ایک قاتل کے انتظار میں

کالم کے مضمون سے پہلے اس کے عنوان ذہن میں آئے۔ پہلا عنوان تھا ’’قاتل کی تلاش‘‘ دوسرا تھا...


Abdul Qadir Hassan January 01, 2014
[email protected]

KARACHI: کالم کے مضمون سے پہلے اس کے عنوان ذہن میں آئے۔ پہلا عنوان تھا ''قاتل کی تلاش'' دوسرا تھا ''عوام کا انتقام'' پھر اس طرح کے دو چار اور عنوان لیکن متن اور نفس مضمون ایک ہی کہ قوم کو زندہ رکھنے کے لیے اسے حکمران طبقے یعنی اشرافیہ' بدمعاشیہ اور کھوٹے سکوں سے نجات کیسے دلائی جائے کیونکہ قوم کے طاقت ور دشمن سرگرم ہو چکے ہیں۔ یہ جو دہشت گردی کا سلسلہ ہے یہ چند سر پھروں یا کسی خاص نظرئیے والوں کا عمل نہیں ہے بلکہ یہ دشمن کا ایک طے شدہ منصوبہ ہے۔

پہلا منصوبہ تو یہ تھا کہ اس ملک کو جنگوں میں الجھا کر اس کا لہو نچوڑ لیا جائے اور اس کا ڈھانچہ پرے کسی گندے نالے میں پھینک دیا جائے لیکن جب اس ملک نے ایٹم بم بنا لیا تو جنگ والا منصوبہ لپیٹ کر الگ رکھ دیا گیا تاکہ بوقت ضرورت کام میں لایا جائے فی الحال دوسرے طریقوں سے اس دشمن کا خون نچوڑا جائے۔ اس نئے منصوبے کے دو پہلو ہیں ایک تو بھارت اور پاکستان کی جداگانہ حیثیت کو متنازعہ بنا دیا جائے اور یہ سوال اٹھایا جائے کہ اس تقسیم کا فائدہ ہی کیا ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد کا ایک پھٹا پرانا ایک احراری صحافی کے ساتھ انٹرویو کو دوبارہ شایع کیا جائے جس میں پاکستان کی بقا کے بارے میں شکوک پیدا کیے جائیں اور اس کے قیام کو برصغیر کے مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کے خلاف ثابت کیا جائے۔ دوسرا نظریہ پاکستان کو کمزور اور ناتواں کرنے کے لیے اس پر ثقافتی یلغار کی جائے۔ اس پر بحث تو جاری ہے اور جاری رہے گی فی الوقت کسی قاتل کی تلاش شروع کرتے ہیں۔

اس ملک کے آغاز پر تو اس کے بانی اور قائد کی براہ راست نگرانی رہی لیکن یہ بیمار قائد زیادہ دیر یہ بوجھ برداشت نہ کر سکا اور اپنی پرانی بیماری جس کو اس نے مجوزہ پاکستان کے دشمنوں سے چھپا رکھا تھا اس پر قیام پاکستان کے بعد غالب آ گئی وہ چلا گیا لیکن جاتے جاتے ایک تقریب میں جو روپے پیسے سے متعلق ایک ادارے ''اسٹیٹ بینک آف پاکستان'' کی تھی اس نے قوم کو خبردار کر دیا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ اگر زندگی رہتی تو وہ یقیناً قومی سیاست کے بازار میں سے ان کھوٹے سکوں کے چلن کو ختم کر دیتا لیکن ان سکوں کی خوش قسمتی سے وہ چلا گیا اور یہ بچ گئے۔ تب سے اب تک یہ اس ملک کے بازار کا واحد سکہ رائج الوقت بنے ہوئے ہیں۔ باہمی سازش اور اتفاق رائے اور مفادات کی یکسانیت سے یہ مل جل کر اس ملک پر مسلط چلے آ رہے ہیں۔ قوم نے حال ہی میں بیداری کی ایک لہر اٹھائی اور عام انتخابات میں اسے اپنی زبردست کمزوری کے باوجود ایک ناپسندیدہ حکومت کو رد کر دیا اور ایک دوسری کو کامیاب کیا مگر جلد ہی یہ راز کھل گیا کہ پہلی اور دوسری سب ایک جیسی ہیں اور دونوں نے مل کر عوام کو بے وقوف بنایا ہے۔

عوام نے بھاری تعداد میں اپنے جمہوری ووٹوں سے اپنی رائے کا اظہار کیا جس کا نتیجہ ان کے منہ پر مار دیا گیا۔ پاکستان کے حالات کا جائزہ لینے والے مفکرین نے یہ فیصلہ کیا ہے یا وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی جمہوری طریقے سے اس ملک میں کوئی انقلاب نہیں آ سکتا۔ مسلمانوں کے قائد کی قیادت میں اس خطے کے مسلمانوں کا پہلا جمہوری انقلاب خود اس ملک کے قیام کا معرکہ تھا لیکن اس کے بعد مارشل لاء پر مارشل لاء آتے رہے اور انھوں نے اس ملک کے بگڑے ہوئے اشرافیہ کو اس حد تک مزید بگاڑ دیا کہ اس میں سے کسی اصلاح اور تبدیلی کا جوہر ہی ختم کر دیا۔ اس جاری و ساری صورت حال کو ختم کرنا اس ملک کی بقا کے لیے لازم ہے اور یہ کسی آزمودہ جمہوری طریقے سے نہیں کسی غیر جمہوری طریقے سے ہی ختم ہو سکتی ہے جسے کبھی آمرانہ اور کبھی غیر منصفانہ وغیرہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

پاکستان دنیا کا واحد خوش نصیب ملک تھا جسے اس کی پیدائش کے ساتھ ہی زندگی گزارنے کا سلیقہ اور طریقہ بھی بتا دیا گیا تھا۔ وہ طریقہ جسے آج تک بڑے سے بڑا انقلابی اور مفکر بھی تسلیم کرتا ہے۔ یہ تھا وہ عادلانہ اور مساویانہ نظام جو انسانوں کے لیے آسمان سے نازل ہوا، اس آزادی کے ساتھ کہ وہ چاہے تو اپنی فلاح اور سلامتی کے لیے اس نظام کو اختیار کرے یا اسے مسترد کر کے کوئی اور طریقہ زندگی اختیار کر ے۔ ہماری بدقسمتی کہ ہم نے مسلسل اقرار تو کیا کہ اسلام ہی ہمارا آئین اور زندگی کا نظام ہے لیکن اس پر عمل نہیں کیا اور اس منافقت کا جو نتیجہ نکلا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ آج ہم اپنے خطے بلکہ دنیا بھر میں ایک بدنام اور کمزور قوم اور ملک بن کر سانس لے رہے ہیں۔ کسی کا جب جی چاہتا ہے تو وہ ہمارے گھر کے کسی بھی حصے پر بم مار دیتا ہے اور یہ وہ ہر روز ہی کرتا ہے تاکہ ہمیں سکھ کا سانس نصیب نہ ہو اور ہم زندگی کا کوئی طریقہ اختیار نہ کرسکیں اور کسی کا جی چاہتا ہے تو وہ کسی بہانے ہمارے گھروں پر بم برسا کر تباہ کر دیتا ہے۔ یوں ہم بالادست طبقوں اور ملکوں کے لیے کھیل کا میدان ہیں۔

یہ ناقابل برداشت اور مسلسل رسوائی کا بنیادی سبب کوئی بیرونی نہیں ہمارا اندرونی اور ہمارا اپنا ہے۔ ہمارے ہوس کے مارے ہوئے حکمران اس ملک سے مال بنا رہے ہیں اور اسے بیرون ملک لے جا رہے ہیں مگر جن عوام کو وہ لوٹ رہے ہیں ان کی انھیں کوئی پروا نہیں ہے۔ دنیا کچھ کہے نہ کہے ہم خود دیکھ رہے ہیں کہ چھوٹی سطح پر چوروں اچکوں اور ڈاکوؤں نے ملک کی سلامتی اور قوم کے جان و مال کو سامان تجارت سمجھ لیا ہے اور بڑی سطح پر مدتوں سے ایسا ہے اور اب تو خاص طور پر ملک کے اہم اور بنیادی اثاثوں کو ہی بیچا جا رہا ہے۔ پہلے والے ملک کو سلامت رکھتے تھے اور اس کی آمدنی کو کھاتے تھے اب ہم نے آمدنی کے ذریعوں کو ہی فروخت کرنا شروع کر دیا ہے یعنی ملک کو ہی فروخت کر رہے ہیں۔ یہ ساری صورت حال جو قومی سطح پر ایک ماتم برپا کرنے والی ہے کسی مروجہ جمہوری طریقے سے ختم نہیں ہو سکتی اس کے لیے کوئی ظالم خونخوار اور سفاک قسم کا حکمران مطلوب ہے جو ہمارے قومی مجرموں کو درست کر سکے اور ملک کو باقی رکھنے کی کوئی سبیل پیدا کر سکے۔ یوں کہیں کہ ہمیں گویا ایک قاتل درکار ہے یہ کتنے شرم کی بات ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں