دن مہینا سال صدی
رات کی بات کی جائے تو سُہاگ رات اور ہجر کی رات دونوں کی اپنی اہمیت مُسلّم ہے
زباں فہمی نمبر80
(دوسرا اور آخری حصہ)
ہِلال یعنی پہلی تاریخ کا چاند اردو میں نسبتاً کم کم موضوع سخن رہا ہے۔ یہ دیکھیے کیا مضمون آفرینی ہے: ؎ ہلال عید کا ہم بہم دیکھتے ہیں /گلے مِل رہی ہیں ہماری نگاہیں۔ اور پھر سدا کے اداس شاعر یہ بھی کہہ گزرے: ؎ دیکھا ہلال عید تو احساس یہ ہوا / لو ایک سال اور جدائی میں کٹ گیا۔ علامہ اقبال نے تو بہ انداز ِدِگر یہ فرمادیا تھا: پیامِ عیش ومسرت ہمیں سناتا ہے/ہلالِ عید ہماری ہنسی اُڑاتا ہے (نظم: عید پر شعر لکھنے کی فرمائش کے جواب میں، مشمولہ 'بانگِ درا')۔ ہلال کو غرّہ بھی کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال کی نظم ہے: غرّۂ شوّال (یا ہلالِ عید)۔ بانگ ِدرا میں شامل اس نظم کا مطالعہ بھی مفید ہے کہ اس کے کئی اشعار مشہور بھی ہیں:
غرہ شوال! اے نور ِنگاہ ِروزہ دار
آ کہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار
تیری پیشانی پہ تحریر پیامِ عید ہے
شام تیری کیا ہے صبح ِعیش کی تمہید ہے
سرگزشتِ ملت بیضا کا تو آئینہ ہے
اے مہِ نو ہم کو تجھ سے الفت دیرینہ ہے
جس علم کے سائے میں تیغ آزما ہوتے تھے ہم
دشمنوں کے خون سے رنگیں قبا ہوتے تھے ہم
تیری قسمت میں ہم آغوشی اسی رایت کی ہے
حسن روز افزوں سے تیرے آبرو ملت کی ہے
آشنا پرور ہے قوم اپنی، وفا آئیِں ترا
ہے محبت خیز یہ پیراہن ِسیمیں ترا
اوج گردوں سے ذرا دنیا کی بستی دیکھ لے
اپنی رفعت سے ہمارے گھر کی پستی دیکھ لے
قافلے دیکھ اور ان کی برق رفتاری بھی دیکھ
رہرَوِ درماندہ کی منزل سے بیزاری بھی دیکھ
دیکھ کر تجھ کو افق پر ہم لٹاتے تھے گہر
اے تہی ساغر ہماری آج ناداری بھی دیکھ
فرقہ آرائی کی زنجیروں میں ہیں مسلم اسیر
اپنی آزادی بھی دیکھ، ان کی گرفتاری بھی دیکھ
دیکھ مسجد میں شکست ِرشتہ ِتسبیح ِشیخ
بت کدے میں برہمن کی پختہ زُنّاری بھی دیکھ
کافروں کی مسلم آئینی کا بھی نظارہ کر
اور اپنے مسلموں کی مسلم آزاری بھی دیکھ
بارش سنگ حوادث کا تماشائی بھی ہو
امت مرحوم کی آئینہ دیواری بھی دیکھ
ہاں تملق پیشگی دیکھ آبرو والوں کی تو
اور جو بے آبرو تھے ان کی خودداری بھی دیکھ
جس کو ہم نے آشنا لطفِ تکلم سے کیا
اس حریف ِبے زباں کی گرم گفتاری بھی دیکھ
ساز ِعشرت کی صدا، مغرب کے ایوانوں میں سن
اور، اِیراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
صورت ِآئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ
شورش ِامروز میں محوِسرودِدوش رہ
چاند سے چاندنی اور چاندنی رات یا شبِ مہتاب کا تصور جُڑا ہواہے۔ کیا ادب کیا سائنس، یہ موضوع گویا مجموعہ موضوعات ہے۔ ہر زبان میں اس موضوع پر بہت کچھ کہا گیا، لکھا گیا۔ چاند، اس کی روشنی اور اس کے مختلف نام ہر اہم شاعر کے موضوعاتِ سخن میں ہمیشہ شامل رہے۔
مصطفی زیدی نے کیا عجیب شعر کہا تھا: چاند سے شکوہ بہ لب ہوں کہ سُلایا کیوں تھا/میں کہ خورشیدِجہاں تاب کی ٹھوکر سے اُٹھا۔ یہ شعر مضمون آفرینی کا نادر شاہکار ہے۔ ہمارے عہد کے منفرد شاعر صہباؔ اختر بھی ایسے دو منفرد شعر کہہ گئے ہیں: چاند بھی اُس کا گرفتار، سورج بھی شکار/ہراُجالا مِرے محبوب کا دیوانہ ہے۔ چاند ہو، سورج ہو یا کوئی چراغِ رہ گزر/روشنی دیتا ہے جس کے دل میں جل اٹھتی ہے آگ۔
رات کا اجالا فقط چاند کا مرہون منت نہیں، بلکہ اس میں ایک اہم کردار ستاروں کا بھی ہے۔ جب ہم روانی میں ستارہ یا تارا کہتے ہیں تو عموماً سیارے بھی اس میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ یہ لفظ عربی کے اصل تلفظ کے مطابق ''سِیارَہ'' ہے جیسا کہ علامہ اقبال کے کلام میں بھی ایک جگہ استعمال ہوا ہے، مگر ہماری زبان میں بکثرت ''سَیّارَہ'' (یعنی حرف 'ی' پر تشدید کے ساتھ) رائج ہوچکا ہے۔
اسے کیا کہیے۔ خیر، پہلے ستارے کی بات ہوجائے۔ تاروں بھری رات کا سہانا تصور بھی ہماری نظم ونثر میں یکے ازمحبوب ومرغوب موضوعات ہے۔ نامور اردو شاعرہ وحید نسیم کا شعر ہے: چمک رہا ہے ستارہ جو نوکِ مژگاں پر/غمِ حیات، یہی تیری آبرو تو نہیں۔ کہیے کیسا منفرد نمونہ کلام ہے۔ آج کسی شوقین شاعرہ یا ادبی قاریہ سے پوچھیں تو عین ممکن ہے کہ اُسے یہ معلوم ہی نہ ہو کہ وحیدہ نسیم کون تھیں اور یہ کہ اُنھوں نے درس تدریس میں نام کمایا، شاعری میں مشہور ہوئیں اور پھر 'عورتوں کی زبان' کی منفرد فرہنگ اتنی محنت سے ترتیب دی کہ جوش ؔ ملیح آبادی جیسا کٹر ناقدو شاعر بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔
شام ڈھلتی ہے تو چاند، چاندنی، ستاروں، سیاروں، چراغوں اور مشعلوں نیز جگنوؤں کی افادیت نمایاں ہوتی ہے۔ شاعر یہاں بھی اپنی قلبی کیفیات دوسروں سے مختلف انداز میں کہہ اٹھتا ہے۔ قابلؔاجمیری کا شعر ہے: چراغ ِبزمِ ستم ہیں، ہمارا حال نہ پوچھ/جلے تھے، شام سے پہلے، بجھے ہیں شام کے بعد۔ اور وہ بھی تو ایک مشہور ِزمانہ شعر ہے: شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے /دل ہوا ہے چراغ مفلس کا۔ اس خاکسار نے شام کے موضوع پر بطور خاص یہ ہائیکو نظم کہہ کر اپنے معاصرین سے داد وصول کی تھی: لو پھر شام ہوئی/کوچہ کوچہ اِک وحشت/میرے نام ہوئی۔
شام ہی کے حوالے سے اس ہیچ مدآں کی یہ ہائیکو کہیں زیادہ داد وصول کرچکی ہے: ساحل پہ ہر شام /گیلی ریت پہ لکھتی ہے/پگلی تیرا نام۔ چاندنی کا ذکر کیے بغیر ہماری قدیم وجدید شاعری کا تذکرہ ادھورا رہتا ہے۔ احسان دانش جیسے منفرد سخنور کا یہ شعر گویا فردِفرید ہے: سب چاندنی سے خوش ہیں، کسی کو خبرنہیں/پھاہا ہے، ماہتاب کا گردوں کے گھاؤ پر (پھاہا وہی لفظ ہے جسے عام بول چال میں پھایا کہا جاتا ہے۔ گردوں سے مراد ہے آسمان)۔ تاروں کا مضمون بہ اندازِدگراِس شعر میں ملاحظہ فرمائیں: میری آنکھوں میں ہوں آنسو تو لہو کے قطرے/اُن کی آنکھوں میں ہوں آنسو تو ستارہ آنسو (میری یادداشت کے مطابق یہ پوری غزل ایک پرانے رسالے میں، ممتاز شاعر سُروربارہ بنکوی کے نام سے شایع ہوئی تھی)۔
یہ بیان تھا روشن رات کا، اس کے برعکس تاریک رات کی بات کی جائے تو اِس کے لیے 'اَماوَس ' کی رات بہت زیادہ مشہور یا بدنام ہے۔ ہمارے یہاں ایک ٹیلی وژن ڈرامے کا نام بھی 'اماوس' تھا جسے لوگوں نے کج فہمی کی بناء پر 'امّاں بس!' کہنا شروع کردیا تھا۔ اماوس سے مراد ہے قمری مہینے کی آخری رات جو ہندومَت کی تعلیمات کے مطابق بَدی کی رات ہے جس میں سورج اور چاند کا قِرآن یعنی ملاپ ہوتا ہے۔
توہم پرست یہ کہتے ہیں کہ اس رات میں خبائث خصوصاً جنّات کا اثر بڑھ جاتا ہے اور سفلی عملیات بھی زیادہ کیے جاتے ہیں۔ یہ لفظ ہندی اور اردو میں سنسکِرِت سے آیا اور ماقبل (ہزاروں سال پہلے) ویدک بولیوں میں موجود تھا۔ یعنی اتنا ہی قدیم ہے جتنی اردو کی جڑیں۔ ویسے تو ہمارے یہاں محاورے میں ''دونوں وقت ملنا'' بھی بہت اہم اور معانی خیز ہے۔ ''دونوں وقت ملنا شام کے وقت کے لئے کہا جاتا ہے اُردو کا مشہور مصرع ہے: ع: چلئے اب دونوں وقت ملتے ہیں، مگر یہ ایک طرح کا شاعرانہ اندازِ بیان ہے اور سماجی فکر پربھی اثرانداز ہوا ہے کہ جب دن رات مل رہے ہوں تو کوئی دوسرے درجہ کی بات نہ کہنی چاہئے یا کرنی چاہئے یہ وقت احتیاط کا تقاضہ کرتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب دن گزر جا تا ہے شام ہوجاتی ہے تو آدمی کو وقت کے گزرنے کا احساس زیادہ شدت سے ہوتا ہے جس کی طرف میر کا یہ شعر اشارہ کرتا ہے۔''
یہ اقتباس ہے ہندوستان سے شایع ہونے والی ایک وقیع کتاب بعنوان ''اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ ازڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی'' کا، مگر انھیں یہ علم نہیں کہ دونوں وقت ملنا یعنی غروب آفتاب کے وقت، حدیث شریف میں شیاطین کے خروج کے سبب، بچوں کو گھر میں رہنے اور بڑوں کو سفر شروع نہ کرنے جیسی ہدایات دی گئی ہیں۔ نجی تجربات میں ایسے کئی واقعات شامل ہیں جن کا بیان یہاں خارج از موضوع ہوگا اور جدید علم سے بہرہ وَر بہت سے قارئین اسے کچھ اور سمجھیں گے۔
{معلوم نہیں کہ صبح ِ کاذب کے وقت پیش آنے والے غیرمعمولی روحانی واقعات کے لیے بھی کوئی محاورہ ہے کہ نہیں۔ برسوں پہلے خاکسار نے ایک مرتبہ رمضان شریف میں صبح کاذب کے وقت اپنی جامع مسجد (جامع مسجدغفران، بلاک سولہ، فیڈرل بی ایریا، کراچی) کے میدان میں بہت بڑا چاند مکمل آب تاب کے ساتھ دیکھا تھا (آب وتاب غلط)، جبکہ مہینے کی کوئی آخری تاریخ تھی اور بدرِکامل کا کوئی سائنسی امکان نہ تھا۔ اسی طرح کئی سال پہلے، ایک مرتبہ ایک ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ ہمارے علاقے گلشن اقبال میں فلاں تاریخ کو شام کے وقت، اُس نے کئی دیگر افراد کے ہمراہ ، چاند کا دو پھانکوں میں بٹے ہونے کا انتہائی عجیب، ناقابل یقین منظر دیکھا۔ وہ بے چارہ بیان کے وقت بھی بہت سہما ہوا تھا۔ خاکسار نے بڑی مشکل سے اس کی تشفی کی۔ اسی پر بس نہیں، خاکسار نے اپنے گھر واقع سٹی ولاز، اسکیم تینتیس میں منتقلی کے کچھ عرصے کے بعد، سامنے کئی میل کے فاصلے سے بہت عجیب، پُراسرار روشنیوں کا مظہر، باقی بہن بھائیوں کے ہمراہ دیکھا جو چند گھنٹے جاری رہا۔ اُن دنوں پاکستان ٹیلی وژن کے علاوہ کوئی دوسرا چینل موجود نہ تھا، جبکہ ایس ٹی این پر این ٹی ایم کی نشریات بھی آخری سانسیں لے رہی تھیں۔
۱۹۹۸ء میں اس واقعے کے رُونما ہونے پر خاکسار نے دو اخبارات میں ٹیلی فون کال کرکے اس کی اطلاع دی، یارلوگوں نے بات ہنسی مذاق میں ٹال دی}۔ بہرحال اس کتاب نے میری معلومات میں اچھا خاصہ اضافہ کیا۔ یہ اقتباس بھی دل چسپ ہے :''رات تھوڑی ہے، سانگ بہت ہے۔ سانگ ہمارے یہاں دیہاتی ڈرامہ (ڈراما) بھی ہے جو ایک طرح سے''سوانگ'' ڈرامہ (ڈراما) ہوتا ہے یعنی گیتوں بھرا تماشہ (تماشا)۔ اس کے علاوہ سانگ بھرنا بھی محاورہ ہے لباس وضع قطع تبدیل کرنا۔ نمودونمائش کے لئے جب ایسا کیا جا تا ہے تو اُسے کہتے ہیں کہ یہ کیا سانگ بھرا ہے یا وہ بہت''سانگ''بھرنے کا عادی ہے۔
یعنی جھوٹی سچی باتیں کرتا ہے۔ اِس کو سانگ کرنا وار بھرنا بولتے ہیں اور اسی نسبت سے کہا جاتا ہے کہ ابھی تو بہت سا''سانگ''باقی ہے اور یہ بھی کہ رات تھوڑی ہے اور سانگ بہت ہیں۔ چونکہ پچھلی صدی عیسوی تک ہمارے یہاں سانگ ڈرامہ کا رواج بہت تھا اور کبھی کبھی تو صبح ہوجاتی تھی اور ان کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا تھا، اسی طرف اِس محاورہ میں اشارہ کیا گیا ہے اور مراد یہ لی گئی ہے کہ وقت تھوڑا ہے کام بہت ہے۔''
رات کی بات کی جائے تو سُہاگ رات اور ہجر کی رات دونوں کی اپنی اہمیت مُسلّم ہے، نثر ونظم میں ایک انبار ہے حسن استعمال کی مثالوں کا، مگر اَب ہم بات کریں گے دن سے مہینے، سال اور صدی بننے کی۔ پہلے بات کرتے ہیں مہینے کی جسے عموماً مہینہ لکھا جاتا ہے، مگر درست املاء ہے: مہینا۔ اسے مختصراً ماہ بھی کہا جاتا ہے اور چاند کو بھی یہی نام دیا گیا ہے۔ کیا خوب کہہ گئے اپنے حسرتؔ موہانی: ؎ نہیں آتی تو یاد اُن کی مہینوں تک نہیں آتی/مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں۔
سال کے آغاز پر ہمیشہ کچھ نہ کچھ کہا جاتا ہے۔ پچھلے سال کو بُرا بھلا کہہ کر نئے سال سے نئی امیدیں اور توقعات وابستہ کرنا بھی عام ہے، مگر غالبؔ کہہ گئے ہیں: ؎ دیکھیے پاتے ہیں عُشّاق، بُتوں سے کیا فیض / اِک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے۔ اب آپ برہمن کی جگہ ٹی وی پروگرامز کی ''پتّے کھیلنے والی'' یعنی Taro cardکے ذریعے قسمت کا حال بتانے والی یا اٹکل پِچو میں علم نجوم کا رعب جھاڑنے والے کسی فاضل کو رکھ لیں جیسے '' .....نے کہا۔'' نئے سال کی آمد پر کہنے والے بہت کچھ کہتے ہیں۔ اپنی نوجوانی میں خاکسار نے ایک ہندوستانی شاعر شمیم ؔ کی ایک نظم اپنی ڈائری میں نقل کرنے کی بجائے، تراشہ ہی چسپاں کرلیا تھا (آج تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ شمیم جے پوری تھے، میرے قلمی دوست شمیم انجم وارثی ۔یا۔ کوئی اور شمیم)۔ اس کا ایک شعر بہت پسند آیا تھا: سُرخ رُو ہوں گے جواں عزم ہی رکھنے والے/وقت کا ہے یہی پیغام، نئے سال کے ساتھ۔ اب ایک اور جہت دیکھیے: یہ مشہور زمانہ شعر ہمارے فیس بک دوست، بزرگ معاصر ڈاکٹر فریاد آزر صاحب کے اولین شعری مجموعے ''خزاں میرا موسم'' میں شامل ہے جو کوئی چالیس برس پہلے شایع ہوا تھا: نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے /خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے۔
یہ شعر بہت سے ''فیس بک زدگان'' نے نقل کیا تو کیا، گزشتہ دنوں شاعر موصوف کے ایک دیرینہ دوست کے کلام میں بھی سہواً نقل یا شامل ہوگیا اور پھر جب بات چلی تو اُنھوں نے معذرت کرلی۔ توارد ہوگیا ہوگا، ورنہ .....سال کے تمام مہینے تقریباً یکساں ہوتے ہیں کہ تیس یا اکتیس دنوں پر مشتمل ہیں، مگر فروری میں عجیب مسئلہ پیدا کردیا گیا۔ اب جو شخص انتیس کو پیدا ہوا ہو، اُس کی تو سال گرہ ہی کبھی کبھار آتی ہے۔ سال گرہ منانا بھی عجیب ہے اور اس پر بحث بھی اتنی ہی عجیب۔ اپنا تو عقیدہ ہے کہ ؎ کیا لوگ خوشی کرتے ہیں، اس سال گرہ کی /یاں اَور گِرہ کٹ گئی، اِک اپنی گِرہ کی (شاعر نامعلوم)۔ اس سارے معاملے کو ایک اور طرح دیکھیں تو جوہرقابل کی تلاش میں بھی ہزاروں سال لگ جاتے ہیں، بقول اقبالؔ: ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے /بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا۔ اب یہاں وہ ضرب المثل شعر یاد کیجئے جس نے حساب کتاب کا جہاں پیدا کردیا ہے۔
تم سلامت رہو ہزار برس/ ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار۔ کبھی غور فرمایا آپ نے کہ اس حساب سے کُل کتنے دن کی زندگی ہوسکتی ہے؟ جناب ! یہ تعداد بنتی ہے : 50000000(پانچ کروڑ/پچا س ملین)۔ اب اگر کوئی اتنی عمر پاسکے تو اُس کا حال کیا ہوگا اور حُلیہ کیسا ہوگا؟ چشم تصور سے دیکھیں تو چکر آجائے۔ سو سال پورے ہوں تو ایک صدی بنتی ہے، مگر جب سن دو ہزار شمسی / عیسوی کا آغاز ہوا تو دنیا بھر میں بے شمار لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ نئی صدی شروع ہوگئی۔ اسی طرح نئے ہزارے یعنیMillenniumکے آغاز کا معاملہ بھی ہوا۔ صدی کا حسین استعمال ناصر ؔ کاظمی کے یہاں دیکھیے: ؎ انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ / یہاں جو حادثے کل ہوگئے ہیں۔ ایک اور مختلف شعر یہ بھی ہے: دو طرف تھا ہجوم صدیوں کا/ایک لمحہ سا درمیاں میں تھا (اعجاز اعظمی)۔
نصف صدی کے موضوع پر شاید سب سے عمدہ اور بے مثال شعر جدید اردومیں یہ ہے: تشکیل و تکمیل ِ فن میںجو بھی حفیظ ؔ کا حصہ ہے/نصف صدی کا قصہ ہے، دوچار برس کی بات نہیں {قندمکرر: حفیظ ؔ جالندھری کے خورد، ہمارے بزرگ معاصر جناب امجداسلام امجدؔ نے کسی محفل میں اُن کے روبرو اس شعر کا حُلیہ یوں بگاڑا تھا: تجہیز وتکفین ِ فن میں جو بھی حفیظؔ کا حصہ ہے.........}۔
(دوسرا اور آخری حصہ)
ہِلال یعنی پہلی تاریخ کا چاند اردو میں نسبتاً کم کم موضوع سخن رہا ہے۔ یہ دیکھیے کیا مضمون آفرینی ہے: ؎ ہلال عید کا ہم بہم دیکھتے ہیں /گلے مِل رہی ہیں ہماری نگاہیں۔ اور پھر سدا کے اداس شاعر یہ بھی کہہ گزرے: ؎ دیکھا ہلال عید تو احساس یہ ہوا / لو ایک سال اور جدائی میں کٹ گیا۔ علامہ اقبال نے تو بہ انداز ِدِگر یہ فرمادیا تھا: پیامِ عیش ومسرت ہمیں سناتا ہے/ہلالِ عید ہماری ہنسی اُڑاتا ہے (نظم: عید پر شعر لکھنے کی فرمائش کے جواب میں، مشمولہ 'بانگِ درا')۔ ہلال کو غرّہ بھی کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال کی نظم ہے: غرّۂ شوّال (یا ہلالِ عید)۔ بانگ ِدرا میں شامل اس نظم کا مطالعہ بھی مفید ہے کہ اس کے کئی اشعار مشہور بھی ہیں:
غرہ شوال! اے نور ِنگاہ ِروزہ دار
آ کہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار
تیری پیشانی پہ تحریر پیامِ عید ہے
شام تیری کیا ہے صبح ِعیش کی تمہید ہے
سرگزشتِ ملت بیضا کا تو آئینہ ہے
اے مہِ نو ہم کو تجھ سے الفت دیرینہ ہے
جس علم کے سائے میں تیغ آزما ہوتے تھے ہم
دشمنوں کے خون سے رنگیں قبا ہوتے تھے ہم
تیری قسمت میں ہم آغوشی اسی رایت کی ہے
حسن روز افزوں سے تیرے آبرو ملت کی ہے
آشنا پرور ہے قوم اپنی، وفا آئیِں ترا
ہے محبت خیز یہ پیراہن ِسیمیں ترا
اوج گردوں سے ذرا دنیا کی بستی دیکھ لے
اپنی رفعت سے ہمارے گھر کی پستی دیکھ لے
قافلے دیکھ اور ان کی برق رفتاری بھی دیکھ
رہرَوِ درماندہ کی منزل سے بیزاری بھی دیکھ
دیکھ کر تجھ کو افق پر ہم لٹاتے تھے گہر
اے تہی ساغر ہماری آج ناداری بھی دیکھ
فرقہ آرائی کی زنجیروں میں ہیں مسلم اسیر
اپنی آزادی بھی دیکھ، ان کی گرفتاری بھی دیکھ
دیکھ مسجد میں شکست ِرشتہ ِتسبیح ِشیخ
بت کدے میں برہمن کی پختہ زُنّاری بھی دیکھ
کافروں کی مسلم آئینی کا بھی نظارہ کر
اور اپنے مسلموں کی مسلم آزاری بھی دیکھ
بارش سنگ حوادث کا تماشائی بھی ہو
امت مرحوم کی آئینہ دیواری بھی دیکھ
ہاں تملق پیشگی دیکھ آبرو والوں کی تو
اور جو بے آبرو تھے ان کی خودداری بھی دیکھ
جس کو ہم نے آشنا لطفِ تکلم سے کیا
اس حریف ِبے زباں کی گرم گفتاری بھی دیکھ
ساز ِعشرت کی صدا، مغرب کے ایوانوں میں سن
اور، اِیراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
صورت ِآئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ
شورش ِامروز میں محوِسرودِدوش رہ
چاند سے چاندنی اور چاندنی رات یا شبِ مہتاب کا تصور جُڑا ہواہے۔ کیا ادب کیا سائنس، یہ موضوع گویا مجموعہ موضوعات ہے۔ ہر زبان میں اس موضوع پر بہت کچھ کہا گیا، لکھا گیا۔ چاند، اس کی روشنی اور اس کے مختلف نام ہر اہم شاعر کے موضوعاتِ سخن میں ہمیشہ شامل رہے۔
مصطفی زیدی نے کیا عجیب شعر کہا تھا: چاند سے شکوہ بہ لب ہوں کہ سُلایا کیوں تھا/میں کہ خورشیدِجہاں تاب کی ٹھوکر سے اُٹھا۔ یہ شعر مضمون آفرینی کا نادر شاہکار ہے۔ ہمارے عہد کے منفرد شاعر صہباؔ اختر بھی ایسے دو منفرد شعر کہہ گئے ہیں: چاند بھی اُس کا گرفتار، سورج بھی شکار/ہراُجالا مِرے محبوب کا دیوانہ ہے۔ چاند ہو، سورج ہو یا کوئی چراغِ رہ گزر/روشنی دیتا ہے جس کے دل میں جل اٹھتی ہے آگ۔
رات کا اجالا فقط چاند کا مرہون منت نہیں، بلکہ اس میں ایک اہم کردار ستاروں کا بھی ہے۔ جب ہم روانی میں ستارہ یا تارا کہتے ہیں تو عموماً سیارے بھی اس میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ یہ لفظ عربی کے اصل تلفظ کے مطابق ''سِیارَہ'' ہے جیسا کہ علامہ اقبال کے کلام میں بھی ایک جگہ استعمال ہوا ہے، مگر ہماری زبان میں بکثرت ''سَیّارَہ'' (یعنی حرف 'ی' پر تشدید کے ساتھ) رائج ہوچکا ہے۔
اسے کیا کہیے۔ خیر، پہلے ستارے کی بات ہوجائے۔ تاروں بھری رات کا سہانا تصور بھی ہماری نظم ونثر میں یکے ازمحبوب ومرغوب موضوعات ہے۔ نامور اردو شاعرہ وحید نسیم کا شعر ہے: چمک رہا ہے ستارہ جو نوکِ مژگاں پر/غمِ حیات، یہی تیری آبرو تو نہیں۔ کہیے کیسا منفرد نمونہ کلام ہے۔ آج کسی شوقین شاعرہ یا ادبی قاریہ سے پوچھیں تو عین ممکن ہے کہ اُسے یہ معلوم ہی نہ ہو کہ وحیدہ نسیم کون تھیں اور یہ کہ اُنھوں نے درس تدریس میں نام کمایا، شاعری میں مشہور ہوئیں اور پھر 'عورتوں کی زبان' کی منفرد فرہنگ اتنی محنت سے ترتیب دی کہ جوش ؔ ملیح آبادی جیسا کٹر ناقدو شاعر بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔
شام ڈھلتی ہے تو چاند، چاندنی، ستاروں، سیاروں، چراغوں اور مشعلوں نیز جگنوؤں کی افادیت نمایاں ہوتی ہے۔ شاعر یہاں بھی اپنی قلبی کیفیات دوسروں سے مختلف انداز میں کہہ اٹھتا ہے۔ قابلؔاجمیری کا شعر ہے: چراغ ِبزمِ ستم ہیں، ہمارا حال نہ پوچھ/جلے تھے، شام سے پہلے، بجھے ہیں شام کے بعد۔ اور وہ بھی تو ایک مشہور ِزمانہ شعر ہے: شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے /دل ہوا ہے چراغ مفلس کا۔ اس خاکسار نے شام کے موضوع پر بطور خاص یہ ہائیکو نظم کہہ کر اپنے معاصرین سے داد وصول کی تھی: لو پھر شام ہوئی/کوچہ کوچہ اِک وحشت/میرے نام ہوئی۔
شام ہی کے حوالے سے اس ہیچ مدآں کی یہ ہائیکو کہیں زیادہ داد وصول کرچکی ہے: ساحل پہ ہر شام /گیلی ریت پہ لکھتی ہے/پگلی تیرا نام۔ چاندنی کا ذکر کیے بغیر ہماری قدیم وجدید شاعری کا تذکرہ ادھورا رہتا ہے۔ احسان دانش جیسے منفرد سخنور کا یہ شعر گویا فردِفرید ہے: سب چاندنی سے خوش ہیں، کسی کو خبرنہیں/پھاہا ہے، ماہتاب کا گردوں کے گھاؤ پر (پھاہا وہی لفظ ہے جسے عام بول چال میں پھایا کہا جاتا ہے۔ گردوں سے مراد ہے آسمان)۔ تاروں کا مضمون بہ اندازِدگراِس شعر میں ملاحظہ فرمائیں: میری آنکھوں میں ہوں آنسو تو لہو کے قطرے/اُن کی آنکھوں میں ہوں آنسو تو ستارہ آنسو (میری یادداشت کے مطابق یہ پوری غزل ایک پرانے رسالے میں، ممتاز شاعر سُروربارہ بنکوی کے نام سے شایع ہوئی تھی)۔
یہ بیان تھا روشن رات کا، اس کے برعکس تاریک رات کی بات کی جائے تو اِس کے لیے 'اَماوَس ' کی رات بہت زیادہ مشہور یا بدنام ہے۔ ہمارے یہاں ایک ٹیلی وژن ڈرامے کا نام بھی 'اماوس' تھا جسے لوگوں نے کج فہمی کی بناء پر 'امّاں بس!' کہنا شروع کردیا تھا۔ اماوس سے مراد ہے قمری مہینے کی آخری رات جو ہندومَت کی تعلیمات کے مطابق بَدی کی رات ہے جس میں سورج اور چاند کا قِرآن یعنی ملاپ ہوتا ہے۔
توہم پرست یہ کہتے ہیں کہ اس رات میں خبائث خصوصاً جنّات کا اثر بڑھ جاتا ہے اور سفلی عملیات بھی زیادہ کیے جاتے ہیں۔ یہ لفظ ہندی اور اردو میں سنسکِرِت سے آیا اور ماقبل (ہزاروں سال پہلے) ویدک بولیوں میں موجود تھا۔ یعنی اتنا ہی قدیم ہے جتنی اردو کی جڑیں۔ ویسے تو ہمارے یہاں محاورے میں ''دونوں وقت ملنا'' بھی بہت اہم اور معانی خیز ہے۔ ''دونوں وقت ملنا شام کے وقت کے لئے کہا جاتا ہے اُردو کا مشہور مصرع ہے: ع: چلئے اب دونوں وقت ملتے ہیں، مگر یہ ایک طرح کا شاعرانہ اندازِ بیان ہے اور سماجی فکر پربھی اثرانداز ہوا ہے کہ جب دن رات مل رہے ہوں تو کوئی دوسرے درجہ کی بات نہ کہنی چاہئے یا کرنی چاہئے یہ وقت احتیاط کا تقاضہ کرتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب دن گزر جا تا ہے شام ہوجاتی ہے تو آدمی کو وقت کے گزرنے کا احساس زیادہ شدت سے ہوتا ہے جس کی طرف میر کا یہ شعر اشارہ کرتا ہے۔''
یہ اقتباس ہے ہندوستان سے شایع ہونے والی ایک وقیع کتاب بعنوان ''اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ ازڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی'' کا، مگر انھیں یہ علم نہیں کہ دونوں وقت ملنا یعنی غروب آفتاب کے وقت، حدیث شریف میں شیاطین کے خروج کے سبب، بچوں کو گھر میں رہنے اور بڑوں کو سفر شروع نہ کرنے جیسی ہدایات دی گئی ہیں۔ نجی تجربات میں ایسے کئی واقعات شامل ہیں جن کا بیان یہاں خارج از موضوع ہوگا اور جدید علم سے بہرہ وَر بہت سے قارئین اسے کچھ اور سمجھیں گے۔
{معلوم نہیں کہ صبح ِ کاذب کے وقت پیش آنے والے غیرمعمولی روحانی واقعات کے لیے بھی کوئی محاورہ ہے کہ نہیں۔ برسوں پہلے خاکسار نے ایک مرتبہ رمضان شریف میں صبح کاذب کے وقت اپنی جامع مسجد (جامع مسجدغفران، بلاک سولہ، فیڈرل بی ایریا، کراچی) کے میدان میں بہت بڑا چاند مکمل آب تاب کے ساتھ دیکھا تھا (آب وتاب غلط)، جبکہ مہینے کی کوئی آخری تاریخ تھی اور بدرِکامل کا کوئی سائنسی امکان نہ تھا۔ اسی طرح کئی سال پہلے، ایک مرتبہ ایک ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ ہمارے علاقے گلشن اقبال میں فلاں تاریخ کو شام کے وقت، اُس نے کئی دیگر افراد کے ہمراہ ، چاند کا دو پھانکوں میں بٹے ہونے کا انتہائی عجیب، ناقابل یقین منظر دیکھا۔ وہ بے چارہ بیان کے وقت بھی بہت سہما ہوا تھا۔ خاکسار نے بڑی مشکل سے اس کی تشفی کی۔ اسی پر بس نہیں، خاکسار نے اپنے گھر واقع سٹی ولاز، اسکیم تینتیس میں منتقلی کے کچھ عرصے کے بعد، سامنے کئی میل کے فاصلے سے بہت عجیب، پُراسرار روشنیوں کا مظہر، باقی بہن بھائیوں کے ہمراہ دیکھا جو چند گھنٹے جاری رہا۔ اُن دنوں پاکستان ٹیلی وژن کے علاوہ کوئی دوسرا چینل موجود نہ تھا، جبکہ ایس ٹی این پر این ٹی ایم کی نشریات بھی آخری سانسیں لے رہی تھیں۔
۱۹۹۸ء میں اس واقعے کے رُونما ہونے پر خاکسار نے دو اخبارات میں ٹیلی فون کال کرکے اس کی اطلاع دی، یارلوگوں نے بات ہنسی مذاق میں ٹال دی}۔ بہرحال اس کتاب نے میری معلومات میں اچھا خاصہ اضافہ کیا۔ یہ اقتباس بھی دل چسپ ہے :''رات تھوڑی ہے، سانگ بہت ہے۔ سانگ ہمارے یہاں دیہاتی ڈرامہ (ڈراما) بھی ہے جو ایک طرح سے''سوانگ'' ڈرامہ (ڈراما) ہوتا ہے یعنی گیتوں بھرا تماشہ (تماشا)۔ اس کے علاوہ سانگ بھرنا بھی محاورہ ہے لباس وضع قطع تبدیل کرنا۔ نمودونمائش کے لئے جب ایسا کیا جا تا ہے تو اُسے کہتے ہیں کہ یہ کیا سانگ بھرا ہے یا وہ بہت''سانگ''بھرنے کا عادی ہے۔
یعنی جھوٹی سچی باتیں کرتا ہے۔ اِس کو سانگ کرنا وار بھرنا بولتے ہیں اور اسی نسبت سے کہا جاتا ہے کہ ابھی تو بہت سا''سانگ''باقی ہے اور یہ بھی کہ رات تھوڑی ہے اور سانگ بہت ہیں۔ چونکہ پچھلی صدی عیسوی تک ہمارے یہاں سانگ ڈرامہ کا رواج بہت تھا اور کبھی کبھی تو صبح ہوجاتی تھی اور ان کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا تھا، اسی طرف اِس محاورہ میں اشارہ کیا گیا ہے اور مراد یہ لی گئی ہے کہ وقت تھوڑا ہے کام بہت ہے۔''
رات کی بات کی جائے تو سُہاگ رات اور ہجر کی رات دونوں کی اپنی اہمیت مُسلّم ہے، نثر ونظم میں ایک انبار ہے حسن استعمال کی مثالوں کا، مگر اَب ہم بات کریں گے دن سے مہینے، سال اور صدی بننے کی۔ پہلے بات کرتے ہیں مہینے کی جسے عموماً مہینہ لکھا جاتا ہے، مگر درست املاء ہے: مہینا۔ اسے مختصراً ماہ بھی کہا جاتا ہے اور چاند کو بھی یہی نام دیا گیا ہے۔ کیا خوب کہہ گئے اپنے حسرتؔ موہانی: ؎ نہیں آتی تو یاد اُن کی مہینوں تک نہیں آتی/مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں۔
سال کے آغاز پر ہمیشہ کچھ نہ کچھ کہا جاتا ہے۔ پچھلے سال کو بُرا بھلا کہہ کر نئے سال سے نئی امیدیں اور توقعات وابستہ کرنا بھی عام ہے، مگر غالبؔ کہہ گئے ہیں: ؎ دیکھیے پاتے ہیں عُشّاق، بُتوں سے کیا فیض / اِک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے۔ اب آپ برہمن کی جگہ ٹی وی پروگرامز کی ''پتّے کھیلنے والی'' یعنی Taro cardکے ذریعے قسمت کا حال بتانے والی یا اٹکل پِچو میں علم نجوم کا رعب جھاڑنے والے کسی فاضل کو رکھ لیں جیسے '' .....نے کہا۔'' نئے سال کی آمد پر کہنے والے بہت کچھ کہتے ہیں۔ اپنی نوجوانی میں خاکسار نے ایک ہندوستانی شاعر شمیم ؔ کی ایک نظم اپنی ڈائری میں نقل کرنے کی بجائے، تراشہ ہی چسپاں کرلیا تھا (آج تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ شمیم جے پوری تھے، میرے قلمی دوست شمیم انجم وارثی ۔یا۔ کوئی اور شمیم)۔ اس کا ایک شعر بہت پسند آیا تھا: سُرخ رُو ہوں گے جواں عزم ہی رکھنے والے/وقت کا ہے یہی پیغام، نئے سال کے ساتھ۔ اب ایک اور جہت دیکھیے: یہ مشہور زمانہ شعر ہمارے فیس بک دوست، بزرگ معاصر ڈاکٹر فریاد آزر صاحب کے اولین شعری مجموعے ''خزاں میرا موسم'' میں شامل ہے جو کوئی چالیس برس پہلے شایع ہوا تھا: نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے /خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے۔
یہ شعر بہت سے ''فیس بک زدگان'' نے نقل کیا تو کیا، گزشتہ دنوں شاعر موصوف کے ایک دیرینہ دوست کے کلام میں بھی سہواً نقل یا شامل ہوگیا اور پھر جب بات چلی تو اُنھوں نے معذرت کرلی۔ توارد ہوگیا ہوگا، ورنہ .....سال کے تمام مہینے تقریباً یکساں ہوتے ہیں کہ تیس یا اکتیس دنوں پر مشتمل ہیں، مگر فروری میں عجیب مسئلہ پیدا کردیا گیا۔ اب جو شخص انتیس کو پیدا ہوا ہو، اُس کی تو سال گرہ ہی کبھی کبھار آتی ہے۔ سال گرہ منانا بھی عجیب ہے اور اس پر بحث بھی اتنی ہی عجیب۔ اپنا تو عقیدہ ہے کہ ؎ کیا لوگ خوشی کرتے ہیں، اس سال گرہ کی /یاں اَور گِرہ کٹ گئی، اِک اپنی گِرہ کی (شاعر نامعلوم)۔ اس سارے معاملے کو ایک اور طرح دیکھیں تو جوہرقابل کی تلاش میں بھی ہزاروں سال لگ جاتے ہیں، بقول اقبالؔ: ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے /بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا۔ اب یہاں وہ ضرب المثل شعر یاد کیجئے جس نے حساب کتاب کا جہاں پیدا کردیا ہے۔
تم سلامت رہو ہزار برس/ ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار۔ کبھی غور فرمایا آپ نے کہ اس حساب سے کُل کتنے دن کی زندگی ہوسکتی ہے؟ جناب ! یہ تعداد بنتی ہے : 50000000(پانچ کروڑ/پچا س ملین)۔ اب اگر کوئی اتنی عمر پاسکے تو اُس کا حال کیا ہوگا اور حُلیہ کیسا ہوگا؟ چشم تصور سے دیکھیں تو چکر آجائے۔ سو سال پورے ہوں تو ایک صدی بنتی ہے، مگر جب سن دو ہزار شمسی / عیسوی کا آغاز ہوا تو دنیا بھر میں بے شمار لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ نئی صدی شروع ہوگئی۔ اسی طرح نئے ہزارے یعنیMillenniumکے آغاز کا معاملہ بھی ہوا۔ صدی کا حسین استعمال ناصر ؔ کاظمی کے یہاں دیکھیے: ؎ انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ / یہاں جو حادثے کل ہوگئے ہیں۔ ایک اور مختلف شعر یہ بھی ہے: دو طرف تھا ہجوم صدیوں کا/ایک لمحہ سا درمیاں میں تھا (اعجاز اعظمی)۔
نصف صدی کے موضوع پر شاید سب سے عمدہ اور بے مثال شعر جدید اردومیں یہ ہے: تشکیل و تکمیل ِ فن میںجو بھی حفیظ ؔ کا حصہ ہے/نصف صدی کا قصہ ہے، دوچار برس کی بات نہیں {قندمکرر: حفیظ ؔ جالندھری کے خورد، ہمارے بزرگ معاصر جناب امجداسلام امجدؔ نے کسی محفل میں اُن کے روبرو اس شعر کا حُلیہ یوں بگاڑا تھا: تجہیز وتکفین ِ فن میں جو بھی حفیظؔ کا حصہ ہے.........}۔