یادیں قائد کی

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قائد اعظم کی زندگی کے ہر لمحے میں ہماری قوم کے لیے قابل قدر مفید جواہر پارے پوشیدہ ہیں


[email protected]

روئے زمین کی تاریخ کی تدریج اور تعمیر میں جغرافیائی ماحول کے بعد انسانی شخصیت نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ اس لیے کارلائل جیسے مفکر کے نزدیک تاریخ اور تہذیب حقیقتاً عظیم شخصیات کی تگ و دو اور ان کی تحقیقی جوہر کا نتیجہ ہیں۔ ایسی عظیم شخصیات جنہوں نے دنیا کی تاریخ کے دھارے کو مثبت سمت موڑا، انھی میں ایک عظیم شخصیت قائد اعظم محمد علی جناح کی بھی ہے کہ جن کی جد مسلسل، خیالات و افکار، تحریکات و تخلیقات، سیاسی سوجھ بوجھ، عقل و فہم و فراست، سیاسی بصیرت اور ناقابل شکست صلاحیتوں کی بدولت مملکت خداداد پاکستان دنیا کے نقشہ پر وجود میں آئی اور مسلمانوں کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوا اور ان کے گلے سے انگریزوں کے بعد ہندو سامراج کی غلامی کا طوق اترا اور انھیں اپنے عقائد اور دین اسلامی کی روشنی میں آزادانہ زندگی بسر کرنے کا موقع ہاتھ آیا، اسے مسلمانان ہند کی خوش نصیبی ہی سمجھیے کہ انھیں قائد اعظم محمد علی جناح جیسی عظیم ہستی ملی جو کہ اندھیرے میں روشنی کی کرن ثابت ہوئی جن کی تگ و دو اور مسلسل محنت و کوشش کی بدولت برصغیر میں وہ عظیم انقلاب رونما ہوا جس کی بنیاد دو قومی نظریے و نظریہ پاکستان پر قائم تھی اور جس کی بدولت بالآخر مسلمان اپنا ایک علیحدہ وطن لینے میں کامیاب و کامران ہوئے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قائد اعظم کی زندگی کے ہر لمحے میں ہماری قوم کے لیے قابل قدر مفید جواہر پارے پوشیدہ ہیں مگر اس سے کہیں زیادہ قابل توجہ ان کی خیالات و افکار ہیں جو انھوں نے قوموں کی اجتماعی زندگی، مسلمانوں کے تہذیب و تمدن، آزادی و حریت اور موجودہ سیاسی کشمکش کے بارے میں ظاہر کیے ان کے تین فرمودات ایمان، تنظیم اور یقین محکم، بلا شک و شبہ کسی بھی غیور اور ترقی پسند قوم کا مطمع نظر بن سکتے ہیں لیکن ان کی تمام تحقیقات میں افضل ترین تخلیق پاکستان ہے۔

آج ایک آزاد ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان فرد کی حیثیت سے ہم جس سکون اور اطمینان کا سانس لے رہے ہیں اور پر سکون زندگی بسر کر رہے ہیں یہ سب قائد اعظم کے انھی ناقابل شکست ارادوں کی کرشمہ سازی ہے، پس ایسے با عمل اور باکردار رہنماء کی زندگی اور افکار ہمارے لیے بالخصوص ہمارے نوجوانوں خصوصاً طلباء کے لیے مشعل راہ اور بہترین نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 کو کراچی کے علاقے کھارادر میں پیدا ہوئے، ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کراچی اور بمبئی میں حاصل کی، چونکہ ان کا خاندان تاجر پیشہ لوگوں کا تھا لہٰذا ان کے والد یہ چاہتے تھے کہ محمد علی جناح ایک بڑے تاجر بن جائیں لیکن ان کے والد کے ایک انگریز دوست نے محمد علی جناح کو ولایت بھیجنے کا مشورہ دیا۔ ولایت جاکر انھوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور 22برس کی عمر میں بیرسٹری کی سند حاصل کرلی، محمد علی جناح نے اپنے چار سالہ عرصہ قیام کے دوران برطانوی پارلیمنٹ کی کارکردگی کا بھی مطالعہ کیا اس وقت ایک ہندوستانی پارسی دادا بھائی نوروجی، برطانوی پارلیمنٹ کا انتخاب لڑ رہے تھے۔ جناح نے دادا بھائی کو کامیاب کرانے کے لیے اپنی طرف سے پوری پوری جد و جہد کی، دادا بھائی کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد آپ نے دادا بھائی کے سیکریٹری کی حیثیت سے کام کیا اور سیاست کے اولین سبق انھی سے سیکھے۔محمد علی جناح بیسویں صدی کے اوائل میں میدان سیاست میں داخل ہوئے۔

1905میں پہلی مرتبہ مدراس کے ایک رسالہ ''انڈین ریویو'' میں مسلمان کانگریس کی حیثیت سے ان کا تذکرہ کیا گیا اور ان کی سیاسی حوصلہ مندی کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ 1913 میں محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی رکنیت بھی قبول کی لیکن کانگریس کی رکنیت سے مستعفی نہیں ہوئے، انھوں نے ہندو مسلم اتحاد اور کانگریس لیگ اتحاد کے لیے بے انتہا کو شش کی جس کے نتیجے میں مسلم لیگ اور کانگریس کے اجلاس 1916 میں بیک وقت لکھنومیں منعقد ہوئے اور کانگریس و مسلم لیگ میں ایک معاہدہ ہوا جسے میثاق لکھنو کہتے ہیں۔ 1915 اور 1917 کے مسلم لیگ کے اجلاس میں کئی کانگریس رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ مثلاً گاندھی جی، مدن موہن، مالویہ وغیرہ اور اس طرح ہندو مسلم اتحاد کی فضاء سازگار ہوگئی، اس جذبہ اتحاد کے تحت خلافت اور عدم تعاون کی تحریک ساتھ ساتھ چلائی گئیں لیکن جب گاندھی جی نے یکا یک تحریک کو ختم کر دیا اور اس کے بعد ہندوؤں نے شدھی اور سنگھٹن کی تحریکیں شروع کیں تو مسلمانوں پر مصائب کا نزول شروع ہوا، محمد علی جناح نے مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کی، انھیں دلاسا دیا اور مسلم لیگ کو از سر نو منظم کرنے کا کام شروع کیا جب سائمن کمیشن برصغیر آیا تو محمد علی جناح نے کمیشن کا بائیکاٹ کیا۔

1928میں جب نہرو رپورٹ مرتب ہوئی تو اس پر غور و خوض کرنے کے لیے کل جماعتی کانفرنس کلکتہ میں 22 دسمبر کو منعقد ہوئی، محمد علی جناح نے نہرو رپورٹ میں بہت سی ترمیمات پیش کیں لیکن سوائے ایک کے سب رد کر دی گئیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو تحفظ دلانے کی خاطر آل انڈیا مسلم لیگ کی میٹنگ بمقام دہلی مارچ 1929 میں منعقد کی گئی جس میں نہرو رپورٹ کو مسترد کر دیا گیا اور مسٹر جناح کے 14نکات کو مسلمانوں کے تحفظ کا ضامن قرار دیا گیا۔

1935میں جب نیا گورنمنٹ ایکٹ نافذ ہوا تو اس کی رو سے مرکز میں فیڈریشن اور صوبوں میں خود اختیاری حکومت کا فارمولا طے پایا اور اسی ایکٹ کے تحت ہندوستان کے تمام صوبوں میں انتخابات ہوئے جس میں کانگریس کو اکثریت حاصل ہوئی۔ ان انتخابات سے کانگریس رہنماؤں نے یہ اخذ کیا کہ کانگریس کے ساتھ ہندوستان کی تمام آبادی ہے اور کانگریس ہی ہندوستان کے تمام باشندگان نمایندگی کرتی ہے اور کانگریس ہی واحد سیاسی جماعت ہے جو انگریزوں کے بعد ہندوستان کی عنان حکومت سنبھال سکتی ہے چنانچہ کانگریس کے لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک بار اعلان کیا کہ ''ہندوستان میں صرف دو جماعتیں ہیں، ا یک انگریز کی حکومت اور دوسری کانگریس۔''

محمد علی جناح نے فوراً چیلنج کیا اور کہا کہ ''ان دو جماعتوں کے علاوہ تیسری جماعت بھی ہے جو دس کروڑ مسلمانوں کی نمایندگی کرتی ہے اور وہ ہے مسلم لیگ ۔ کانگریس مسلمانوں کی نمایندہ جماعت نہیں ہے۔''

1935 کے آئین کے تحت جب کانگریس وزارتیں قائم ہوئیں تو انھوں نے مسلم لیگ کی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ کانگریس کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو جب ہی نمایندگی دی جا سکتی ہے جب وہ مسلم لیگ کو ختم کر کے کانگریس میں آ ملیں۔ محمد علی جناح نے اس بات کا اعلان کیا کہ ''مسلمان کانگریس سرکار کے زیر سایہ حق و انصاف کی امید نہیں رکھ سکتے'' انھوں نے کانگریس کی متعصبانہ پالیسی پر کڑی تنقید کی، لیکن جب کانگریس وزارتوں نے مسلمانوں پر مظالم ڈھانا شروع کیا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تو محمد علی جناح نے اسے بڑی شدت سے محسوس کیا اور جب 1939میں کانگریس وزارتیں مستعفی ہو گئیں تو انھوں نے مسلمانوں کو یوم نجات منانے کا حکم دیا، پورے ملک میں مسلمانوں نے یوم نجات منایا۔

1938 قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی میں ایک اہم سال ہے۔ اس سال کے آغاز میں ''الامان'' دہلی کے مدیر مولانا مظہر الدین مرحوم نے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے مسٹر جناح کے لیے ''قائد اعظم'' کا لقب تجویز کیا۔23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے لاہور کے اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور کی۔ قرارداد پاکستان کی منظوری قائد اعظم کی بہت بڑی سیاسی کامیابی تھی۔

قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد تحریک پاکستان اپنی منزل کی جانب تیزی سے گامزن ہوئی اور مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی بالآخر 14اگست 1947کو اپنی منزل مقصود پر پہنچی اور مسلمان قائد اعظم کی رہنمائی میں اپنے لیے ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور قائد اعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل منتخب ہوئے۔قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان تو حاصل کر لیا تاہم اس نوزائیدہ مملکت کو ہر چہار سو مشکلات کا سامنا تھا۔ لیکن قائد اعظم نے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ، حکمت و بصیرت اور ناقابل شکست صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان تمام تر مشکلات پر بخوبی قابو پا لیا۔

قائد اعظم محمد علی جناح پر جو ویسے ذمے داریاں عائد کی گئی تھیں ان کو وہ ہمت و استقلال کے ساتھ نبھاتے رہے لیکن کام کی زیادتی اور انتھک محنت کے سبب ان کی صحت جواب دینے لگی اور بالآخر ہمارے قائد اعظم 11دسمبر 1948 کو رحلت فرما گئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔