کیا مالی جا رہا ہے
اچھی خبریں سنانے والے کہتے ہیں کہ ’’ملاقاتی‘‘ جس سے ملا تھاشاید اب وہ بہت جلد چلا جائے گا۔
جلیل القدر تابعی اور عرب سرداراحنف بن قیس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ علم اورحِلم میں بے مثال ہیں،رواداری، بردباری اور تحمل مزاجی میں اُن کا کوئی ثانی نہیں ہے، بدگوئی سے دور بھاگتے ہیں اور نرم گوئی سے دلوں میں گھرکرتے ہیں...
یار دوستوں نے تو بارہا چاہا مگر اُنہیں کبھی غصہ نہیں آیا، سخت سے سخت بات بھی اُنہیں اشتعال کی سرحدوں کی طرف دھکیلنے میں ہمیشہ ناکام رہی اور وہ اُکسانے والوں پر اکثر مسکراتے ہی رہے ... اُن کی یہ تمام صفات اہلِ عرب میں کسی ضرب المثل کی طرح عام تھیں اور والدین اپنے بچوں کے درمیان احنف کا ذکر فخر سے کیاکرتے تھے...
پھر ہوا یوں کہ ایک دن اُن کے کچھ ''دوست'' ایک جگہ جمع ہوئے اور اُن میں اِس بات پر شرط لگ گئی کہ کسی طرح احنف کو غصہ دلایا جائے اور اُنہیں اِس حد تک مشتعل کر دیا جائے کہ لوگ اُن سے دور بھاگنے لگیں لہٰذا اُن سب نے مل کر ایک نوجوان کو تیارکیا اور اُسے احنف کے گھر بھیج دیا...وہ نوجوان ڈھٹائی کے خمیر سے مرصع ایک ایسا وجود تھا کہ جس پر ایک نظر پڑتے ہی انسان اُلجھ کر رہ جائے چنانچہ وہ لبوں پر ایک مکروہ مگر معنی خیز مسکراہٹ سجائے احنف کے سامنے جا بیٹھا...احنف نے نوجوان کو بغور دیکھنے کے بعد اُس سے سوال کیا کہ ''کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ کو مجھ سے کیا کام ہے''...
نوجوان نے بدستور مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ''کام تو بہت خاص ہے،اگرآپ کوگراں نہ گذرے تو عرض کروں''...احنف نے جواباً خوش دلی سے کہا کہ ''ضرورفرمائیے''...اب اُس کے ہونٹوں پر کسی طوائف کی طرح رقص کرتی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی اور اُس نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا کہ ''بات دراصل یہ ہے کہ میں تمہاری ماں سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور یہی پیغام لے کرمیں تمہارے پاس آیا ہوں''...اُسے یقین تھا کہ یہ بے ہودہ بات سننے کے بعد احنف غصے سے آگ بگولہ ہوجائیں گے اور اُسے ذلیل کر کے اپنے گھر سے نکال دیں گے مگر ہوا اِس کے برعکس!...
احنف نے نہایت پرسکون لہجے میں اُس سے کہا کہ ''بھائی! ہمیں تو آپ کے ساتھ سسرالی رشتہ جوڑنے میں کوئی عار نہیں ہے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ آپ کا حسب ونسب انتہائی محترم و معزز ہوگا جب ہی تو آپ نے یہ زحمت فرمائی،مگر کیاکروں کہ میری والدہ اب کافی عمر رسیدہ ہوچکی ہیں،70برس کی ایک خاتون کسی نوجوان سے بیاہتے ہوئے اچھی نہیں لگیں گی اور نوجوان بھی ایسا کہ جسے ایک سے بڑھ کر ایک اچھی اور کم عمر لڑکیاں بھی مل جائیں بلکہ میرا تو خیال یہ ہے کہ آپ کسی ایسی خاتون سے عقد فرمائیے جو نہ صرف آپ کی ہم عمر ہوں بلکہ آپ سے بے پناہ محبت کرنے والی بھی ہوں اور ساتھ ساتھ اِس قابل بھی ہوں کہ آپ کے بچوں کی ماں بن سکیں،میری والدہ کا کیا ہے؟ وہ شاید کچھ دن اور جی لیں لیکن آپ کو بچوں کا سکھ نہیں دے سکیں گی''...اور پھرکچھ لمحوں کے توقف کے بعد احنف نے یہ آخری جملہ کہا کہ ''جن لوگوں نے آپ کو میرے پاس بھیجا ہے اُنہیں جاکر یہ بھی بتادیجیے گا کہ آپ مجھے غصہ دلانے میں ناکام رہے''...
میں یقیناً اِس بات سے بے خبر ہوں کہ احنف کے دور میں ایسے پُر فتن افراد کتنی بڑی تعداد میں موجود تھے لیکن اپنے وطن میں کم ازکم ایک ایسے شخص سے بلاشبہ واقف ہوں جسے دیکھتے ہی انسان مٹھیاں بھینچ لے،احترام کرنے کو جی نہ چاہے، ہونٹ خود بخود سکڑ جائیں، پیشانی شکن گفتہ بن کر احتجاج کرے،رُواں رُواں استقبالِ جلال کے لیے کھڑا ہوجائے اور نگاہیں آنکھوں کو یہ کہہ کرکوسیں کہ اگر تم چند لمحوں کے لیے بے نیاز ہوجاتیں تو ہم اُس پر پڑنے سے تو بچ جاتیں... ایسی مخلوق کوتو دیکھنے کے لیے ہی بڑا دل گردہ چاہیے چہ جائیکے کوئی اُن سے تنہائی میں ملاقات کرے، اُنہیں بہت دیر تک اپنے سامنے دیکھے اور محسوس کرے۔
صحرا کی ریت کی طرح چبھنے والی اُن کی مسکراہٹ کا جواب اپنے تبسم سے دے، رُتبے کا احساس کرتے ہوئے اُن کی بے تکی باتوں پر سر ہلائے،بار بار گھڑی کی جانب یہ سوچ کر نظر دوڑائے کہ رخصت کی گھڑی کب آئے گی؟ جب کہ وہ یہ بھی جانتا ہو کہ وہ جس انسان کے سامنے بیٹھا ہے اُس سے ملک کے کروڑوں انسان نجات کی دعائیں مانگتے ہیں، غریب اِسے دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں،ستم رسیدہ، مزاراتِ اولیا پر اِس سے آزادی کی منتیں مانگتے ہیں، کہنے والے اِس کے لیے بھلا نہیں کہتے اور لکھنے والے اِس پر اچھا نہیں لکھتے، یہ قوم کے لیے بیک وقت غم اور صدمے کا باعث ہے، کبھی اِسے دیکھ کر غصہ آتا ہے اور کبھی اپنے ہی اعمال پر رونا... لیکن کیا کیجیے کہ اِن سب حقیقتوںکے باوجود وہ ایک حقیقت ہے۔
خیر! یہ ساری تلخیاں اپنی جگہ مگر شیرینی تو یہ ہے کہ احنف بن قیس کی طرح اُس سے ملنے والے ''ملاقاتی'' کو بھی غصہ نہ آیا حالانکہ اُس نے اپنا چہرہ کئی بار ''ملاقاتی'' کے سامنے اِس سبب سے کیا کہ وہ اُس کی مسکراہٹ کو تمسخر سمجھے اوراُس کی اُٹھی ہوئی بھنوؤں کو طنز، وہ چاہتا تھا کہ ''ملاقاتی'' یا تو شیر کی طرح بپھر جائے یاپھر اُس کے سامنے بکھر جائے، وہ اُس کے چہرے سے اطمینان چھین لینا چاہتا تھا،اُس کی خواہش تھی کہ ''ملاقاتی'' کے ردعمل کی کھڑکی پر لگا قفل اُس کے جملوں کے تیروں سے ٹوٹ کر اُس کے قدموں میں گرے اور پھر انتقام کی دھوپ اُسی کھڑکی سے نمودار ہوجائے... مگر یہ ہونہ سکا...احنف بن قیس کے قدموں کے نشان پر جم کے قدم رکھنے والا بڑے دنوں سے جما ہوا تھا،اُسے بھی غصہ نہیں آیا۔
اُس نے اپنے ماضی سے صرف سیکھا نہیں ہے بلکہ آنے والے مستقبل کو ایک اچھے اُستاد کی طرح سکھا بھی رہا ہے، پہلے وہ خامیوں پر حامیوں کی مدد سے قابو پاتا تھا اور اب ہر کمی کو اپنے دل کی نمی سے پیار کے ساتھ مٹا دیتا ہے ...ڈر ہے کہ نظر نہ لگ جائے،سختیوں نے جس فطرت کو تھپکیاں دے کر سلایا ہے کہیں وہ پھر سے جاگ نہ جائے...میں کیا کروں لیکن مجھے ڈر تو لگتا ہے، سنگھاسن پر بیٹھنے سے قبل اور براجمان ہونے کے بعد تاریخ کے اوراق تو یہی کہتے ہیں کہ روپ عموماً مختلف ہوتے ہیں...
اللہ کرے کہ اِس وقت جو روپ ہے وہ اقتدار کی دھوپ میں موم کی طرح پگھل نہ جائے کیونکہ یہ موم جس سانچے پر چڑھا ہے وہ بہرحال اصل ہے اور میں اُسی اصل کے ظاہر ہونے سے خوف کھاتا ہوں، فی الوقت تو چال میں توازن اور انداز میں ٹھیراؤ ہے، فیصلے بزرگ اور اُن پر عمل جوان ہے اور اِسی بنا پر میں اپنے اردگرد اُمید کے درجنوں دیے جلائے بیٹھا ہوں، مخالفت کی آندھی تو شاید اُنہیں بجھا نہ سکے لیکن اگر منافقت نے جینے کے لیے ایک بھی سانس اندر کھینچ لی تو میرے سارے دیے سرد ہوجائیں گے اور یہی وہ ڈر ہے جس نے میرے یقین کو بری طرح جکڑ رکھا ہے ...!
اچھی خبریں سنانے والے کہتے ہیں کہ ''ملاقاتی'' جس سے ملا تھاشاید اب وہ بہت جلد چلا جائے گا مگر میں تو صرف یہی سوچتا ہوں کہ اُس کے رہتے ہوئے جو اتنا کچھ بگڑا ہے وہ کیا سب دوبارہ بن پائے گا؟ہر آج کو یقیناً بیتا کل بننا ہے لیکن آنے والے کل کے لیے گذرے کل کو بھی تو یاد رکھنا ہے!وہ شخص شجر کو پھلوں سے ہی نہیں بلکہ پتوں سے بھی محروم کرچکا ہے،شاخیں سہمی سہمی سی ہیںاور دائمی خزاں کے وہم نے اُن کی نشوونما کی عادت کو بدشگونی کے پنجرے میں مقید کردیا ہے...
ایسے میں جڑوں کو پانی دینے والے پر بھی اب اُسے اعتماد نہیں، وہ نہیں چاہتا کہ نئی کونپلیں پھر کسی لٹیرے کے لیے پھوٹیں، پھر کوئی پھلوں کو توڑ کر نہیں بلکہ بھنبھوڑ کر کھائے، مفاہمت کے کلہاڑے نے اُس کی ٹہنیوں کو رُسوا کردیا ہے اور اور اب وہ خوف زدہ ہے کہ ''مصلحت کے خنجر'' سے کہیں اُس کے تنے کو اُن ہی ناموں سے دوبارہ نہ گودا جائے جنھوں نے اِس کی چھاؤں تک کو بیچ ڈالا تھا...تبدیلی تو نہیں آسکی لیکن مالی یقیناً تبدیل ہونے جا رہا ہے ...یاد رکھیے کہ لوگ نہیں بدلتے چاہے کوئی اُنہیں بہترین راستہ ہی کیوں نہ دکھا دے، وہ توصرف اُسی وقت تبدیل ہوتے ہیں جب اُنہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اب کوئی راستہ باقی ہی نہیں بچا...!
یار دوستوں نے تو بارہا چاہا مگر اُنہیں کبھی غصہ نہیں آیا، سخت سے سخت بات بھی اُنہیں اشتعال کی سرحدوں کی طرف دھکیلنے میں ہمیشہ ناکام رہی اور وہ اُکسانے والوں پر اکثر مسکراتے ہی رہے ... اُن کی یہ تمام صفات اہلِ عرب میں کسی ضرب المثل کی طرح عام تھیں اور والدین اپنے بچوں کے درمیان احنف کا ذکر فخر سے کیاکرتے تھے...
پھر ہوا یوں کہ ایک دن اُن کے کچھ ''دوست'' ایک جگہ جمع ہوئے اور اُن میں اِس بات پر شرط لگ گئی کہ کسی طرح احنف کو غصہ دلایا جائے اور اُنہیں اِس حد تک مشتعل کر دیا جائے کہ لوگ اُن سے دور بھاگنے لگیں لہٰذا اُن سب نے مل کر ایک نوجوان کو تیارکیا اور اُسے احنف کے گھر بھیج دیا...وہ نوجوان ڈھٹائی کے خمیر سے مرصع ایک ایسا وجود تھا کہ جس پر ایک نظر پڑتے ہی انسان اُلجھ کر رہ جائے چنانچہ وہ لبوں پر ایک مکروہ مگر معنی خیز مسکراہٹ سجائے احنف کے سامنے جا بیٹھا...احنف نے نوجوان کو بغور دیکھنے کے بعد اُس سے سوال کیا کہ ''کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ کو مجھ سے کیا کام ہے''...
نوجوان نے بدستور مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ''کام تو بہت خاص ہے،اگرآپ کوگراں نہ گذرے تو عرض کروں''...احنف نے جواباً خوش دلی سے کہا کہ ''ضرورفرمائیے''...اب اُس کے ہونٹوں پر کسی طوائف کی طرح رقص کرتی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی اور اُس نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا کہ ''بات دراصل یہ ہے کہ میں تمہاری ماں سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور یہی پیغام لے کرمیں تمہارے پاس آیا ہوں''...اُسے یقین تھا کہ یہ بے ہودہ بات سننے کے بعد احنف غصے سے آگ بگولہ ہوجائیں گے اور اُسے ذلیل کر کے اپنے گھر سے نکال دیں گے مگر ہوا اِس کے برعکس!...
احنف نے نہایت پرسکون لہجے میں اُس سے کہا کہ ''بھائی! ہمیں تو آپ کے ساتھ سسرالی رشتہ جوڑنے میں کوئی عار نہیں ہے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ آپ کا حسب ونسب انتہائی محترم و معزز ہوگا جب ہی تو آپ نے یہ زحمت فرمائی،مگر کیاکروں کہ میری والدہ اب کافی عمر رسیدہ ہوچکی ہیں،70برس کی ایک خاتون کسی نوجوان سے بیاہتے ہوئے اچھی نہیں لگیں گی اور نوجوان بھی ایسا کہ جسے ایک سے بڑھ کر ایک اچھی اور کم عمر لڑکیاں بھی مل جائیں بلکہ میرا تو خیال یہ ہے کہ آپ کسی ایسی خاتون سے عقد فرمائیے جو نہ صرف آپ کی ہم عمر ہوں بلکہ آپ سے بے پناہ محبت کرنے والی بھی ہوں اور ساتھ ساتھ اِس قابل بھی ہوں کہ آپ کے بچوں کی ماں بن سکیں،میری والدہ کا کیا ہے؟ وہ شاید کچھ دن اور جی لیں لیکن آپ کو بچوں کا سکھ نہیں دے سکیں گی''...اور پھرکچھ لمحوں کے توقف کے بعد احنف نے یہ آخری جملہ کہا کہ ''جن لوگوں نے آپ کو میرے پاس بھیجا ہے اُنہیں جاکر یہ بھی بتادیجیے گا کہ آپ مجھے غصہ دلانے میں ناکام رہے''...
میں یقیناً اِس بات سے بے خبر ہوں کہ احنف کے دور میں ایسے پُر فتن افراد کتنی بڑی تعداد میں موجود تھے لیکن اپنے وطن میں کم ازکم ایک ایسے شخص سے بلاشبہ واقف ہوں جسے دیکھتے ہی انسان مٹھیاں بھینچ لے،احترام کرنے کو جی نہ چاہے، ہونٹ خود بخود سکڑ جائیں، پیشانی شکن گفتہ بن کر احتجاج کرے،رُواں رُواں استقبالِ جلال کے لیے کھڑا ہوجائے اور نگاہیں آنکھوں کو یہ کہہ کرکوسیں کہ اگر تم چند لمحوں کے لیے بے نیاز ہوجاتیں تو ہم اُس پر پڑنے سے تو بچ جاتیں... ایسی مخلوق کوتو دیکھنے کے لیے ہی بڑا دل گردہ چاہیے چہ جائیکے کوئی اُن سے تنہائی میں ملاقات کرے، اُنہیں بہت دیر تک اپنے سامنے دیکھے اور محسوس کرے۔
صحرا کی ریت کی طرح چبھنے والی اُن کی مسکراہٹ کا جواب اپنے تبسم سے دے، رُتبے کا احساس کرتے ہوئے اُن کی بے تکی باتوں پر سر ہلائے،بار بار گھڑی کی جانب یہ سوچ کر نظر دوڑائے کہ رخصت کی گھڑی کب آئے گی؟ جب کہ وہ یہ بھی جانتا ہو کہ وہ جس انسان کے سامنے بیٹھا ہے اُس سے ملک کے کروڑوں انسان نجات کی دعائیں مانگتے ہیں، غریب اِسے دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں،ستم رسیدہ، مزاراتِ اولیا پر اِس سے آزادی کی منتیں مانگتے ہیں، کہنے والے اِس کے لیے بھلا نہیں کہتے اور لکھنے والے اِس پر اچھا نہیں لکھتے، یہ قوم کے لیے بیک وقت غم اور صدمے کا باعث ہے، کبھی اِسے دیکھ کر غصہ آتا ہے اور کبھی اپنے ہی اعمال پر رونا... لیکن کیا کیجیے کہ اِن سب حقیقتوںکے باوجود وہ ایک حقیقت ہے۔
خیر! یہ ساری تلخیاں اپنی جگہ مگر شیرینی تو یہ ہے کہ احنف بن قیس کی طرح اُس سے ملنے والے ''ملاقاتی'' کو بھی غصہ نہ آیا حالانکہ اُس نے اپنا چہرہ کئی بار ''ملاقاتی'' کے سامنے اِس سبب سے کیا کہ وہ اُس کی مسکراہٹ کو تمسخر سمجھے اوراُس کی اُٹھی ہوئی بھنوؤں کو طنز، وہ چاہتا تھا کہ ''ملاقاتی'' یا تو شیر کی طرح بپھر جائے یاپھر اُس کے سامنے بکھر جائے، وہ اُس کے چہرے سے اطمینان چھین لینا چاہتا تھا،اُس کی خواہش تھی کہ ''ملاقاتی'' کے ردعمل کی کھڑکی پر لگا قفل اُس کے جملوں کے تیروں سے ٹوٹ کر اُس کے قدموں میں گرے اور پھر انتقام کی دھوپ اُسی کھڑکی سے نمودار ہوجائے... مگر یہ ہونہ سکا...احنف بن قیس کے قدموں کے نشان پر جم کے قدم رکھنے والا بڑے دنوں سے جما ہوا تھا،اُسے بھی غصہ نہیں آیا۔
اُس نے اپنے ماضی سے صرف سیکھا نہیں ہے بلکہ آنے والے مستقبل کو ایک اچھے اُستاد کی طرح سکھا بھی رہا ہے، پہلے وہ خامیوں پر حامیوں کی مدد سے قابو پاتا تھا اور اب ہر کمی کو اپنے دل کی نمی سے پیار کے ساتھ مٹا دیتا ہے ...ڈر ہے کہ نظر نہ لگ جائے،سختیوں نے جس فطرت کو تھپکیاں دے کر سلایا ہے کہیں وہ پھر سے جاگ نہ جائے...میں کیا کروں لیکن مجھے ڈر تو لگتا ہے، سنگھاسن پر بیٹھنے سے قبل اور براجمان ہونے کے بعد تاریخ کے اوراق تو یہی کہتے ہیں کہ روپ عموماً مختلف ہوتے ہیں...
اللہ کرے کہ اِس وقت جو روپ ہے وہ اقتدار کی دھوپ میں موم کی طرح پگھل نہ جائے کیونکہ یہ موم جس سانچے پر چڑھا ہے وہ بہرحال اصل ہے اور میں اُسی اصل کے ظاہر ہونے سے خوف کھاتا ہوں، فی الوقت تو چال میں توازن اور انداز میں ٹھیراؤ ہے، فیصلے بزرگ اور اُن پر عمل جوان ہے اور اِسی بنا پر میں اپنے اردگرد اُمید کے درجنوں دیے جلائے بیٹھا ہوں، مخالفت کی آندھی تو شاید اُنہیں بجھا نہ سکے لیکن اگر منافقت نے جینے کے لیے ایک بھی سانس اندر کھینچ لی تو میرے سارے دیے سرد ہوجائیں گے اور یہی وہ ڈر ہے جس نے میرے یقین کو بری طرح جکڑ رکھا ہے ...!
اچھی خبریں سنانے والے کہتے ہیں کہ ''ملاقاتی'' جس سے ملا تھاشاید اب وہ بہت جلد چلا جائے گا مگر میں تو صرف یہی سوچتا ہوں کہ اُس کے رہتے ہوئے جو اتنا کچھ بگڑا ہے وہ کیا سب دوبارہ بن پائے گا؟ہر آج کو یقیناً بیتا کل بننا ہے لیکن آنے والے کل کے لیے گذرے کل کو بھی تو یاد رکھنا ہے!وہ شخص شجر کو پھلوں سے ہی نہیں بلکہ پتوں سے بھی محروم کرچکا ہے،شاخیں سہمی سہمی سی ہیںاور دائمی خزاں کے وہم نے اُن کی نشوونما کی عادت کو بدشگونی کے پنجرے میں مقید کردیا ہے...
ایسے میں جڑوں کو پانی دینے والے پر بھی اب اُسے اعتماد نہیں، وہ نہیں چاہتا کہ نئی کونپلیں پھر کسی لٹیرے کے لیے پھوٹیں، پھر کوئی پھلوں کو توڑ کر نہیں بلکہ بھنبھوڑ کر کھائے، مفاہمت کے کلہاڑے نے اُس کی ٹہنیوں کو رُسوا کردیا ہے اور اور اب وہ خوف زدہ ہے کہ ''مصلحت کے خنجر'' سے کہیں اُس کے تنے کو اُن ہی ناموں سے دوبارہ نہ گودا جائے جنھوں نے اِس کی چھاؤں تک کو بیچ ڈالا تھا...تبدیلی تو نہیں آسکی لیکن مالی یقیناً تبدیل ہونے جا رہا ہے ...یاد رکھیے کہ لوگ نہیں بدلتے چاہے کوئی اُنہیں بہترین راستہ ہی کیوں نہ دکھا دے، وہ توصرف اُسی وقت تبدیل ہوتے ہیں جب اُنہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اب کوئی راستہ باقی ہی نہیں بچا...!