نیا سال بلوچستان میں تبدیلی کے امکانات
نئے سال میں بلوچستان میں بہتری کے امکانات کوسیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے رویوں میں تبدیلی سے مشروط کیے بنا نہیں دیکھا جاسکتا
KARACHI:
روایتاَ ہی سہی لیکن ماضی کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کی پیش گوئی کرتے رہنا، بہتری کی کوشش کرتے رہنا، حکمتِ عملی جوڑتے رہنا، اچھا ہے۔ جب ہم اپنے دکان، نوکری، کاروبار کے نفع و نقصان کا سالانہ بنیادوں پر جائزہ لیتے ہیں تو پھر وطن کی فکر تو اس سے زیادہ ہی ہونی چاہیے۔ گو کہ ہم جانتے ہیں پاکستان میں اس بابت جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں لفاظی زیادہ اور حقائق کم ہیں، لیکن اچھی روایتوں کا جاری رہنا بھی اس امید کے جگائے رکھنے کو کافی ہے کہ کبھی یہ خواب تکمیل بھی پا لیں شاید۔
عالمی سطح سے لے کر پاکستان کے لیے جس طرح سالِ گزشتہ تبدیلیوں بھرا اور اہم واقعات سے مزین ثابت ہوا، بعینہِ یہی معاملہ بلوچستان کا بھی رہا۔ بلوچستان کے سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچے پر اکیسویں صدی کے تیرہویں برس نے خاصے اہم اور دیرپا اثرات مرتب کیے۔ ان اثرات کے ثمرات ابھی آنے والوں دنوں، ہفتوں، مہینوں اور برسوں میں مزید کھل کر سامنے آئیں گے۔ بلوچستان کی سطح پر دو ہزار تیرہ کا آغاز ہی نہایت فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا، جب سال کے پہلے ہی ماہ کے وسط میں ہزارہ کمیونٹی پر یکے بعد دیگرے ہونے والے حملوں کے نتیجے میں سو سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔ ان کے لواحقین اپنے پیاروں کی لاشیں لے کر کوئٹہ کے منفی درجہ حرارت میں انھیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی پر حکومت کی برطرفی کا مطالبہ لے کر کھلے آسمان تلے بیٹھ گئے، اور بالآخر یہ سخت مطالبہ تسلیم کروا کے ہی اٹھے۔ جس کے نتیجے میں صوبے میں گورنر راج کا نفاذ ہوا، اور ایک کرپٹ ترین حکومت کو بالآخر غیر متوقع طور پر اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اس سال کی دوسری بڑی تبدیلی پاکستان سمیت بلوچستان بھر میں ہونے والے انتخابات تھے۔ جو غیر متوقع اور غیر یقینی طور پر سوائے چند ایک مقامات کے نہ صرف پر امن طور پر منعقد ہوئے بلکہ اس کے نتائج نے ناقدین سمیت بعض جیتنے والوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ بڑے بڑے برج الٹ گئے، اور راتوں رات کئی بونوں کا قد نکل آیا۔ ایک طرف جہاں یہ انتخابات اور اس کے نتائج حیران کن تھے، وہیں اس کے نتیجے میں حیران کن طور پر اسمبلی میں سب سے کم اکثریت رکھنے والی ایک غیر سرداری جماعت کی حکومت قائم ہوئی۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی بار ایک غیر سردار بلوچستان کے عنانِ اقتدار کا 'مالک ' بنا۔ اس تاریخی حکومت کا پہلا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے کابینہ کی تشکیل میں تین ماہ لگا دیے، یہ اس تاریخی حکومت کا تاریخی ریکارڈ رہے گا۔ اور پھر رفتہ رفتہ غیر سرداری حکومت میں، ماضی کے نامور سردار اور نواب آن شامل ہوئے۔ ان نوابوں اور سرداروں کی چھاؤں میں اس مڈل کلاس حکومت نے بالآخر اپنے ابتدائی چھ ماہ 'خیر و عافیت' سے نکال لیے۔
آواران کا زلزلہ بھی اس برس کی تباہ کاریوں میں یادگار رہے گا۔ کسی قسم کے بنیادی انفراسٹرکچر سے محروم بلوچستان کے لیے یہ ایک عظیم سانحہ تھا۔ اختیارات سے محرومی کا رونا رونے والی مڈل کلاس حکومت بس اخباری بیانات تک محدود رہی۔ عسکری اداروں کی مداخلت نے غیر سرکاری اداروں کا کام بھی مشکل بنا دیا۔ اس موقعے پر فلاحی اور سماجی اداروں کا کردار بلاشبہ قابلِ تحسین رہا۔ لیکن یہ اتنی بڑی تباہی تھی کہ ریاستی اداروں کی مدد کے بغیر اس کا سدباب ممکن ہی نہ تھا۔ زخم شدید تھے اور مرہم قلیل۔ مسلسل آفات کی زد میں آئی محروموں اور محکوموں کی یہ دھرتی تادیر ان زخموں کو سہلاتی رہے گی۔
گزشتہ کئی برسوں سے بلوچستان کا 'ہاٹ ایشو' بنا ہوا لاپتہ افراد کا معاملہ یوں تو سارا سال عدلیہ کے توسط سے بلوچستان سے متعلق خبروں کا حصہ رہا۔ لیکن سال کے آخر میں لاپتہ بلوچوں کے بعض لواحقین کی جانب سے احتجاج کو نیا رنگ دیتے ہوئے لانگ مارچ کی حکمت عملی نے ایک نئی ہلچل پیدا کی۔ ایک درجن افراد کا قافلہ کوئٹہ سے سات سو کلومیٹر پیدل طے کر کے کراچی پہنچا تو وہاں کے عوام سمیت میڈیا کے کیمروں نے ان کا بھرپور استقبال کیا۔ یوں یہ ایشو نئے سرے سے وسیع پیمانے پر خبروں کا حصہ بنا۔ اور یوں حکمرانوں کے لیے دردِ سر کا باعث بھی ثابت ہوا۔ اس درد ِسر میں مزید اضافہ تب ہوا جب محض چند دن کے وقفے سے اس مختصر قافلے نے کراچی سے اسلام آباد پیدل لانگ مارچ کا اعلان کر دیا، اور جلد ہی اس اعلان پہ عمل درآمد بھی شروع ہو گیا۔ حکمران جب ان سرپھروں کو اسلام آباد کی اور بڑھنے سے نہ روک سکے تو آخری حربہ کے بطور میڈیا کو اس معاملے پہ بلیک آؤٹ کر دیا۔ سو، گزشتہ دو ہفتوں سے مرکزی دھارے کے ملکی میڈیا میں اس بابت کوئی خبر نہیں چلی، حالانکہ یہ پاکستان کی (اور بعض حلقوں کے دعوے کے مطابق ایشیا کی ) تاریخ کا سب سے طویل لانگ مارچ ہے۔
ملک کے باقی تمام صوبوں کے اگر مگر کے باوجود سال کے آخر میں بلوچستان بھر میں ہونے والے بلدیاتی انتخاب کا انعقاد گو کہ صوبے کی مڈل کلاس حکومت کا ایک 'کارنامہ' رہا، لیکن یہ صوبے کی مجموعی سماجی ہیئت میں کسی قابلِ ذکر تبدیلی کا باعث نہ بن سکا۔
گزرے سال میں جس طرح مزاحمتی تنظیموں کی گوریلا کارروائیاں اپنی رفتار سے جاری رہیں، بعض حلقوں کے مطابق گزشتہ پانچ سال کی نسبت ان میں کمی آئی، وہیں اس سال فرقہ ورانہ کشیدگی میں ہوش ربا تیزی آئی۔ آغاز سے لے کر اختتام تک سال بھر کوئٹہ اس آگ کے شعلوں میں جلتا رہا۔ عالمی تبدیلیوں کے پس منظر میں اس آگ کے شعلوں میں آیندہ بھی کوئی کمی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
اس سارے پس منظر میں بلوچستان کے مستقبل کو نئے برس کے منظرنامے میں دیکھیں تو محض ایک ہی حوصلہ افزا اقدام نظر آتا ہے، بلکہ اب تک یہ محض دعویٰ ہے، اس کے عملی اقدام ہونے کا منظر ابھی نہیں دیکھا گیا۔ یہ دعویٰ گزشتہ دنوں سال کے آخری ہفتے میں سنا گیا، جس کے مطابق سیکیورٹی اداروں اور حکومتی حلقوں میں اس بات پہ اتفاق پایا گیا ہے کہ علیحدگی پسندوں کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ریاستی پشت پناہی میں بنائے گئے ڈیتھ اسکواڈز کا خاتمہ کیا جائے گا۔ بلوچستان کے حوالے سے یہ بلاشبہ بڑی خبر ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہی گروہ ہیں جو صوبے بھر میں بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان میں ملوث رہے ہیں۔ ریاستی پشت پناہی کے باعث ہی کھلم کھلا بدمعاشی کے باوجود کوئی ان کا بال بیکا نہ کر سکا۔ نیز جس مقصد کے لیے انھیں لانچ کیا گیا تھا، وہ حکمت عملی بھی ناکام رہی۔ سیکیورٹی اداروں کی اپنی رپورٹس کے مطابق اگر ان پر قابو نہ پایا گیا تو یہ ریاستی رٹ کو بھی چیلنج کر سکتے ہیں۔ ان کی مثال بالکل طالبان جیسی ہے، جنھیں ایک وقت میں ایک دشمن سے لڑانے کے لیے بنایا اور استعمال گیا اور بعد ازاں وہ اپنے ہی 'تخلیق کار' کے درپئے آزار ہو گئے۔ خواہ اپنی سیکیورٹی کے تحت یا حالات کی بہتری کی غرض سے، ان کی پشت پناہی کے خاتمے کا فیصلہ ہر دو صورتوں میں ایک بہتر فیصلہ ہے۔ اس صورت میں بلوچستان میں سیاسی قوتوں کے لیے میدان سازگار ہو گا۔ ایک بار حقیقی سیاسی قوتیں خود مختار ہو جائیں تو وہ صوبے کو صحیح سمت دینے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔
مختصراَ نئے سال میں بلوچستان میں بہتری کے امکانات کو سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے رویوں اور حکمت عملی میں تبدیلی سے مشروط کیے بنا نہیں دیکھا جا سکتا۔ افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا اور وہاں کے حکومتی ڈھانچے میں تبدیلی خود بلوچ مزاحمتی تحریک میں بھی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے بہتر ہوتے تعلقات کا بھی خطے کی صورت حال پر بلواسطہ اثر ضرور پڑے گا۔ شاعر، ساحر کے الفاظ میں جنگ کا ٹلتے رہنا ہی بہتر ہے۔ ہم اور آپ، سبھی کے آنگن میں شمع کا جلتے رہنا ہی اچھا ہے۔ لیکن یاد رہے، اس نے یہ بات 'شریف انسانوں' کے لیے کہی تھی۔