سب بھرے پیٹ کی باتیں ہیں

ایک غریب آدمی کو اس سے کیا غرض کہ اوپر کون بیٹھا ہے اور کیا کررہا ہے؟ اسے تو اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کی فکر ہے


محمد حسان January 16, 2021
غریب کو صرف دو وقت کی روٹی کی فکر ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

NEW YORK: چند دنوں پہلے اچانک ذہنی رَو کے بہکاوے میں آکر میں موجودہ حکومت سے متاثر ہوگیا، جس پر میں ابھی بھی شرمندہ ہوں۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک بس اسٹاپ پر سَرِ راہ ایک نہایت معقول اور چہرے مہرے سے پڑھی لکھی نظر آنے والی اماں جی سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے کسی بات پر انہیں موجودہ حکومت کی بہتری کی طرف جاتی ہوئی معاشی پالیسی کے بارے میں بتانا شروع کردیا۔

میں نے انہیں ایک امریکی معاشی انسٹیٹیوٹ موڈیز کا حوالہ بھی دیا کہ اس ادارے کے مطابق پاکستان کا بینکاری نظام بہت اچھا جارہا ہے اور اس میں مزید بہتری بھی آرہی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ کس طرح ہماری معیشت بہتر ہورہی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا کریڈٹ موجودہ حکومت اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کو جاتا ہے۔ میں نے یہیں پر بریک نہ لگائی بلکہ اقبال کی خودی اور عمران خان کے وژن کی بھی بات کی کہ وہ ہمیں اقبال کا شاہین دیکھنا چاہتے ہیں اور دنیا میں ہمارا وقار بلند کرنا چاہتے ہیں۔

اماں جی چہرے پر متاثر کن تاثرات لیے خاموشی سے سنتی رہیں اور میرے خاموش ہونے پر بولیں ''پُت! اے ساریاں رَجے ٹِڈھ دیاں گلاں نے''۔ یعنی سب پیٹ بھرے کی باتیں ہیں۔ اور پھر پنجابی میں ہی مزید گویا ہوئیں کہ مجھے پتا ہے کہ نواز شریف چور ہے، زرداری ڈاکو ہے اور عمران خان حاجی ہے۔ ملک کی معیشت اچھی ہورہی ہے اور خودی بلند ہورہی ہے۔ لیکن بیٹا! یہ بتاؤ کہ اس سے میرا کیا لینا دینا؟ ایک غریب آدمی کو اس سے کیا غرض کہ اوپر کون بیٹھا ہے اور کیا کررہا ہے؟ ایک مزدور کا معیشت سے کیا کام؟ اس کو تو اس بات کی فکر ہے کہ صبح تو میں نے اور میرے بچوں نے کچھ نہ کچھ کھا لیا تھا لیکن رات کو پتا نہیں کھانا نصیب ہوتا بھی ہے کہ نہیں؟ بیٹا! بھوک بڑی ظالم چیز ہے، یہ انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔

میں لاجواب تھا۔ میرے ذہن میں نئے دریچے کھل گئے تھے۔ واقعی اس میں کوئی شک نہیں کہ بھوک بڑی ظالم چیز ہے۔ بھوک صرف خالی پیٹ کا نام نہیں۔ بھوک بھی دو طرح کی ہوتی ہے، ایک نفس کی بھوک اور دوسری پیٹ کی بھوک۔ یہ جو پہلے والی بھوک ہوتی ہے ناں، یہ زیادہ خطرناک ہے۔ اتنی خطرناک کہ دوسری بھوک کا موجب بھی یہی پہلے والی بھوک ہی بنتی ہے۔ اس بھوک کو اگر صحیح نام دیا جائے تو اسے بھرے پیٹ والوں کی بھوک کہنا نامناسب نہ ہوگا۔ مگر ہمارے زکٰوٰۃ و عشر اور بیت المال تک کا مال کھا جانے والے حکمران کیا جانیں کہ پیٹ کی بھوک کیا چیز ہے۔ وہ شخص، جس نے متمول گھرانے میں آنکھ کھولی ہو، ہر طرف دولت کی ریل پیل دیکھی ہو، بڑے بڑے بزنسز چلتے دیکھے ہوں، انواع و اقسام کے پُرلطف کھانوں سے بھرے ٹیبلز دیکھے ہوں، وہ کیا جانے کہ بھوک کیا ہوتی ہے اور مہینہ تو دور کی بات، ایک ایک دن گزارنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔

ماضی میں بھی ہمارے حکمران عوام کو آٹے کی قلت کے دوران بریڈ اور دال کی قیمتیں بڑھنے پر چکن کھانے کے مشورے دے چکے ہیں۔ کاش کہ کبھی ہمارے حکمران روزہ رکھ کر ہی محسوس کرلیں کہ بھوک کیا چیز ہے۔ گزشتہ دنوں بھی گھریلو استعمال کی روزمرہ چیزوں کے مہنگے ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا تاکہ تھوڑی بہت آتی سانسیں بھی رک جائیں۔

یقین جانیے کہ ہمیں حکمرانوں اور معیشت سے کچھ لینا دینا نہیں، ہمیں روٹی چاہیے جو کہ آپ دن بہ دن مہنگی کرتے جارہے ہیں اور عوام کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ سچ ہے کہ ''اے ساریاں رَجے ٹِڈھ دیاں گلاں نے''۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں