد بھی یہاں مضبوط جمہوری کلچر پروان نہیں چڑھ سکا ہے، یہاں سیاستدان جمہوری اقدار و روایات کی پاسداری اور جمہوری اداروں کے مان و مرتبے کی سربلندی کے لیے سنجیدہ کردار و کوشش نہیں کرتے ہیں ۔اس ملک میں لوٹا کریسی ایوانوں کی پوزیشن اور فیصلوں میں تبدیلی کا اہم ذریعہ رہی ہے ۔

اپوزیشن ہر انتخابات میں حکومت پر الزام لگاتی رہی ہے کہ اس نے اپنی جیت کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں اور انتخابی جیت میں منصفانہ طریقہ استعمال نہیں کیا گیا جب کہ حکومت ہمیشہ اپوزیشن کے الزامات کو مسترد کرتی رہی اور یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اس نے دھاندلی نہیں کی اور ہر قسم کی تحقیقات کے لیے تیار ہے۔

گزشتہ سینیٹ انتخابات اور چیئرمین سینیٹ کے vote of confedenceکے موقع پر پارٹی پوزیشن اور نتائج ایسی تبدیلی کی مثال ہیں ۔ دیکھا جائے تو پاکستان ایک کثیر قومی ملک ہے ۔ اس میں اقوام کے مابین برابری کا واحد پلیٹ فارم سینیٹ ہے ۔ اس لیے سینیٹ کے انتخابات اور سینیٹ میں نمایندگی سے لے کر سینیٹ کے ذریعے قانون سازی بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔

اس لیے سینیٹ جو ملک کو متحد و منظم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ، کو ملک کے ایوان ِ بالا کی حیثیت حاصل ہے ۔اس میں خفیہ بیلٹنگ پر ارکان کی خرید و فروخت والی ہارس ٹریڈنگ میں بلیک منی کے استعمال سے حکومت خوفزدہ ہے ، جو کہ عجیب بات ہے ، کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ یہ کام ہمیشہ حکومتی فریق خود یا اُس کی حامی قوتیں حکومت کو فائدہ پہنچانے کے لیے کرتی آئی ہیں، اور ہمیشہ ایسی ہارس ٹریڈنگ سے نقصان حزب اختلاف کو ہوتا آیا ہے ۔ اِسی لیے مخالفت ہمیشہ حزب ِ اختلاف کرتی آئی ہے ، مگر اس بار حکومت خود ہارس ٹریڈنگ سے خو ف زدہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت اوپن بیلٹ یا شو ہینڈ کے ذریعے سینیٹ انتخابات چاہتی ہے ۔ ماحول میں چہ مگوئیاں ہیں کہ حکومت نے کہیں ملکی اقتدار کی اصل قوتوں کے بدلتے رویے بھانپ تو نہیں لیے ہیں کہ جس کے باعث وہ شو ہینڈز کے طریقے پر بضد ہے ؟

اس سیاسی رسہ کشی کے سجے ملکی میدان میں فی الحال کچھ بھی واضح نہیں ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ فٹبال میچ کی کسی ٹیم کے میدان میں ''ڈی '' میں داخل ہونے سے گول ہونے کی اُمید پیدا ہونے کی طرح پی ڈی ایم بھی مرکز کے ''ڈی چوک'' میں داخل ہوجائے یا پھر حکومت سینیٹ انتخابات کے ذریعے اپنی گول رنگ کو مضبوط کرکے حزب اختلاف کی کوششوں کو فاؤل بنادے ۔ اس سے بہرحال یہ ثابت ہوگیا ہے کہ سینیٹ انتخابات والا معرکہ جس نے بھی سَر کیا وہی آیندہ کے اقتداری ''مقدر کا سکندر'' ہوگا۔

لیکن اس ساری صورتحال میں ایک اہم کردار اُس طاقتور ریفری کا بھی ہے ، جسے پاکستان میں خفیہ قوت کہا جاتا ہے ۔ اس تجربے کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ ریفری جس ٹیم کی سائیڈ لے گا وہی فاتح ہوگی ، اور موجودہ scenario یہ چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ ریفری کا جھکاؤ اب تک حکومت کی طرف ہے ۔ شاید اسی بناء پر سیاسی و اقتداری سازشوں کے ماہرین تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ''ہنوز دہلی دور اَست'' ۔۔۔!!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں