پشاور کی ننھی زینب 100 دن گزر جانے کے بعد بھی بازیاب نہ ہوسکی

3 ماہ سے بیٹی کو نہیں دیکھا، وہ زندہ ہے یا نہیں اب تو امید بھی جواب دے گئی، لاپتہ بچی کی والدہ شدت غم سے نڈھال

بچی کی والدہ اور نانا کی کے پی پولیس چیف سے زینب کی جلد از جلد بازیابی کی اپیل ۔ فوٹو : ایکسپریس نیوز

پشاور کے علاقہ سپلائی روڈ سے لاپتہ ننھی زینب 100 دن گزر جانے کے بعد بھی بازیاب نہ کرائی جاسکی۔

خیبر پختون خوا پولیس 3 ماہ سے زائد گزر جانے کے باوجود ننھی زینب کا سراغ نہ لگا سکی، 100 دن پورے ہو گئے بچی کہیں بھی نہ مل سکی، 5 سالہ زینب کی ماں بیٹی کو دیکھنے کے لئے صبح سے شام روزانہ دروازے پر کھڑی رہتی ہے لیکن اس کی بیٹی زندہ ہے یا نہیں، اسے کچھ پتہ نہیں، زینب کو اس کی والدہ اسکول داخل کروانے کے خواب دیکھ رہی تھی لیکن اسے گھر سے باہر نامعلوم افراد اغوا کر کے لے گئے۔

گزشتہ سال اگست کے مہینے میں سپلائی روڈ پر واقع گھر کے باہر کھیلتے ہوئے نچی لاپتہ ہو گئی تھی جس کی ایف آئی آر تھانہ فقیر آباد میں درج کی گئی تھی واقعے کے بعد قریبی نہر میں بچی کے گرنے کے شبے پر ریسکیو1122 کی ٹیموں نے ریسکیو آپریشن بھی کیا، ضلع پشاور کے تمام تھانوں میں زینب کے لاپتہ ہونے کے حوالے معلومات بھی فراہم کی گئی، گلی کوچوں، مساجد میں اعلانات بھی کروائے گئے لیکن تا حال 4 ماہ گزر جانے کے باوجود پولیس کسی نیتیجے پر نہ پہنچ سکی، زینب ماں کی جان تھی بچی کو گھر میں نہ پا کر اس کے اہل خانہ شدید قرب میں مبتلا ہیں۔


بچی کی والدہ اور نانا نے کے پی پولیس چیف ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی سے زینب کی بازیابی کے حوالے سے اپیل کی ہے کہ جلد از جلد ننھی کلی کو اس کے والدین سے ملوا دیا جائے، سپلائی روڈ سے تین ماہ قبل گھر کے باہر کھیلتے ہوئے لاپتہ ہونیوالی بچی زینب کیس کی تفتیش کسی نیتیجے پر نہ پینچ سکی، کیس کی اسر نو تحقیقات کروانے کا فیصلہ کیا گیا پے۔

رابطہ کرنے پر سی سی پی او پشاور عباس احسن نے ایکسپریس کو بتایا کہ زینب کو والدین کے حوالے کرنا ہمارے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں، اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم کو ٹاسک حوالے کیا گیا ہے جس سے تمام تر پہلوؤں کا اسر نو جائزہ لیا جائے گا، بچی کے خاندان کے افراد سے تفتیش مکمل کی جائے گی جو کوئی بھی ملوث پایا گیا اس کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔

سی سی پی او کا کہنا تھا کہ بچوں، خواتین کے کیسز کو خصوصی طور پر بطور چیلنج لیا جاتا ہے، ہماری کوشش ہو گی کہ بچی کو ہر صورت تلاش کیا جائے، وفاقی تحقیقاتی اداروں سے معاونت لینے کے ساتھ ساتھ دوسرے اضلاع کی پولیس سے بھی رابطے میں ہیں جلد کیس ٹریس ہو جائیگا۔
Load Next Story