ہوا سے بخارات جذب کرکے تازہ پانی بنانے والا اسفنج
اسے ہوا سے پانی بنانے کےلیے دھوپ یا بجلی کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہوتی
نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے سائنسدانوں نے ایک ایسا ہلکا پھلکا اسفنج ایجاد کرلیا ہے جو ہوا میں موجود بخارات کو جذب کرکے براہِ راست صاف اور پینے کے قابل پانی میں تبدیل کرتا ہے جبکہ اس پورے عمل میں کسی بھی قسم کی بجلی یا دھوپ کی ضرورت نہیں پڑتی۔
یہ اسفنج بہت ہلکا اور نرم ہے جس کا شمار ''ایئروجیل'' قسم کے مادّوں میں کیا جاتا ہے۔
البتہ، اس ایئروجیل کی تیاری میں ''میٹل آرگینک فریم ورک'' (ایم او ایس) کہلانے والا ایک پائیدار کیمیائی مادّہ استعمال کیا گیا ہے جس کی سالماتی ساخت (مالیکیولر اسٹرکچر) ایک پنجرے جیسی ہوتی ہے جبکہ اس کی کثافت (ڈینسٹی) بھی بہت کم ہوتی ہے؛ یعنی اس مادّے کی تھوڑی مقدار بھی بہت زیادہ جگہ گھیرتی ہے۔
ایم او ایس کی ایک اور اضافی خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ ایک طرف سے پانی کو کشش کرنے (اپنی طرف کھینچنے) اور دوسری طرف سے دفع کرنے (خود سے دور کرنے) کی قدرتی صلاحیت رکھتا ہے۔
سنگاپور کے ماہرین نے ایم او ایس کی اسی خاصیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے نئے اسفنج میں استعمال کیا ہے جو ہوا میں نمی (آبی بخارات) کو ایک طرف سے جذب کرتا ہے، پانی میں تبدیل کرتا ہے اور دوسری طرف سے اس پانی کو نکال باہر کرتا ہے۔
چونکہ یہ پانی کے علاوہ کوئی اور بخارات جذب نہیں کرتا، لہذا اس سے حاصل ہونے والا پانی بھی بالکل خالص ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح حاصل شدہ پانی، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے متعین کردہ معیارات کے مقابلے میں بھی زیادہ صاف ستھرا ہوتا ہے۔
تجربات کے دوران یہ اسفنج 1440 گھنٹوں تک کامیابی سے آزمایا گیا جس سے معلوم ہوا کہ اگر ہوا میں نمی زیادہ ہو تو اس اسفنج کا صرف ایک کلوگرام پورے دن میں ہوا سے 17 لیٹر پانی بنا سکتا ہے؛ تاہم بہت کم کثافت کی وجہ سے اس اسفنج کی ایک کلوگرام مقدار بھی بہت بڑی جگہ گھیرے گی جو اوسط جسامت والے نصف کمرے جتنی ہوگی۔
یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ خشک اور صحرائی علاقوں میں یہ اسفنج کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے، لیکن اپنی موجودہ حالت میں یہ ایسے علاقوں کےلیے یقیناً مفید ہے جہاں پر ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ رہتا ہو مگر پینے کا صاف پانی نایاب بھی ہو۔
نوٹ: اس ایجاد کی تفصیل ریسرچ جرنل ''سائنس ایڈوانسز'' کے ایک حالیہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
یہ اسفنج بہت ہلکا اور نرم ہے جس کا شمار ''ایئروجیل'' قسم کے مادّوں میں کیا جاتا ہے۔
البتہ، اس ایئروجیل کی تیاری میں ''میٹل آرگینک فریم ورک'' (ایم او ایس) کہلانے والا ایک پائیدار کیمیائی مادّہ استعمال کیا گیا ہے جس کی سالماتی ساخت (مالیکیولر اسٹرکچر) ایک پنجرے جیسی ہوتی ہے جبکہ اس کی کثافت (ڈینسٹی) بھی بہت کم ہوتی ہے؛ یعنی اس مادّے کی تھوڑی مقدار بھی بہت زیادہ جگہ گھیرتی ہے۔
ایم او ایس کی ایک اور اضافی خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ ایک طرف سے پانی کو کشش کرنے (اپنی طرف کھینچنے) اور دوسری طرف سے دفع کرنے (خود سے دور کرنے) کی قدرتی صلاحیت رکھتا ہے۔
سنگاپور کے ماہرین نے ایم او ایس کی اسی خاصیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے نئے اسفنج میں استعمال کیا ہے جو ہوا میں نمی (آبی بخارات) کو ایک طرف سے جذب کرتا ہے، پانی میں تبدیل کرتا ہے اور دوسری طرف سے اس پانی کو نکال باہر کرتا ہے۔
چونکہ یہ پانی کے علاوہ کوئی اور بخارات جذب نہیں کرتا، لہذا اس سے حاصل ہونے والا پانی بھی بالکل خالص ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح حاصل شدہ پانی، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے متعین کردہ معیارات کے مقابلے میں بھی زیادہ صاف ستھرا ہوتا ہے۔
تجربات کے دوران یہ اسفنج 1440 گھنٹوں تک کامیابی سے آزمایا گیا جس سے معلوم ہوا کہ اگر ہوا میں نمی زیادہ ہو تو اس اسفنج کا صرف ایک کلوگرام پورے دن میں ہوا سے 17 لیٹر پانی بنا سکتا ہے؛ تاہم بہت کم کثافت کی وجہ سے اس اسفنج کی ایک کلوگرام مقدار بھی بہت بڑی جگہ گھیرے گی جو اوسط جسامت والے نصف کمرے جتنی ہوگی۔
یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ خشک اور صحرائی علاقوں میں یہ اسفنج کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے، لیکن اپنی موجودہ حالت میں یہ ایسے علاقوں کےلیے یقیناً مفید ہے جہاں پر ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ رہتا ہو مگر پینے کا صاف پانی نایاب بھی ہو۔
نوٹ: اس ایجاد کی تفصیل ریسرچ جرنل ''سائنس ایڈوانسز'' کے ایک حالیہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔