روب گرین فیلڈ
سادہ اور آسان زندگی گزارنے والے نوجوان کی حیرت انگیز داستان جس نے آسائشوں کو ٹھکرا کر فطری زندگی کو چنا
''اگر آپ دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی ذات میں تبدیلی لائیں''
دنیا میں آپ ایسے بہت سے لوگوں کو جانتے ہوں گے جو کہ دنیا کو بدلا ہوا دیکھنے کے خواہاں ہوں گے۔انھیں کبھی تو دنیا کے رسم ورواج پہ اعتراز ہوگا تو کبھی رائج الوقت انداز واطوار پہ، وہ خود کو بدلنے پر بالکل راضی نہ ہوں گے مگر دنیا کو بدلنے کے لئے بڑے سے بڑا ماسٹر پلان دینے کے دعوے دار ہوں گے۔ ایسے لوگ نہ ہی تو خود کچھ کر پاتے ہیں نہ دوسروں کو کچھ کرنے دیتے ہیں۔انھیں ایک ایسی عادت پڑجاتی ہے جس کا کوئی علاج نہیں اور اسے بے کاری اور کم ہمتی کہ سوا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
اس قماش کہ لوگ جا بجا دکھائی دیتے ہیں مگر جیسے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ویسے ہی تمام لوگ بھی ایک سے نہیں ہوتے۔ ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو زمانے کے چلن سے بغاوت کرتے ہوئے کسی عزم کا پرچار کرتے ہیں۔ایسے ہی ایک پُر عزم نوجوان کی کہانی ہم آپ کو سنانے جا رہے ہیں جس نے خود کو بدل کر دنیا کے لئے ایک مثال قائم کر دی۔
1986میںامریکہ کے ایک عام سے گھر میں پیدا ہونے والا بچہ اپنے تین بہن بھائیوں کے ہمراہ ایش لینڈ میں پلا بڑھا۔ اس کی والدہ نے اپنے بچوں کو ماں اور باپ دونوں بن کر پالا۔ زمانے کے سرد و گرم سے نبردآزما ہوتے وہ جب اٹھارہ برس کا ہوا تو بوائز سکاوٹ میں 'ایگل سکاوٹ' کا درجہ پایا جو کہ سکاوٹس میں سب سے اعلٰی مقام تصور کیا جاتا ہے۔
ایش لینڈ ہائی سکول سے گریجویشن کے بعد اس نے یونیورسٹی آف ویسکونسن لاکوروسی (University of Wisconsin_La Crosse) سے سائنس کی ڈگری حاصل کی اور اپنی ڈگری کے دوران اسے دنیا کے چھ براؑعظموں میں سفر کرنے کا موقع ملا جس نے اسے فطرت اور کائنات کی صناعی کو مزید قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ 2011میں اس نے سان ڈیاگو کیلیفورنیا میں ایک ماحول دوست اور ترسیلی کمپنی 'دا گرین فیلڈگروپ' کی بنیاد رکھی، اس وقت اس کی عمر صرف 25برس تھی۔اس باصلاحیت نوجوان کا نام روب گرین فیلڈ ہے۔
گرین فیلڈ ایک انسان دوست سر گرم کارکن ہے ،جس کا عزم دنیا کو پائیدار ترقی سے روشناس کرانا اور دنیا سے آلودگی کو ختم کرنا ہے۔اُس نے دنیاکو وسیع پیمانے پررونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے نہ صرف آگا ہ کیا بلکہ اس میں مثبت تبدیلی کی جدوجہد کے ہر اول دستے میں شامل ہوگیا ، اس کی زندگی اس فلسفے کی عملی تصویر ہے جس کے مطابق انسان دنیا میں جو تبدیلی دیکھنا چاہے وہ اپنے اندر وہ پیدا کر لے تو یہی بدلاؤ ہے۔گرین فیلڈ کا ماننا ہے کے ہم جو بھی عمل کرتے ہیں اس کا انسانوں اور دیگر جانداروں پر تو اثر ہوتا ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ اس سب کا اثر ہمارے ماحول پر بھی پڑتا ہے، تو ہم اچھے اور مثبت کام کر کے اپنے ماحول کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
فیلڈ اپنی خوراک کے لئے کسی کے محتاج نہیں۔نہ ہی انھیں گروسری اسٹورز میں جانے کی ضرورت ہے نہ رستوراں میں اور نا ہی کسی ایپ کی مدد لینی پڑتی ہے۔ ان کے نزدیک فطرت ہی ان کا باغیچہ ہے اور دواخانہ بھی۔ اپنی ہی زمین میں انھوں نے وسیع پیمانے پر کھیتی باڑی کر رکھی ہے جسے وہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ بانٹ کر استعمال کرتے ہیں۔ دورِجدید کے صنعتی نظامِ خوراک کو بے حد نا پسند کرتے ہیں اور خوراک کے معاملے میں مکمل خود مختاری پہ یقین رکھتے ہیں۔
چھوٹا سا گھر... چھوٹی سی جنت
گرین فیلڈ نے اورلینڈو فلوریڈا میں ایک چھوٹا سا گھر تعمیر کیا ہے۔ اس گھر کے حوالے سے بہت کچھ دلچسپ ہے جو کہ آپ بھی جان کر حیران رہ جائیں گے۔ فیلڈ نے یہ گھر اپنے دوست کی مدد سے تعمیر کیا اور اس گھر میں استعمال ہونے والی تمام چیزیں سیکنڈ ہینڈ اور دوبارہ استعمال کے قابل بنائی جاسکنے والی ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اس گھر کو بنانے میں صرف ایک ہزار پانچ سو امریکی ڈالرز کی لاگت آئی ہے جو کہ پاکستان کے حساب سے اڑھائی لاکھ بنتی ہے، جی ہاں فیلڈ نے اپنے مشن کے مطابق ایک نہایت سادہ اور سستا گھر تعمیر کیا ہے۔اس گھر کا رقبہ 100مربع فٹ ہے اور یہ فلوریڈا کے مقامی گھروں کی طرز پہ تعمیر کیا گیا ہے۔ فیلڈ نے کچن اور باتھ روم کو باہر بنانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنا وقت زیادہ سے زیادہ فطرت کے قریب اور کشادہ ماحول میں گزارنا چاہتے ہیں۔وہ اپنے سو فیصد خوراک خود اگاتے ہیں اور چھلکوں کو کھاد کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
فیلڈاپنے باتھ روم کے استعمال کی خاطر کوئی ٹشو پیپر نہیں خریدتے بلکہ اس کہ لئے ایک خاص قسم کے پتوں کا استعمال کرتے ہیں اور فضلے سے بائیو گیس بنا کر اپنے گھر کے چولہے کو جلاتے ہیں ۔ یوں وہ کم سے کم گندگی پھیلانے والے انسان بن چکے ہیں۔
فیلڈ جہاں دنیا کو آلودگی سے پاک رکھنے کے مشن پر سرگرمِ عمل ہیں ونہیں انھوں نے 'ٹریش می' کے نام سے ا یک تحریک چلائی۔ امریکہ میں اوسطً ہر فرد 4.5پائونڈ کچرا پیدا کرتا ہے۔ ایک بار جب سب کچرے میں تبدیل ہو جاتا ہے پھر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہو جاتا ہے۔
فیلڈ نے کچرا سے پید اہونے والی آلودگی کا شعور اُجاگر کرنے کے لئے 30دن کے لئے 4.5پائونڈ کا کچرا روزانہ اپنے جسم کے ساتھ اٹھا کر چلنے کی مہم کا آغاز کیا۔اس مہم پر ایک ایوارڈ جیتنے والی فلم لیونگ اون ون سے ایسے مناظر کو عکس بند کیا جو لوگوں میں یہ جذبہ اورآگاہی پیدا کرے کے کچرا کس طرح ماحول کو گندا کرتا ہے۔ ٹریش می مہم کو ہزاروں کی تعداد میں میڈیا کوریج دی ، جس سے نہ صرف بڑوں کو متاثر کیا بلکہ بچوں نے بھی اس میں بھر پور حصہ لیا۔اس مہم کا بنیادی ایجنڈا زیرو ویسٹ پیدا کرنا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ فیلڈ سادہ اور آسان زندگی کا پرچار کرتے ہیں۔حیران کن انداز میں انھوں نے کم کمانے اور غربت کے خاتمے کے لئے بنا کسی بینک اکائونٹ، کریڈٹ کارڈ ، ماہانہ بلز انشورینس اور قرضوں کے زندگی گزانے کی مثال قائم کی۔بنا موبائل فون اور کسی لیپ ٹاپ کے ایک ٹیکنالوجی فری لائف گزارنے کی ترغیب دینے والے فیلڈ ایک پروفیشل سپیکر ہیں اور پبلک سپیکنگ کا وسیع تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ وہ 150سے زائد لیکچرز کم وبیش 20,000افراد کو دے چکے ہیں۔
ان کا مقصد لوگوں میں سادہ اندازِزندگی اپنانے کا شعور اجاگر کرنا ہے۔وہ اپنے طرز عمل کو ایک مثال بنا کر لوگوںکو متحرک کر کہ ایک بہتر دنیا کی بقاء چاہتے ہیں۔روب گرین فیلڈ جیسے نوجوان دنیا میں بہتر زندگی کو فروغ دینے کی کوششوں میں سرگرمِ عمل ہیں اور باقی دنیا کے لئے ایک مشعلِ راہ ہیں۔ اگر باقی لوگ بھی دنیا کو آلودگی کی آماجگاہ بننے سے روکنے کا عزم رکھیں تو وہ وقت دور نہ ہوگا جب دنیا ایک صاف ستھری گندگی سے پاک جگہ بن جائے گی۔
دنیا میں آپ ایسے بہت سے لوگوں کو جانتے ہوں گے جو کہ دنیا کو بدلا ہوا دیکھنے کے خواہاں ہوں گے۔انھیں کبھی تو دنیا کے رسم ورواج پہ اعتراز ہوگا تو کبھی رائج الوقت انداز واطوار پہ، وہ خود کو بدلنے پر بالکل راضی نہ ہوں گے مگر دنیا کو بدلنے کے لئے بڑے سے بڑا ماسٹر پلان دینے کے دعوے دار ہوں گے۔ ایسے لوگ نہ ہی تو خود کچھ کر پاتے ہیں نہ دوسروں کو کچھ کرنے دیتے ہیں۔انھیں ایک ایسی عادت پڑجاتی ہے جس کا کوئی علاج نہیں اور اسے بے کاری اور کم ہمتی کہ سوا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
اس قماش کہ لوگ جا بجا دکھائی دیتے ہیں مگر جیسے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ویسے ہی تمام لوگ بھی ایک سے نہیں ہوتے۔ ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو زمانے کے چلن سے بغاوت کرتے ہوئے کسی عزم کا پرچار کرتے ہیں۔ایسے ہی ایک پُر عزم نوجوان کی کہانی ہم آپ کو سنانے جا رہے ہیں جس نے خود کو بدل کر دنیا کے لئے ایک مثال قائم کر دی۔
1986میںامریکہ کے ایک عام سے گھر میں پیدا ہونے والا بچہ اپنے تین بہن بھائیوں کے ہمراہ ایش لینڈ میں پلا بڑھا۔ اس کی والدہ نے اپنے بچوں کو ماں اور باپ دونوں بن کر پالا۔ زمانے کے سرد و گرم سے نبردآزما ہوتے وہ جب اٹھارہ برس کا ہوا تو بوائز سکاوٹ میں 'ایگل سکاوٹ' کا درجہ پایا جو کہ سکاوٹس میں سب سے اعلٰی مقام تصور کیا جاتا ہے۔
ایش لینڈ ہائی سکول سے گریجویشن کے بعد اس نے یونیورسٹی آف ویسکونسن لاکوروسی (University of Wisconsin_La Crosse) سے سائنس کی ڈگری حاصل کی اور اپنی ڈگری کے دوران اسے دنیا کے چھ براؑعظموں میں سفر کرنے کا موقع ملا جس نے اسے فطرت اور کائنات کی صناعی کو مزید قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ 2011میں اس نے سان ڈیاگو کیلیفورنیا میں ایک ماحول دوست اور ترسیلی کمپنی 'دا گرین فیلڈگروپ' کی بنیاد رکھی، اس وقت اس کی عمر صرف 25برس تھی۔اس باصلاحیت نوجوان کا نام روب گرین فیلڈ ہے۔
گرین فیلڈ ایک انسان دوست سر گرم کارکن ہے ،جس کا عزم دنیا کو پائیدار ترقی سے روشناس کرانا اور دنیا سے آلودگی کو ختم کرنا ہے۔اُس نے دنیاکو وسیع پیمانے پررونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے نہ صرف آگا ہ کیا بلکہ اس میں مثبت تبدیلی کی جدوجہد کے ہر اول دستے میں شامل ہوگیا ، اس کی زندگی اس فلسفے کی عملی تصویر ہے جس کے مطابق انسان دنیا میں جو تبدیلی دیکھنا چاہے وہ اپنے اندر وہ پیدا کر لے تو یہی بدلاؤ ہے۔گرین فیلڈ کا ماننا ہے کے ہم جو بھی عمل کرتے ہیں اس کا انسانوں اور دیگر جانداروں پر تو اثر ہوتا ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ اس سب کا اثر ہمارے ماحول پر بھی پڑتا ہے، تو ہم اچھے اور مثبت کام کر کے اپنے ماحول کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
فیلڈ اپنی خوراک کے لئے کسی کے محتاج نہیں۔نہ ہی انھیں گروسری اسٹورز میں جانے کی ضرورت ہے نہ رستوراں میں اور نا ہی کسی ایپ کی مدد لینی پڑتی ہے۔ ان کے نزدیک فطرت ہی ان کا باغیچہ ہے اور دواخانہ بھی۔ اپنی ہی زمین میں انھوں نے وسیع پیمانے پر کھیتی باڑی کر رکھی ہے جسے وہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ بانٹ کر استعمال کرتے ہیں۔ دورِجدید کے صنعتی نظامِ خوراک کو بے حد نا پسند کرتے ہیں اور خوراک کے معاملے میں مکمل خود مختاری پہ یقین رکھتے ہیں۔
چھوٹا سا گھر... چھوٹی سی جنت
گرین فیلڈ نے اورلینڈو فلوریڈا میں ایک چھوٹا سا گھر تعمیر کیا ہے۔ اس گھر کے حوالے سے بہت کچھ دلچسپ ہے جو کہ آپ بھی جان کر حیران رہ جائیں گے۔ فیلڈ نے یہ گھر اپنے دوست کی مدد سے تعمیر کیا اور اس گھر میں استعمال ہونے والی تمام چیزیں سیکنڈ ہینڈ اور دوبارہ استعمال کے قابل بنائی جاسکنے والی ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اس گھر کو بنانے میں صرف ایک ہزار پانچ سو امریکی ڈالرز کی لاگت آئی ہے جو کہ پاکستان کے حساب سے اڑھائی لاکھ بنتی ہے، جی ہاں فیلڈ نے اپنے مشن کے مطابق ایک نہایت سادہ اور سستا گھر تعمیر کیا ہے۔اس گھر کا رقبہ 100مربع فٹ ہے اور یہ فلوریڈا کے مقامی گھروں کی طرز پہ تعمیر کیا گیا ہے۔ فیلڈ نے کچن اور باتھ روم کو باہر بنانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنا وقت زیادہ سے زیادہ فطرت کے قریب اور کشادہ ماحول میں گزارنا چاہتے ہیں۔وہ اپنے سو فیصد خوراک خود اگاتے ہیں اور چھلکوں کو کھاد کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
فیلڈاپنے باتھ روم کے استعمال کی خاطر کوئی ٹشو پیپر نہیں خریدتے بلکہ اس کہ لئے ایک خاص قسم کے پتوں کا استعمال کرتے ہیں اور فضلے سے بائیو گیس بنا کر اپنے گھر کے چولہے کو جلاتے ہیں ۔ یوں وہ کم سے کم گندگی پھیلانے والے انسان بن چکے ہیں۔
فیلڈ جہاں دنیا کو آلودگی سے پاک رکھنے کے مشن پر سرگرمِ عمل ہیں ونہیں انھوں نے 'ٹریش می' کے نام سے ا یک تحریک چلائی۔ امریکہ میں اوسطً ہر فرد 4.5پائونڈ کچرا پیدا کرتا ہے۔ ایک بار جب سب کچرے میں تبدیل ہو جاتا ہے پھر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہو جاتا ہے۔
فیلڈ نے کچرا سے پید اہونے والی آلودگی کا شعور اُجاگر کرنے کے لئے 30دن کے لئے 4.5پائونڈ کا کچرا روزانہ اپنے جسم کے ساتھ اٹھا کر چلنے کی مہم کا آغاز کیا۔اس مہم پر ایک ایوارڈ جیتنے والی فلم لیونگ اون ون سے ایسے مناظر کو عکس بند کیا جو لوگوں میں یہ جذبہ اورآگاہی پیدا کرے کے کچرا کس طرح ماحول کو گندا کرتا ہے۔ ٹریش می مہم کو ہزاروں کی تعداد میں میڈیا کوریج دی ، جس سے نہ صرف بڑوں کو متاثر کیا بلکہ بچوں نے بھی اس میں بھر پور حصہ لیا۔اس مہم کا بنیادی ایجنڈا زیرو ویسٹ پیدا کرنا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ فیلڈ سادہ اور آسان زندگی کا پرچار کرتے ہیں۔حیران کن انداز میں انھوں نے کم کمانے اور غربت کے خاتمے کے لئے بنا کسی بینک اکائونٹ، کریڈٹ کارڈ ، ماہانہ بلز انشورینس اور قرضوں کے زندگی گزانے کی مثال قائم کی۔بنا موبائل فون اور کسی لیپ ٹاپ کے ایک ٹیکنالوجی فری لائف گزارنے کی ترغیب دینے والے فیلڈ ایک پروفیشل سپیکر ہیں اور پبلک سپیکنگ کا وسیع تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ وہ 150سے زائد لیکچرز کم وبیش 20,000افراد کو دے چکے ہیں۔
ان کا مقصد لوگوں میں سادہ اندازِزندگی اپنانے کا شعور اجاگر کرنا ہے۔وہ اپنے طرز عمل کو ایک مثال بنا کر لوگوںکو متحرک کر کہ ایک بہتر دنیا کی بقاء چاہتے ہیں۔روب گرین فیلڈ جیسے نوجوان دنیا میں بہتر زندگی کو فروغ دینے کی کوششوں میں سرگرمِ عمل ہیں اور باقی دنیا کے لئے ایک مشعلِ راہ ہیں۔ اگر باقی لوگ بھی دنیا کو آلودگی کی آماجگاہ بننے سے روکنے کا عزم رکھیں تو وہ وقت دور نہ ہوگا جب دنیا ایک صاف ستھری گندگی سے پاک جگہ بن جائے گی۔