معاشی چیلنجز اور نیا سال

ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ملک کے معاشی اہداف کے حصول کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز میں ہم آہنگی ضروری ہے۔

نئے سال کا آغاز ، نئی امیدوں، امنگوں اور آرزوں کے ساتھ ہوچکا ہے، گزشتہ برس صرف پاکستان نہیں پوری دنیا کے لیے ایک بھاری سال ثابت ہوا، کورونا وباء کے پھیلائو کے باعث کئی ممالک کی معیشت بیٹھ گئی، دنیا معاشی عدم استحکام کا شکار ہوئی اور وطن عزیز میںکاروباری سرگرمیوں میں مجموعی طور پر 60 فیصد تک کمی واقع ہوئی تھی اور 2020 میں بھی کاروبار دوست انکم ٹیکس اسکیم متعارف کروانے میں ناکامی کے نتیجے میں نئے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہوسکا ۔

نئے تجارتی یونٹس کا قیام مایوس کُن رہا، ملازمتوں کے مواقع ناپید رہے، ہر تہوار پر تاجروں کا سیل سیزن غیر تسلی بخش اور خریدار قوتِ خرید سے محروم رہے۔ لاک ڈائون نے ایسی صورتحال پیدا کی کہ پوری قوم مشکل میں آگئی ، معیشت گرداب میں پھنس گئی ، ناامیدی کی فضا قائم ہونے لگی ، ایسے اعصاب شکن وقت میں تاجر وصنعت کار برادری نے ہمت سے کام لیا حکومت کو بارآور کرایا کہ یہ وقت گھبرانے کا نہیں بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا ہے، اور پھر رفتہ رفتہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے معاشی سرگرمیاں بحال کرنے کا عمل شروع کردیا گیا، کیونکہ کاروباروصنعت اور معاشی سرگرمیوں کی بندش کسی صورت میں کورونا کے مہلک مرض کے پھیلائوکو روکنے کا موثر حل نہیں بلکہ یہ معاشی خودکشی کے مترادف ہے۔

کورونا وبا کے ساتھ رہتے ہوئے بلارکاوٹ کاروبار جاری رکھنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بہت ضروری ہے، لہٰذا اہم اور بنیادی نقطے کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان میں معاشی واقتصادی سرگرمیاں جاری وساری ہیں ۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں حکومت کی جانب سے وبا کے دوران بہتر پالیسی بنائی گئی لیکن ابھی بھی کورونا سے متاثرہ کاروباری حالات اور ایکسپورٹ بہتر بنانے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت مرکزی بینک کی جانب سے یہ اعلان کہ بزنس کونفیڈینس اور معاشی گروتھ میں بہتری آئی،معاشی حالات بہتر ہورہے ہیں تو یہ بات خوش آیند ہے لیکن مہنگائی کودرپیش خطرات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ برس تاجروں کے مسائل، مشکلات اور آزمائشوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، بیشتر دکاندار کارخانے داروں اور خام مال کے بیوپاریوں کے مقروض ہوگئے، روپے پر ڈالر کا دبائو کم نہ ہوسکا جس کے نتیجے میں مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا، مارکیٹوں پر چھائی مندی اور کساد بازاری کا تسلسل قائم رہا، تیل، بجلی اور گیس کی قیمتیں عوام اور تاجروں کی برداشت سے باہر ہوگئیں،کراچی میں تجاوزات کی زد میں آنے والی بلدیہ کراچی کی 3ہزار سے زا ئد دکانوں کے مسمار ہونے کے نتیجے میں کم وبیش پچیس ہزار افراد بیروزگار ہوگئے۔

ان سارے اعصاب شکن حالات کا مقابلہ ہمارے عوام اور تاجر وصنعت کارطبقے نے حوصلے سے کیا ہے اور اگر اس برس معاشی اصلاحات سے متعلق حکومتی کوششیں کامیاب ہوئیں اور کورونا سے نجات مل گئی تو 2021 کاروباری مشکلات کے خاتمے اور ترقی کا سال ثابت ہوگا، اور اسی عزم کے ساتھ ہماری تاجر وصنعتکاری برادری کا ایک پلیٹ فارم ایف پی سی آئی بھی ہے ،جس کے انتخابات ہر سال منعقد ہوتے ہیں ۔اس بار الیکشن میں جو رونق اور دلچسپی دیکھنے میں آئی وہ ہمیشہ یاد رہے گی۔


انتخابی نتائج کے نتیجے میںبزنس مین پینل(بی ایم پی) میں انجم نثار (گروپ چیئرمین)ناصرحیات مگوںصدر ایف پی سی سی آئی ، شاہزیب اکرم ،سینئر وائس صدر،محمدسلیم بھلر، ریجنل چیئرمین اور نائب صدر منتخب ہوئے ہیں ۔ مقابلہ کانٹے کا تھا کیونکہ ایس ایم منیر گروپ بھی کافی طاقتور تھا البتہ انجم نثار گروپ پہلے بھی کام کرچکا ہے ۔ مذکورہ کامیاب ہونے والے گروپ کو الیکشن کے دوران پاکستان پروگریسیو پینل ،کاٹن جنرز ایسوسی ایشن(PCGA ( نے مکمل تعاون کیا اور یوںان کی کاوشوں اور کوششوں سے یہ جیت ممکن ہوئی ،اس پینل کو سپورٹ کرنے کا واحد مقصد یہ تھا کاٹن انڈسٹری سے وابستہ مسائل حل ہوسکیں اور جیتنے والے گروپ کے سربراہ اور پینل اراکین کپاس کے حالیہ چیلنجز کو حل کروانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

اس ضمن میں ہم بہت زیادہ پرامیدہیں۔یہ انتخابات ایک مثبت عمل ہیں اور نئی منتخب شدہ کابینہ صنعتکاروں اور حکومت کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرے گی ۔ ہمارے ملکی صنعت کا شعبہ معمولی بہتری کی طرف رواں دواں ہے مگر انڈسٹری کے لیے پیدا شدہ مسائل کہیں اس بہتری کی راہ میں رکاوٹ نہ بن جائیں اس لیے حکومت صنعتی شعبے کو گیس،بجلی اور پانی کی فراہمی برقرار رکھے اور اس میں رکاوٹ نہ آنے دے کیونکہ یہی سیکٹرلوگوں کو روزگار مہیا کرنے کا ذریعہ ہے۔

ملکی معیشت سے متعلق عالمی اداروں کی جانب سے مثبت امکانات کا اظہار خوش آیند ہے تاہم معاشی استحکام اور ترقی کے لیے صنعتوں کو درپیش توانائی سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے، موڈی انویسٹر سروس اور اس سے قبل آئی ایم ایف کی جانب سے آیندہ مالی سال میں شرح نمو سے متعلق مثبت پیش گوئی خوش آیند ہے ، دوسری جانب ملکی برآمدات میں اضافے سے تجارتی خسارہ اور زرمبادلہ کی صورتحال بھی مستحکم ہے لیکن گیس کی قلت ، پیداواری لاگت میں اضافے اور اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ترقی کی رفتار میں حائل بڑے چینلنجز ہیں جن پر قابو پانے کے لیے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

بلاشبہ حکومت پاکستان اپنی کاروبار دوست پالیسیوں کو دنیا بھر میں متعارف کروارہی ہے اور معاشی سفارت کاری کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے، اسی ضمن میں یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کے لیے جی پی ایس پلس اسٹیٹس کا تسلسل ، روپے کی قدر میں اضافہ اور دیگر معاشی اشاریے درست سمت کی نشاندہی کررہے ہیں۔ ان عملی کاوشوں کی نتیجے میں بہت جلد ہم ملکی معیشت کو درپیش چینلنجز پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

اسی ضمن میں ایف پی سی سی آئی کے نومنتخب صدر ناصر حیات مگوں کاکہنا ہے کہ بزنس مین طبقہ ملک کی معیشت کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے ، کیونکہ نئی صنعتوں کے قیام سے ہی روزگار مزید مواقعے پیدا ہونگے، معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے حکومت کو ہمیں آن بورڈ لینا ہوگا، ایف بی آر پر بزنس مین عدم اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں لہٰذا کوئی بھی پالیسی بناتے وقت پہلے ہم سے حکومت مشاورت کرلے تو صورتحال کو مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی ۔

ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ملک کے معاشی اہداف کے حصول کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز میں ہم آہنگی ضروری ہے، ریاست کے تمام ادارے مشکل کی اس گھڑی میں معاشی اہداف کے حصول کے لیے اپنا اپنا کردا ر ادا کریں۔ملکی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر دوبارہ استوار کرنے کے لیے حکومت اور صنعتکارطبقے کو مل کر ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا، جس کے نتیجے میں ملکی معیشت مکمل طور پر بحال ہوسکے اور ملک کی ترقی کا پہیہ رواں دواں ہوجائے اور عام آدمی کے مسائل میں کمی آئے اور اسے روزگار کے بہتر مواقعے میسر آسکیں۔
Load Next Story