بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

SYDNEY:
ارشاد نامہ
مصنف : ارشاد حسن خان( سابق چیف جسٹس پاکستان)
قیمت: 1395روپے، صفحات:310، ناشر:فیروز سنز، مین بلیوارڈ، گلبرگ ۳ ، لاہور



ہمارے ملک میں عدالتی نظام پر بجا اور بے جا دونوں طرح سے بڑی تنقید کی جاتی ہے، اس کی خوبیوں اور خامیوں پر خوب لے دے ہوتی رہتی ہے مگر اس پر کوئی کم ہی بات کرتا ہے کہ عدلیہ قانون کے ضابطے میں بندھی ہوئی ہے اور اسی کے مطابق فیصلے کرتی ہے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ارشاد حسن خان نے اپنی زندگی کو کتاب کی صورت سب کے سامنے رکھ دیا ہے جو ان کے ساتھ ساتھ عدلیہ کا احوال بھی سناتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھیں اس مقام تک پہنچنے میں شب و روز محنت کرنا پڑی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی محنت کا پھل انھیں شاندار انعام کی صورت عطا کیا۔

ایس ایم ظفر کہتے ہیں '' ظفر علی شاہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف کہتے ہیں کہ '' اگر ہم نے جنرل مشرف کو تین سال تک محدود نہ رکھا ہوتا تو کوئی بعید نہیں کہ وہ آج تک بیٹھا ہوتا''۔ ان کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ نصرت بھٹو کے مقدمہ میں سپریم کورٹ نے جب اٹارنی جنرل کی یقین دہانی پر اس امید کا اظہار کیا تھا کہ جنرل ضیاالحق ، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جلد انتخابات کرا دیں گے تو تاریخ نے دیکھا کہ وعدہ وفا نہ ہوا اور جنرل ضیا الحق اپنی آخری عمر تک اقتدار میں رہے، کتاب کے پہلے چودہ باب میں داستان کا وہ حصہ کہ ایک یتیم اور سائیکل سوار بچہ کس طرح بیساکھیوں کے بغیر پاکستان کا چیف جسٹس بن گیا، بڑے دل پذیر اور دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے '' ۔ سابق قائم مقام صدر مملکت وسیم سجاد کہتے ہیں '' ارشاد نامہ'' ملک کی سیاسی و قانونی تاریخ کے لٹریچر میں نہایت قیمتی اضافہ ہے۔

یقین واثق ہے کہ اسے قانون دانوں کے ساتھ ساتھ وکلاء جج صاحبان اور تاریخ کے طلباء بھی بڑی دلچسپی سے پڑھیں گے۔ میں اس عمدہ تصنیف کی تالیف پر جسٹس ارشاد حسن خان صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ انھوں نے ارشاد نامہ لکھ کر تاریخ کا قرض اتار دیا ہے۔ '' کتاب کا پیش لفظ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے تحریر کیا ہے، لکھتے ہیں ''پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ میں یوں تو کثیر تعداد میں ججوں نے اپنے نقوش چھوڑے ہیں پر اس کثیر تعداد میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کی شہرت زیادہ نمایاں اور ہر بزم کا تذکرہ رہتی ہے۔ اس فہرست میں جناب ارشاد حسن خان، سابق چیف جسٹس آف پاکستان کا نام نمایاں ہے'' ۔ پاکستان کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجلد کتاب کو رنگین تصاویر کے ساتھ مزین کیا گیا ہے ۔

عکس جلیل
دینی و دنیاوی علوم سے مالا مال خانوادے کسی بھی قوم کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہوتے ہیں ۔ کیونکہ ان کا ہر فرد ایک چراغ کی مانند ہوتا ہے جو فکر کی روشنی سے معاشرے سے جہالت کے اندھیرے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ان کی یہ بے لوث خدمت ان کو معاشرے میں اعلیٰ مقام پر فائز کرتی ہے۔ ان کی علم دوستی کی وجہ سے عوام الناس ان کی دل سے عزت کرتے ہیں ۔ تاریخ ایسے گھرانوں کی خدمات کی گواہ ہے۔ ایسا ہی ایک دینی اور علمی قاضی اعوان خانوادہ (وادی سون سکیسر ) انگہ میں سکونت پذیر ہے۔

اس خانوادے میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے لاتعداد ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جنھوں نے دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ علم و ادب کے بھی چراغ جلائے ، یوں عوام الناس کو ہر طرح سے فائدہ پہنچایا ۔ ''عکس جلیل'' اسی خانوادے کی خدمات سامنے لانے کی کاوش ہے ۔ زیر نظر دو شمارے پروفیسر محمد نواز قاسمی نمبر اور نذر قاضی نور محمد انور ہیں جن میں ان دو شخصیات کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ مدیر احمد صہیب کہتے ہیں '' ایک خاندانی مجلے کے حوالے سے جو تصور کچھ عرصے سے میرے ذہن میں قائم تھا، اس خاکے میں حقیقت کے خوشنما رنگ بھر کر '' عکس جلیل '' کی صورت میں آپ کے سامنے بطور نمونہ پیش کر دیا۔



چاہے وہ '' بیاد رفتگاں'' کا باب ہو یا ''بزم جلیل'' کی روداد ، '' ادبیات'' کا حصہ ہو یا '' خاندانیات'' کے صفحات، ہر ایک جزو کو حتی المقدور بہترین سانچے میں ڈھال کر آپ کے ہاتھوں میں پہنچانے کی بھرپور سعی کی گئی ۔ تاہم یہ بھی سچ ہے کہ اہل خاندان نے اس کاوش کو جو پذیرائی بخشی وہ ہماری محنت ، کوشش اور امیدوں سے کہیں بڑھ کر ہے ۔'' قاسمی نمبر میں پروفیسر محمد نواز قاسمی کی زندگی کی کہانی اور علمی و ادبی خدمات پیش کی گئی ہیں، پروفیسر صاحب 2018ء میں اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ اس لئے اس شمارے کو یاد رفتگاں کے طور پر لیا گیا ہے۔

ان کی زندگی کے حوالے سے مختلف مضامین شامل کئے گئے۔ آخر میں شجرہ نسب دیا گیا ہے ۔ نذر قاضی نور محمد انور کے نمبر میں بزم جلیل کی روئیداد بیا ن کی گئی ہے ۔ بزم جلیل ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں خاندان کے بزرگوں کو نہایت پرتکلف ماحول میں اپنی زندگی بھر کی یادیں دہرانے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔

اس شمارے میں قاضی نور محمد انور اپنی زندگی کی روداد بیان کرتے ہیں جو انھی کے انداز میں بیان کی گئی ہے۔ خاندان اور دیگر احباب کا احوال بھی بیان گیا ہے، ان کی شاعری کے کچھ نمونے بھی شامل ہیں ۔ آخر میں شجرہ نسب شامل کیا گیا ہے۔ تحصیل انگہ کے قاضی خاندان کے تعارف کے حوالے سے انتہائی شاندار کاوش ہے ۔

امریکا میرے آگے (سفرنامہ )
مصنف : حسنین نازش، قیمت: 400 روپے
ناشر: مثال پبلشرز ، رحیم سینٹر ، پریس مارکیٹ ،امین پور بازار
فیصل آباد ، 03006668284



کرسٹوفر کولمبس کا دعویٰ ہے کہ اس نے امریکا دریافت کیا ۔کہتے ہیں کہ امریکا اس سے پہلے دریافت ہو چکا تھا ، کولمبس تو اس علاقے پر قبضہ کرنے کا منصوبہ لے کرپہنچا ۔ اس کے بعد آنے والی صدیوں میں امریکا بار بار دریافت ہوا ۔ ہر سیاح نے امریکا کو اپنی آنکھ سے دیکھا ، جناب حسنین نازش نے بھی امریکا کو کولمبس سے یکسر مختلف انداز میں دریافت کیا ۔

انھوں نے امریکا اور وہاں کی زندگی کو جیسے دیکھا ، ویسے ہی اس کتاب کی صورت میں بیان کر دیا ۔ ہمارے ہاں عموماً لوگوں کو سفر کا شوق صرف اس لئے ہوتا ہے کہ وہ کوئی سفرنامہ لکھ سکیں ، پھروہ جو سفرنامہ لکھتے ہیں، دراصل ان کے اپنے کھانے، پینے ، سونے ، جاگنے کا احوال ہوتا ہے اوربس !حالانکہ سفرنامہ کے ذریعے پڑھنے والے کو ایک ان دیکھے مقام کی سیر کرائی جاتی ہے،وہاں کے لوگوں کے طرز رہن سہن سے آگاہ کیا جاتا ہے، بتایا جاتا ہے کہ ہم دوسروں کی زندگی سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں ۔

مجھے خوشی ہوئی کہ مصنف نے عام سا سفرنامہ نہیں لکھا ۔ انھوں نے جہاں اور بہت کچھ دیکھا اور لکھا ، وہاں امریکیوں کے طرز زندگی کا بھی خوب ذکر کیا ۔ کہتے ہیں کہ امریکا میں زندگی کے سارے کام علی الصبح ہی شروع ہوتے ہیں ۔ پچانوے فی صد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا ساتبجے تک کھا لیتے ہیں ، آٹھ بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہوتے ہیں ۔ بڑے سے بڑاڈاکٹر چھ بجے صبح ہسپتال میں موجود ہوتا ہے ، کوئی دفتر ، کارخانہ ، ادارہ ، ہسپتال ایسا نہیں جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہے تو لوگ ساڑھے نو بجے آئیں ۔ یہ ہے اس سوال کا جواب کہ ایک ترقی یافتہ قوم کیسے زندگی بسر کرتی ہے ؟

پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ترقی یافتہ اقوام کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلے امریکیوں کا تذکرہ کرتی ہے ، ٹھنڈی آہیں بھرتی ہے لیکن خود ترقی معکوس کا سفر طے کرتی ہے ۔ اگر آپ نے اپنی زندگی میں ترقی

یافتہ شخص بننا ہے تو ان لوگوں کی زندگی سے سبق سیکھنا ہوگا جو ترقی کر چکے ہیں ۔ یہ سفرنامہ آپ کو ایسے بہت سے اسباق سکھائے گا ، اس لئے ضرور پڑھیے گا۔

مہجور وطن ( سقوط مشرقی پاکستان سے وابستہ سلگتی یادیں)

مصنف : پروفیسر عبدالعزیز پرواز، قیمت: 400 روپے
ناشر:مکتبہ فروغ فکر اقبال ، 970 نظام بلاک اقبال ٹائون،
لاہور ، 03328076918


مصنف نے زندگی کی انیس بہاریں پاک فوج میں گزاریں ، اکیس برس کے تھے کہ انھیں مشرقی پاکستان بھیجا گیا ۔ انھوں نے متحدہ پاکستان کی جنگ لڑی ۔ وہ ڈھاکہ چھائونی میں تھے جب سقوط ہوا ، یوں انھوں نے اپنی آنکھوں سے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا اور پھر اڑھائی سال تک جنگی قیدی کی حیثیت سے بھارت میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے ۔

زیر نظر کتاب کے پہلے باب میں مصنف نے جنگ ستمبر میں اپنے علاقے کا احوال لکھا ، اس کے بعد فوج میں اپنی شمولیت اور پھر مشرقی پاکستان بھیجے جانے کی ساری داستان لکھی ، وہاں گزرے شب وروز کا مختصر مگر جامع تذکرہ کیا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ انھوں نے مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے تک کے سفر کو بھی بیان کیا اور پوری سچائی سے کام لیا ۔

فوج کے سربراہ سے لے کر مشرقی پاکستان میں فوجی کمان تک ، جو اس سانحے کا جتنا ذمہ دار تھا ، اس کے بارے میں بلا کم و کاست لکھا ۔ مصنف نے اپنی کتاب میں بڑی احتیاط سے کئی ایک سلگتے سوال اٹھائے ہیں اور کچھ سوالات واقعات کی ترتیب سے خودبخود سر اٹھا رہے ہیں، جو بحیثیت قوم ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہیں ۔ زیر نظر کتاب میں ہمارے مقتدرطبقہ کے لئے بہت سے اسباق موجود ہیں، اگر وہ اپنی کرتوتوں سے کچھ سیکھنا چاہیں تو ! ورنہ مشرقی پاکستان جیسے سانحات مغربی پاکستان میں بھی ہو سکتے ہیں ۔کاش ! اب کوئی ایک بھی ایسا سانحہ نہ ہو کیونکہ یہ قوم اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ کتاب تاریخ پاکستان کے طلبہ و طالبات کے لئے نہایت مفید ثابت ہوگی۔ ایسی کتابوں کے بغیر تاریخ ادھوری رہتی ہے ۔

قلم قتلے
مصنف: ڈاکٹر صاحبزادہ انوار احمد بگوی
صفحات:472، قیمت : درج نہیں، ناشر: الافتخاربگوی فاونڈیشن، بھیرہ، ضلع سرگودھا



ڈاکٹر صاحبزادہ انوار احمد بگوی کا شمار بلاشبہ ہمارے عہد کے ان دانشوروں میں کیا جا سکتاہے جو نہ صرف درد ِ دل رکھنے والے محب ِوطن انسان ہیں بلکہ اپنے اس درد میں گوندھے ہوئے احساسات کو سپرد ِقلم کرنے کا سلیقہ اور ہنر بھی جانتے ہیں۔ آپ ایسے لوگوں کو انگلیوں پر گن سکتے ہیں جو مختلف سرکاری مناصب پر فائز رہتے ہوئے قومی ذمہ داریاں ادا کرتے، اس قوم کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے اور پھر ان تکالیف اور مسائل کو حل کرنے کے جویا بھی ہوں۔

ہر سطح ، ہر موقع اور ہر حال میں حق اور سچ کا بر ملا اظہار ان کی سرشت میں شامل ہے اور جہاں زبان سے کام چلتا ہو وہاں زبان کا استعمال ا ور جہاں قلم سے کام چلتا ہو وہاں قلم سے کام لیتے ہیں۔ یہ قلم کہیں تیر کا کام دیتا ہے اور کہیں نشتر کا۔ جس سے ان کے حسن معاملہ اور ان کی حکمت و تدبر کا پتا چلتا ہے۔

عشروں پر محیط ان سے تعلق ِ خاطر نے مجھے ان کے اس عوام اور وطن دوست رویے نے اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ بطور سرکاری آفیسر انہوںنے اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی کسی روایتی آفیسر کی طرح نہیں بلکہ ایک بہترین منتظم اور کامیاب مصلح کے طور پر دی ہے۔

ہیلتھ پرووائڈر اور منتظم کی حیثیت میں انہوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور ان صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر متعدد ایوارڈز اور اعزازات سے نوازے گئے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ انہوں نے قلم و قرطاس سے بھی اپنا رشتہ بھی برقرار رکھا۔ وہ ایک عرصہ سے اپنے زیر ادارت شائع ہونے والے جریدے ماہنامہ ''شمس الاسلام '' بھیرہ کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حامل اخبارات و رسائل ( انگریزی اور اردو ) میں علمی، ادبی، سیاسی ، مذہبی اور سماجی موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کا '' قلم کا سفر '' ہنوز جاری ہے۔ اب تک بفضلہ تعالیٰ وہ دس کے قریب کتب تصنیف و تالیف کر چکے ہیں۔

ڈاکٹر انوار احمد بگوی کا سب سے بڑا کارنامہ '' تذکارِ بگویہ '' کے زیر عنوان پانچ ضخیم جلدوں میں خاندان بگویہ کی علمی، اخلاقی، مذہبی، سماجی و سیاسی خدمات پر مشتمل تاریخ مرتب کرنا ہے۔ یہ وہ کام تھا جو کسی تنظیم، ادارے یا ٹیم کے کرنے کا تھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے تن تنہا انجام دیا اور اس حسن اور خوبی کے ساتھ انجام دیا کہ سرخرو ٹھہرے۔ اس کے علاوہ تاریخ ِ سرگودھا ، سفر نامہ ایران اور مجموعہ مضامین پر مشتمل کتاب ''قلم کا سفر '' بھی ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب '' قلم قتلے'' بھی ان کے مطبوعہ و غیر مطبوعہ مضامین پر مشتمل ہے جس میں مختلف اور متنوع موضوعات( مثلاً سیاسیات، مذہبیات، سماجیات، علم و ادب، تنقید و تبصرہ، سفرنامہ اور رپورتاژ وغیرہ) کا احاطہ کیا گیا ہے۔

ان تمام تحریروں کا حسن ان کا اسلوب اور انداز ِ بیاں ہے جو سادہ، سلیس، عام فہم اور دلچسپ و دل پذیر اور دل پر اثر کر جانے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تحریروں میں ہر عمر اور ہر مزاج کے قاری کی دلچسپی کا سامان بہ تمام و کمال اس میں موجود ہے۔ اس کتاب کے مشمولات میں ان کے صاحبزادے احمد منصور بگوی کی خصوصی تحریر '' حج بیت اللہ کے مہمان'' خاصے کی چیز ہے۔

جس میں حج بیت اللہ کے حوالے سے نہ صرف ان کے محسوسات و جذبات اور احوال وواقعات کو قلمبند کیا گیا ہے بلکہ عازمینِ حج کی رہنمائی کا خوشگوار فریضہ بھی اداکیا گیا ہے۔ اسی طرح اس کتاب میں معروف مفسرِ قرآن، علمی اور دینی شخصیت مولانا امین احسن اصلاحی ؒ کی حیات و خدمات، آثار و واقعات کے حوالے سے ان کی زیر تالیف کتاب'' مدبر قرآن، مولانا امین احسن اصلاحی'' کا ایک باب بھی ( تبرک کے طور پر ) شامل کیا گیاہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

مجموعی طور پر اس کتاب میں شامل تمام تحریریں ذوقِ مطالعہ کو مہمیز دینے کے ساتھ ساتھ سوچ کے دریچے وا کرتیں اور غور و فکر کے لیے خوراک کا سامان بھی مہیا کرتی ہیں کہ خون جگر میں انگلیاں ڈبوکر لکھی جانے والی تحریر اپنی ایک تاثیر رکھتی ہے اور یہ کتاب بلاخوفِ تردید اپنے اندر اثر آفرینی رکھتی ہے جسے پڑھ کر '' ھل من مزید '' کی طلب دو چند ہوجاتی ہے۔

امید رکھنی چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف اپنے وہ مضامین جو ''قلم کا سفر'' اور''قلم قتلے'' میں شائع ہونے سے رہ گئے وہ اپنے تیسرے مجموعہ مضامین میں یکجا کر کے قارئین کو دعوتِ مطالعہ دیں گے۔

مُردے کے جوتے
مصنف: اعجاز احمد فکرال
صفحات: 159،قیمت:400/ روپے، ناشر: فکشن ہاوس، مزنگ روڈ، لاہور



زیر نظر کتاب اعجاز احمد فکرال کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔جس میں ان کے 19 منتخب افسانے شامل ہیں۔ اس سے پہلے بھی ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ طباعت کے زیور سے آراستہ ہو کر مارکیٹ میں آ چکا ہے۔ یہ گویا ان کی دوسری نثری کتاب ہے۔ کسی بھی افسانے کی سب سے بڑی خوبی اس کی کہانی، مضبوط پلاٹ، زندہ و جاندار کردار اور بہترین انداز ِ تحریر گردانی جاتی ہے۔ اور ظاہر ہے یہ خوبی وسیع مطالعے اور عمیق مشاہدے کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔ اعجاز احمد فکرال کو اس حقیقت کا پوری طرح ادراک ہے۔

چنانچہ انہوں نے اپنی تمام تر تخلیقی صلاحیتوں، فنی مہارت اور ریاضت کو بروئے کار لا کر یہ افسانے تخلیق کیے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ''یہ تمام افسانے حقیقی ہیں، کوئی بھی کہانی خیالی نہیں''۔ اعجاز احمد فکرال انسانی دکھوں ور المیوں کو وسیع تناظر میں دیکھتے اور سرحدی ا ور جغرافیائی پابندیوں سے ماورا محض انسانی حوالوں سے انہیں اپنی تحریر کا موضوع بناتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا عمومی موضوع انسانی نفسیات،معاشی نا انصافی، طبقاتی تضادات، ظلم و ناانصافی، محبت اور رومانس ہے۔ کتاب میں شامل پہلا افسانہ ''بہلا '' ایوارڈ یافتہ ہے، اور دیکھا جائے تو یہ افسانہ ہی ان کے تمام افسانوں میںسب سے بہترین قراردیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر غافر شہزاد کتاب کے دیباچے میں رقم طراز ہیں '' اعجاز فکرال مختلف النوع موضوعات اپنے افسانوں کے لیے منتخب کرتا ہے، موضوعات کا یہ تنوع اور کردار نگاری اس کے افسانوں کی خاص پہچان ہے ''۔ اعجاز احمد فکرال کا اندازِ تحریر سادہ اور عام فہم ہے۔ توقع ہے کہ جس طرح ان کے پہلے مجموعے کو پذیرائی حاصل ہوئی اسی طرح ان کے اس افسانوی مجموعے کو بھی پسند کیا جائے گا۔
Load Next Story