کیا بائیں بازو کی پارٹیاں متحد نہیں ہو سکتیں
ملک بھر میں اچھے ترقی پسند دانشور، شاعر، کالم نگار بھی اخبارات اور جرائد میں کالم ومضامین بھی لکھتے ہیں۔
KARACHI:
میں نے جب ہوش سنبھالا تو ملک میں ایوب خان کا مارشل لا تھا اور عوام اس کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے۔ اس سے پہلے یا بہت پہلے تقسیم کے بعد ملک میں ٹریڈ یونین تحریک بڑی مضبوط تھی۔
پہلی فیڈریشن 1948 میں پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن قائم ہوگئی تھی جس کے پہلے بانی صدر مرزا محمد ابراہیم منتخب ہوئے جب کہ معروف ترقی پسند دانشور اور شاعر فیض احمد فیض سینئر نائب صدر بنے جب کہ سی آر اسلم، ایرک سپرن، عابد حسن منٹو، ڈاکٹر عبدالمالک جنرل سیکریٹری بنے جو بعد میں مشرقی پاکستان کے گورنر بھی بنے اسی طرح فضل الٰہی قربان جب کہ سندھ سے سوبھو گیان چندانی سمیت بڑے بڑے دانشور ترقی پسند شاعر، ادیب اور ٹریڈ یونین رہنما موجود تھے، پاکستان کمیونسٹ پارٹی موجود تھی۔
انجمن ترقی پسند مصنفین موجود تھی۔ کسانوں کی ایک بڑی تحریک چوہدری فتح محمد اور سندھ میں ہاری مزدور تحریک حیدر بخش جتوئی کی قیادت میں موجود تھی۔ ریلوے میں ریلوے ورکرز یونین موجود تھی جو تمام یونینوں کی ماں تھی اور پاکستان میں ایک فعال کردار ادا کر رہی تھی۔ پی آئی اے میں طفیل عباس کی ایئرویز یونین موجود تھی۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی 1949 میں وفات کے بعد ملک کے حالات بدل گئے اور پھر 1951 ہی میں حکومتی اہلکاروں نے جن میں جنرل سکندر مرزا نے ملک میں سختیاں کرنا شروع کردیں انقلابی تنظیموں پر پابندیاں لگانے کے منصوبے بنانا شروع کردیے گئے اور جیلوں میں ترقی پسندوں کو بند کرنا شروع کردیا گیا۔ اس طرح 1951 میں لاہور میں ایک ضمنی الیکشن میں کمیونسٹ پارٹی اور ٹریڈ یونین رہنما مرزا ابراہیم کو جیل سے الیکشن لڑنا پڑا وہ یہ الیکشن جیت گئے۔ ریڈیو پاکستان سے اعلان بھی کیا گیا۔
مگر امریکا سے فون پر وزیر اعظم لیاقت علی خان سے کہا گیا کہ آپ کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی برائے نام ہے، یہ کیا ہوا کہ ایک کمیونسٹ پارٹی کا لیڈر جیت گیا۔ جب کہ مقابلے میں مسلم لیگ کا امیدوار احمد سعید کرمانی ہار گیا۔ بس پھر رات گئے اعلان کیا گیا کہ جیتنے والے مرزا ابراہیم کے 1200 ووٹ جعلی اور غلط نکلے اور ہارنے والے احمد سعید کرمانی جیت گئے اور وہ 1200 ووٹ سے جیت گیا اور جھرلو الیکشن ہو گیا۔ بعد میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھی ایک بڑے جلسہ عام راولپنڈی میں گولیاں مار کر شہید کردیا گیا اس کے بعد کے حالات ہمارے اور آپ کے سامنے ہیں یہ باتیں مجھے بعد میں معلوم ہوئیں کچھ پڑھنے کو ملیں ۔ اور پھر 1958 میں جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو ہٹا کر ملک پر قبضہ کرلیا۔
ملک میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن پر پابندی، ریلوے ورکرز یونین پر پابندی اس طرح جمہوری تحریکوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ خیر بڑی لمبی کہانی ہے۔ یہ تمہید تو میں نے اس لیے باندھی کہ کچھ ماضی کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھ لیں۔ آج ایک ایسی حکومت ہے جو تبدیلی کے نام سے نیا پاکستان بنانا چاہتی ہے، مگر ناکام ہے۔
پورے ملک میں مہنگائی ہے، بے روزگاری، غربت ہے، جہالت ہے، بڑے بڑے قومی اداروں کو نج کاری کے نام پر بڑے بڑے سیٹھوں، سرمایہ کاروں، صنعت کاروں کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے اہلکاروں کے حکم کے تحت فروخت کیا جا رہا ہے۔دوسری جانب حکومت مخالف اتحاد قائم پی ڈی ایم کی شکل میں ملک بھر میں جلسے جلوس اور ریلیاں نکال رہے ہیں۔ اسمبلیوں سے استعفے دینے راولپنڈی اسلام آباد میں لانگ مارچ کرنے اور مارچ میں سینیٹ الیکشن میں رکاوٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی بھی بات ہو رہی ہے۔ دیکھیں کیا ہو گا ملک میں چور بازاری، لوٹ مار، ڈکیتی، قتل و غارت کا بازار بھی گرم ہے۔
دوسری جانب ہماری اپنی لیفٹ کی پارٹیاں کئی گروپوں میں تقسیم ہیں چند دن پہلے مجھے اسلام آباد سے کامریڈ علی ناصر کا فون آیا کہ رضی بھائی ہم نے لیفٹ کی 12 پارٹیوں کو متحد کرکے ایک انقلابی پارٹی بنائی ہے اس سے قبل 2020 میں لاہور میں بھی 26 تنظیموں کا ایک اکٹھ ہوا تھا جس میں طالب علموں، نوجوانوں، ترقی پسند پارٹیوں کا اتحاد بن چکا تھا۔ جس میں ٹریڈ یونینز بھی شامل تھیں مگر ابھی تک کوئی موثر فیصلہ نہ ہو سکا۔
اب میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ملک بھر میں دو یا تین کمیونسٹ پارٹیاں پہلے سے موجود ہیں جن میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان امداد قاضی صاحب حیدرآباد سندھ جب کہ ایک کمیونسٹ پارٹی راولپنڈی میں چوہدری محمد جمیل چلا رہے ہیں جوکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہے اور پچھلے الیکشن میں حصہ بھی لے چکی ہے آیندہ بھی الیکشن لڑے گی۔
اس کے علاوہ عوامی ورکرز پارٹی عابد حسن منٹو، یوسف مستی خان اور اسی طرح پاکستان مزدور کسان پارٹی اور پھر نیشنل پارٹی عبدالمالک ، مرحوم حاصل بزنجو صاحب ان کے علاوہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی ڈیموکریٹک نیشنل پارٹی، ڈاکٹر لال خان مرحوم، کی طبقاتی جدوجہد پارٹی، پاکستان لیبر پارٹی لاہور میں ڈاکٹر فاروق طارق ان کے علاوہ طالبعلموں کی کئی این ایس ایف کے دھڑے موجود، ڈی ایس ایف کو فعال کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
ملک میں محنت کشوں کی بڑی بڑی ترقی پسند فیڈریشن بھی موجود ہیں تمام قومی اداروں میں ٹریڈ یونینز بھی موجود ہیں کئی ایک ترقی پسند پارٹیوں کے ساتھ منسلک بھی ہیں اسی طرح وکلا کی ترقی پسند تنظیمیں بھی موجود ہیں ملک بھر میں پھیلے ہوئے بڑے بڑے شہروں گاؤں اور دیہاتوں میں کہیں نہ کہیں کمیونسٹ کارکن اور کامریڈ موجود ہیں۔ شاعر، ادیبوں کی انجمن ترقی پسند مصنفین بھی موجود ہے۔ نوجوانوں کی تحریک بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود بھی ہم اکثریت میں ہونے کے باوجود الگ الگ کھڑے ہیں کیا ہم کبھی متحد ہو سکتے ہیں؟
ملک بھر میں اچھے ترقی پسند دانشور، شاعر، کالم نگار بھی اخبارات اور جرائد میں کالم ومضامین بھی لکھتے ہیں، شاعری بھی کرتے ہیں، اکثر قاری اخبارات میگزین اور کتابیں بھی پڑھتے ہیں مگر پھر بھی متحد نہیں ہو سکتے اس لیے کہ وسائل نہیں ہیں۔ دھن دولت موجود نہیں ہے،لیکن پھر بھی ہم ایک الائنس (اتحاد) تو بنا سکتے ہیں ہم اکثریت میں ہیں ۔ مگر ہم اسمبلیوں میں موجود نہیں ہیں۔
لیکن پھر ہم پی ڈی ایم کی طرز پر اپنا بھی اتحاد بنا لیں اور ملک بھر میں چھوٹے چھوٹے جلسے جلوس منعقد کرکے حکومتی اداروں پر دباؤ تو ڈال سکتے ہیں اور ان سے مطالبہ کرسکتے ہیں ہر پارٹی اپنے منشور میں یہ بات بھی شامل کرلے ہر جماعت کم ازکم 25,25 مخصوص سیٹیں مزدوروں، کسانوں کو دے گی۔ اور ان کے الیکشن کے اخراجات بھی برداشت کرے تاکہ کچھ جمہوریت ہمیں بھی مل سکے اور ہم بھی کم ازکم صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں داخل ہو سکیں۔ ورنہ یہ جمہوریت جھوٹی ہے۔
میں نے جب ہوش سنبھالا تو ملک میں ایوب خان کا مارشل لا تھا اور عوام اس کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے۔ اس سے پہلے یا بہت پہلے تقسیم کے بعد ملک میں ٹریڈ یونین تحریک بڑی مضبوط تھی۔
پہلی فیڈریشن 1948 میں پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن قائم ہوگئی تھی جس کے پہلے بانی صدر مرزا محمد ابراہیم منتخب ہوئے جب کہ معروف ترقی پسند دانشور اور شاعر فیض احمد فیض سینئر نائب صدر بنے جب کہ سی آر اسلم، ایرک سپرن، عابد حسن منٹو، ڈاکٹر عبدالمالک جنرل سیکریٹری بنے جو بعد میں مشرقی پاکستان کے گورنر بھی بنے اسی طرح فضل الٰہی قربان جب کہ سندھ سے سوبھو گیان چندانی سمیت بڑے بڑے دانشور ترقی پسند شاعر، ادیب اور ٹریڈ یونین رہنما موجود تھے، پاکستان کمیونسٹ پارٹی موجود تھی۔
انجمن ترقی پسند مصنفین موجود تھی۔ کسانوں کی ایک بڑی تحریک چوہدری فتح محمد اور سندھ میں ہاری مزدور تحریک حیدر بخش جتوئی کی قیادت میں موجود تھی۔ ریلوے میں ریلوے ورکرز یونین موجود تھی جو تمام یونینوں کی ماں تھی اور پاکستان میں ایک فعال کردار ادا کر رہی تھی۔ پی آئی اے میں طفیل عباس کی ایئرویز یونین موجود تھی۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی 1949 میں وفات کے بعد ملک کے حالات بدل گئے اور پھر 1951 ہی میں حکومتی اہلکاروں نے جن میں جنرل سکندر مرزا نے ملک میں سختیاں کرنا شروع کردیں انقلابی تنظیموں پر پابندیاں لگانے کے منصوبے بنانا شروع کردیے گئے اور جیلوں میں ترقی پسندوں کو بند کرنا شروع کردیا گیا۔ اس طرح 1951 میں لاہور میں ایک ضمنی الیکشن میں کمیونسٹ پارٹی اور ٹریڈ یونین رہنما مرزا ابراہیم کو جیل سے الیکشن لڑنا پڑا وہ یہ الیکشن جیت گئے۔ ریڈیو پاکستان سے اعلان بھی کیا گیا۔
مگر امریکا سے فون پر وزیر اعظم لیاقت علی خان سے کہا گیا کہ آپ کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی برائے نام ہے، یہ کیا ہوا کہ ایک کمیونسٹ پارٹی کا لیڈر جیت گیا۔ جب کہ مقابلے میں مسلم لیگ کا امیدوار احمد سعید کرمانی ہار گیا۔ بس پھر رات گئے اعلان کیا گیا کہ جیتنے والے مرزا ابراہیم کے 1200 ووٹ جعلی اور غلط نکلے اور ہارنے والے احمد سعید کرمانی جیت گئے اور وہ 1200 ووٹ سے جیت گیا اور جھرلو الیکشن ہو گیا۔ بعد میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھی ایک بڑے جلسہ عام راولپنڈی میں گولیاں مار کر شہید کردیا گیا اس کے بعد کے حالات ہمارے اور آپ کے سامنے ہیں یہ باتیں مجھے بعد میں معلوم ہوئیں کچھ پڑھنے کو ملیں ۔ اور پھر 1958 میں جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو ہٹا کر ملک پر قبضہ کرلیا۔
ملک میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن پر پابندی، ریلوے ورکرز یونین پر پابندی اس طرح جمہوری تحریکوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ خیر بڑی لمبی کہانی ہے۔ یہ تمہید تو میں نے اس لیے باندھی کہ کچھ ماضی کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھ لیں۔ آج ایک ایسی حکومت ہے جو تبدیلی کے نام سے نیا پاکستان بنانا چاہتی ہے، مگر ناکام ہے۔
پورے ملک میں مہنگائی ہے، بے روزگاری، غربت ہے، جہالت ہے، بڑے بڑے قومی اداروں کو نج کاری کے نام پر بڑے بڑے سیٹھوں، سرمایہ کاروں، صنعت کاروں کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے اہلکاروں کے حکم کے تحت فروخت کیا جا رہا ہے۔دوسری جانب حکومت مخالف اتحاد قائم پی ڈی ایم کی شکل میں ملک بھر میں جلسے جلوس اور ریلیاں نکال رہے ہیں۔ اسمبلیوں سے استعفے دینے راولپنڈی اسلام آباد میں لانگ مارچ کرنے اور مارچ میں سینیٹ الیکشن میں رکاوٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی بھی بات ہو رہی ہے۔ دیکھیں کیا ہو گا ملک میں چور بازاری، لوٹ مار، ڈکیتی، قتل و غارت کا بازار بھی گرم ہے۔
دوسری جانب ہماری اپنی لیفٹ کی پارٹیاں کئی گروپوں میں تقسیم ہیں چند دن پہلے مجھے اسلام آباد سے کامریڈ علی ناصر کا فون آیا کہ رضی بھائی ہم نے لیفٹ کی 12 پارٹیوں کو متحد کرکے ایک انقلابی پارٹی بنائی ہے اس سے قبل 2020 میں لاہور میں بھی 26 تنظیموں کا ایک اکٹھ ہوا تھا جس میں طالب علموں، نوجوانوں، ترقی پسند پارٹیوں کا اتحاد بن چکا تھا۔ جس میں ٹریڈ یونینز بھی شامل تھیں مگر ابھی تک کوئی موثر فیصلہ نہ ہو سکا۔
اب میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ملک بھر میں دو یا تین کمیونسٹ پارٹیاں پہلے سے موجود ہیں جن میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان امداد قاضی صاحب حیدرآباد سندھ جب کہ ایک کمیونسٹ پارٹی راولپنڈی میں چوہدری محمد جمیل چلا رہے ہیں جوکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہے اور پچھلے الیکشن میں حصہ بھی لے چکی ہے آیندہ بھی الیکشن لڑے گی۔
اس کے علاوہ عوامی ورکرز پارٹی عابد حسن منٹو، یوسف مستی خان اور اسی طرح پاکستان مزدور کسان پارٹی اور پھر نیشنل پارٹی عبدالمالک ، مرحوم حاصل بزنجو صاحب ان کے علاوہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی ڈیموکریٹک نیشنل پارٹی، ڈاکٹر لال خان مرحوم، کی طبقاتی جدوجہد پارٹی، پاکستان لیبر پارٹی لاہور میں ڈاکٹر فاروق طارق ان کے علاوہ طالبعلموں کی کئی این ایس ایف کے دھڑے موجود، ڈی ایس ایف کو فعال کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
ملک میں محنت کشوں کی بڑی بڑی ترقی پسند فیڈریشن بھی موجود ہیں تمام قومی اداروں میں ٹریڈ یونینز بھی موجود ہیں کئی ایک ترقی پسند پارٹیوں کے ساتھ منسلک بھی ہیں اسی طرح وکلا کی ترقی پسند تنظیمیں بھی موجود ہیں ملک بھر میں پھیلے ہوئے بڑے بڑے شہروں گاؤں اور دیہاتوں میں کہیں نہ کہیں کمیونسٹ کارکن اور کامریڈ موجود ہیں۔ شاعر، ادیبوں کی انجمن ترقی پسند مصنفین بھی موجود ہے۔ نوجوانوں کی تحریک بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود بھی ہم اکثریت میں ہونے کے باوجود الگ الگ کھڑے ہیں کیا ہم کبھی متحد ہو سکتے ہیں؟
ملک بھر میں اچھے ترقی پسند دانشور، شاعر، کالم نگار بھی اخبارات اور جرائد میں کالم ومضامین بھی لکھتے ہیں، شاعری بھی کرتے ہیں، اکثر قاری اخبارات میگزین اور کتابیں بھی پڑھتے ہیں مگر پھر بھی متحد نہیں ہو سکتے اس لیے کہ وسائل نہیں ہیں۔ دھن دولت موجود نہیں ہے،لیکن پھر بھی ہم ایک الائنس (اتحاد) تو بنا سکتے ہیں ہم اکثریت میں ہیں ۔ مگر ہم اسمبلیوں میں موجود نہیں ہیں۔
لیکن پھر ہم پی ڈی ایم کی طرز پر اپنا بھی اتحاد بنا لیں اور ملک بھر میں چھوٹے چھوٹے جلسے جلوس منعقد کرکے حکومتی اداروں پر دباؤ تو ڈال سکتے ہیں اور ان سے مطالبہ کرسکتے ہیں ہر پارٹی اپنے منشور میں یہ بات بھی شامل کرلے ہر جماعت کم ازکم 25,25 مخصوص سیٹیں مزدوروں، کسانوں کو دے گی۔ اور ان کے الیکشن کے اخراجات بھی برداشت کرے تاکہ کچھ جمہوریت ہمیں بھی مل سکے اور ہم بھی کم ازکم صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں داخل ہو سکیں۔ ورنہ یہ جمہوریت جھوٹی ہے۔