بلوچستان… اصل مسئلہ کیا ہے
آخر نواب اکبر بگٹی جیسے جرات مند، زیرک اور صاحب علم و فہم بلوچ راہنما کو ہم قومی دھارے میں کیوں نہ لا سکے۔
بلوچستان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ یہ حل کیوں نہیں ہو رہا؟آخر کیا وجہ ہے کہ یہ صوبہ اب تک پوری طرح قومی دھارے میں سمویا نہ جا سکا۔74 سال گزرنے کے باوجود نہ تو بلوچستان کی سیاسی قیادت اور نہ ہی عوام کی اکثریت مطمئن نظر آتی ہے۔ یہ ہیں وہ سوالات جن کا جواب ہر ذی شعور پاکستانی مانگ رہا ہے ۔
بلوچستان کی یہ صورت حال اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس کے پس منظر میں بہت سے واقعات ہیں۔ گزشتہ 46سال کے دوران مجھے بلوچستان کو ایک پاکستانی اور خصوصاً بطورنیوز رپورٹر سٹرک اورہیلی کاپٹر کے ذریعے دیکھنے کابارہا موقعہ ملا۔ میں نے یکم مارچ1975کو اپنی سروس کا آغاز کوئٹہ ٹیلی ویژن سے کیا۔ ان ایام میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم اور جنرل محمد ضیاء الحق چیف آف آرمی اسٹاف تھے۔ میری ملازمت کو ابھی چند ہفتے ہی ہوئے تھے کہ جنرل محمد ضیاء الحق بلوچستان کے دورے پر کوئٹہ آئے، انھوں نے مری اور بگٹی قبائل کے علاقے کا دورہ بھی کرنا تھا۔ میں بطور رپورٹر ان کے ساتھ گیا۔
ان دنوں ہر طرف ذوالفقار علی بھٹو کی دھاک بیٹھی تھی۔ یہ وہ دن ہیں جب ڈیرہ بگٹی اور مری قبائل آپس میں دست و گریباں تھے اور نواب اکبر بگٹی (مرحوم) کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے گرفتار کر کے کراچی میں نظر بند کیا ہوا تھا۔اکبر بگٹی کو ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کا گو رنر کس طرح بنایا اور بگٹی ایریا میں حکومتی راہ کس طرح ہموار ہوئی اور پھر اکبر بگٹی کو کیوں گرفتار کرنا پڑا ۔یہ ایک دلچسپ کہانی ہے جس کا ذکر آیندہ ہو گا۔
میں کئی بار بلوچستان کے قبائلی رہنمائوں عما ئدین اور دانشوروں سے ملا ہوں۔ان سے بات چیت کے بعد میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو ہماری حکومتوں نے الگ الگ علاقائی مسائل کے طور پر تو حل کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے لیکن اجتماعی طور پر( Integrated Effort) دلجمعی سے نہیں کی گئی۔ قبائلی سرداروں کے باہمی اختلافات کو ایک دوسرے کے خلاف تو استعمال کیا گیا لیکن عظیم تر قومی مفادات کے حصول کے لیے بنیادی فیصلے کرنے میں دیر کی گئی، اس کی ایک اہم وجہ ہمارا غیر مستحکم سیاسی نظام ہے۔ آمریت کے چار ادوار یعنی صدر ایوب، صدر یحییٰ، صدر ضیاء الحق اور صدر مشرف کے ان تیس اکتیس برسوں میں جو ملکی تاریخ کی نصف عمر بنتی ہے کے دوران شخصی حکمرانی کو بچانے کے لیے بلوچستان کے سرداروں سے لین دین کی سیاست کارفرما رہی۔
1973میں جب ایک متفقہ آئین وجود میںا ٓیا تو اس پر بھی نیک نیتی سے عمل در آمد نہ کیا گیا۔اس عرصے میں بلوچستان کے سرداروں نے اپنی جڑیں علاقائی طور پر مضبوط کر لیں۔ مختلف حکومتوں نے وقتی مفادات کی خاطر سرداروں کو خطیر رقوم اور سہولیتں دیں لیکن بلوچستان کے عوام ترقی کے ثمر سے محروم رہے۔ کمزور حکومتی پالیسیوں اور لین دین کی سیاست نے بلوچستان میں غریب طبقے میں احساس محرومی کے جذبات کو اجاگر کیا گیا۔ پاکستان کے قیام کی مخالف قوتوں اور علاقائی مفادات کی بنیاد پر ہمسایہ ممالک کی حکومتوں نے بھی بلوچستان میں منفی کردار ادا کیا۔ سوویت یونین کی گرم پانیوں تک پہنچنے کی خواہش اور امریکی مفادات کے ٹکرائو کا مرکز بھی بلوچستان بننا شروع ہو گیا ۔ ان حقائق کی روشنی میں بلوچستان کی صورتحال اور گھمبیر ہوتی گئی۔
مطلق العنان آمر حکمران بھی اس مسئلے کو طاقت سے حل کر سکا اور نہ ہی لولی لنگڑی جمہوری حکومتیں اس طرف دلجمعی سے توجہ دے سکیں۔جمہوری حکومتیں اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے سودے بازی میں لگی رہیں جب کہ فوجی حکمران دانش اور بصیرت کے بجائے طاقت سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب سوئی گیس کے ذخائر کو نقصان پہنچنا شروع ہوا توحکومتی ایکشن کی وجہ سے ڈیرہ بگٹی کے حالات بہت خراب ہو گئے۔ پارلیمانی مشن(جس میں تما م سیاسی جماعتوں کے نمایندہ افراد شامل تھے) ڈیرہ بگٹی پہنچا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ ان ہی دنوں میں چوہدری شجاعت حسین، مشاہد حسین سید بھی حکومت کی جانب سے نواب اکبر بگٹی سے مذاکرات کے لیے کئی روز تک ڈیرہ بگٹی جاتے رہے۔
مجھے اس دورے میں بھی تاریخ کا گواہ بننے کا موقعہ ملا۔ چوہدری شجاعت ، مشاہد حسین سید کے ہمراہ پی ٹی وی کے رپورٹر کی حیثیت سے ان کے ساتھ خصوصی طیارے میں سوئی(بلوچستان) اور سوئی سے ڈیرہ بگٹی جاتا رہا ۔ اکبر بگٹی سے مذاکرات کے بعدہم سب اسلام آبادآ جاتے۔ اس دوران جو گفتگو ہوئی وہ قومی امانت ہے اس کو بیان کرنا تو سیاستدانوں اور حکمرانوں کا کام ہے۔ مذاکرات کے آخری دن جب ہم وہاں سے روانہ ہونے لگے تو میں نے اکبر بگٹی سے سوال کیا کہ اس علاقے پر آپ کی عمل داری ہے۔
سوئی سے ڈیرہ بگٹی تک پہاڑی چوٹیوں پر اسلحہ بردار بیٹھے ہیں ۔جس وجہ سے سوئی سے ڈیرہ بگٹی اور ملحقہ علاقے کو خوراک اور ادویات کی فراہمی بند ہے اور لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ آپ اس سٹرک کو آمد رفت کے لیے کیوں نہیں کھول دیتے تو ان کا جواب تھا کہ اگر حکومت کے دماغ کی لکیر کھلی ہو تو زمین پر کھینچی گئی لکیریں (سٹرکیں) کبھی بند نہیں ہوتیں۔انھوں نے مزید کہا کہ دیکھیں شجاعت اور مشاہد حسین سیاستدان ہیں، میری طرح ان کے دماغ کی لکیر بھی کھلی ہے تو بات ہو رہی ہے لیکن مشرف کا ذہن بند ہے ، اس لیے اس سے کوئی بات نہیں ہو سکتی۔
آخر نواب اکبر بگٹی جیسے جرات مند، زیرک اور صاحب علم و فہم بلوچ راہنما کو ہم قومی دھارے میں کیوں نہ لا سکے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آسان نہیں ۔اکبر بگٹی ہی وہ شخص تھے جنھوں نے قیام پاکستان کے وقت خان آف قلات کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے میں قائل کیا۔ وہ حکومت پاکستان میں وزیر داخلہ بھی رہے۔ انھیں بلوچستان کا گورنر اور وزیر اعلیٰ بننے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو(پیپلز پارٹی) اور نواز شریف (مسلم لیگ) کے اتحادی بھی رہے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ وہ پاکستانی حکمرانوں پر اعتماد کھو بیٹھے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ان کے اتحادی سیاسی راہنمائو ںنے زبان کی پاسداری کے بجائے وقتی مفادات کو سامنے رکھ کران سے دوستی اور دشمنی کی۔ادھر حکمرانوں نے انھیں جھکانے کی کوشش کی۔ ان عوامل کی وجہ سے نواب اکبر بگٹی کی سوچ میں ایک ایسا رد عمل شامل ہو گیا جس کی وجہ سے معاملات Point of no returnتک آ گئے۔
اکبر بگٹی کی کہانی کا باب تو ختم ہو گیا لیکن ڈیرہ بگٹی کی صورتحال جوں کی توں ہے۔ بظاہر وہاں امن نظر آیا ہے اور حکومتی کنٹرول بھی لیکن بگٹی قبائل کی اکثریت کے دل اور دماغ ابھی تک جیتے نہیں جا سکے۔ یہ کام سب سے اہم ہے، پاکستان کے اتحاد، یک جہتی اور سالمیت کے لیے لوگوں کی سوچ اور فکر کو پاکستانی بنانا ضروری ہے۔ اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے حکومت کو اپنا انداز نظر اور حکمت عملی تبدیل کرنا ہو گی ۔ سوچنا یہ ہے کہ کیا ہم یہ کرنے کوتیارہیں یا صرف سیکیورٹی کے نام پر اپنے دماغ کاتالا بند ہی رکھنا چاہتے ہیں۔
بلوچستان کی یہ صورت حال اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس کے پس منظر میں بہت سے واقعات ہیں۔ گزشتہ 46سال کے دوران مجھے بلوچستان کو ایک پاکستانی اور خصوصاً بطورنیوز رپورٹر سٹرک اورہیلی کاپٹر کے ذریعے دیکھنے کابارہا موقعہ ملا۔ میں نے یکم مارچ1975کو اپنی سروس کا آغاز کوئٹہ ٹیلی ویژن سے کیا۔ ان ایام میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم اور جنرل محمد ضیاء الحق چیف آف آرمی اسٹاف تھے۔ میری ملازمت کو ابھی چند ہفتے ہی ہوئے تھے کہ جنرل محمد ضیاء الحق بلوچستان کے دورے پر کوئٹہ آئے، انھوں نے مری اور بگٹی قبائل کے علاقے کا دورہ بھی کرنا تھا۔ میں بطور رپورٹر ان کے ساتھ گیا۔
ان دنوں ہر طرف ذوالفقار علی بھٹو کی دھاک بیٹھی تھی۔ یہ وہ دن ہیں جب ڈیرہ بگٹی اور مری قبائل آپس میں دست و گریباں تھے اور نواب اکبر بگٹی (مرحوم) کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے گرفتار کر کے کراچی میں نظر بند کیا ہوا تھا۔اکبر بگٹی کو ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کا گو رنر کس طرح بنایا اور بگٹی ایریا میں حکومتی راہ کس طرح ہموار ہوئی اور پھر اکبر بگٹی کو کیوں گرفتار کرنا پڑا ۔یہ ایک دلچسپ کہانی ہے جس کا ذکر آیندہ ہو گا۔
میں کئی بار بلوچستان کے قبائلی رہنمائوں عما ئدین اور دانشوروں سے ملا ہوں۔ان سے بات چیت کے بعد میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو ہماری حکومتوں نے الگ الگ علاقائی مسائل کے طور پر تو حل کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے لیکن اجتماعی طور پر( Integrated Effort) دلجمعی سے نہیں کی گئی۔ قبائلی سرداروں کے باہمی اختلافات کو ایک دوسرے کے خلاف تو استعمال کیا گیا لیکن عظیم تر قومی مفادات کے حصول کے لیے بنیادی فیصلے کرنے میں دیر کی گئی، اس کی ایک اہم وجہ ہمارا غیر مستحکم سیاسی نظام ہے۔ آمریت کے چار ادوار یعنی صدر ایوب، صدر یحییٰ، صدر ضیاء الحق اور صدر مشرف کے ان تیس اکتیس برسوں میں جو ملکی تاریخ کی نصف عمر بنتی ہے کے دوران شخصی حکمرانی کو بچانے کے لیے بلوچستان کے سرداروں سے لین دین کی سیاست کارفرما رہی۔
1973میں جب ایک متفقہ آئین وجود میںا ٓیا تو اس پر بھی نیک نیتی سے عمل در آمد نہ کیا گیا۔اس عرصے میں بلوچستان کے سرداروں نے اپنی جڑیں علاقائی طور پر مضبوط کر لیں۔ مختلف حکومتوں نے وقتی مفادات کی خاطر سرداروں کو خطیر رقوم اور سہولیتں دیں لیکن بلوچستان کے عوام ترقی کے ثمر سے محروم رہے۔ کمزور حکومتی پالیسیوں اور لین دین کی سیاست نے بلوچستان میں غریب طبقے میں احساس محرومی کے جذبات کو اجاگر کیا گیا۔ پاکستان کے قیام کی مخالف قوتوں اور علاقائی مفادات کی بنیاد پر ہمسایہ ممالک کی حکومتوں نے بھی بلوچستان میں منفی کردار ادا کیا۔ سوویت یونین کی گرم پانیوں تک پہنچنے کی خواہش اور امریکی مفادات کے ٹکرائو کا مرکز بھی بلوچستان بننا شروع ہو گیا ۔ ان حقائق کی روشنی میں بلوچستان کی صورتحال اور گھمبیر ہوتی گئی۔
مطلق العنان آمر حکمران بھی اس مسئلے کو طاقت سے حل کر سکا اور نہ ہی لولی لنگڑی جمہوری حکومتیں اس طرف دلجمعی سے توجہ دے سکیں۔جمہوری حکومتیں اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے سودے بازی میں لگی رہیں جب کہ فوجی حکمران دانش اور بصیرت کے بجائے طاقت سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب سوئی گیس کے ذخائر کو نقصان پہنچنا شروع ہوا توحکومتی ایکشن کی وجہ سے ڈیرہ بگٹی کے حالات بہت خراب ہو گئے۔ پارلیمانی مشن(جس میں تما م سیاسی جماعتوں کے نمایندہ افراد شامل تھے) ڈیرہ بگٹی پہنچا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ ان ہی دنوں میں چوہدری شجاعت حسین، مشاہد حسین سید بھی حکومت کی جانب سے نواب اکبر بگٹی سے مذاکرات کے لیے کئی روز تک ڈیرہ بگٹی جاتے رہے۔
مجھے اس دورے میں بھی تاریخ کا گواہ بننے کا موقعہ ملا۔ چوہدری شجاعت ، مشاہد حسین سید کے ہمراہ پی ٹی وی کے رپورٹر کی حیثیت سے ان کے ساتھ خصوصی طیارے میں سوئی(بلوچستان) اور سوئی سے ڈیرہ بگٹی جاتا رہا ۔ اکبر بگٹی سے مذاکرات کے بعدہم سب اسلام آبادآ جاتے۔ اس دوران جو گفتگو ہوئی وہ قومی امانت ہے اس کو بیان کرنا تو سیاستدانوں اور حکمرانوں کا کام ہے۔ مذاکرات کے آخری دن جب ہم وہاں سے روانہ ہونے لگے تو میں نے اکبر بگٹی سے سوال کیا کہ اس علاقے پر آپ کی عمل داری ہے۔
سوئی سے ڈیرہ بگٹی تک پہاڑی چوٹیوں پر اسلحہ بردار بیٹھے ہیں ۔جس وجہ سے سوئی سے ڈیرہ بگٹی اور ملحقہ علاقے کو خوراک اور ادویات کی فراہمی بند ہے اور لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ آپ اس سٹرک کو آمد رفت کے لیے کیوں نہیں کھول دیتے تو ان کا جواب تھا کہ اگر حکومت کے دماغ کی لکیر کھلی ہو تو زمین پر کھینچی گئی لکیریں (سٹرکیں) کبھی بند نہیں ہوتیں۔انھوں نے مزید کہا کہ دیکھیں شجاعت اور مشاہد حسین سیاستدان ہیں، میری طرح ان کے دماغ کی لکیر بھی کھلی ہے تو بات ہو رہی ہے لیکن مشرف کا ذہن بند ہے ، اس لیے اس سے کوئی بات نہیں ہو سکتی۔
آخر نواب اکبر بگٹی جیسے جرات مند، زیرک اور صاحب علم و فہم بلوچ راہنما کو ہم قومی دھارے میں کیوں نہ لا سکے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آسان نہیں ۔اکبر بگٹی ہی وہ شخص تھے جنھوں نے قیام پاکستان کے وقت خان آف قلات کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے میں قائل کیا۔ وہ حکومت پاکستان میں وزیر داخلہ بھی رہے۔ انھیں بلوچستان کا گورنر اور وزیر اعلیٰ بننے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو(پیپلز پارٹی) اور نواز شریف (مسلم لیگ) کے اتحادی بھی رہے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ وہ پاکستانی حکمرانوں پر اعتماد کھو بیٹھے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ان کے اتحادی سیاسی راہنمائو ںنے زبان کی پاسداری کے بجائے وقتی مفادات کو سامنے رکھ کران سے دوستی اور دشمنی کی۔ادھر حکمرانوں نے انھیں جھکانے کی کوشش کی۔ ان عوامل کی وجہ سے نواب اکبر بگٹی کی سوچ میں ایک ایسا رد عمل شامل ہو گیا جس کی وجہ سے معاملات Point of no returnتک آ گئے۔
اکبر بگٹی کی کہانی کا باب تو ختم ہو گیا لیکن ڈیرہ بگٹی کی صورتحال جوں کی توں ہے۔ بظاہر وہاں امن نظر آیا ہے اور حکومتی کنٹرول بھی لیکن بگٹی قبائل کی اکثریت کے دل اور دماغ ابھی تک جیتے نہیں جا سکے۔ یہ کام سب سے اہم ہے، پاکستان کے اتحاد، یک جہتی اور سالمیت کے لیے لوگوں کی سوچ اور فکر کو پاکستانی بنانا ضروری ہے۔ اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے حکومت کو اپنا انداز نظر اور حکمت عملی تبدیل کرنا ہو گی ۔ سوچنا یہ ہے کہ کیا ہم یہ کرنے کوتیارہیں یا صرف سیکیورٹی کے نام پر اپنے دماغ کاتالا بند ہی رکھنا چاہتے ہیں۔