سیاسی جماعتوں نے سینٹ انتخابات کی بھرپور تیاریاں شروع کردیں
سیاسی مبصرین کے مطابق مارچ2021ء کے سینٹ کے یہ الیکشن بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر انتہائی دلچسپ ہونگے۔
بلوچستان میں سیاسی جماعتوں نے سینٹ کے انتخابات کی تیاریاں زور و شور سے شروع کردی ہیں۔
حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے پارٹی ٹکٹ کیلئے درخواستیں بھی طلب کر لیں۔ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ کے حصول کیلئے درجنوں اُمیدوار میدان میں اُتر آئے ہیں ۔ پارٹی ٹکٹ کیلئے درخواستیں حاصل کرنے اور انہیں جمع کرانے کیلئے فوٹو سیشن کا بھی باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے جبکہ پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے نہ صرف پارٹی قیادت کے ساتھ رابطے کئے جا رہے ہیں بلکہ لابنگ بھی کی جا رہی ہے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق حکمران جماعت بی اے پی کی قیادت کیلئے یقیناً مارچ میں منعقد ہونے والے سینٹ کے انتخابات ایک کڑا امتحان ہوگا کیونکہ سینٹ کے ان انتخابات میں حکمران جماعت بی اے پی کو اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی ایڈجسٹمنٹ کرنا ہوگی جس سے سینٹ کے ضمنی انتخابات میں بی اے پی کی قیادت نے وعدے کر رکھے ہیں۔
ان سیاسی حلقوں کے مطابق اتحادی جماعتوں کے ساتھ قول اور وعدوں کو مدنظر رکھا گیا تو ایڈجسٹمنٹ میں حکمران جماعت بی اے پی کو اپنی جماعت کے اُمیدواروں کو بھی محدود حصہ ملے گا جس کیلئے پارٹی کے اندر سے بھی قیادت کو دباؤ کا سامنا ہے کیونکہ بی اے پی میں وہ اُمیدوار بھی سرگرم ہیں جو کہ سینٹ سے ریٹائر ہو رہے ہیں اور دوبارہ قسمت آزمائی کیلئے پارٹی کی قیادت سے رابطوں میں ہیں جبکہ پارٹی کے بعض سرگرم عہدیداران و کارکن بھی ''اُمید'' سے ہیں کہ پارٹی اس بار نئے چہروں کو سامنے لائے گی؟
سیاسی حلقوں کے مطابق اپوزیشن سائیڈ پر بھی ہوم ورک کا آغازہو چکا ہے اپوزیشن جماعتیں بھی سینٹ کے آئندہ الیکشن کے حوالے سے اپنی حکمت عملی مرتب کرنے میں مصروف ہیں جام حکومت کی طرح متحدہ اپوزیشن بھی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ملکر سینٹ کے یہ الیکشن لڑے گی جس کیلئے اُن میں مشاورتی عمل کا آغاز ہو چکا ہے ۔
ان سیاسی حلقوں کے مطابق جہاں حکمران جماعت بی اے پی کو اندرونی طور پر سینٹ کے انتخابات کے حوالے سے دباؤ کا سامنا ہے وہاں اپوزیشن جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے ۔ سینٹ کے انتخابات میں پارٹی ٹکٹ کیلئے کئی پارٹی شخصیات سرگرم ہیں تاہم حتمی فیصلہ پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل مشاورت سے کریں گے ۔
ان سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی کیلئے بھی کوئی فیصلہ کرنا ''سیاسی پل صراط'' سے گزرنے کے مترادف ہوگا کیونکہ اپوزیشن جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کو بھی ماضی کے سینیٹ کے انتخابات کے دوران مارچ2021ء میں ریٹائر ہونے والے سینیٹر اور پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانزیب جمالدینی کو کامیاب کرانے کیلئے بی این پی عوامی سے مدد لینی پڑی تھی اور 2021ء کے سینیٹ الیکشن میں بی این پی عوامی بھی اپنے اُمیدوار کیلئے ایسی ہی مدد طلب کر رہی ہے جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام مارچ2021ء کے سینیٹ کے ان انتخابات میں ایڈجسٹمنٹ کر کے حصہ لیں گی جنہیں پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن کے ساتھ ساتھ ایک آزاد رکن نواب محمد اسلم رئیسانی کی بھی حمایت حاصل ہوگی ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق مارچ2021ء کے سینٹ کے یہ الیکشن بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر انتہائی دلچسپ ہونگے کیونکہ حکومتی اور اپوزیشن دونوں اطراف سے جو سیاسی شخصیات اپنی جگہ نہیں بنا پائیں گی وہ اپنی سیاسی وابستگیاں بھی تبدیل کر سکتی ہیں ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق مارچ2021ء کے سینیٹ الیکشن میں حکمران جماعت بی اے پی اور اپوزیشن جماعت بی این پی کی قیادت کو ایک بڑے سیاسی امتحان سے گزرنا ہوگا اور اُن کی قائدانہ صلاحیتوں کی جانچ بھی ہوگی دیکھنا یہ ہے کہ کون سی قیادت اپنی جماعت کو بچانے کے ساتھ ساتھ سینٹ کے اس الیکشن میں عددی اعتبار سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرخرو ہوتی ہے؟
ان سیاسی مبصرین کے مطابق سینیٹ الیکشن سے قبل 16 فروری کو بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی20 پشین میں ضمنی الیکشن کے دوران جام حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں پنجہ آزمائی ہوگی بلوچستان اسمبلی کا حلقہ پی بی20 پشین جمعیت عطاء اسلام (ف) کے سید فضل آغا کے انتقال کے باعث خالی ہوئی ہے۔
اس نشست پر حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے اس نشست پر 2018ء کے عام انتخابات میں دوسری پوزیشن پر آنے والی جماعت پشتونخواملی عوامی پارٹی نے پی ڈی ایم کی اتحادی جماعت جے یو آئی کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اپنا اُمیدوار کھڑا نہ کرنے کا فیصلہ کر کے پی ڈی ایم کی ایک اور اتحادی جماعت اے این پی کیلئے ایک ایسا سیاسی ترپ کا پتہ کھیلا ہے جس نے اے این پی کی صوبائی قیادت کو آزمائش میں ڈال دیا ہے کیونکہ2018ء میںاس نشست پر اے این پی کے اُمیدوار تیسرے نمبر پر تھے اور اے این پی اس وقت جام حکومت کی اتحادی جماعت اور دوسری جانب پی ڈی ایم کا حصہ ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اے این پی نے اس نشست پر اپنا اُمیدوار بھی کھڑا کیا ہے اور اے این پی کے مطابق پی ڈی ایم کی جماعت جے یو آئی(ف) اور اتحادی حکمران جماعت بی اے پی دونوں میں سے کسی نے بھی اُس سے ابھی تک رابطہ نہیں کیا ہے اس لئے وہ بدستور ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
سیاسی حلقے گذشتہ دنوں لورالائی میں جمعیت علماء اسلام کے زیر اہتمام پی ڈی ایم کے ایک اور پاور شو کو بھی بلوچستان کی مستقبل کی سیاست میں اہم سنگ میل قرار دے رہے ہیں لورالائی کے اس عوامی جلسے سے پی ڈی ایم کی قیادت 'جس میں مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی قابل ذکر ہیں' نے خطاب کیا اور تحریک انصاف کی حکومت کو ہدف تنقید بنایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں پاکستان کو آگے لے کر بڑھنا چاہتے ہیں عمران خان نے اس ملک کو تباہ کر دیا ہے اُنہیں اب جانا ہوگا۔
حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے پارٹی ٹکٹ کیلئے درخواستیں بھی طلب کر لیں۔ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ کے حصول کیلئے درجنوں اُمیدوار میدان میں اُتر آئے ہیں ۔ پارٹی ٹکٹ کیلئے درخواستیں حاصل کرنے اور انہیں جمع کرانے کیلئے فوٹو سیشن کا بھی باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے جبکہ پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے نہ صرف پارٹی قیادت کے ساتھ رابطے کئے جا رہے ہیں بلکہ لابنگ بھی کی جا رہی ہے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق حکمران جماعت بی اے پی کی قیادت کیلئے یقیناً مارچ میں منعقد ہونے والے سینٹ کے انتخابات ایک کڑا امتحان ہوگا کیونکہ سینٹ کے ان انتخابات میں حکمران جماعت بی اے پی کو اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی ایڈجسٹمنٹ کرنا ہوگی جس سے سینٹ کے ضمنی انتخابات میں بی اے پی کی قیادت نے وعدے کر رکھے ہیں۔
ان سیاسی حلقوں کے مطابق اتحادی جماعتوں کے ساتھ قول اور وعدوں کو مدنظر رکھا گیا تو ایڈجسٹمنٹ میں حکمران جماعت بی اے پی کو اپنی جماعت کے اُمیدواروں کو بھی محدود حصہ ملے گا جس کیلئے پارٹی کے اندر سے بھی قیادت کو دباؤ کا سامنا ہے کیونکہ بی اے پی میں وہ اُمیدوار بھی سرگرم ہیں جو کہ سینٹ سے ریٹائر ہو رہے ہیں اور دوبارہ قسمت آزمائی کیلئے پارٹی کی قیادت سے رابطوں میں ہیں جبکہ پارٹی کے بعض سرگرم عہدیداران و کارکن بھی ''اُمید'' سے ہیں کہ پارٹی اس بار نئے چہروں کو سامنے لائے گی؟
سیاسی حلقوں کے مطابق اپوزیشن سائیڈ پر بھی ہوم ورک کا آغازہو چکا ہے اپوزیشن جماعتیں بھی سینٹ کے آئندہ الیکشن کے حوالے سے اپنی حکمت عملی مرتب کرنے میں مصروف ہیں جام حکومت کی طرح متحدہ اپوزیشن بھی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ملکر سینٹ کے یہ الیکشن لڑے گی جس کیلئے اُن میں مشاورتی عمل کا آغاز ہو چکا ہے ۔
ان سیاسی حلقوں کے مطابق جہاں حکمران جماعت بی اے پی کو اندرونی طور پر سینٹ کے انتخابات کے حوالے سے دباؤ کا سامنا ہے وہاں اپوزیشن جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے ۔ سینٹ کے انتخابات میں پارٹی ٹکٹ کیلئے کئی پارٹی شخصیات سرگرم ہیں تاہم حتمی فیصلہ پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل مشاورت سے کریں گے ۔
ان سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی کیلئے بھی کوئی فیصلہ کرنا ''سیاسی پل صراط'' سے گزرنے کے مترادف ہوگا کیونکہ اپوزیشن جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کو بھی ماضی کے سینیٹ کے انتخابات کے دوران مارچ2021ء میں ریٹائر ہونے والے سینیٹر اور پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانزیب جمالدینی کو کامیاب کرانے کیلئے بی این پی عوامی سے مدد لینی پڑی تھی اور 2021ء کے سینیٹ الیکشن میں بی این پی عوامی بھی اپنے اُمیدوار کیلئے ایسی ہی مدد طلب کر رہی ہے جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام مارچ2021ء کے سینیٹ کے ان انتخابات میں ایڈجسٹمنٹ کر کے حصہ لیں گی جنہیں پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن کے ساتھ ساتھ ایک آزاد رکن نواب محمد اسلم رئیسانی کی بھی حمایت حاصل ہوگی ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق مارچ2021ء کے سینٹ کے یہ الیکشن بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر انتہائی دلچسپ ہونگے کیونکہ حکومتی اور اپوزیشن دونوں اطراف سے جو سیاسی شخصیات اپنی جگہ نہیں بنا پائیں گی وہ اپنی سیاسی وابستگیاں بھی تبدیل کر سکتی ہیں ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق مارچ2021ء کے سینیٹ الیکشن میں حکمران جماعت بی اے پی اور اپوزیشن جماعت بی این پی کی قیادت کو ایک بڑے سیاسی امتحان سے گزرنا ہوگا اور اُن کی قائدانہ صلاحیتوں کی جانچ بھی ہوگی دیکھنا یہ ہے کہ کون سی قیادت اپنی جماعت کو بچانے کے ساتھ ساتھ سینٹ کے اس الیکشن میں عددی اعتبار سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرخرو ہوتی ہے؟
ان سیاسی مبصرین کے مطابق سینیٹ الیکشن سے قبل 16 فروری کو بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی20 پشین میں ضمنی الیکشن کے دوران جام حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں پنجہ آزمائی ہوگی بلوچستان اسمبلی کا حلقہ پی بی20 پشین جمعیت عطاء اسلام (ف) کے سید فضل آغا کے انتقال کے باعث خالی ہوئی ہے۔
اس نشست پر حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے اس نشست پر 2018ء کے عام انتخابات میں دوسری پوزیشن پر آنے والی جماعت پشتونخواملی عوامی پارٹی نے پی ڈی ایم کی اتحادی جماعت جے یو آئی کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اپنا اُمیدوار کھڑا نہ کرنے کا فیصلہ کر کے پی ڈی ایم کی ایک اور اتحادی جماعت اے این پی کیلئے ایک ایسا سیاسی ترپ کا پتہ کھیلا ہے جس نے اے این پی کی صوبائی قیادت کو آزمائش میں ڈال دیا ہے کیونکہ2018ء میںاس نشست پر اے این پی کے اُمیدوار تیسرے نمبر پر تھے اور اے این پی اس وقت جام حکومت کی اتحادی جماعت اور دوسری جانب پی ڈی ایم کا حصہ ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اے این پی نے اس نشست پر اپنا اُمیدوار بھی کھڑا کیا ہے اور اے این پی کے مطابق پی ڈی ایم کی جماعت جے یو آئی(ف) اور اتحادی حکمران جماعت بی اے پی دونوں میں سے کسی نے بھی اُس سے ابھی تک رابطہ نہیں کیا ہے اس لئے وہ بدستور ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
سیاسی حلقے گذشتہ دنوں لورالائی میں جمعیت علماء اسلام کے زیر اہتمام پی ڈی ایم کے ایک اور پاور شو کو بھی بلوچستان کی مستقبل کی سیاست میں اہم سنگ میل قرار دے رہے ہیں لورالائی کے اس عوامی جلسے سے پی ڈی ایم کی قیادت 'جس میں مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی قابل ذکر ہیں' نے خطاب کیا اور تحریک انصاف کی حکومت کو ہدف تنقید بنایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں پاکستان کو آگے لے کر بڑھنا چاہتے ہیں عمران خان نے اس ملک کو تباہ کر دیا ہے اُنہیں اب جانا ہوگا۔