حال کی آگ میں جلتا ماضی
شام کے آثار قدیمہ، تاریخی مقامات اور نوادرات خطرے سے دوچار۔
KARACHI:
ارضِ شام پر تاریک رات کی طرح مسلط بشارالاسد شامیوں کے خون سے بہیمیت کی نئی تاریخ لکھ رہا ہے۔
اپنے خلاف برپا تحریک کو کچلنے کے لیے وہ سفاکی کا کوئی ہتھ کنڈا استعمال کرنے سے گریز نہیں کر رہا۔ اس کے ہرکاروں کی گولیاں اور بم بلاامتیاز مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ دشمن کو ہدف بنانا ان کے لیے کوئی مشکل نہیں، کہ بشاری ٹولا جانتا ہے، اس سے آزادی کے لیے برسرمیدان جنگ آزما فرزندانِ وطن ہی نہیں، ایک مختصر سی اقلیت کو چھوڑ کر ملک کا ہر باسی اس ٹولے سے متنفر اور مخالفینِ بشارحکومت کا ہم درد ہے۔
چناں چہ بشار ٹولے کے لیے شام کا ہر ہر قریہ اور گلی کوچہ ہدف ہے، جس پر بے دردی سے یلغار کی جاتی اور غارت گری کی ایک نئی کہانی رقم کردی جاتی ہے۔ اقتدار بچانے کے لیے بشارالاسد کے جنون کا شکار عام لوگ اور بستیاں ہی نہیں ہورہیں، شان دار ماضی کے حامل اس ملک کی تاریخ بھی اس کے انتقام کی آگ میں جل رہی ہے۔
شام دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں سے تاریخ اور تہذیب کے دھارے پھوٹے ہیں۔ ولادت عیسیٰ علیہ السلام کے دس ہزار سال پہلے اپنی شناخت کے سفر کا آغاز کرنے والی اس سرزمین نے انسانیت کو زراعت کا تحفہ عطا کیا۔ یہ شاداب اور زرخیز دھرتی قبلِ مسیح کے ادوار میں مصریوں، سمیریوں، اشاری، اہل بابل، ہتیوں، فونیقیوں، آرمینیوں، فارسیوں، یونانیوں، سلطنتِ روما اور بازنطینی بادشاہت کی جنگ آزمائیوں اور فتوحات کا میدان رہی اور ''ابلا تہذیب'' کا گہوارہ بنی۔ عہدِخلافتِ راشدہ میں شام کی فتح اسے ملت اسلامیہ کا حصہ بنانے کا سبب قرار پائی۔
بعدازاں اس سرزمین کا شہر دمشق دنیا کے ایک وسیع رقبے پر قائم اُموی خلافت کا دارالخلافہ بنا۔ پھر اس ملک نے بنوعباس کی حکومت دیکھی، بازنطینی سلطنت اور منگولوں کے اقتدار کا نظارہ کیا، سلجوق اور عثمانی سلطنتوں کا دور دیکھا۔ آخرِکار فرانسیسی راج سہنے کے بعد اہل شام الاسد خاندان اور اس کے ہرکاروں کا ظلم جھیل رہے ہیں۔ یوں عالمی سیاست پر سپر پاور کا مرتبہ پانے والی تقریباً ہر قوم سے شامیوں کا پالا پڑا اور ارض شام پر مختلف اقوامِ عالم کی تہذیب وثقافت کے نقوش ثبت ہوئے۔
اسلامی تاریخ وتمدن میں اہم حیثیت رکھنے والا یہ ملک یہودیت اور عیسائیت کی تاریخ میں بھی اہمیت کا حامل ہے، کہ ان مذاہب کے ابتدائی نقش اس زمین پر ابھرے۔ تاریخ، تہذیب، مذہب اور تمدن کے یہ مظاہر عمارات اور مقامات کی صورت اس خوب صورت ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے چھے سائٹس یونیسکو کی ''عالمی ورثے کی فہرست'' میں شامل ہیں۔ یہ مقامات ہیں، الیپو، بوصرا اور دمشق کے قدیم شہر، شمالی شام کے قدیم دیہات، صلیبی افواج کا قلعہ Krak des Chevaliersاور شہر الحفہ کے قریب واقع سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کا قلعہ۔
بشار الاسد کے ہاتھوں ہزاروں افراد کے قتل پر محض لفاظی اور رسمی کارروائیوں میں مصروف اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسکو ان تاریخی مقامات کی حفاظت کے حوالے سے فکر مند ہے اور وہ30 مارچ 2012سے دنیا کو متوجہ کررہا ہے کہ شام کی ان تاریخی عمارات کی حفاظت کا انتظام کیا جائے۔ اس ضمن میں یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل ایرینا بوکووا کہتے ہیں،''کسی ملک کے (تاریخی) ورثے کی تباہی اس کے عوام کی روح اور شناخت کی تباہی ہے۔'' شاید اسی لیے بشارالاسد شامی عوام کو نیست ونابود کردینے پر تُلا ہے کہ اپنے تاریخی ورثے کے لُٹ جانے پر کوئی غم منانے والاہی نہ رہے!
شام میں ماضی کی علامات اور مظاہر فنا ہوجانے کے خدشے یا ان کی تباہی کی کہانی تاریخی عمارات اور بستیوں، آثارقدیمہ، عبادت گاہوں اور عجائب گھروں تک پھیلی ہوئی ہے۔ معاملہ جنگی جنون میں عمارات کی تباہی تک محدود نہیں، بلکہ ہزاروں سال پُرانے تاریخی ورثے کی لوٹ کھسوٹ اور اس کی اسمگلنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود ایک دستاویز کے مطابق پُرتشدد کارروائیوں میں ملوث فوجیوں کے ساتھ جرائم پیشہ عناصر بھی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نوادرات پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔
یوں عراق میں امریکی قبضے کے بعد اس الف لیلوی سرزمین کے تاریخی سرمائے کی لوٹ مار کا قصہ دُہرایا جارہا ہے۔ شامیوں کے اس نادر سرمائے کے زیاں اور سرقے پر غم زدہ کچھ افراد اس سلسلے میں فیس بُک اور یوٹیوب پر پیج اور اکاؤنٹ بناکر اپنے جذبات کا اظہار کررہے ہیں۔ ایسے ہی ایک پیج پر درج نوٹ میں کہا گیا ہے،''شامی دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ان کا ثقافتی ورثہ خطرے سے دوچار ہے اور تباہ ہورہا ہے۔ (اس طرح) ان کے مشترکہ ثقافتی تمول کا ایک حصہ ڈرامائی طور پر برباد ہوسکتا ہے۔'' یہ انتباہ کرتے ہوئے اس نوٹ میں شام کے باسیوں سے اس نقصان سے بچنے کے لیے اقدام کی اپیل کی گئی ہے۔
اہل شام کا سرمایۂ افتخار ان عمارتوں میں سے کئی بشارالاسد کی فوج کے ہاتھوں تباہی کا شکار ہوچکی ہیں اور دیگر مِٹ جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ بشاری کارندے حکومت کے مخالفین کو کچل دینے کی دُھن میں بستیاں تاراج کرتے ہوئے تاریخی عمارات کو بھی نشانہ بنا ڈالتے ہیں، یوں شاید وہ شامیوں کی تاریخ ساز جدوجہد کا انتقام تاریخ سے لے رہے ہیں کہ آخر وہ زور آوروں کی مٹھی میں کیوں نہیں رہتی، ان کی گرفت سے آزاد ہوکر ان کے چہروں پر خاک اور سیاہی مَلتی آگے کیوں بڑھ جاتی ہے؟
بشار الاسد کے خلاف موجیں مارتی تحریک کا مرکز مساجد رہی ہیں، چناں چہ بشاری فوج نے ہدف بنایا اور ان پر بے دریغ آتشیں مواد برسایا ہے۔ جنوبی شام کے شہر بصری یا (بوصرا) میں واقع سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی قائم کردہ ''مسجد العمری'' بھی ان مساجد میں شامل ہے۔ قدیم ترین مساجد میں شامل اس تاریخی عبادت گاہ پر شیلنگ کی گئی، جس سے اسے خاصا نقصان پہنچا۔ مغربی شام کے شہر حمص میں فاتح شام حضرت خالد بن ولیدؓ سے منسوب مسجد، جو اس شہر کی پہچان سمجھی جانے والی عمارات میں شامل ہے، پر بم برسائے گئے۔ صوبہ ادلب کے شہر اریحا میں واقع خلافت عثمانیہ کی ایک نشانی التکیہ مسجد کے میناروں پر آگ برسائی گئی۔ شامی قصبے سرمین کی مسجد بھی بشاری بم بازوں کے پاگل پن کا نشانہ بنی۔
بم باری اور شیلنگ کے علاوہ مساجد اور دیگر عمارتوں پر ہلہ بول کر بھی ان کی بربادی کا سامان کیا گیا۔ جیسے ملک کے جنوب مغربی حصے میں واقع شہر درعا کی مسجد، جہاں پناہ لینے والے حکومت مخالفین کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے مسجد کی دیواروں میں شگاف ڈال کر راستے بنائے گئے۔
مسلمان ہونے کے دعوے داروں نے جب ''بغاوت'' کچلنے کی دُھن میں مساجد کا احترام نہیں کیا، تو وہ دوسرے مذاہب کے معابد کے تقدس کا کیا خیال کرتے۔ سو دمشق کے شمال میں واقع شہر صیدنایا میں واقع مسیحی خانقاہ، جو اپنی قدامت اور مذہبی حیثیت کے باعث عیسائیت کی تاریخی یادگاروں میں سے ہے، شیل کا نشانہ بنی۔ اسی طرح حمص میں پچاس عیسوی میں قائم ہونے والے چرچ Saint Mary Church of the Holy Belt کے درودیوار نے فائرنگ کے ''زخم'' سہے۔
ادلب کے علاقے میں پہاڑوں پر واقع آثار قدیمہ Limestone Massif ، جنھیں ''مردہ بستیاں'' کہا جاتا ہے، حکومت کی پُرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بننے والے تاریخی مقامات میں سرفہرست ہیں، جہاں براہ راست شیلنگ اور بم باری کی گئی۔ اس کے علاوہ صوبہ درعا کے مختلف شہروں کے آثاروتاریخی اہمیت کے حامل مقامات، جیسے صلیبی جنگوں کے دوران تعمیر ہونے والا حمص کا قلعہ، جنوبی شام میں واقع اشاری تہذیب کی یادگار''تل الشیخ حمد''، حمص شہر کے مغرب میں تیس کلومیٹر کی دوری پر واقع قدیم قلعہ اور اس میں قائم مسجد اور شام کے انتظامی علاقے دیر الزور میں پہاڑ کی بلندی پر تعمیر شدہ قلعہ مضدیق، وہ مقامات ہیں جن پر بشارالاسد کی فوج نے براہ راست آگ برسائی، جس سے یہ شام اور ابن آدم کے ماضی کی قصہ خوانی کرتے یہ درودیوار اور آثار شدید متاثر ہوئے ہیں۔
بشارالاسد کے کارندوں نے بم باری، گولی باری اور توڑ پھوڑ ہی کے ذریعے نہیں، عبادت گاہوں کا تقدس انھیں فوجی چھاؤنیوں میں ڈھال کر بھی تباہ کیا ہے۔ چھاؤنی بننے کے باعث گزرنے والی تبدیلیوں سے صوبہ ادلب کی ''مردہ بستیاں''، دیگر صوبوں درعا، حمص، حماۃ، بصری (یا بوصرا) وغیرہ میں موجود آثار قدیمہ فوجی اڈوں اور کیمپوں میں تبدیل کردیے گئے ہیں۔ خاص طور پر قلعے عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ان عمارات اور آثار کو ٹینک اور اسلحے کے ڈپو کے طور پر برتا جارہا ہے، جس کے باعث یہ عمارتیں اور آثار شکستگی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔
تاریخی مقامات اور آثار قدیمہ میں عسکری تنصیبات اور سرگرمیوں کی وجہ سے تباہی شکستگی ہی کی صورت میں نہیں ہوئی ہے، بلکہ فوجیوں کے ہاتھوں نوادرات لوٹنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان مقامات کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال اور یہاں فوجی تنصیبات نصب کرنے کے بہانے نادر اور قیمتی پتھر اور دیگر مواد ہتھیائے جارہے ہیں۔
تاریخ اور تہذیب کے ورثے کا حامل شام اپنے دامن میں نوادرات اور تاریخی وتمدنی آثار کی ایک دنیا سمیٹے ہوئے ہے۔ تاریخی مقامات سے عجائب گھروں تک پھیلی، اہل شام کے ساتھ انسانی تہذیب وتمدن کے ارتقا کی کہانی سناتی اشیاء اس ملک کا قیمتی ترین سرمایہ ہیں۔ موجودہ صورت حال نے اس سرمائے کی لوٹ کھسوٹ کا موقع فراہم کیا ہے، لہٰذا مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد، ان کا تعلق سرکار سے ہو یا عوام سے بہتی گنگا میں ہاتھ دھورہے ہیں۔ محب وطن شامیوں کے لیے اپنے جنگ زدہ ملک کی وراثت لُٹنے کا عمل دردناک ہے۔
اس صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے شام کے سابق وزیراعظم عادل سفر نے گذشتہ برس وزراء اور افسران کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں کہا گیا تھا،''ملک کو ایسے جرائم پیشہ گروہوں کی طرف سے خطرے کا سامنا ہے، جو اعلیٰ ٹیکنالوجی اور آلات سے لیس ہیں اور مخطوطات اور نوادرات چُرانے اور عجائب گھروں کو لوٹنے میں مہارت رکھتے ہیں۔'' اس خط کے اجراء کے بعد موجود تاریخی حیثیت کے حامل مخطوطات مختلف دمشق سمیت مختلف شہروں کی سرکاری عمارات میں محفوظ کرلیے گئے، جن میں اب بھی ملک کے دیگر شہروں، خاص کر شورش سے شدید متاثر الیپو، کے کُتب خانے بھی شامل ہیں۔ حالات بتاتے ہیں وزیراعظم عادل سفر کی جانب سے بھیجی جانے والے اس ہدایت نامے کو اس سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جس کا یہ متقاضی تھا۔
بعدازاں بشار الاسد نے ملک کے ثقافتی وعلمی ورثے کے لیے فکرمند عادل سفر کو وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا۔
وزیراعظم عادل سفر کے اندیشے نے بعدازاں حقیقت کا روپ دھارلیا اور نوادرات چرانے کے واقعات سامنے آنے لگے، جن کا آغاز ''آفامیا'' کے کھنڈرات سے ہوا، جہاں غیرقانونی طور پر کھدائی کرکے بڑی تعداد میں نقش نگار سے مزین پتھر چُرالیے گئے۔ اسی طرح رومن عہد کے ستونوں پر مشتمل مشہورِ زمانہ آثار قدیمہ سے دو ستون غائب کردیے گئے، جب کہ شام کے قدیم شہر ''پالمیریا'' (جس کا عربی نام تدمیر ہے) میں موجود نہایت قیمتی منقولہ نوادرات بھی لوٹے جانے کے خطرے سے دوچار ہیں، جس کی وجہ اس شہر میں فوج کے اہل کاروں کی مسلسل اور متواتر آمدورفت ہے۔ صوبہ حماۃ کے قدامت کے حامل قصبے شائزار کا قلعہ بھی لوٹ مار کا نشانہ بنا ہے، جس کا مرکزی دروازہ ٹکڑے ٹکڑے کردیا کردیا گیا اور قلعے کے اندر موجود نادر اشیاء پر ہاتھ صاف کرلیا گیا۔
شام میں سنگ وخشت کی صورت میں جا بہ جا پھیلی تاریخ مٹنے کے خدشات اپنی جگہ، مگر اس سرزمین کا اصل المیہ اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ بشارالاسد اور اس کے کارندوں کا وحشیانہ سلوک ہے، جو سر تاپا اپنے ہم وطنوں کے خون میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ مصر ولیبیا میں آنے والے انقلاب اور شام میں تبدیلی کی تندوتیز ہوائیں بتارہی ہیں کہ تاریخ کے اس گہوارے میں نئی تاریخ جنم لینے کو ہے اور فرعونوں اور چنگیزوں کے ستم پیچھے چھوڑتا بشارالاسد ماضی کا قصہ بننے والا ہے۔
ارضِ شام پر تاریک رات کی طرح مسلط بشارالاسد شامیوں کے خون سے بہیمیت کی نئی تاریخ لکھ رہا ہے۔
اپنے خلاف برپا تحریک کو کچلنے کے لیے وہ سفاکی کا کوئی ہتھ کنڈا استعمال کرنے سے گریز نہیں کر رہا۔ اس کے ہرکاروں کی گولیاں اور بم بلاامتیاز مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ دشمن کو ہدف بنانا ان کے لیے کوئی مشکل نہیں، کہ بشاری ٹولا جانتا ہے، اس سے آزادی کے لیے برسرمیدان جنگ آزما فرزندانِ وطن ہی نہیں، ایک مختصر سی اقلیت کو چھوڑ کر ملک کا ہر باسی اس ٹولے سے متنفر اور مخالفینِ بشارحکومت کا ہم درد ہے۔
چناں چہ بشار ٹولے کے لیے شام کا ہر ہر قریہ اور گلی کوچہ ہدف ہے، جس پر بے دردی سے یلغار کی جاتی اور غارت گری کی ایک نئی کہانی رقم کردی جاتی ہے۔ اقتدار بچانے کے لیے بشارالاسد کے جنون کا شکار عام لوگ اور بستیاں ہی نہیں ہورہیں، شان دار ماضی کے حامل اس ملک کی تاریخ بھی اس کے انتقام کی آگ میں جل رہی ہے۔
شام دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں سے تاریخ اور تہذیب کے دھارے پھوٹے ہیں۔ ولادت عیسیٰ علیہ السلام کے دس ہزار سال پہلے اپنی شناخت کے سفر کا آغاز کرنے والی اس سرزمین نے انسانیت کو زراعت کا تحفہ عطا کیا۔ یہ شاداب اور زرخیز دھرتی قبلِ مسیح کے ادوار میں مصریوں، سمیریوں، اشاری، اہل بابل، ہتیوں، فونیقیوں، آرمینیوں، فارسیوں، یونانیوں، سلطنتِ روما اور بازنطینی بادشاہت کی جنگ آزمائیوں اور فتوحات کا میدان رہی اور ''ابلا تہذیب'' کا گہوارہ بنی۔ عہدِخلافتِ راشدہ میں شام کی فتح اسے ملت اسلامیہ کا حصہ بنانے کا سبب قرار پائی۔
بعدازاں اس سرزمین کا شہر دمشق دنیا کے ایک وسیع رقبے پر قائم اُموی خلافت کا دارالخلافہ بنا۔ پھر اس ملک نے بنوعباس کی حکومت دیکھی، بازنطینی سلطنت اور منگولوں کے اقتدار کا نظارہ کیا، سلجوق اور عثمانی سلطنتوں کا دور دیکھا۔ آخرِکار فرانسیسی راج سہنے کے بعد اہل شام الاسد خاندان اور اس کے ہرکاروں کا ظلم جھیل رہے ہیں۔ یوں عالمی سیاست پر سپر پاور کا مرتبہ پانے والی تقریباً ہر قوم سے شامیوں کا پالا پڑا اور ارض شام پر مختلف اقوامِ عالم کی تہذیب وثقافت کے نقوش ثبت ہوئے۔
اسلامی تاریخ وتمدن میں اہم حیثیت رکھنے والا یہ ملک یہودیت اور عیسائیت کی تاریخ میں بھی اہمیت کا حامل ہے، کہ ان مذاہب کے ابتدائی نقش اس زمین پر ابھرے۔ تاریخ، تہذیب، مذہب اور تمدن کے یہ مظاہر عمارات اور مقامات کی صورت اس خوب صورت ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے چھے سائٹس یونیسکو کی ''عالمی ورثے کی فہرست'' میں شامل ہیں۔ یہ مقامات ہیں، الیپو، بوصرا اور دمشق کے قدیم شہر، شمالی شام کے قدیم دیہات، صلیبی افواج کا قلعہ Krak des Chevaliersاور شہر الحفہ کے قریب واقع سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کا قلعہ۔
بشار الاسد کے ہاتھوں ہزاروں افراد کے قتل پر محض لفاظی اور رسمی کارروائیوں میں مصروف اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسکو ان تاریخی مقامات کی حفاظت کے حوالے سے فکر مند ہے اور وہ30 مارچ 2012سے دنیا کو متوجہ کررہا ہے کہ شام کی ان تاریخی عمارات کی حفاظت کا انتظام کیا جائے۔ اس ضمن میں یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل ایرینا بوکووا کہتے ہیں،''کسی ملک کے (تاریخی) ورثے کی تباہی اس کے عوام کی روح اور شناخت کی تباہی ہے۔'' شاید اسی لیے بشارالاسد شامی عوام کو نیست ونابود کردینے پر تُلا ہے کہ اپنے تاریخی ورثے کے لُٹ جانے پر کوئی غم منانے والاہی نہ رہے!
شام میں ماضی کی علامات اور مظاہر فنا ہوجانے کے خدشے یا ان کی تباہی کی کہانی تاریخی عمارات اور بستیوں، آثارقدیمہ، عبادت گاہوں اور عجائب گھروں تک پھیلی ہوئی ہے۔ معاملہ جنگی جنون میں عمارات کی تباہی تک محدود نہیں، بلکہ ہزاروں سال پُرانے تاریخی ورثے کی لوٹ کھسوٹ اور اس کی اسمگلنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود ایک دستاویز کے مطابق پُرتشدد کارروائیوں میں ملوث فوجیوں کے ساتھ جرائم پیشہ عناصر بھی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نوادرات پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔
یوں عراق میں امریکی قبضے کے بعد اس الف لیلوی سرزمین کے تاریخی سرمائے کی لوٹ مار کا قصہ دُہرایا جارہا ہے۔ شامیوں کے اس نادر سرمائے کے زیاں اور سرقے پر غم زدہ کچھ افراد اس سلسلے میں فیس بُک اور یوٹیوب پر پیج اور اکاؤنٹ بناکر اپنے جذبات کا اظہار کررہے ہیں۔ ایسے ہی ایک پیج پر درج نوٹ میں کہا گیا ہے،''شامی دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ان کا ثقافتی ورثہ خطرے سے دوچار ہے اور تباہ ہورہا ہے۔ (اس طرح) ان کے مشترکہ ثقافتی تمول کا ایک حصہ ڈرامائی طور پر برباد ہوسکتا ہے۔'' یہ انتباہ کرتے ہوئے اس نوٹ میں شام کے باسیوں سے اس نقصان سے بچنے کے لیے اقدام کی اپیل کی گئی ہے۔
اہل شام کا سرمایۂ افتخار ان عمارتوں میں سے کئی بشارالاسد کی فوج کے ہاتھوں تباہی کا شکار ہوچکی ہیں اور دیگر مِٹ جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ بشاری کارندے حکومت کے مخالفین کو کچل دینے کی دُھن میں بستیاں تاراج کرتے ہوئے تاریخی عمارات کو بھی نشانہ بنا ڈالتے ہیں، یوں شاید وہ شامیوں کی تاریخ ساز جدوجہد کا انتقام تاریخ سے لے رہے ہیں کہ آخر وہ زور آوروں کی مٹھی میں کیوں نہیں رہتی، ان کی گرفت سے آزاد ہوکر ان کے چہروں پر خاک اور سیاہی مَلتی آگے کیوں بڑھ جاتی ہے؟
بشار الاسد کے خلاف موجیں مارتی تحریک کا مرکز مساجد رہی ہیں، چناں چہ بشاری فوج نے ہدف بنایا اور ان پر بے دریغ آتشیں مواد برسایا ہے۔ جنوبی شام کے شہر بصری یا (بوصرا) میں واقع سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی قائم کردہ ''مسجد العمری'' بھی ان مساجد میں شامل ہے۔ قدیم ترین مساجد میں شامل اس تاریخی عبادت گاہ پر شیلنگ کی گئی، جس سے اسے خاصا نقصان پہنچا۔ مغربی شام کے شہر حمص میں فاتح شام حضرت خالد بن ولیدؓ سے منسوب مسجد، جو اس شہر کی پہچان سمجھی جانے والی عمارات میں شامل ہے، پر بم برسائے گئے۔ صوبہ ادلب کے شہر اریحا میں واقع خلافت عثمانیہ کی ایک نشانی التکیہ مسجد کے میناروں پر آگ برسائی گئی۔ شامی قصبے سرمین کی مسجد بھی بشاری بم بازوں کے پاگل پن کا نشانہ بنی۔
بم باری اور شیلنگ کے علاوہ مساجد اور دیگر عمارتوں پر ہلہ بول کر بھی ان کی بربادی کا سامان کیا گیا۔ جیسے ملک کے جنوب مغربی حصے میں واقع شہر درعا کی مسجد، جہاں پناہ لینے والے حکومت مخالفین کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے مسجد کی دیواروں میں شگاف ڈال کر راستے بنائے گئے۔
مسلمان ہونے کے دعوے داروں نے جب ''بغاوت'' کچلنے کی دُھن میں مساجد کا احترام نہیں کیا، تو وہ دوسرے مذاہب کے معابد کے تقدس کا کیا خیال کرتے۔ سو دمشق کے شمال میں واقع شہر صیدنایا میں واقع مسیحی خانقاہ، جو اپنی قدامت اور مذہبی حیثیت کے باعث عیسائیت کی تاریخی یادگاروں میں سے ہے، شیل کا نشانہ بنی۔ اسی طرح حمص میں پچاس عیسوی میں قائم ہونے والے چرچ Saint Mary Church of the Holy Belt کے درودیوار نے فائرنگ کے ''زخم'' سہے۔
ادلب کے علاقے میں پہاڑوں پر واقع آثار قدیمہ Limestone Massif ، جنھیں ''مردہ بستیاں'' کہا جاتا ہے، حکومت کی پُرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بننے والے تاریخی مقامات میں سرفہرست ہیں، جہاں براہ راست شیلنگ اور بم باری کی گئی۔ اس کے علاوہ صوبہ درعا کے مختلف شہروں کے آثاروتاریخی اہمیت کے حامل مقامات، جیسے صلیبی جنگوں کے دوران تعمیر ہونے والا حمص کا قلعہ، جنوبی شام میں واقع اشاری تہذیب کی یادگار''تل الشیخ حمد''، حمص شہر کے مغرب میں تیس کلومیٹر کی دوری پر واقع قدیم قلعہ اور اس میں قائم مسجد اور شام کے انتظامی علاقے دیر الزور میں پہاڑ کی بلندی پر تعمیر شدہ قلعہ مضدیق، وہ مقامات ہیں جن پر بشارالاسد کی فوج نے براہ راست آگ برسائی، جس سے یہ شام اور ابن آدم کے ماضی کی قصہ خوانی کرتے یہ درودیوار اور آثار شدید متاثر ہوئے ہیں۔
بشارالاسد کے کارندوں نے بم باری، گولی باری اور توڑ پھوڑ ہی کے ذریعے نہیں، عبادت گاہوں کا تقدس انھیں فوجی چھاؤنیوں میں ڈھال کر بھی تباہ کیا ہے۔ چھاؤنی بننے کے باعث گزرنے والی تبدیلیوں سے صوبہ ادلب کی ''مردہ بستیاں''، دیگر صوبوں درعا، حمص، حماۃ، بصری (یا بوصرا) وغیرہ میں موجود آثار قدیمہ فوجی اڈوں اور کیمپوں میں تبدیل کردیے گئے ہیں۔ خاص طور پر قلعے عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ان عمارات اور آثار کو ٹینک اور اسلحے کے ڈپو کے طور پر برتا جارہا ہے، جس کے باعث یہ عمارتیں اور آثار شکستگی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔
تاریخی مقامات اور آثار قدیمہ میں عسکری تنصیبات اور سرگرمیوں کی وجہ سے تباہی شکستگی ہی کی صورت میں نہیں ہوئی ہے، بلکہ فوجیوں کے ہاتھوں نوادرات لوٹنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان مقامات کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال اور یہاں فوجی تنصیبات نصب کرنے کے بہانے نادر اور قیمتی پتھر اور دیگر مواد ہتھیائے جارہے ہیں۔
تاریخ اور تہذیب کے ورثے کا حامل شام اپنے دامن میں نوادرات اور تاریخی وتمدنی آثار کی ایک دنیا سمیٹے ہوئے ہے۔ تاریخی مقامات سے عجائب گھروں تک پھیلی، اہل شام کے ساتھ انسانی تہذیب وتمدن کے ارتقا کی کہانی سناتی اشیاء اس ملک کا قیمتی ترین سرمایہ ہیں۔ موجودہ صورت حال نے اس سرمائے کی لوٹ کھسوٹ کا موقع فراہم کیا ہے، لہٰذا مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد، ان کا تعلق سرکار سے ہو یا عوام سے بہتی گنگا میں ہاتھ دھورہے ہیں۔ محب وطن شامیوں کے لیے اپنے جنگ زدہ ملک کی وراثت لُٹنے کا عمل دردناک ہے۔
اس صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے شام کے سابق وزیراعظم عادل سفر نے گذشتہ برس وزراء اور افسران کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں کہا گیا تھا،''ملک کو ایسے جرائم پیشہ گروہوں کی طرف سے خطرے کا سامنا ہے، جو اعلیٰ ٹیکنالوجی اور آلات سے لیس ہیں اور مخطوطات اور نوادرات چُرانے اور عجائب گھروں کو لوٹنے میں مہارت رکھتے ہیں۔'' اس خط کے اجراء کے بعد موجود تاریخی حیثیت کے حامل مخطوطات مختلف دمشق سمیت مختلف شہروں کی سرکاری عمارات میں محفوظ کرلیے گئے، جن میں اب بھی ملک کے دیگر شہروں، خاص کر شورش سے شدید متاثر الیپو، کے کُتب خانے بھی شامل ہیں۔ حالات بتاتے ہیں وزیراعظم عادل سفر کی جانب سے بھیجی جانے والے اس ہدایت نامے کو اس سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جس کا یہ متقاضی تھا۔
بعدازاں بشار الاسد نے ملک کے ثقافتی وعلمی ورثے کے لیے فکرمند عادل سفر کو وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا۔
وزیراعظم عادل سفر کے اندیشے نے بعدازاں حقیقت کا روپ دھارلیا اور نوادرات چرانے کے واقعات سامنے آنے لگے، جن کا آغاز ''آفامیا'' کے کھنڈرات سے ہوا، جہاں غیرقانونی طور پر کھدائی کرکے بڑی تعداد میں نقش نگار سے مزین پتھر چُرالیے گئے۔ اسی طرح رومن عہد کے ستونوں پر مشتمل مشہورِ زمانہ آثار قدیمہ سے دو ستون غائب کردیے گئے، جب کہ شام کے قدیم شہر ''پالمیریا'' (جس کا عربی نام تدمیر ہے) میں موجود نہایت قیمتی منقولہ نوادرات بھی لوٹے جانے کے خطرے سے دوچار ہیں، جس کی وجہ اس شہر میں فوج کے اہل کاروں کی مسلسل اور متواتر آمدورفت ہے۔ صوبہ حماۃ کے قدامت کے حامل قصبے شائزار کا قلعہ بھی لوٹ مار کا نشانہ بنا ہے، جس کا مرکزی دروازہ ٹکڑے ٹکڑے کردیا کردیا گیا اور قلعے کے اندر موجود نادر اشیاء پر ہاتھ صاف کرلیا گیا۔
شام میں سنگ وخشت کی صورت میں جا بہ جا پھیلی تاریخ مٹنے کے خدشات اپنی جگہ، مگر اس سرزمین کا اصل المیہ اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ بشارالاسد اور اس کے کارندوں کا وحشیانہ سلوک ہے، جو سر تاپا اپنے ہم وطنوں کے خون میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ مصر ولیبیا میں آنے والے انقلاب اور شام میں تبدیلی کی تندوتیز ہوائیں بتارہی ہیں کہ تاریخ کے اس گہوارے میں نئی تاریخ جنم لینے کو ہے اور فرعونوں اور چنگیزوں کے ستم پیچھے چھوڑتا بشارالاسد ماضی کا قصہ بننے والا ہے۔