پردۂ غیب سے ……آخری حصہ
ڈونلڈ ٹرمپ دیوانے ہر گز نہیں، ان کا معاملہ ایک نرگسیت پسند فردکا ہے۔
20 جنوری 2021 میں ابھی کئی دن باقی ہیں۔ صرف امریکا میں ہی نہیں، دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی یہ دن گن کر گزارے جارہے ہیں۔ اس کی وجہ بہت سی خبریں اور بہت سی افواہیں جوگردش کررہی ہیں، وہ اس اضطراب کا سبب ہیں۔
کبھی یہ خبر آتی ہے کہ وہ کسی طور بھی اپنی شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انتخابات میں وہ فاتح ہوئے ہیں، اس لیے وہ اپنے اختیارات سے دستبردار نہیںہوں گے،کبھی یہ افواہ لوگوں کا دل دہلا دیتی ہے کہ وہ ایٹمی حملہ کرنے کے لیے تلے بیٹھے ہیں۔ ایٹمی حملہ ایک ایسا دہشت ناک معاملہ ہے جو SALT ایسی فلموں میں بھی خون رگوں میں جما دیتا ہے نہ کہ حقیقی زندگی میں ایسا امکان بھی پیدا ہو۔
ڈونلڈ ٹرمپ دیوانے ہر گز نہیں، ان کا معاملہ ایک نرگسیت پسند فردکا ہے، ایک ایسا شخص جو اپنی سربلندی کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کے خیال میں ان کی خواہش کے سامنے پوری دنیا کو سر جھکانا چاہیے۔ انھوں نے امریکی ایوان اقتدار میں تہلکہ مچادیا ہے۔ حد تویہ ہے کہ ری پبلکن پارٹی جو ان کی جماعت ہے اور جس کی چھتر چھایا میں وہ انتخابات جیتے اور 4 برس تک بلا شرکت غیرے امریکی صدر رہے، دنیا کی بڑی طاقت کے رہنما لیکن اب ان کی اپنی پارٹی کے لوگ ان کے بیانات اور ان کے موقف پر حیرت زدہ ہیں۔
سینیٹر مچ میکوئل جو ان کی ری پبلکن پارٹی کے اہم ترین رکن ہیں انھوں نے دوسری مرتبہ صدر ٹرمپ کے مواخذے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ قانونی نکات کو سنیں گے اور ان پر غورکریں گے تب ہی وہ یہ فیصلہ کریں گے کہ صدر ٹرمپ کے دوسرے مواخذے پر وہ کس طور اپنی رائے کا اظہار کریں۔
انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے امریکی صدور کے جو مواخذے ہوئے ہیں وہ 83 دن، 37 دن اور 21 دن جاری رہے تھے جب کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے مواخذے کے لیے صرف چند دن رہ گئے ہیں جوکہ قانونی بحث کے لیے ناکافی ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ری پبلکن نمایندے جنھوں نے ابھی کچھ دن پہلے مواخذے کی کارروائی میں حتمی طور پر اپنا ووٹ امریکی صدر کے حق میں دیا تھا، وہ گزشتہ چند مہینوں میں صدر ٹرمپ کے غیر متوازن اور غیر محتاط رویے کی بنا پر چہ کنم میں گرفتار ہیں۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے، دوسری طرف ایف بی آئی اور دوسری خفیہ ایجنسیوں کو خبردارکیا گیا ہے کہ 20 جنوری کو حلف برداری کی تقریب کے موقع پر اور اس کے فوراً بعد ملک میں بڑے پیمانے پر ٹرمپ اور بائیڈن کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں ہوسکتی ہیں۔ محکمہ خفیہ کے افسران کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو نسل پرست، انتہا پسند اور تشدد پر یقین رکھتے ہیں، جنھیں مذہبی اقلیتوں سے ڈر لگتا ہے، جن سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ وہ صدارتی حلف برداری کے موقع پرکچھ بھی کرسکتے ہیں۔ چند دنوں پہلے جس طرح کیپٹل ہل پر مشتعل ہجوم نے حملہ کیا اور توڑ پھوڑکی وہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔
یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ سفید فام جو امریکا میں سیاہ فام اور ترک وطن کرکے آنے والے مختلف گروہوں سے نفرت کرتے ہیں اور امریکا کو صرف اپنا ملک سمجھتے ہیں، جن کے خیال میں یہ سفید فام امریکیوں کے حق پر ڈاکا ہے کہ رنگ دار اور ایشیائی یا افریقی تاریکین وطن ان ہی حقوق کے حامل ہوں جو امریکا کے اصل وارث ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سفید فام اور نسل پرست امریکی یہ بھول جاتے ہیں کہ زیادہ پرانی بات نہیں، چند سو برس پرانا قصہ ہے جب انگلستان اور بعض دوسرے یورپی ملکوں سے آئے ہوئے شورہ پشت افراد نے امریکا کی سرزمین پر قدم رکھا اور نہتے اور پرامن ریڈ انڈین باشندوں کا ستھرائو کیا۔ یہ قتل عام 1607 سے شروع ہوا اور 1890 تک جاری رہا۔ یہ قتل و غارت گری سفید فام امریکیوں اور امریکی ریاست کی سرپرستی میں جاری رہا۔ اس دوران 9 کروڑ ریڈ انڈین مرد، عورتیں اور بچے مارے گئے۔
امریکا اور کئی دوسرے ملکوں میں ہوا یہ ہے کہ دہشت گرد، سیاستدان بن گئے ہیں اور وہ جمہوریت اور آزادی اظہار کے نام پر لوگوں کو کچلنے اور خود اپنے ہی عوام کو روندنے پر فخرکرتے ہیں۔ ہمیں سوچنا توچاہیے کہ صدر ٹرمپ کی جگہ امریکی صدارتی عہدہ اگر ہلیری کلنٹن نے سنبھالا ہوتا تو دنیا کیا وہ جگہ ہوتی جو موجودہ امریکی صدر کے دور میں ہوئی۔ موجودہ صدر کا مسئلہ دنیا اور اس کے رہنے والے نہیں، وہ تو خود اپنے ملک میں رہنے والوں کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
ان کے خیال میں امریکی سرزمین پر انسان صرف وہ ہیں جو سفید فام ہیں اور ان کی پارٹی کے خیالات سے متفق ہیں۔ جنگ کے شعلے انھیں لبھاتے ہیں۔ مرتے ہوئے لوگوں کی آہ وبکا انھیں دل موہنے والی موسیقی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے خیالات کو سنتے ہوئے ان کی سیاست سے اتفاق رکھنے والوں کے افکار سے آگاہ ہوتے ہوئے بے ساختہ علی سردار جعفری کی ایک نظم یاد آتی ہے۔
پھر چلا جنگ کا دیوتا
سرخ شعلوں کے خنجرکو تانے ہوئے
خون کی پیاس سے
گوشت کی بھوک سے
چیختا اور چنگھاڑتا
آسمانوں پر عفریت کی طرح اڑتا ہوا
موت کی طرح دھرتی پر چلتا ہوا
فصلیں سہمی ہوئی
کھیت گھبرائے گھبرائے سے
جو فضائیں نئی کونپلوں کی مہک سے معطر تھیں وہ
گندی بارود کی بو سے سرشار ہیں
خون کے چھینٹے ہیں شبنم کے پیراہنوں پر
مندروں، مسجدوں اورکلیسائوں کے دامنوں پر
کیپٹل ہل پر جس طرح بلوائیوں نے حملہ کیا، وہ بہت سے سفید فام امریکیوں کو اپنی طاقت کا اظہار محسوس ہوا لیکن بہت سے وہ بھی ہیں جنھوں نے اسے امریکی جمہوریت کے منہ پر طمانچہ سمجھا۔ ان ہی میں ایک سفید فام امریکی نوجوان ہے۔ اس نے لکھا کہ میں اور میرے ساتھی 90 کی دہائی میں جوان ہوئے اور ہمارے لیے جمہوریت سرمایہ افتخار تھی۔ کیپٹل ہل پر جس طرح شرم ناک ہلہ بولا گیا، وہ میرے لیے اور میری نسل کے لیے ذلت کا سبب ہے۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
امریکا اس وقت تقسیم ہوچکا ہے اور مستقبل قریب میں ہماری جمہوریت کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ تحقیقات پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس ہلے میں پولیس اور فوجی افسر، پڑھے لکھے افراد اور حدتو یہ ہے کہ اولمپک کھیلوں میں جیتنے والے بھی شامل تھے۔ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ 6 جنوری کا یہ سیاہ دن امریکی تاریخ میں ناقابل فراموش ہوجائے۔ جوبائیڈن ایک متحمل مزاج اور سب کو شامل کرکے چلنے والے سیاستدان ہیں، وہ اور ان کی نائب صدر انتہا پسندوں اور نفرت پھیلانے والوں کے سینے میں خار بن کرکھٹکیں گی۔ یہ انتہا پسند افہام و تفہیم کی بات کرنے والوں سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ ان سے ہر نوعیت کے اقدام کی توقع کی جاسکتی ہے۔
کبھی یہ خبر آتی ہے کہ وہ کسی طور بھی اپنی شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انتخابات میں وہ فاتح ہوئے ہیں، اس لیے وہ اپنے اختیارات سے دستبردار نہیںہوں گے،کبھی یہ افواہ لوگوں کا دل دہلا دیتی ہے کہ وہ ایٹمی حملہ کرنے کے لیے تلے بیٹھے ہیں۔ ایٹمی حملہ ایک ایسا دہشت ناک معاملہ ہے جو SALT ایسی فلموں میں بھی خون رگوں میں جما دیتا ہے نہ کہ حقیقی زندگی میں ایسا امکان بھی پیدا ہو۔
ڈونلڈ ٹرمپ دیوانے ہر گز نہیں، ان کا معاملہ ایک نرگسیت پسند فردکا ہے، ایک ایسا شخص جو اپنی سربلندی کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کے خیال میں ان کی خواہش کے سامنے پوری دنیا کو سر جھکانا چاہیے۔ انھوں نے امریکی ایوان اقتدار میں تہلکہ مچادیا ہے۔ حد تویہ ہے کہ ری پبلکن پارٹی جو ان کی جماعت ہے اور جس کی چھتر چھایا میں وہ انتخابات جیتے اور 4 برس تک بلا شرکت غیرے امریکی صدر رہے، دنیا کی بڑی طاقت کے رہنما لیکن اب ان کی اپنی پارٹی کے لوگ ان کے بیانات اور ان کے موقف پر حیرت زدہ ہیں۔
سینیٹر مچ میکوئل جو ان کی ری پبلکن پارٹی کے اہم ترین رکن ہیں انھوں نے دوسری مرتبہ صدر ٹرمپ کے مواخذے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ قانونی نکات کو سنیں گے اور ان پر غورکریں گے تب ہی وہ یہ فیصلہ کریں گے کہ صدر ٹرمپ کے دوسرے مواخذے پر وہ کس طور اپنی رائے کا اظہار کریں۔
انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے امریکی صدور کے جو مواخذے ہوئے ہیں وہ 83 دن، 37 دن اور 21 دن جاری رہے تھے جب کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے مواخذے کے لیے صرف چند دن رہ گئے ہیں جوکہ قانونی بحث کے لیے ناکافی ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ری پبلکن نمایندے جنھوں نے ابھی کچھ دن پہلے مواخذے کی کارروائی میں حتمی طور پر اپنا ووٹ امریکی صدر کے حق میں دیا تھا، وہ گزشتہ چند مہینوں میں صدر ٹرمپ کے غیر متوازن اور غیر محتاط رویے کی بنا پر چہ کنم میں گرفتار ہیں۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے، دوسری طرف ایف بی آئی اور دوسری خفیہ ایجنسیوں کو خبردارکیا گیا ہے کہ 20 جنوری کو حلف برداری کی تقریب کے موقع پر اور اس کے فوراً بعد ملک میں بڑے پیمانے پر ٹرمپ اور بائیڈن کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں ہوسکتی ہیں۔ محکمہ خفیہ کے افسران کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو نسل پرست، انتہا پسند اور تشدد پر یقین رکھتے ہیں، جنھیں مذہبی اقلیتوں سے ڈر لگتا ہے، جن سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ وہ صدارتی حلف برداری کے موقع پرکچھ بھی کرسکتے ہیں۔ چند دنوں پہلے جس طرح کیپٹل ہل پر مشتعل ہجوم نے حملہ کیا اور توڑ پھوڑکی وہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔
یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ سفید فام جو امریکا میں سیاہ فام اور ترک وطن کرکے آنے والے مختلف گروہوں سے نفرت کرتے ہیں اور امریکا کو صرف اپنا ملک سمجھتے ہیں، جن کے خیال میں یہ سفید فام امریکیوں کے حق پر ڈاکا ہے کہ رنگ دار اور ایشیائی یا افریقی تاریکین وطن ان ہی حقوق کے حامل ہوں جو امریکا کے اصل وارث ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سفید فام اور نسل پرست امریکی یہ بھول جاتے ہیں کہ زیادہ پرانی بات نہیں، چند سو برس پرانا قصہ ہے جب انگلستان اور بعض دوسرے یورپی ملکوں سے آئے ہوئے شورہ پشت افراد نے امریکا کی سرزمین پر قدم رکھا اور نہتے اور پرامن ریڈ انڈین باشندوں کا ستھرائو کیا۔ یہ قتل عام 1607 سے شروع ہوا اور 1890 تک جاری رہا۔ یہ قتل و غارت گری سفید فام امریکیوں اور امریکی ریاست کی سرپرستی میں جاری رہا۔ اس دوران 9 کروڑ ریڈ انڈین مرد، عورتیں اور بچے مارے گئے۔
امریکا اور کئی دوسرے ملکوں میں ہوا یہ ہے کہ دہشت گرد، سیاستدان بن گئے ہیں اور وہ جمہوریت اور آزادی اظہار کے نام پر لوگوں کو کچلنے اور خود اپنے ہی عوام کو روندنے پر فخرکرتے ہیں۔ ہمیں سوچنا توچاہیے کہ صدر ٹرمپ کی جگہ امریکی صدارتی عہدہ اگر ہلیری کلنٹن نے سنبھالا ہوتا تو دنیا کیا وہ جگہ ہوتی جو موجودہ امریکی صدر کے دور میں ہوئی۔ موجودہ صدر کا مسئلہ دنیا اور اس کے رہنے والے نہیں، وہ تو خود اپنے ملک میں رہنے والوں کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
ان کے خیال میں امریکی سرزمین پر انسان صرف وہ ہیں جو سفید فام ہیں اور ان کی پارٹی کے خیالات سے متفق ہیں۔ جنگ کے شعلے انھیں لبھاتے ہیں۔ مرتے ہوئے لوگوں کی آہ وبکا انھیں دل موہنے والی موسیقی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے خیالات کو سنتے ہوئے ان کی سیاست سے اتفاق رکھنے والوں کے افکار سے آگاہ ہوتے ہوئے بے ساختہ علی سردار جعفری کی ایک نظم یاد آتی ہے۔
پھر چلا جنگ کا دیوتا
سرخ شعلوں کے خنجرکو تانے ہوئے
خون کی پیاس سے
گوشت کی بھوک سے
چیختا اور چنگھاڑتا
آسمانوں پر عفریت کی طرح اڑتا ہوا
موت کی طرح دھرتی پر چلتا ہوا
فصلیں سہمی ہوئی
کھیت گھبرائے گھبرائے سے
جو فضائیں نئی کونپلوں کی مہک سے معطر تھیں وہ
گندی بارود کی بو سے سرشار ہیں
خون کے چھینٹے ہیں شبنم کے پیراہنوں پر
مندروں، مسجدوں اورکلیسائوں کے دامنوں پر
کیپٹل ہل پر جس طرح بلوائیوں نے حملہ کیا، وہ بہت سے سفید فام امریکیوں کو اپنی طاقت کا اظہار محسوس ہوا لیکن بہت سے وہ بھی ہیں جنھوں نے اسے امریکی جمہوریت کے منہ پر طمانچہ سمجھا۔ ان ہی میں ایک سفید فام امریکی نوجوان ہے۔ اس نے لکھا کہ میں اور میرے ساتھی 90 کی دہائی میں جوان ہوئے اور ہمارے لیے جمہوریت سرمایہ افتخار تھی۔ کیپٹل ہل پر جس طرح شرم ناک ہلہ بولا گیا، وہ میرے لیے اور میری نسل کے لیے ذلت کا سبب ہے۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
امریکا اس وقت تقسیم ہوچکا ہے اور مستقبل قریب میں ہماری جمہوریت کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ تحقیقات پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس ہلے میں پولیس اور فوجی افسر، پڑھے لکھے افراد اور حدتو یہ ہے کہ اولمپک کھیلوں میں جیتنے والے بھی شامل تھے۔ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ 6 جنوری کا یہ سیاہ دن امریکی تاریخ میں ناقابل فراموش ہوجائے۔ جوبائیڈن ایک متحمل مزاج اور سب کو شامل کرکے چلنے والے سیاستدان ہیں، وہ اور ان کی نائب صدر انتہا پسندوں اور نفرت پھیلانے والوں کے سینے میں خار بن کرکھٹکیں گی۔ یہ انتہا پسند افہام و تفہیم کی بات کرنے والوں سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ ان سے ہر نوعیت کے اقدام کی توقع کی جاسکتی ہے۔