اس کھیل کو ناکام ہونا چاہیے
ابھی اتنے وسائل ہیں کہ ان کوششوں کا سلسلہ برسوں جاری رہ سکتا ہے۔
ہماری اشرافیہ اب تک کی جانے والی تمام کوششوں کے بعد اب آج 19 جنوری کو ایک اور کوشش کرنے جا رہی ہے کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم عمران خان سے کسی طرح جان چھڑائی جائے لیکن ہمیں لگتا ہے کہ اب تک کی جانے والی کوششوں کی طرح یہ بھی ناکام ہو جائے گی، لیکن بھولنا مت کہ دس سال کی حکومت سے حاصل ہونے والے فیوض کے انبار ختم نہیں ہوئے۔
ابھی اتنے وسائل ہیں کہ ان کوششوں کا سلسلہ برسوں جاری رہ سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کی جگہ کوئی اشرافیائی وزیر اعظم بن جاتا تو اسے وقت سے پہلے ہٹانے کی ایسی ہی کوششیں کی جاتیں جیسی وزیر اعظم کے خلاف کی جا رہی ہیں؟
میاں نواز شریف تین بار اس ملک کے وزیر اعظم رہے، انھیں ہٹانے کی کسی نے کوشش کی؟ نہیں کی۔ زرداری اس ملک کے صدر رہے کسی نے انھیں ہٹانے کی سازش کی؟ نہیں کی۔ کیونکہ ان کا تعلق اشرافیہ سے ہے اب عمران خان انھیں اس لیے ہضم نہیں ہو رہا ہے کہ اس کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اور ہماری اشرافیہ اپنی کلاس کے علاوہ نہ مڈل کلاس کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے نہ ورکنگ کلاس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے۔
اگر عمران خان کی جگہ کوئی اشرافیہ کا بندہ آتا تو خواہ وہ کتنا ہی نااہل اور کرپٹ کیوں نہ ہوتا ہماری اشرافیہ اسے سر پر بٹھا لیتی۔ اس کے خلاف کوئی کوشش نہ کرتی۔ لیکن ایک مڈل کلاسر انتہائی محنتی ایماندار اور ورکنگ کلاس کو اوپر لانے کی خواہش رکھنے والا شخص اشرافیہ کو اس لیے قبول نہیں کہ وہ غریب عوام کو اوپر لانے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر عمران خان اپنی کوششوں میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اشرافیہ کا کھیل ختم ہوجائے گا اور اقتدار اور سیاست پر اس کا قبضہ ختم ہو جاتا ہے اور ایسی صورتحال کو اشرافیہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اس سے قبل ہماری اشرافیہ نے کئی بار وزیر اعظم عمران خان کو ہٹانے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوئی۔ اب 19 جنوری کو ایک اور کوشش بھرپور تیاری کے ساتھ کرنے جا رہی ہے امید ہے کہ وہ اس میں بھی ناکام ہوگی۔ اشرافیہ اپنی ان ناکامیوں کی ذمے داری اسٹیبلشمنٹ پر ڈال رہی ہے اگر وہ ایک مڈل کلاسر کی حمایت کر رہی ہے تو عوام اس حمایت کو مثبت سمجھتے ہوئے اس کی بھرپور حمایت کریں گے۔
ہماری اشرافیہ 22 کروڑ غریب عوام کا خیال نہیں کررہی ہے لیکن مزدوروں، کسانوں کے نام لیواؤں نے اس کے خلاف آواز بلند نہیں کی اور محض انقلاب کے نعرے لگاتے رہے۔ لیکن اشرافیہ جب آخری حدیں پار کرلے اور عوام بے حسی کا شکار بنے رہیں تو ایسی اشرافیہ سے عوام کو نجات دلانے آسمان سے فرشتے تو نہیں آئیں گے؟
مسئلہ یہ ہے کہ خوشحال اشرافیہ اقتدار اور سیاست پر اپنی بالادستی کو اپنا حق سمجھتی ہے تو پھر کسی نہ کسی کو تو آگے بڑھنا پڑتا ہے اور اشرافیہ کے دماغ سے اس غلط فہمی کو نکالنا ہوگا کہ اقتدار اور سیاست پر عوام کا حق ہے اور وہی فیصلہ کن طاقت ہیں۔ ملک میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو اقتدار اور سیاست کو اپنی جاگیر سمجھنے والی اشرافیہ کو پیچھے دھکیل دے۔ ایک مڈل کلاسر آگے بڑھا ہے تو اسے پیچھے دھکیلنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
یہ شاہوں اور شہنشاہوں کا دور نہیں اور نہ ہی دولت کی عوام پر برتری کا دور ہے، جب کہ ہمارے ملک میں شاہ اور شہنشاہ بھی موجود ہیں اور دولت کی برتری کا کلچر بھی مضبوط ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کے عوام کو نہ ان ناانصافیوں کا احساس ہے نہ ان سے نجات حاصل کرنے کی خواہش نظر آتی ہے۔ اس کے بجائے اشرافیہ اور اس کی اولاد کے جلسوں جلوسوں میں شرکت کرکے اس اشرافیہ کو یہ دعویٰ کرنے کا موقعہ فراہم کر رہے ہیں کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں۔
19 جنوری آگئی ہے وہ ذمے دار لوگ جو اشرافیہ کے کھیل سے عوام کو بچانا چاہتے ہیں وہ اشرافیہ کے کھیل کو ناکام بنانے کے لیے ہر وہ کوشش کریں جو وہ کرسکتے ہیں۔ میڈیا ایسے موقعوں پر اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور صحافیوں کا تعلق بھی مڈل اور لوئر مڈل کلاس ہی سے ہوتا ہے۔ میڈیا کی آزادی کو سات سلام، لیکن کیا یہ میڈیا کا فرض نہیں کہ اسیر عوام کو اشرافیہ سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کرے۔