مچھلی کا شکار محبوب مشغلہ رہا حاجی محمد جاوید میمن
معیارِتعلیم بلند کیے بغیر ترقی کی باتیں کرنا فقط ذہنی عیاشی ہے، حاجی محمد جاوید میمن
پڑھائی میں بالکل جی نہیں لگتا تھا۔ اسکول سے بھاگ جاتے۔ میٹرک تک ہی تعلیم حاصل کرسکے۔ عملی زندگی میں تو کئی کام یابیاں حاصل کیں، مگر تعلیم مکمل نہ کرنے کا آج بھی قلق ہے۔ یقین رکھتے ہیں کہ تعلیم ملکی مسائل کا اکلوتا حل ہے!
یہ تذکرہ ہے سکھر اسمال ٹریڈرز اور صرافہ بازار ایسوسی ایشن، سکھر کے صدر، حاجی محمد جاوید میمن کا، جو مسائل میں گھِری تاجر برادری کی امیدوں کا محور بن چکے ہیں۔ انھوں نے انتہائی مختصر وقت میں کام یابی کی سیڑھیاں عبور کیں۔ آج اُن کا شمار سکھر کے اہم جیولرز میں کیا جاتا ہے۔
محمد جاوید میمن نے 5 مارچ 1968 کو کپڑے کے تاجر، محمد ہارون میمن کے گھر آنکھ کھولی۔ تین بہن، تین بھائیوں میں وہ دوسرے ہیں۔ دیگر بھائیوں (حافظ محمد ندیم اور محمد شاہد میمن) نے بھی کپڑے کا کاروبار اختیار کیا۔ ابتدائی تعلیم ایس ایم اے ہائی اسکول سے حاصل کی۔ 1985 میں میٹرک کی سند حاصل کی۔
زمانۂ طالب علمی کی یادیں کھنگالتے ہوئے جاوید میمن کہتے ہیں،''مجھے پڑھنے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا۔ موقع ملتے ہی اسکول سے بھاگ جاتا۔ دوستوں کے ساتھ گھومتا پھرتا۔ دریا سے مچھلی پکڑتا۔ اس زمانے میں مچھلی کا شکار اور دوستوں سے گپ شپ کرنا میرا محبوب مشغلہ تھا۔'' پڑھائی میں ضرور کم زور تھے، مگر کھیل کے میدان میں آگے آگے رہے۔ فٹ بال کے شائق تھے۔ اسکول کی ٹیم کی کپتانی کی۔ ٹی وی سے نشر ہونے والے میچز خصوصی توجہ سے دیکھا کرتے تھے۔
میٹرک کے بعد والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے کاروباری دنیا میں قدم رکھا۔ دس سال تک والد صاحب کے ساتھ رہے۔ پھر فیلڈ بدلنے کا فیصلہ کیا۔ دوستوں کے مشورے پر سنار کا پیشہ چُنا۔ کہتے ہیں،''تربیت کے ابتدائی ایام میں مجھے آٹھ سو روپے ماہانہ ملا کرتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ تن خواہ اور مہارت میں اضافہ ہوتا گیا۔ مختلف تاجروں کے یہاں ملازمت کرنے کے بعد ذاتی کاروبار کا آغاز کیا۔ زیورات کی دکان کر لی۔ اپنی محنت، لگن اور جذبے سے یہ رتبہ پایا کہ آج بالائی سندھ کے بڑے تاجروں میں شمار ہوتا ہے۔''
یہاں اُن کے والد کا تذکرہ آیا۔ کہنے لگے، انھوں نے ہر مقام پر راہ نمائی کی، ہر موڑ پر اُن کی معاونت حاصل رہی۔ اُن کی ڈانٹ سے ڈرتے بھی بہت تھے۔ ''اگر کوئی غلطی ہوجاتی، تو میری کوشش ہوتی کہ والد صاحب کا سامنا نہ کروں، مگر میرے گھر میں داخل ہوتے ہی والدہ اُنھیں مطلع کر دیتیں۔ پھر خوب ڈانٹ پڑتی، مگر اُن کی ڈانٹ سے بہت کچھ سکھایا بھی۔ آج جو کچھ ہوں، ان ہی کی تربیت کی بدولت ہوں۔''
کاروباری دنیا میں سکّہ جمانے کے بعد، اب سے دس برس قبل، وہ تاجر تنظیموں کی سیاست کی جانب متوجہ ہوئے۔ اس برادری کی مشکلات کے سدباب کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا۔ بہ قول ان کے،''کوششوں کا مثبت نتیجہ سامنے آیا۔ لوگوں کا اعتبار جیتا۔ اﷲ کے کرم سے آج سکھر اسمال ٹریڈرز اور صرافہ بازار ایسوسی ایشن کا صدر ہوں۔ سکھر کے مختلف بازاروں اور دیگر اضلاع کی تاجر تنظیمیں سکھر اسمال ٹریڈرز میں ضم ہورہی ہیں۔ یہ ہماری بڑی کام یابی ہے۔ مفاد پرست ٹولا اس بات سے خوف زدہ ہے۔''
سیاست دانوں سے وہ مایوس نظر آتے ہیں۔ کہنا ہے، کرپشن اور میرٹ کو نظر انداز کرنا ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ''یہ عوامل ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اِس کی بنیادی وجہ وہ منتخب نمایندے ہیں، جو غریب عوام کے ووٹ لے کر ایوانوں میں پہنچتے ہیں، مگر ان کی اکلوتی ترجیح مفادات کا حصول ہوتا ہے۔'' خواہش ہے کہ ان تمام افراد کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔
دُکھی ضرور ہیں، مگر ناامید نہیں۔ بہ قول اُن کے، اگر ادارے ایمان داری سے اپنا کام کریں، تو بہت سے مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ''دنیا کے کئی ممالک پاکستان سے بھی بدتر حالات سے گزرے۔ وہاں انصاف کی فراہمی سے بہتری آئی۔ میں حالات کی بہتری کے لیے پُرامید ہوں۔ اگر مخلص حکم راں ہوں، کڑا احتساب کیا جائے، تو مسائل حل ہوسکتے ہیں۔''
تعلیم کو وہ تبدیلی اور ترقی کی کلید گردانتے ہیں۔ دنیا کے تمام مسائل کی جڑ، اُن کے نزدیک جہالت ہے۔ ''اگرچہ میں خود تعلیم مکمل نہیں کرسکا، مگر اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ترقی اور بدلتے زمانے کے ساتھ چلنے کے لیے تعلیم شرط ہے۔ تعلیم کے بغیر ہم کچھ نہیں۔ معیار تعلیم بلند کیے بغیر ترقی کی باتیں کرنا فقط ذہنی عیاشی ہے۔ پاکستان میں کرپشن، بدامنی، لوٹ مار، دہشت گردی، بھوک، افلاس اور جہالت سمیت تمام بحرانوں اور مسائل کا حل تعلیم میں مضمر ہے۔''
ان کے مطابق گذشتہ ایک دہائی کے دوران اس ضلعے میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے، مگر اُن کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچے، جس کی بنیادی وجہ سیاسی بنیادوں پر ٹھیکوں کی تقسیم اور متعلقہ محکموں کی مجرمانہ غفلت ہے۔ ''ہر آنے والی حکومت تاجروں سے مذاکرات کرتی ہے۔ نئے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں، مگر حالات نہیں بدلتے۔ گذشتہ دونوں کمشنر سکھر کی جانب سے ایک مرتبہ پھر سکھر کا ماسٹر پلان تیار کرنے کا اعلان کیا گیا۔ سروے بھی آخری مراحل میں ہے، مگر حکم رانوں سے یہ کوئی نہیں پو چھتا کہ ماسٹر پلان سے قبل جو ترقیاتی کام شروع کیے گئے، اُن کا کیا ہوا۔ اُن منصوبے کی ناکامی کا ذمے دار کون ہے۔''
توانائی کا بحران اُن کے نزدیک سکھر کو درپیش گمبھیرترین مسئلہ ہے۔ اِس پر قابو پانے کے لیے بجلی چوری کی روک تھام ضروری ہے۔ ''یہاں کے تمام اہل کاروں کا تبادلہ کرکے دیگر شہروں کے ملازمین سکھر میں تعینات کیے جائیں۔ ریجنل کسٹمر سینٹر میں تعینات افسران کو اضافی 500 یونٹ تک ختم کرنے، اور آسان اقساط کرنے کے اختیارات دیے جائیں، تاکہ سکھر کو کچھ ریلیف مل سکے۔''
تجارتی سرگرمیاں، تاجروں کے مسائل زیر بحث آئے، تو کہنے لگے،''سکھر تین صوبوں کے سنگم پر واقع ہے۔ تجارتی نقطۂ نگاہ سے انتہائی اہم۔ یہاں کے تاجر بھاری ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ سندھ میں کراچی کے بعد یہ دوسری بڑی منڈی ہے، مگر یہاں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔''
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے خاصی شکایت ہے۔ اُن کے نزدیک ٹیکس وصولی اور ریٹرن فارم جمع کرانے کے معاملے نے تاجر برادری کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دیں۔ ''تاجر برادری ٹیکس ادا کر کے ملکی معیشت کی بہتری میں کردار ادا کرتی ہے۔ اگر حکومت محصولات میں اضافہ چاہتی ہے، تو انھیں تاجر اور صنعت کاروں کی تجاویز پر عمل کرنا ہوگا، تب ہی بہتری پیدا ہوسکتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوا، توکرپشن میں اضافہ ہوگا۔ ایک جانب یہ مسائل ہیں، دوسری جانب غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ۔ تاجر اور صارفین شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ ہم نے وفاقی حکومت کو کئی تجاویز دیں، مگر کسی پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔''
فروری 1990 میں ان کی شادی ہوئی۔ تین برس بعد خدا نے بیٹے سے نوازا، جس کا نام محمد دانش رکھا گیا۔ پھر مریم، یاسر اور جویریہ نے اُن کے گھر آنکھ کھولی۔ سردی کے موسم سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ موسم سرما میں بچوں کے ساتھ یخنی اور چکن کارن سوپ پینے نکلتے ہیں۔ بہ قول اُن کے،''مصروفیات اپنی جگہ، مگر چھٹی کا دن بچوں کے ساتھ گزرتا ہوں۔''
پہناوے میں شلوارقمیص پسند ہے۔ ٹاک شوز توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ این جی اوز کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ فارغ وقت میں نورجہاں اور نیرہ نور کے گانے سنتے ہیں۔ نام وَر ایٹمی سائنس داں، ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے متاثر ہیں۔ کہتے ہیں،''ہماری بدقسمتی ہے کہ جس شخص نے قوم کا نام روشن کیا، اس مہربان کو ہم نے کنارہ کشی پر مجبور کردیا۔''
یہ تذکرہ ہے سکھر اسمال ٹریڈرز اور صرافہ بازار ایسوسی ایشن، سکھر کے صدر، حاجی محمد جاوید میمن کا، جو مسائل میں گھِری تاجر برادری کی امیدوں کا محور بن چکے ہیں۔ انھوں نے انتہائی مختصر وقت میں کام یابی کی سیڑھیاں عبور کیں۔ آج اُن کا شمار سکھر کے اہم جیولرز میں کیا جاتا ہے۔
محمد جاوید میمن نے 5 مارچ 1968 کو کپڑے کے تاجر، محمد ہارون میمن کے گھر آنکھ کھولی۔ تین بہن، تین بھائیوں میں وہ دوسرے ہیں۔ دیگر بھائیوں (حافظ محمد ندیم اور محمد شاہد میمن) نے بھی کپڑے کا کاروبار اختیار کیا۔ ابتدائی تعلیم ایس ایم اے ہائی اسکول سے حاصل کی۔ 1985 میں میٹرک کی سند حاصل کی۔
زمانۂ طالب علمی کی یادیں کھنگالتے ہوئے جاوید میمن کہتے ہیں،''مجھے پڑھنے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا۔ موقع ملتے ہی اسکول سے بھاگ جاتا۔ دوستوں کے ساتھ گھومتا پھرتا۔ دریا سے مچھلی پکڑتا۔ اس زمانے میں مچھلی کا شکار اور دوستوں سے گپ شپ کرنا میرا محبوب مشغلہ تھا۔'' پڑھائی میں ضرور کم زور تھے، مگر کھیل کے میدان میں آگے آگے رہے۔ فٹ بال کے شائق تھے۔ اسکول کی ٹیم کی کپتانی کی۔ ٹی وی سے نشر ہونے والے میچز خصوصی توجہ سے دیکھا کرتے تھے۔
میٹرک کے بعد والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے کاروباری دنیا میں قدم رکھا۔ دس سال تک والد صاحب کے ساتھ رہے۔ پھر فیلڈ بدلنے کا فیصلہ کیا۔ دوستوں کے مشورے پر سنار کا پیشہ چُنا۔ کہتے ہیں،''تربیت کے ابتدائی ایام میں مجھے آٹھ سو روپے ماہانہ ملا کرتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ تن خواہ اور مہارت میں اضافہ ہوتا گیا۔ مختلف تاجروں کے یہاں ملازمت کرنے کے بعد ذاتی کاروبار کا آغاز کیا۔ زیورات کی دکان کر لی۔ اپنی محنت، لگن اور جذبے سے یہ رتبہ پایا کہ آج بالائی سندھ کے بڑے تاجروں میں شمار ہوتا ہے۔''
یہاں اُن کے والد کا تذکرہ آیا۔ کہنے لگے، انھوں نے ہر مقام پر راہ نمائی کی، ہر موڑ پر اُن کی معاونت حاصل رہی۔ اُن کی ڈانٹ سے ڈرتے بھی بہت تھے۔ ''اگر کوئی غلطی ہوجاتی، تو میری کوشش ہوتی کہ والد صاحب کا سامنا نہ کروں، مگر میرے گھر میں داخل ہوتے ہی والدہ اُنھیں مطلع کر دیتیں۔ پھر خوب ڈانٹ پڑتی، مگر اُن کی ڈانٹ سے بہت کچھ سکھایا بھی۔ آج جو کچھ ہوں، ان ہی کی تربیت کی بدولت ہوں۔''
کاروباری دنیا میں سکّہ جمانے کے بعد، اب سے دس برس قبل، وہ تاجر تنظیموں کی سیاست کی جانب متوجہ ہوئے۔ اس برادری کی مشکلات کے سدباب کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا۔ بہ قول ان کے،''کوششوں کا مثبت نتیجہ سامنے آیا۔ لوگوں کا اعتبار جیتا۔ اﷲ کے کرم سے آج سکھر اسمال ٹریڈرز اور صرافہ بازار ایسوسی ایشن کا صدر ہوں۔ سکھر کے مختلف بازاروں اور دیگر اضلاع کی تاجر تنظیمیں سکھر اسمال ٹریڈرز میں ضم ہورہی ہیں۔ یہ ہماری بڑی کام یابی ہے۔ مفاد پرست ٹولا اس بات سے خوف زدہ ہے۔''
سیاست دانوں سے وہ مایوس نظر آتے ہیں۔ کہنا ہے، کرپشن اور میرٹ کو نظر انداز کرنا ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ''یہ عوامل ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اِس کی بنیادی وجہ وہ منتخب نمایندے ہیں، جو غریب عوام کے ووٹ لے کر ایوانوں میں پہنچتے ہیں، مگر ان کی اکلوتی ترجیح مفادات کا حصول ہوتا ہے۔'' خواہش ہے کہ ان تمام افراد کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔
دُکھی ضرور ہیں، مگر ناامید نہیں۔ بہ قول اُن کے، اگر ادارے ایمان داری سے اپنا کام کریں، تو بہت سے مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ''دنیا کے کئی ممالک پاکستان سے بھی بدتر حالات سے گزرے۔ وہاں انصاف کی فراہمی سے بہتری آئی۔ میں حالات کی بہتری کے لیے پُرامید ہوں۔ اگر مخلص حکم راں ہوں، کڑا احتساب کیا جائے، تو مسائل حل ہوسکتے ہیں۔''
تعلیم کو وہ تبدیلی اور ترقی کی کلید گردانتے ہیں۔ دنیا کے تمام مسائل کی جڑ، اُن کے نزدیک جہالت ہے۔ ''اگرچہ میں خود تعلیم مکمل نہیں کرسکا، مگر اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ترقی اور بدلتے زمانے کے ساتھ چلنے کے لیے تعلیم شرط ہے۔ تعلیم کے بغیر ہم کچھ نہیں۔ معیار تعلیم بلند کیے بغیر ترقی کی باتیں کرنا فقط ذہنی عیاشی ہے۔ پاکستان میں کرپشن، بدامنی، لوٹ مار، دہشت گردی، بھوک، افلاس اور جہالت سمیت تمام بحرانوں اور مسائل کا حل تعلیم میں مضمر ہے۔''
ان کے مطابق گذشتہ ایک دہائی کے دوران اس ضلعے میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے، مگر اُن کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچے، جس کی بنیادی وجہ سیاسی بنیادوں پر ٹھیکوں کی تقسیم اور متعلقہ محکموں کی مجرمانہ غفلت ہے۔ ''ہر آنے والی حکومت تاجروں سے مذاکرات کرتی ہے۔ نئے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں، مگر حالات نہیں بدلتے۔ گذشتہ دونوں کمشنر سکھر کی جانب سے ایک مرتبہ پھر سکھر کا ماسٹر پلان تیار کرنے کا اعلان کیا گیا۔ سروے بھی آخری مراحل میں ہے، مگر حکم رانوں سے یہ کوئی نہیں پو چھتا کہ ماسٹر پلان سے قبل جو ترقیاتی کام شروع کیے گئے، اُن کا کیا ہوا۔ اُن منصوبے کی ناکامی کا ذمے دار کون ہے۔''
توانائی کا بحران اُن کے نزدیک سکھر کو درپیش گمبھیرترین مسئلہ ہے۔ اِس پر قابو پانے کے لیے بجلی چوری کی روک تھام ضروری ہے۔ ''یہاں کے تمام اہل کاروں کا تبادلہ کرکے دیگر شہروں کے ملازمین سکھر میں تعینات کیے جائیں۔ ریجنل کسٹمر سینٹر میں تعینات افسران کو اضافی 500 یونٹ تک ختم کرنے، اور آسان اقساط کرنے کے اختیارات دیے جائیں، تاکہ سکھر کو کچھ ریلیف مل سکے۔''
تجارتی سرگرمیاں، تاجروں کے مسائل زیر بحث آئے، تو کہنے لگے،''سکھر تین صوبوں کے سنگم پر واقع ہے۔ تجارتی نقطۂ نگاہ سے انتہائی اہم۔ یہاں کے تاجر بھاری ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ سندھ میں کراچی کے بعد یہ دوسری بڑی منڈی ہے، مگر یہاں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔''
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے خاصی شکایت ہے۔ اُن کے نزدیک ٹیکس وصولی اور ریٹرن فارم جمع کرانے کے معاملے نے تاجر برادری کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دیں۔ ''تاجر برادری ٹیکس ادا کر کے ملکی معیشت کی بہتری میں کردار ادا کرتی ہے۔ اگر حکومت محصولات میں اضافہ چاہتی ہے، تو انھیں تاجر اور صنعت کاروں کی تجاویز پر عمل کرنا ہوگا، تب ہی بہتری پیدا ہوسکتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوا، توکرپشن میں اضافہ ہوگا۔ ایک جانب یہ مسائل ہیں، دوسری جانب غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ۔ تاجر اور صارفین شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ ہم نے وفاقی حکومت کو کئی تجاویز دیں، مگر کسی پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔''
فروری 1990 میں ان کی شادی ہوئی۔ تین برس بعد خدا نے بیٹے سے نوازا، جس کا نام محمد دانش رکھا گیا۔ پھر مریم، یاسر اور جویریہ نے اُن کے گھر آنکھ کھولی۔ سردی کے موسم سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ موسم سرما میں بچوں کے ساتھ یخنی اور چکن کارن سوپ پینے نکلتے ہیں۔ بہ قول اُن کے،''مصروفیات اپنی جگہ، مگر چھٹی کا دن بچوں کے ساتھ گزرتا ہوں۔''
پہناوے میں شلوارقمیص پسند ہے۔ ٹاک شوز توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ این جی اوز کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ فارغ وقت میں نورجہاں اور نیرہ نور کے گانے سنتے ہیں۔ نام وَر ایٹمی سائنس داں، ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے متاثر ہیں۔ کہتے ہیں،''ہماری بدقسمتی ہے کہ جس شخص نے قوم کا نام روشن کیا، اس مہربان کو ہم نے کنارہ کشی پر مجبور کردیا۔''