سپریم کورٹ میں نئے ججوں کو لانے میں مشکلات کا سامنا
بلوچستان،اسلام آباد ہائیکورٹ کا کوئی جج سپریم کورٹ میں تعیناتی کااہل نہیں
ISLAMABAD:
سپریم کورٹ میںنئے ججوں کولانے میںحقیقی مشکلات کا سامنا ہے۔
لاہور، پشاور ہائیکورٹ میںایک ایک جج جبکہ بلوچستان اوراسلام آباد ہائیکورٹ کاکوئی جج سپریم کورٹ کاجج بننے کااہل نہیں،سندھ ہائیکورٹ کے 3 جج سپریم کورٹ کے جج بننے کے اہل ہیں لیکن ریشوکے لحاظ سے عدالت عظمی میںسندھ سے تعلق رکھنے والے ججوںکی تعدادپہلے سے زیادہ ہیں اس وقت سپریم کورٹ میں7 حاضرسروس جج سندھ ہائی کورٹ سے لائے گئے ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہواہے کہ سابق چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی ریٹائرمنٹ سے خالی ہونے والی سیٹ کوپرکرنے میں حقیقی مشکلات کاسامناہے کیونکہ کسی بھی ہائی کورٹ سے جج لانے میں محدودآپشن دستیاب ہیں،سپریم کورٹ میںتقرری کے لیے ضروری ہے کہ جج نے5 سال بطورہائی کورٹ کے جج کام کیاہولیکن اس وقت پشاورہائیکورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان اورلاہورہائیکورٹ کے چیف جسٹس عمرعطا بندیال کے علاوہ دونوںہائی کورٹس کاکوئی جج اس معیار پر پورا نہیں اتررہاہے جبکہ بلوچستان اوراسلام آبادہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان سمیت کوئی جج سپریم کورٹ کے جج بننے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
ذرائع نے بتایااگر دونوںمذکورہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز میں سے کسی ایک کوسپریم کورٹ لایاجاتاہے توہائی کورٹس میںنسبتاًجوان جج رہ جانے سے ہائی کورٹ کاکام متاثرہونیکاامکان ہے ۔ذرائع کاکہناتھاکہ پشاورہائیکورٹ کے جج جسٹس فصیح الملک اس سال7 اپریل کو62 سال کی عمرتک پہنچنے پر ریٹائرڈ ہوںگے جبکہ اسلام آبادہائی کورٹ کے جسٹس ریاض احمدخان اس سال 14مئی کوریٹائرڈ ہو رہے ہیںلیکن آئین کے تحت طے شدہ طریقہ کارکے مطابق دونوںکی بطورجج ہائی کورٹ مدت 5 سال نہیں،ذرائع نے بتایاکہ سندھ ہائی کورٹ سے جج لانے کی آپشن بھی محدودہے گوکہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر،سنیئرترین جج جسٹس فیصل عرب اورجسٹس سجاد علیشاہ سپریم کورٹ کے جج کی اہلیت رکھتے ہیںلیکن اس سال مزیددوجج جسٹس خلجی عارف حسین 12اپریل اورچیف جسٹس تصدق حسین جیلانی 5 جولائی کوریٹائرڈ ہوجائینگے جس کی وجہ سے ججوںکی کمی کامسئلہ بدستوردرپیش رہے گا۔
سپریم کورٹ میںنئے ججوں کولانے میںحقیقی مشکلات کا سامنا ہے۔
لاہور، پشاور ہائیکورٹ میںایک ایک جج جبکہ بلوچستان اوراسلام آباد ہائیکورٹ کاکوئی جج سپریم کورٹ کاجج بننے کااہل نہیں،سندھ ہائیکورٹ کے 3 جج سپریم کورٹ کے جج بننے کے اہل ہیں لیکن ریشوکے لحاظ سے عدالت عظمی میںسندھ سے تعلق رکھنے والے ججوںکی تعدادپہلے سے زیادہ ہیں اس وقت سپریم کورٹ میں7 حاضرسروس جج سندھ ہائی کورٹ سے لائے گئے ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہواہے کہ سابق چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی ریٹائرمنٹ سے خالی ہونے والی سیٹ کوپرکرنے میں حقیقی مشکلات کاسامناہے کیونکہ کسی بھی ہائی کورٹ سے جج لانے میں محدودآپشن دستیاب ہیں،سپریم کورٹ میںتقرری کے لیے ضروری ہے کہ جج نے5 سال بطورہائی کورٹ کے جج کام کیاہولیکن اس وقت پشاورہائیکورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان اورلاہورہائیکورٹ کے چیف جسٹس عمرعطا بندیال کے علاوہ دونوںہائی کورٹس کاکوئی جج اس معیار پر پورا نہیں اتررہاہے جبکہ بلوچستان اوراسلام آبادہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان سمیت کوئی جج سپریم کورٹ کے جج بننے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
ذرائع نے بتایااگر دونوںمذکورہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز میں سے کسی ایک کوسپریم کورٹ لایاجاتاہے توہائی کورٹس میںنسبتاًجوان جج رہ جانے سے ہائی کورٹ کاکام متاثرہونیکاامکان ہے ۔ذرائع کاکہناتھاکہ پشاورہائیکورٹ کے جج جسٹس فصیح الملک اس سال7 اپریل کو62 سال کی عمرتک پہنچنے پر ریٹائرڈ ہوںگے جبکہ اسلام آبادہائی کورٹ کے جسٹس ریاض احمدخان اس سال 14مئی کوریٹائرڈ ہو رہے ہیںلیکن آئین کے تحت طے شدہ طریقہ کارکے مطابق دونوںکی بطورجج ہائی کورٹ مدت 5 سال نہیں،ذرائع نے بتایاکہ سندھ ہائی کورٹ سے جج لانے کی آپشن بھی محدودہے گوکہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر،سنیئرترین جج جسٹس فیصل عرب اورجسٹس سجاد علیشاہ سپریم کورٹ کے جج کی اہلیت رکھتے ہیںلیکن اس سال مزیددوجج جسٹس خلجی عارف حسین 12اپریل اورچیف جسٹس تصدق حسین جیلانی 5 جولائی کوریٹائرڈ ہوجائینگے جس کی وجہ سے ججوںکی کمی کامسئلہ بدستوردرپیش رہے گا۔