2013 پاکستان میں 47 خودکش دھماکے 27 ڈرون حملے 882 ہلاک
3306ہلاک شدگان کی شناخت نہ ہوسکی،800شہریوں کی ہلاکتوں کی تصدیق، نواز حکومت،پی ٹی آئی،جماعت اسلامی کےاحتجاج سےکمی آئی
ملک بھرمیں عوامی احتجاج اورعالمی فورمزپر تنقیدکے بعدسی آئی اے نے پاکستان میں ڈرون حملوںمیں غیر معمولی کمی کردی۔
2013میں گزشتہ 6برس کے مقابلے میں سب سے کم 27 ڈرون حملے کیے جن میں181افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں بعض سینئرجنگجو کمانڈر بھی شامل ہیں۔ 2004سے اب تک 391 ڈرون حملوں میں 3306افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں اکثریت نامعلوم مشتبہ جنگجوئوں کی ہے جن کی آج تک شناخت نہیں ہوسکی تاہم تقریبا 800عام شہریوں کی ہلاکتوںکی تصدیق ہوچکی ہے۔ 2013میں ہونے والے 27ڈرون حملوں میں سے 22شمالی وزیرستان میں ہوئے جن میں 131 افراد ہلاک 83زخمی ہوئے۔ جنوبی وزیرستان میں 4 ڈرون حملوں میں 44ہلاک، 24 زخمی ہوئے۔ 2013میں ڈرون حملوں کا دائرہ خیبر پختونخواکے بندوبستی علاقے تک بڑھایاگیا اورہنگو کے علاقے ٹل میں ایک مدرسے پرڈرون حملہ کرکے امریکاکو انتہائی مطلوبمولانااحمد جان اورساتھی علما کوہلاک کردیا گیا۔ 2013کے پہلے 10دنوں میں سی آئی ا ے نے6ڈرون حملے کیے تاہم فروری، مارچ اوراپریل میں ماہانہ 2ڈرون حملے ہوئے جبکہ مئی اورجون میں ایک ایک حملہ کیاگیا۔
نوازشریف کے دوراقتدار میں 14ڈرون حملوں میں 90 افرادہلاک 34زخمی ہوچکے ہیں۔ نوازشریف نے ڈرون حملوں کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آوازبلندکی۔ تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کے ساتھ ڈرون حملوں کیخلاف دھرنے دیے اورصوبے کے راستے نیٹو سپلائی روک دی۔ تاہم چمن کے راستے یہ جاری رہی۔ 2013 کے دوران تقریبا 20کے قریب سینئراور درمیانے درجے کے جنگجوکمانڈر ڈرون حملوں میں ہلاک ہوئے جن میں حکیم اللہ محسود، ولی الرحمن محسود، مولوی نذیر، ولی محمدمحسود، فیصل خان، اسراراحمد اورلطیف، الشیخ یٰسین صومالی، ڈپٹی کمانڈرٹریننگ القاعدہ پاکستان وافغانستان، الشیخ ابوماجد العراقی، الشیخ ابووقاص، ابوعبیداللہ الادم انٹیلی جنس چیف القاعدہ، کمانڈرمتقی المعروف بہادرخان، کمانڈرشیر خان، ابوسیف الجزائری، مولانااختر زدران، ابوراشد، محمدالیا س الکویتی، سنگین زدران، زبیرالمزی ابوبلال خراسانی، ابودجانہ خراسانی، مولانا احمدجان اورکمانڈر فیصل شامل ہیں۔ اوسطا ہرڈرون حملے میں 9سے زائدافراد مارے گئے۔
2013 خودکش حملوں کے لحاظ سے اضافے کاسال ثابت ہوا۔ 2010کے بعداس سال خودکش حملوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ 2013کے دوران پاکستان میں 47خودکش حملے ہوئے جن میں 701افراد ہلاک جبکہ 1582زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوںمیں 451عام شہری سیکیورٹی فورسزکے 129اہلکار، 6حکومت نوازمسلح رضاکاراور 115جنگجو شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں 1347عام شہری، 225سیکیورٹی فورسزاہلکار اور 10جنگجو شامل ہیں۔ نائن الیون کے بعدسے اب تک پاکستان میں 376خودکش حملے ہوچکے ہیں جن میںمرنے والوں کی مجموعی تعداد5710 ہو گئی ہے۔ پہلاخود کش حملہ 2002میں کیاگیا تھا۔ ریاست مخالف تشددپر نظررکھنے والے ادارے کانفلکٹ مانیٹرنگ سینٹرکے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق 2013میں ہونے والے 47خودکش حملوں میں سے 6فوج، پیراملٹری فورس ایف سی اورپولیس کے خلاف 8,8حملے ہوئے۔
2011میں فوج پر 4خودکش حملے جبکہ 2012میں ایک حملہ ہواتھا۔ 2013میں جنگجوئوں نے نماز جنازہ کے 2اجتماعات پر خودکش حملے کیے۔ ان میںسے ایک کوئٹہ میں پولیس اہلکاروں کے جنازے کے دوران ہواجس میں ڈی آئی جی سمیت 30پولیس اہلکار مارے گئے۔ مساجداور امام بارگاہوں پر 4خودکش حملے ہوئے جبکہ ایک خودکش حملہ چرچ پرکیا گیا۔ سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی، اے این پی، پی ٹی آئی، اے این پی اورنیشنل پیپلز پارٹی کے رہنمااور کارکن خودکش حملوں کی زدمیں آئے۔ پشاور ہائیکورٹ، سرداربہادر خان یونیورسٹی کوئٹہ، بولان اسپتال کوئٹہ اورباجوڑ میں بھی ایک اسپتال خودکش حملوں کا نشانہ بنے۔ سول سرکاری اعلیٰ افسران میںکمشنر پشاوراور خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ شامل ہیں۔ وی آئی پی شخصیات میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا، آئی جی ایف سی بلوچستان، صوبائی وزیرقانون اسرارگنڈا پوراور دیگرشامل ہیں۔
سکھرمیں ایک تباہ کن خودکش حملے میںآئی ایس آئی کے دفاترکو زمیں بوس کردیا۔ اعدادوشمار کے مطابق جنگجوئوں کی خودکش حملے کرنے اورہدف کے تعین کی صلاحتیوں میں بہتری آئی ہے۔2013کے دوران خیبر پختونخوا میں 22خودکش حملوں میں 344افراد مارے گئے جن میں 249 عام شہری، سیکیورٹی فورسزکے 40اہلکار اور 55جنگجو شامل ہیں۔ 656زخمیوں میںسے608عام شہری، سیکیورٹی فورسز کے 42اہلکار اور 6جنگجو شامل ہیں۔ پشاورمیں 9، بنوں، ہنگواور مردان میں 3,3حملے ہوئے جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں 2، سوات اورلکی مروت میںایک ایک خودکش حملہ ہوا۔ خیبرپختونخوامیں مہلک ترین خودکش حملہ ستمبرمیں پشاور میں ایک چرچ پرہوا جس میں 85افراد ہلاک 123زخمی ہوئے۔
2013میں گزشتہ 6برس کے مقابلے میں سب سے کم 27 ڈرون حملے کیے جن میں181افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں بعض سینئرجنگجو کمانڈر بھی شامل ہیں۔ 2004سے اب تک 391 ڈرون حملوں میں 3306افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں اکثریت نامعلوم مشتبہ جنگجوئوں کی ہے جن کی آج تک شناخت نہیں ہوسکی تاہم تقریبا 800عام شہریوں کی ہلاکتوںکی تصدیق ہوچکی ہے۔ 2013میں ہونے والے 27ڈرون حملوں میں سے 22شمالی وزیرستان میں ہوئے جن میں 131 افراد ہلاک 83زخمی ہوئے۔ جنوبی وزیرستان میں 4 ڈرون حملوں میں 44ہلاک، 24 زخمی ہوئے۔ 2013میں ڈرون حملوں کا دائرہ خیبر پختونخواکے بندوبستی علاقے تک بڑھایاگیا اورہنگو کے علاقے ٹل میں ایک مدرسے پرڈرون حملہ کرکے امریکاکو انتہائی مطلوبمولانااحمد جان اورساتھی علما کوہلاک کردیا گیا۔ 2013کے پہلے 10دنوں میں سی آئی ا ے نے6ڈرون حملے کیے تاہم فروری، مارچ اوراپریل میں ماہانہ 2ڈرون حملے ہوئے جبکہ مئی اورجون میں ایک ایک حملہ کیاگیا۔
نوازشریف کے دوراقتدار میں 14ڈرون حملوں میں 90 افرادہلاک 34زخمی ہوچکے ہیں۔ نوازشریف نے ڈرون حملوں کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آوازبلندکی۔ تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کے ساتھ ڈرون حملوں کیخلاف دھرنے دیے اورصوبے کے راستے نیٹو سپلائی روک دی۔ تاہم چمن کے راستے یہ جاری رہی۔ 2013 کے دوران تقریبا 20کے قریب سینئراور درمیانے درجے کے جنگجوکمانڈر ڈرون حملوں میں ہلاک ہوئے جن میں حکیم اللہ محسود، ولی الرحمن محسود، مولوی نذیر، ولی محمدمحسود، فیصل خان، اسراراحمد اورلطیف، الشیخ یٰسین صومالی، ڈپٹی کمانڈرٹریننگ القاعدہ پاکستان وافغانستان، الشیخ ابوماجد العراقی، الشیخ ابووقاص، ابوعبیداللہ الادم انٹیلی جنس چیف القاعدہ، کمانڈرمتقی المعروف بہادرخان، کمانڈرشیر خان، ابوسیف الجزائری، مولانااختر زدران، ابوراشد، محمدالیا س الکویتی، سنگین زدران، زبیرالمزی ابوبلال خراسانی، ابودجانہ خراسانی، مولانا احمدجان اورکمانڈر فیصل شامل ہیں۔ اوسطا ہرڈرون حملے میں 9سے زائدافراد مارے گئے۔
2013 خودکش حملوں کے لحاظ سے اضافے کاسال ثابت ہوا۔ 2010کے بعداس سال خودکش حملوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ 2013کے دوران پاکستان میں 47خودکش حملے ہوئے جن میں 701افراد ہلاک جبکہ 1582زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوںمیں 451عام شہری سیکیورٹی فورسزکے 129اہلکار، 6حکومت نوازمسلح رضاکاراور 115جنگجو شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں 1347عام شہری، 225سیکیورٹی فورسزاہلکار اور 10جنگجو شامل ہیں۔ نائن الیون کے بعدسے اب تک پاکستان میں 376خودکش حملے ہوچکے ہیں جن میںمرنے والوں کی مجموعی تعداد5710 ہو گئی ہے۔ پہلاخود کش حملہ 2002میں کیاگیا تھا۔ ریاست مخالف تشددپر نظررکھنے والے ادارے کانفلکٹ مانیٹرنگ سینٹرکے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق 2013میں ہونے والے 47خودکش حملوں میں سے 6فوج، پیراملٹری فورس ایف سی اورپولیس کے خلاف 8,8حملے ہوئے۔
2011میں فوج پر 4خودکش حملے جبکہ 2012میں ایک حملہ ہواتھا۔ 2013میں جنگجوئوں نے نماز جنازہ کے 2اجتماعات پر خودکش حملے کیے۔ ان میںسے ایک کوئٹہ میں پولیس اہلکاروں کے جنازے کے دوران ہواجس میں ڈی آئی جی سمیت 30پولیس اہلکار مارے گئے۔ مساجداور امام بارگاہوں پر 4خودکش حملے ہوئے جبکہ ایک خودکش حملہ چرچ پرکیا گیا۔ سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی، اے این پی، پی ٹی آئی، اے این پی اورنیشنل پیپلز پارٹی کے رہنمااور کارکن خودکش حملوں کی زدمیں آئے۔ پشاور ہائیکورٹ، سرداربہادر خان یونیورسٹی کوئٹہ، بولان اسپتال کوئٹہ اورباجوڑ میں بھی ایک اسپتال خودکش حملوں کا نشانہ بنے۔ سول سرکاری اعلیٰ افسران میںکمشنر پشاوراور خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ شامل ہیں۔ وی آئی پی شخصیات میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا، آئی جی ایف سی بلوچستان، صوبائی وزیرقانون اسرارگنڈا پوراور دیگرشامل ہیں۔
سکھرمیں ایک تباہ کن خودکش حملے میںآئی ایس آئی کے دفاترکو زمیں بوس کردیا۔ اعدادوشمار کے مطابق جنگجوئوں کی خودکش حملے کرنے اورہدف کے تعین کی صلاحتیوں میں بہتری آئی ہے۔2013کے دوران خیبر پختونخوا میں 22خودکش حملوں میں 344افراد مارے گئے جن میں 249 عام شہری، سیکیورٹی فورسزکے 40اہلکار اور 55جنگجو شامل ہیں۔ 656زخمیوں میںسے608عام شہری، سیکیورٹی فورسز کے 42اہلکار اور 6جنگجو شامل ہیں۔ پشاورمیں 9، بنوں، ہنگواور مردان میں 3,3حملے ہوئے جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں 2، سوات اورلکی مروت میںایک ایک خودکش حملہ ہوا۔ خیبرپختونخوامیں مہلک ترین خودکش حملہ ستمبرمیں پشاور میں ایک چرچ پرہوا جس میں 85افراد ہلاک 123زخمی ہوئے۔