انتَ حبیبی یا بابا بس انتَ غلطان

طیب انتہائی خوبرو نوجوان تھا آج پچپن برس کی عمر میں بھی وہ کسی شہزادے سے کم نہیں لگتا ہے۔


رضوان پاشا January 17, 2021

وہ اس بڑے سے ہال نما کمرے میں بالکل ساکت کھڑا تھا،تیز وتند جملے تیر کی طرح مختلف اطراف سے اس پر برس رہے تھے اور کسی زندہ لاش کی طرح کھڑا اْن تمام باتوں کو سْننے پر مجبور تھا، اس کے پاس جواب میں کہنے کو بہت کچھ تھا لیکن ایسا لگتا تھا کہ کمرے میں موجود تمام لوگ اْس کی سْننے نہیں بلکہ اْسے مغلظات سْنانے یہاں جمع ہوئے تھے۔

ان تمام لوگوں میں ایک عورت بھی تھی جس کی آنکھوں سے نکلنے والے شعلے واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے تھے، یہی عورت اس شخص کی بیوی تھی باقی لوگوں میں اس عورت کی بہن اس کے دو بھائی اور اْن کی بیویاں شامل تھیں۔

کمرے میں دیگر موجود لوگوں میں اْس شخص کی تین بیٹیاں اور بیٹا بھی شامل تھا جو دیگر افرادکے مقابلے میں نسبتاً خاموش تھے جب کہ چھوٹی بیٹی مسلسل رو رہی تھی اور ہر تھوڑی دیر بعد باپ سے چمٹ جاتی جسے فوراًہی اْس کی ماں اْس شخص سے علیحدہ کر دیتی،اس منظر کو ڈھائی گھنٹے سے زیادہ گزر چکے تھے کہ اچانک وہ عورت تیزی کے ساتھ اْس کی طرف لپکی اور اْس شخص کی جیب سے اْس کا اقامہ، گاڑی کی چابیاں ، بینک کارڈز اور جیب میں موجود تمام رقوم نکال لی اور بھائیوں سے کہا کہ اِس شخص کو دھکے دیکر گھر سے باہر نکال دو۔ حکم کے منتظربھائیوں نے بھی ایسے ہی کیا اور اس شخص کو گھر سے باہر نکال دیا۔

باہر نکلتے ہی وہ شخص پھوٹ پھوٹ کر رو دیا اورمسلسل کئی گھنٹے سکتے کی حالت میں کھڑا رہا، اْسے معلوم تھا کہ اْسے یہ سزا کیوں مل رہی ہے یہی وجہ تھی کہ وہ اب تک خاموش تھا لیکن اْسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ 29سال کی رفاقت اور اس قدر شاہانہ زندگی گزارنے کے بعد یوں اچانک اْسے فْٹ ہاتھ پر آنا پڑجائے گا۔

صبح کے چار بج رہے تھے اْسے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں جائے۔جدہ اور مکہ سمیت دیگر کئی شہروں میں اْس کا کاروبار پھیلا ہوا تھا مختلف اقسام کے بے شمار کاروبار میں اْس کی حصہ داری تھی شہر میں سیکڑوں لوگ اْسے جانتے تھے لیکن رات کے اس پہروہ کس کا دروازہ کھٹکھٹائے اور کس سے مدد مانگے۔اس پر جو پہاڑ ٹوٹا تھا جس کے بعدنہ اْس کے پاس نقد رقم تھی نہ ہی کوئی کریڈٹ کارڈ کہ وہ کسی ہوٹل جاکر چند روز گزار لے اور حالات ٹھیک ہونے تک کاانتظار کرے۔وہ ابھی انھی سوچوں میں گْم تھا کہ قریب ہی مسجد سے فجر کی اذان سنائی دی وہ اپنے چہرے سے آنسوؤں کو پونچھتا ہوا مسجد کی جانب بڑھنے لگا۔

اس شخص کام نام طیب ہے وہ آج سے تقریباً 30سال قبل سعودی عرب آیا تھا۔کسی سعودی کے گھر ملازمت کے دوران سعودی کی بہن اور طیب عشق میں گرفتار ہوگئے۔ سعودی کی بہن جس کا نام سہیلہ تھا وہ اْن دنوں ٹیچرز ٹریننگ کا امتحان دے رہی تھی اور طیب سہیلہ کوامتحانات کے لیے مکہ سے جدہ لے جانے کی ڈیوٹی پر تھا اسی دوران وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور نوبت شادی تک جا پہنچی۔سہیلہ کی عمر اس وقت پینتیس سال جب کہ طیب اْس سے دس سال چھوٹا یعنی پچیس برس کا تھا۔

طیب انتہائی خوبرو نوجوان تھا آج پچپن برس کی عمر میں بھی وہ کسی شہزادے سے کم نہیں لگتا ہے۔ سہیلہ نے طیب کو مشورہ دیا کہ وہ اْس کی ماں سے بات کرے ۔ طیب اْس کی ماں سے ملنے آیا اور سہیلہ کے رشتہ کے سلسلے میں بات کی۔ مختصراً یہ کہ بھائیوں اور خاندان کے دیگر افراد سے صلاح مشورے کے بعد سہیلہ کے گھر والے اس رشتہ پر آمادہ ہوگئے۔

یوں طیب نے شادی کرکے اپنا گھر بسا لیا۔یکے بعد دیگرے طیب کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوئے۔شادی کے بعد اْس کی بیوی نے بھی جدہ کے مقامی گرلز اسکول میں ملازمت اختیار کر لی تھی اور حال ہی میں بحیثیت پرنسپل ریٹائر ہوئی تھی۔

طیب نے شادی کے بعد خوب محنت کی اور مختلف کاروبار میں خوب پیسہ کمایا۔اْس نے شادی کے بعد 16سال تک پاکستان کا رْخ بھی نہیں کیا۔سیکڑوں افراد کو اس نے پاکستان سے اپنی کفالت پر ملازمت کے لیے بلوایا تھا۔بیوی کے سعودی ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کا کاروبار کرنا اْس کے لیے مشکل نہ تھا۔اس نے بے شمار کاروبار شراکت داری میں بھی کررکھے تھے۔ اس عرصہ میں اْس نے جدہ اور مکہ میں کئی کثیر المنزلہ عمارتیں بھی خرید لی تھیں جس میں ایک رہائشی عمارت کی قیمت آج بھی تقریباً چالیس ملین ریال ہے۔

وقت تیزی سے گزرتا رہا اور شادی کو 29برس گزر گئے۔اس دوران اس کی بڑی بیٹی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے مقامی گرلز کالج میں لیکچرر جب کہ دوسری بیٹی برطانیہ سے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرکے جدہ کے اسپتال میں فرائض انجام دینے لگی۔ دونوں بیٹیوں کی شادی ہوچکی تھی۔بیٹے سہیل نے حال ہی میں جدہ سے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی جب کہ سب سے چھوٹی بیٹی ابھی اسکول میں زیر تعلیم تھی۔

طیب کا کاروباری مصروفیات کے وجہ سے بہت ہی کم پاکستان جاناہوتا تھا۔اْنتیس سال میں شائد تین بار ہی اسے پاکستان جانے کا موقع مل سکا تھا۔ان ہی میں سے ایک وہ موقع تھا جب وہ اپنے کسی دوست کی دعوت پر پاکستان میں کسی شادی میں شرکت کے لیے گیا تھا اور وہی سے اْس کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا اور وہ وہاں ایک خوبصورت دوشیزہ کو دل دے بیٹھا، نہیں معلوم کہ پاکستان میں موجود دوستوں کا منصوبہ تھا یا ایک حادثاتی عمل، بہر کیف دونوں کی شادی طے پا گئی اور طیب کی دوسری شادی کو پانچ سال گزر گئے۔

اسی دوران اﷲ نے اْنہیں ایک بیٹی بھی عطا کی۔ کہتے ہیں کہ عشق اور مْشک کبھی چْھپ نہیں سکتے اور یہی ہوا کہ کسی طرح طیب کی پہلی بیوی کوطیب کی دوسری شادی کی خبر پہنچ گئی اور اْس نے خبر کی مکمل تصدیق اور دوسری بیوی اور اس سے پیدا ہونے والی بیٹی کے نام اور تصاویر حاصل کر لینے کے بعد یہ انتہائی قدم اْٹھایا۔

طیب کے پاس آج بھی واپسی کا دروازہ کھلا ہے مگر صرف شرط یہی کہ دوسری بیوی کو طلاق اور بیٹی سے لاتعلقی اور تاحیات پاکستان نہ جانے کا معاہدہ، جب کہ طیب اس بات کے لیے قطعی طور پر راضی نہیں اْس کا کہنا ہے کہ اس کا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس طرح کرنے سے اْسے دوبارہ شان و شوکت والی زندگی تو واپس مل جائے گی لیکن اْس کا دوسرا پیار ہمیشہ کے لیے اْس سے دور ہوجائے گا اور وہ اپنی عیش و عشرت کی زندگی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے کسی کے ارمانوں کا گلا نہیں گھونٹ سکتا۔

طیب آج بھی سعودی عرب میں ایک گمنام زندگی گزار رہا ہے۔ اْس کے پچھلے تمام موبائیل فون بند ہیں اور گزر اوقات کے لیے وہ کام کرنے پر مجبور ہے جس کا اْس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔

کیاطیب کی پہلی بیوی اْسے کبھی معاف کریگی! کیا وہ دوبارہ اپنے بچوں کے ساتھ پہلے کی طرح زندگی گزار سکے گا؟ اس کا جواب نہ طیب کے پاس ہے نہ اس کے بچوں کے پاس، طیب نے اپنے بچوں سے اس بارے میں مدد لینے کی کوشش کی لیکن بچوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ (َانتَ حبیبی بابا...بس انتَ غلطان ) (آپ ہمیں بہت عزیز ہیں ،لیکن آپ نے غلطی کی ہے بابا جان)۔ معافی کا اختیار صرف ماما کے پاس ہے۔

(راقم السطور کے استفسار پر کہ جب زندگی اس قدر پرسکون اور شاہانہ گزر رہی تھی تو دوسری شادی کی کیا ضرورت تھی تو طیب نے بتایا کہ اْس کا دوسری شادی کا کبھی کوئی ارادہ نہیں تھا بس اتفاقی طور پر پاکستان میں شادی کی کسی تقریب میں پہلی ہی نظر میں اْس لڑکی کو دل دے بیٹھااور شادی ہوگئی، لڑکی کے والدین کو بھی اسقدر مالدار شخص کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی پر اعتراض نہیں ہوا، ادھر طیب کا یہ خیال تھا کہ سعودی معاشرے میں دوسری یا تیسری شادی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہوا کرتی اور خود اْس کے اپنے سْسر کی چار شادیاں تھیں لیکن طیب کی پہلی بیوی نے اس کی دوسری شادی کو قبول نہ کیا)۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں