سرقہ نویسی
سرقہ نویسی پر انحصار کرنے والے ذہن کند ذہن بن کر رہ جاتے ہیں اور نئے خیالات اور نئی سوچ کا ظہور نہیں ہوتا
تحریر بلاشبہ ایک فن ہے اور یہ اس وقت آپ کو ایک احساس تفاخر میں مبتلا کردیتی ہے جب اس تحریر میں موجود آپ کی تخلیقی صلاحیتیں اب تک اس موضوع پر لکھی گئی دیگر تمام تحریروں سے اسے منفرد بنا دے، لیکن جب یہی تحریر سرقے پر مبنی ہو تو شرمندگی کے سوا کچھ نہیں دیتی۔ کیوں کہ سرقہ ایک علمی چوری ہے اور اخلاقیات کسی بھی طالب علم، مصنف یا محقق کو اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ وہ کسی اور کی تحریر کو اپنے نام سے شایع کرے یا بنا کسی حوالہ کے اپنی تحریر کا حصہ بنائے۔وکی پیڈیا کے مطابق سرقہ نویسی کا لفظ سب سے پہلے پہلی صدی میں ایک رومن شاعر نے کسی اور شاعر پر اپنی شاعری کے بول کی چوری کا الزام عاید کرنے کے لیے لاطینی لفظ plagiarius کی صورت میں استعمال کیا۔ اور پھر اسی لفظ یعنی سرقہ نویسی کو انگریزی میں ایک ڈراما نگار بین جونسن نے 1601ء میں متعارف کروایا۔ یعنی سرقہ نویسی ہمارے تمہارے دور کی بات نہیں بلکہ اس کا رواج صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور اس کے تانے بانے صدیوں پرانے دور سے جا کر ملتے ہیں، کیوں کہ دور تو بدلتے رہیں گے، لیکن انسانی فطرت ازل سے ابد تک ایک ہی رہے گی، انسان جہاں اشرف المخلوقات ہونے کے ناتے تخلیقی کاموں میں پیش پیش ہے، وہیں تخریبی کاموں میں بھی پیچھے نہیں اور اسی تخریب کاری کی ایک مثال ہم سرقہ نویسی سے بھی لے سکتے ہیں۔
آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق ''سرقہ بازی سے مراد کسی کی سوچ، خیالات، تحریر اور ایجادات کو چوری کر کے اپنے نام سے استعمال کرنا ہے۔'' سرقہ بازی مہذب معاشروں میں قانونی اور اخلاقی طور پر جرم سمجھا جاتا ہے اور اس کے تدارک کے لیے کئی قسم کے قوانین موجود ہیں، جس کے مطابق سرقہ کرنے والے کو قرار واقعی سزائیں دی جاتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مختلف قسم کی پابندیاں بھی عائد کی جاتی ہیں۔ پچھلے سال اگست میں امریکا کے ٹائم میگزین نے اپنے بھارتی نژاد مدیر فرید زکریا کو ایک مضمون میں چوری شدہ معلومات شایع کرنے کے اعتراف کے بعد ایک ماہ کے لیے معطل کر دیا تھا اور اس خبر کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد سی این این نے بھی انھیں اپنے ہاں کام کرنے سے روک دیا تھا۔ حالاں کہ وہ ایک مشہور صحافی اور سی این این کے ایک پروگرام کے میزبان بھی تھے، لیکن اس وقت ٹائم میگزین نے مشہور صحافی ہونے کے باوجود بھی ان سے کسی قسم کی نرمی نہیں برتی، اور نہایت دوٹوک رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنا مؤقف واضح کیا کہ ''جریدے کا معیار صرف حقیقی اور اپنی تحقیقی کاوشوں پر مبنی مواد کی اشاعت ہے اور کسی کی چوری شدہ معلومات کو مضامین میں شامل کرنا اخلاقی جرم ہے۔'' بلاشبہ سرقہ نویسی ایک اخلاقی جرم ہے اور یہ جرم نہ صرف فرد بلکہ پورے معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔
سرقہ نویسی پر انحصار کرنے والے ذہن کند ذہن بن کر رہ جاتے ہیں اور نئے خیالات اور نئی سوچ کا ظہور نہیں ہوتا۔ نہ صرف یہ کہ فرد کی تخلیقی صلاحیتیں منجمد ہو کر رہ جاتی ہیں، بلکہ اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کو بھی کوئی نیا خیال، نئی سوچ پڑھنے یا سننے کو نہیں ملتی اور پھر سب سے بڑی بات یہ کہ فرد کا ضمیر اسے تاعمرکچوکے لگاتا رہتا ہے اور جب وہ ضمیر کی عدالت میں کھڑے کھڑے تنگ آ جاتا ہے، تو پھر وہ اسی طرح اعتراف جرم کر لیتا ہے جس طرح کہ تائیوان کے وزیر دفاع نے کیا۔ وزیر دفاع اینڈریوینگ نے نہ صرف یہ اعتراف کیا کہ 2007 میں ان کی کتاب میں شایع ہونے والے مضمون کا مصنف کوئی اور تھا، بلکہ اس اعتراف کے بعد ان کے ضمیر نے گوارا نہ کیا کہ وہ اس اتنی بڑی اخلاقی جرم کا مرتکب ہونے کے بعد بھی ڈھٹائی سے اپنے عہدے پر براجمان رہیں۔ لہذا انھوں نے فوری استعفی دے دیا اور اپنی اس غلطی پر شرمندہ بھی نظر آئے، مگر اس کے لیے تو شرم اور حیا کا لفظ بھی خاصا ہلکا معلوم ہوتا ہے جو ہمارے شہر کی سب سے بڑی جامعہ کا سرقہ نویسی کا مشہور ترین واقعہ ہے۔ اس جامعہ کے بھی ایک بڑے ''نام وَر'' پروفیسر جو کہ اپنے شعبے کے صدر نشیں بھی رہ چکے اور مستقبل قریب میں پھر دوبارہ اس عہدے کے لیے امیدوار بھی ہیں، انھوں نے مبینہ طور پر اپنے ہی ہم پیشہ پروفیسر کا پی ایچ ڈی کا مقالہ چرانے میں بھی کوئی عار نہ جانا۔ قصہ مختصر معاملہ رفع دفع ہوا اور وہ حضرت اپنے نام کے ساتھ بدستور ''ڈاکٹر'' نتھی کیے ہوئے دھڑلے سے تدریس سے وابستہ ہوئے بیٹھے ہیں۔
کسی بھی معاشرے کی اس انتہا کے بعد اس کی زوال آمادگی پر کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔ ایک جامعہ کے استاد کا اس قدر سنگین جرم اور اس پر ''مٹی پاؤ'' والا رویہ۔۔۔ آگے کہنے کو کچھ باقی نہیں رہ جاتا!پاکستان میں سرقہ نویسی کی پالیسی محض پی ایچ ڈی تک ہی محدود نظر آتی ہے۔ اور یہ پالیسی بھی سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام (2002) کے کوئی چار یا پانچ سال بعد 2007 میں نافذکی گئی۔ بانی چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن کے دور میں اس کی کارکردگی نہایت شاندار رہی اور اسے تعلیم کے حوالے سے سنہرا دور کہا جاتا ہے کیوں کہ یہیں سے تحقیق کو فروغ ملا، تعلیمی وظائف (اسکالرشپس) پروگرام شروع کیے گئے، نیز اسی تحقیق کی بدولت پاکستان کی جامعات بھی دنیا کی بہترین جامعات کی فہرست میں اپنی جگہ بنانے میں کام یاب ہوئیں، لیکن 2007 سے جب ایچ ای سی نے اپنی سرقہ نویسی کی پالیسی نافذ کی اور سرقہ نویسی کی شناخت کرنے والے سافٹ وئیر Turnitin کی خدمات حاصل کی جانے لگیں تب سے سرقہ نویسی کے کیسز میں بھی بتدریج اضافہ ہونے لگا۔ 2006 سے دسمبر 2011 تک تقریباً 104 سرقہ نویسی کے کیسز وصول ہوئے ، خود ایچ ای سی کے سابق چیئرمین جاوید لغاری سرقہ نویسی کے الزام میں خبروں کی زینت بنے، اس کے علاوہ حال ہی میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ایک فیکلٹی ممبر ڈاکٹر شیر کو سرقہ نویسی کرنے کے جرم میں بلیک لسٹ کیا۔
اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ انھیں خود ایچ ای سی 2008 میں بیسٹ یونیورسٹی ٹیچر ایوارڈ بھی دے چکی تھی۔ اس کے علاوہ اب تک مختلف جامعات کے نو فیکلٹی اراکین بلیک لسٹڈ ہو چکے ہیں۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کے فروغ کے بعد اساتذہ، اور محقق اپنی جاب میں ترقی یا گریڈ بڑھانے کے لیے سرقہ نویسی جیسے جرم کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے، جو بعد میں ان کی نیک نامی پر بدنما داغ بن کر ساری عمر کے لیے پچھتاوا بن کر رہ جاتا ہے۔ معاشرے میں تیزی سے پھیلتا یہ سرقہ بازی کا رجحان تعلیمی معیار کو زنگ لگانے کا باعث بن رہا ہے، لہذا اس کے تدارک کے لیے میڈیا مہم کا آغاز ہونا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ اسکول، کالج اور جامعات تینوں سطح پر مختلف سیمینارز، تربیتی ورکشاپس اور کانفرنسز کا انعقاد ہونا چاہیے، تا کہ نہ صرف طلبا اور طالبات، بلکہ اساتذہ بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔ اور وہ طلبا کو ایسے اسائمنٹ دینے سے حتی الامکان گریز کریں جو کہ نیٹ پر باسانی دستیاب ہوں، کیوںکہ ہمارے یہاں یہ رواج ہے کہ طلبا گوگل سے مواد کاپی پیسٹ کر کے دے دیتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ شان دار نمبر بھی حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ لہذا وہ خود کچھ تخلیق نہیں کر پاتے اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کو زنگ لگ کر رہ جاتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نچلی سطح سے ہی اس نقل کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خاتمے کے لیے کوئی پالیسی بنائی جائے تا کہ سرقہ نویسی کا جڑ سے خاتمہ کیا جا سکے۔