دہشت گردی اور ذرایع ابلاغ
جب اسامہ بن لادن ایبٹ آباد کے قریب امریکی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر اس دنیا سے رخصت ہوا۔۔۔
جب اسامہ بن لادن ایبٹ آباد کے قریب امریکی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر اس دنیا سے رخصت ہوا، تومیرے ایک دوست نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ غیر جمہوری معاشروں سے تعلق رکھنے والے حساس افراد کو جب اپنی بات کے اظہار کے مواقعے خود ان کے معاشروں میں نہیں ملتے تو وہ اسی طرح دربدرخاک بسر قسم کی زندگی گذارنے اورپھر اسی طرح غریب الوطنی میں غیر فطری موت کو گلے لگانے پرمجبور ہوتے ہیں۔اگر اسامہ کے اپنے وطن میں جمہوریت ہوتی تو ممکن تھا کہ وہ اپنے ملک کا وزیر اعظم یا قائد حزب اختلاف ہوتا،یا کم از کم قومی سطح کا کوئی رہنماء ہوتا۔جب اسے پارلیمان اور ذرایع ابلاغ کے ذریعے اپنی آواز حکمرانوں اور عوام تک پہنچانے کا موقع ملتا،تواس کے از خود تارک الوطنی اورمتشدد رویہ اختیارکرنے کاجواز ختم ہوجاتاکیونکہ وہ اپنے ملک میں اپنی بات کو ہر سطح پر پیش کررہا ہوتا۔
متشددانہ رجحانات ان معاشروں میں جنم لیتے ہیں، جہاں فکری کثرتیت اور آزادیِ اظہار سے انکارکیاجاتا ہے اور ثقافتی تنوع کو شجرممنوعہ تصور کیا جاتا ہے۔ایسے معاشروں میںجہاںجبراً کسی ایک عقیدے کی بالادستی اورکسی نسلی یا لسانی گروہ کی اجارہ داری پر اصرار کیا جاتا ہو اور اظہارِ رائے پر قدغن عائد ہوں، وہاںدیگر افراد کے حقوق کی پامالی ایک حقیقت بن جاتی ہے اور ایسی نفرتیں جنم لیتی ہیں، جو بعد ازاں متشدد ردعمل کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ اسی طرح جب متوشش شہریوں کے لیے اپنے ملک یا عالمی سطح پر والی زیادتیوں پر احتجاج ریکارڈ کرانے اور اپنی آواز کو حکومتی ایوانوں تک پہنچانے کاکوئی راستہ نہیں ہوتا تو پھراسی قسم کے روئیے اور ردعمل سامنے آتے ہیں،جنھیں دنیا شدت پسندی سے موسوم کرتی ہے۔یہ متشدد ردعمل ہی دہشتگردی کو پروان چڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔ اس لیے دہشتگردی کے مظہر کو سمجھنے، اس کے پروان چڑھنے کے اسباب کو جاننے اورسدِ باب کے طریقوں کا ادراک حاصل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
اب جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو اس کی ابھی تک کوئی مربوط اور واضح تعریف نہیں کی جاسکی ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جن متشدد کارروائیوں کو انسانوں کا ایک طبقہ مجرمانہ فعل سمجھتا ہے، انھیں دوسرا طبقہ جائزاور درست سمجھ رہا ہوتا ہے۔ یوں وہ عناصر جو انسانوں کے ایک طبقے کے لیے دہشت گرد قرار پاتے ہیں، دوسرے طبقے کے لیے ہیروکا درجہ رکھتے ہیں۔لہٰذا یہ انتہائی حساس اور نازک معاملہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس حوالے سے ایک حد فاصل بہر حال ضروری ہے۔یہی سبب ہے کہ اقوام متحدہ نے ایسی تمام پرتشدد کارروائیوں کو جوغیر متعلق افراد اور عام شہریوں کے جان ومال کو نقصان پہنچانے یا انھیں ذہنی یا جسمانی طور پرخوفزدہ کرنے اور ان کی فکری آزادی کو مسدود یا محدود کرنے کا سبب بنیں دہشت گردی قرار دیا ہے۔
ماہرین عمرانیات اور نفسیات کا کہنا ہے کہ شدت پسندی ایک انسانی نفسیاتی رویہ ہے۔جب کوئی فرد یا افرادکا گروہ فکری، قومی، لسانی یا نسلی بنیادوں پر احساس برتری یا کمتری میں مبتلاہوجائے،تواس میں متعصبانہ رویوں کاجنم لینا فطری بات ہوتی ہے۔یعنی جب عقیدے،قومیت یا نسلی ولسانی بنیادوں پر انسانوں کے درمیان خطِ امتیازکھینچاجاتا ہے،تو تعصب کی آبیاری ہوتی ہے۔اسی طرح متعصبانہ طرز عمل میںجب نفرت وناپسندیدگی اپنی انتہاؤں کو پہنچتی ہے، تو شدت پسندی کا مظہر سامنے آتا ہے۔شدت پسندی صرف عقائدو نظریات تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ اس کادائرہ وطنیت، قومیت اورنسلی ولسانی تفاخر تک پھیلاہوتا ہے۔ شدت پسندی جب متشدد شکل اختیار کرتی ہے، تو پھر دہشت گردی کا آغاز ہوتا ہے۔دہشت گردی کے مرتکب صرف افراد یاکمیونٹیاں ہی نہیں ہوتیں، بلکہ اکثر و بیشتر ریاستیں بھی دہشت گردی کا ارتکاب کرتی ہیں۔ دنیا کی معلوم تاریخ میں عام انسانوں اوران کے گروہوں کے مقابلہ میں ریاست اور ریاستی اداروں نے خود یا ان کے ایماء پر جو دہشت گردیاں کی ہیں، ان کی شدت اور نقصان کا حجم کہیں زیادہ ہے۔
قوم بنی اسرائیل اپنی مذہبی ونسلی برتری کی بنیاد پر ساڑھے تین ہزار برس سے دیگر انسانوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک اور پرتشدد تعصب کا رویہ اختیارکیے ہوئے ہے،اس کے نتیجے میںاس نے دیگر اقوام کو اور ردعمل میں خود اپنے آپ کو جس ہولناک دہشت گردی کا شکار کیا،وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ یورپ کی سفید چمڑی والوں نے امریکی براعظم کی تسخیر کے بعد مقامی ریڈانڈین آبادی کے ساتھ جو رویے اختیارکیے وہ بھی کسی طور دہشت گردی سے کم نہیں۔ اسی طرح افریقی نوآبادیات بالخصوص جنوبی افریقہ میں جس انداز میںنسلی امتیاز(Apartheid) کوڈیڑھ صدی تک روا رکھا گیا، وہ دہشت گردی کی بدترین شکل تھی۔سابقہ سوویت یونین میں سخت گیر کمیونسٹ پارٹی سے نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کو سائبریا کی یخ بستہ ہواؤں کے سپرد کرنا اور چین میں ثقافتی انقلاب کے نام پر لاکھوں افراد کو تہ تیغ کرنا بھی دہشت گردی ہی کے زمرے میں آتا ہے۔اسی طرح سابقہ مشرقی پاکستان میں مسلح تنظیموں نے بنگالیوں اور مکتی باہنی نے غیر بنگالیوں کا جس طرح خون بہایا،اس عمل کو کسی بھی طور دہشت گردی سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی تعریف اور اس کے مختلف مدارج ومراحل سے جب ہم واقف ہیں اور کئی دہائیوں سے اس کا نشانہ بن رہے ہیں، تو پھرسوچنے کی بات یہ ہے کہ اس سے بچنے اور اس کے سدِباب کا کیا طریقہ کارہو؟اس سوال پر پاکستان کی حکمران اشرافیہ،عوام اور مختلف شراکت داروں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔خاص طورپر ذرایع ابلاغ جو عوام تک اطلاعات ومعلومات کی رسائی کے علاوہ ان کے سیاسی وسماجی رویوں کی تشکیل وترتیب میںنمایاں کردار ادا کرتے ہیں ،یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دلیل کی بنیاد پر مکالمے اور بحث ومباحثے کے ذریعے اس عفریت سے بچنے کے راستہ سے عوام کو آگہی دیں ۔اگر ذرایع ابلاغ اس مسئلہ پر کنفوژن کا شکار ہوں گے تو ان سے عوام کی صحیح رہنمائی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ دنیا بھر کے متوشش انسان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دنیا سے ہر قسم کے تشدد اور ایذا رسانی سے بچنے اور اس کرہ ارض پر عام انسانوں کے لیے ایک پرامن وپرسکون ماحول مہیا کرنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ آزادیِ اظہارکو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے اور انسانوں کی بلاامتیاز رنگ، نسل،عقیدہ، قومیت اور صنف برابری کو تسلیم کیا جائے۔ اس خواہش کی تکمیل ایک جمہوری معاشرت ہی میں ممکن ہے۔جہاں شراکتی جمہوری اقدار کے فروغ پانے سے ہر قسم کے مذہبی، فرقہ وارانہ، نسلی، لسانی اور قومیتی تعصبات کا خاتمہ ممکن ہوتا ہے،جو انسانوں کے درمیان امتیاز اور نابرابری کا سبب ہیں اور متشدد رویوں کو جنم دیتے ہیں۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب ذرایع ابلاغ ان عناصر کی حوصلہ شکنی کریںجو اظہار ِرائے پر قدغن عائد کرکے دراصل ہر قسم کے امتیازات اور یک فکری فاشزم معاشرے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے مذہبی اور آزاد خیال دونوں رجحانات کے حامل حلقوں کو اس بات پر متفق ہونا پڑے گا کہ اپنے اندر تمام تر نقائص اور خامیاں رکھنے کے باوجود پاکستان کا آئین عوام کو ایک جغرافیہ اور قومی تشخص میں جوڑنے کا سبب ہے۔ انھیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ آئین میں تبدیلی وقت اور حالات کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یہ عمل کسی بھی طورآئین میں درج طریقہ کارسے ماوراء یا اس سے متصادم نہیں ہوناچاہیے۔اسی طرح اس ملک کے تمام شراکت داروں کو اس بات پر بھی متفق ہونا پڑے گا کہ اس وقت پاکستان ایک انتہائی زد پذیر ملک بن چکا ہے،اس میںہر قسم کے ایڈونچر کی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔ اقتدار کی تبدیلی کا واحد ذریعہ انتخابی عمل کا تسلسل ہے۔ انتخابی عمل میں پائی جانے والی خامیوں اور کمزوریوں کو پارلیمان کے ذریعے دورکرکے مزید بہتر،شفاف اور غیر جانبدار بنایا جا سکتا ہے۔ اس تصور کو ذرایع ابلاغ ہی احسن طریقہ سے پیش اور ان کی پیروی (Advocacy)کرسکتے ہیں ۔ ذرایع ابلاغ کا وجود آزادیِ اظہار سے مشروط ہے۔لہٰذا یہ ذرایع ابلاغ کی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے تمام رجحانات کی حوصلہ شکنی کریں جو آزادیِ اظہارکے علاوہ فکری کثریت اورثقافتی تنوع کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ بننے کا سبب بن سکتے ہوں۔کیونکہ یہ رویہ فاشزم قائم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔جب کہ کسی بھی قسم کی فاشزم میںآزاد اور غیر جانبدار ذرایع ابلاغ کے لیے گنجائش نہیں ہوتی۔اس لیے اب ذرایع ابلاغ کو کھل کر اپنا موقف عوام کے سامنے رکھنا ہوگا اور انھیں بتانا ہوگا کہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کے علاوہ اس معاشرے کو محفوظ بنانے کا کوئی اور راستہ نہیں بچاہے۔ (یہ مضمون چھٹیSAFMA قومی کانفرنس میں پڑھا گیا)