پاکستانی طلبا کا کارنامہ بہتے پانی سے بجلی بنانے والی ٹربائن تیار کرلی
عثمان انسٹی ٹیوٹ کے طلبا نے المونیئم سے بنے کم خرچ پروٹو ٹائپ کا کامیاب تجربہ بھی کرلیا ہے
عثمان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کراچی کے طلبا نے بہتے پانی سے بجلی بنانے والی ایک ٹربائن بنالی جو پاکستان میں آبشار، ندیوں اور یہاں تک کہ کراچی کے نالوں سے بھی بجلی بناسکتی ہے۔
پاکستان کے نوجوان صلاحیتوں کے لحاظ سے دنیا کے کسی خطے کے نوجوانوں سے کم نہیں جنہوں نے بجلی کی قلت دور کرنے کے لیے برساتی نالوں اور شہر کی بڑی آبی گزرگاہوں سے بجلی تیار کرنے کی سستی اور آسان ٹیکنالوجی تیار کرلی ہے۔
یہ طریقہ نہ صرف بڑے شہروں کے برساتی نالوں بلکہ پہاڑی علاقوں میں بہنے والے جھرنوں اور آبشاروں کے ساتھ دریاؤ ں کے کنارے رہنے والی آبادیوں کے لیے بھی بے حد مفید ہے۔ اس سستے اور کارگر طریقے پر عمل کرکے پاکستان سے بجلی کی قلت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
تکنیکی تعلیم دینے والے کراچی کے ادارے عثمان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی واٹر ٹربائن تیار کرکے کراچی کے نالوں اور آبی گزرگاہوں سے بجلی بنانے کا آئیڈیا پیش کردیا ہے۔ اس ٹربائن کو حب ندی سے کراچی کو سپلائی ہونے والے پانی کی گزرگاہ میں نصب کرکے کامیاب تجربہ بھی کیا جاچکا ہے۔
واٹر ٹربائن تیار کرنے والی ٹیم میں شامل نوجوان انجینئر سعد سرمد ستار کا کہنا ہے کہ حکومتی سرپرستی کی جائے یا پاور کمپنیاں دلچسپی لیں تو کراچی کی آبی گزرگاہیں اور ندی نالوں سے سستی بجلی پیدا کرکے توانائی کی قلت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آزمائشی بنیادوں پر واٹر ٹربائن ڈیڑھ لاکھ روپے کی لاگت سے چار ماہ کے قلیل عرصہ میں تیار کی گئی جسے "براق" کا نام دیا گیا ہے۔ سعد سرمد ستار نے بتایا کہ ان کی ٹیم نے متبادل ذرائع سے ماحول دوست بجلی پیدا کرنے کے طریقوں میں دلچسپی لی لیکن پانی سے بجلی پیدا کرنے کے طریقے کا انتخاب کیا کیونکہ پانی ہر جگہ اور ہر وقت دستیاب ہوتا ہے۔
واٹر ٹربائن 'براق' تیار کرنے والی ٹیم کے اراکین کی عمریں 25 سال سے بھی کم ہیں۔ ان میں سعد سرمد ستار کے علاوہ عبداللہ شامل ہیں جبکہ اس پراجیکٹ کی رہنمائی و نگرانی ڈاکٹر ظفر علی، ملک محمد علی، ظفر احمد خان، ڈاکٹر عبدالقدیر نے انجام دیئے ہیں۔
کراچی کے نوجوانوں کی صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسی طرز کی واٹر ٹربائن بنانے میں کینیڈا کے انجینئرز کو کئی سال کا عرصہ لگا۔
سعد سرمد کا کہنا ہے کہ کراچی میں ان تمام نالوں اور آبی گزرگاہوں پر ایسی واٹر ٹربائن لگائی جاسکتی ہیں، ٹربائن پانی کے بہاؤ اور رفتار کی بنیاد پر مختلف گنجائش کی حامل ہوسکتی ہیں جن کی بڑے پیمانے پر تیاری کی صورت میں لاگت بھی کم ہوگی۔ طالب علم کے مطابق ٹربائن کی لائف بھی زیادہ ہوگی اور ان کی مرمت بھی توانائی کے دیگر ذرائع کے مقابلے میں کم ہوگی، پانی کے بہاؤ سے بجلی پیدا کرنے کا طریقہ 24 گھنٹے کارگر ہوگا اور دن کے علاوہ رات میں بھی بجلی پیدا کی جاسکے گی۔
براق کا ڈھانچہ المونیم سے تیار کیا گیا ہے وزن میں ہلکا ہونے کی وجہ سے اسے ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان ہے۔ المونیم کے ڈھانچے کے درمیان میں موٹرنصب ہے جو پانی کے بہاؤ سے گھوم کر بجلی پیدا کرتی ہے جسے براہ راست گرڈ میں شامل کیا جاسکتا ہے یا پھر بیٹریوں میں محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
سعد سرمد کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے کراچی الیکٹرک اور واپڈا کے سسٹم پر پڑنے والے دباؤ کو کم کیا جاسکتا ہے، اس طریقے سے شہر میں سستی بجلی پیدا کرنے کے لیے وہ مختلف سرکاری محکموں کے علاوہ پاور کمپنیوں سے بھی رابطہ کررہے ہیں تاکہ اس ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے کوئی موثر اور مضبوط پلیٹ فارم تلاش کیا جاسکے، صنعتی یونٹس اور فیکٹریاں بھی اس طریقے سے استفادہ کرسکتی ہیں جس سے انہیں اپنی پیداواری لاگت کم کرنے میں مد د ملے گی۔
سعد ستار کا کہنا ہے کہ اس طریقے کی افادیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ پاکستان میں صرف 28 فیصد بجلی پانی سے پیدا کی جاتی ہے، پانی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے ابتدائی لاگت بہت زیادہ ہے جو ڈیم کی تعمیر پر خرچ ہوتی ہے جبکہ ڈیم کی تعمیر کے لیے وقت بھی بہت درکار ہوتا ہے، اکثر بڑے آبی منصوبے سیاسی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں، دوسری جانب ملک میں بہنے والے دریاؤں سے بہتا ہوا پانی سمندر میں گرکر ضایع ہورہا ہے بڑے ڈیم نہ بنانے کے ساتھ چھوٹے چھوٹے آبی راستوں سے بجلی حاصل کرنے کے امکانات کو بھی ضائع کیا جارہا ہے۔
سعد نے پاکستان کے جغرافیے اور آبی وسائل کی بنیاد پر "براق" کو پاکستان کے لیے ایک انتہائی موزوں ٹیکنالوجی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پانی کے بہاؤ سے چلنے والی چھوٹی ٹربائنز سے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں انقلاب لایا جاسکتا ہے بالخصوص سیاحتی علاقوں میں ہوٹلوں اور رہائشی آبادیوں کے لیے سستی بجلی مہیا کی جاسکتی ہے، سوات، ناران، ہنزہ، شوگران اور گلگت کے علاقے جہاں پانی کا بہاؤ بہت تیز ہوتا ہے چھوٹی اور ہلکی واٹر ٹربائن لگاکر بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔
سعد سرمد نے بتایا کہ پاکستان بھر میں زیادہ تر آبادیاں دریاؤں کے ساتھ ساتھ یا بڑی نہروں والے ذخیرے کے اردگرد قائم ہیں، یہاں کھیتی باڑی کے لیے استعمال ہونے والا پانی بھی چھوٹی ٹربائن لگاکر بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس طریقے پر صرف ایک مرتبہ کیپیٹل لاگت آتی ہے، کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور جیسے بڑے شہروں کے لیے یہ طریقہ انتہائی کارگر ثابت ہوگا کیونکہ ان شہروں کی بڑی آبادی کا استعمال کردہ پانی سیوریج کی لائنوں سے گزر کر ضائع کردیا جاتا ہے اگر سیوریج کے نظام کو ان چھوٹی ٹربائن کے ساتھ مربوط کردیا جائے تو شہروں میں بھی بجلی کی قلت کو دور کیا جاسکتا ہے۔
پانی کے بہاؤ سے بجلی پیدا کرنے کے لیے تیار کی جانے والی ہلکی اور چھوٹی ٹربائنز کے پراجیکٹ کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر عبدالقادر کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر ٹربائن تیار کی جائیں تو اس کی لاگت میں دو تہائی کمی لائی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالقادر نے کہا کہ اس ٹربائن کی کامیاب آزمائش حب کینال پر کی گئی جس میں پانی کا بہاؤ اور رفتار کافی بہتر یعنی 1.6 کیوبک میٹر فی سیکنڈ تھی، ابتدا میں یہ آلات بوٹ بیسن میں واقع نہرِخیام کے لیے بنائے گئے تھے جس کی تیاری میں معروف آرکیٹیکٹ شاہد عبداللہ نے بھی معاونت کی۔
پاکستان کے نوجوان صلاحیتوں کے لحاظ سے دنیا کے کسی خطے کے نوجوانوں سے کم نہیں جنہوں نے بجلی کی قلت دور کرنے کے لیے برساتی نالوں اور شہر کی بڑی آبی گزرگاہوں سے بجلی تیار کرنے کی سستی اور آسان ٹیکنالوجی تیار کرلی ہے۔
یہ طریقہ نہ صرف بڑے شہروں کے برساتی نالوں بلکہ پہاڑی علاقوں میں بہنے والے جھرنوں اور آبشاروں کے ساتھ دریاؤ ں کے کنارے رہنے والی آبادیوں کے لیے بھی بے حد مفید ہے۔ اس سستے اور کارگر طریقے پر عمل کرکے پاکستان سے بجلی کی قلت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
تکنیکی تعلیم دینے والے کراچی کے ادارے عثمان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی واٹر ٹربائن تیار کرکے کراچی کے نالوں اور آبی گزرگاہوں سے بجلی بنانے کا آئیڈیا پیش کردیا ہے۔ اس ٹربائن کو حب ندی سے کراچی کو سپلائی ہونے والے پانی کی گزرگاہ میں نصب کرکے کامیاب تجربہ بھی کیا جاچکا ہے۔
واٹر ٹربائن تیار کرنے والی ٹیم میں شامل نوجوان انجینئر سعد سرمد ستار کا کہنا ہے کہ حکومتی سرپرستی کی جائے یا پاور کمپنیاں دلچسپی لیں تو کراچی کی آبی گزرگاہیں اور ندی نالوں سے سستی بجلی پیدا کرکے توانائی کی قلت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آزمائشی بنیادوں پر واٹر ٹربائن ڈیڑھ لاکھ روپے کی لاگت سے چار ماہ کے قلیل عرصہ میں تیار کی گئی جسے "براق" کا نام دیا گیا ہے۔ سعد سرمد ستار نے بتایا کہ ان کی ٹیم نے متبادل ذرائع سے ماحول دوست بجلی پیدا کرنے کے طریقوں میں دلچسپی لی لیکن پانی سے بجلی پیدا کرنے کے طریقے کا انتخاب کیا کیونکہ پانی ہر جگہ اور ہر وقت دستیاب ہوتا ہے۔
واٹر ٹربائن 'براق' تیار کرنے والی ٹیم کے اراکین کی عمریں 25 سال سے بھی کم ہیں۔ ان میں سعد سرمد ستار کے علاوہ عبداللہ شامل ہیں جبکہ اس پراجیکٹ کی رہنمائی و نگرانی ڈاکٹر ظفر علی، ملک محمد علی، ظفر احمد خان، ڈاکٹر عبدالقدیر نے انجام دیئے ہیں۔
کراچی کے نوجوانوں کی صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسی طرز کی واٹر ٹربائن بنانے میں کینیڈا کے انجینئرز کو کئی سال کا عرصہ لگا۔
سعد سرمد کا کہنا ہے کہ کراچی میں ان تمام نالوں اور آبی گزرگاہوں پر ایسی واٹر ٹربائن لگائی جاسکتی ہیں، ٹربائن پانی کے بہاؤ اور رفتار کی بنیاد پر مختلف گنجائش کی حامل ہوسکتی ہیں جن کی بڑے پیمانے پر تیاری کی صورت میں لاگت بھی کم ہوگی۔ طالب علم کے مطابق ٹربائن کی لائف بھی زیادہ ہوگی اور ان کی مرمت بھی توانائی کے دیگر ذرائع کے مقابلے میں کم ہوگی، پانی کے بہاؤ سے بجلی پیدا کرنے کا طریقہ 24 گھنٹے کارگر ہوگا اور دن کے علاوہ رات میں بھی بجلی پیدا کی جاسکے گی۔
براق کا ڈھانچہ المونیم سے تیار کیا گیا ہے وزن میں ہلکا ہونے کی وجہ سے اسے ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان ہے۔ المونیم کے ڈھانچے کے درمیان میں موٹرنصب ہے جو پانی کے بہاؤ سے گھوم کر بجلی پیدا کرتی ہے جسے براہ راست گرڈ میں شامل کیا جاسکتا ہے یا پھر بیٹریوں میں محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
سعد سرمد کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے کراچی الیکٹرک اور واپڈا کے سسٹم پر پڑنے والے دباؤ کو کم کیا جاسکتا ہے، اس طریقے سے شہر میں سستی بجلی پیدا کرنے کے لیے وہ مختلف سرکاری محکموں کے علاوہ پاور کمپنیوں سے بھی رابطہ کررہے ہیں تاکہ اس ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے کوئی موثر اور مضبوط پلیٹ فارم تلاش کیا جاسکے، صنعتی یونٹس اور فیکٹریاں بھی اس طریقے سے استفادہ کرسکتی ہیں جس سے انہیں اپنی پیداواری لاگت کم کرنے میں مد د ملے گی۔
سعد ستار کا کہنا ہے کہ اس طریقے کی افادیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ پاکستان میں صرف 28 فیصد بجلی پانی سے پیدا کی جاتی ہے، پانی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے ابتدائی لاگت بہت زیادہ ہے جو ڈیم کی تعمیر پر خرچ ہوتی ہے جبکہ ڈیم کی تعمیر کے لیے وقت بھی بہت درکار ہوتا ہے، اکثر بڑے آبی منصوبے سیاسی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں، دوسری جانب ملک میں بہنے والے دریاؤں سے بہتا ہوا پانی سمندر میں گرکر ضایع ہورہا ہے بڑے ڈیم نہ بنانے کے ساتھ چھوٹے چھوٹے آبی راستوں سے بجلی حاصل کرنے کے امکانات کو بھی ضائع کیا جارہا ہے۔
سعد نے پاکستان کے جغرافیے اور آبی وسائل کی بنیاد پر "براق" کو پاکستان کے لیے ایک انتہائی موزوں ٹیکنالوجی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پانی کے بہاؤ سے چلنے والی چھوٹی ٹربائنز سے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں انقلاب لایا جاسکتا ہے بالخصوص سیاحتی علاقوں میں ہوٹلوں اور رہائشی آبادیوں کے لیے سستی بجلی مہیا کی جاسکتی ہے، سوات، ناران، ہنزہ، شوگران اور گلگت کے علاقے جہاں پانی کا بہاؤ بہت تیز ہوتا ہے چھوٹی اور ہلکی واٹر ٹربائن لگاکر بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔
سعد سرمد نے بتایا کہ پاکستان بھر میں زیادہ تر آبادیاں دریاؤں کے ساتھ ساتھ یا بڑی نہروں والے ذخیرے کے اردگرد قائم ہیں، یہاں کھیتی باڑی کے لیے استعمال ہونے والا پانی بھی چھوٹی ٹربائن لگاکر بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس طریقے پر صرف ایک مرتبہ کیپیٹل لاگت آتی ہے، کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور جیسے بڑے شہروں کے لیے یہ طریقہ انتہائی کارگر ثابت ہوگا کیونکہ ان شہروں کی بڑی آبادی کا استعمال کردہ پانی سیوریج کی لائنوں سے گزر کر ضائع کردیا جاتا ہے اگر سیوریج کے نظام کو ان چھوٹی ٹربائن کے ساتھ مربوط کردیا جائے تو شہروں میں بھی بجلی کی قلت کو دور کیا جاسکتا ہے۔
پانی کے بہاؤ سے بجلی پیدا کرنے کے لیے تیار کی جانے والی ہلکی اور چھوٹی ٹربائنز کے پراجیکٹ کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر عبدالقادر کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر ٹربائن تیار کی جائیں تو اس کی لاگت میں دو تہائی کمی لائی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالقادر نے کہا کہ اس ٹربائن کی کامیاب آزمائش حب کینال پر کی گئی جس میں پانی کا بہاؤ اور رفتار کافی بہتر یعنی 1.6 کیوبک میٹر فی سیکنڈ تھی، ابتدا میں یہ آلات بوٹ بیسن میں واقع نہرِخیام کے لیے بنائے گئے تھے جس کی تیاری میں معروف آرکیٹیکٹ شاہد عبداللہ نے بھی معاونت کی۔