بس ڈرائیور اور کنڈیکٹر کے شب و روز

وہ محنت کش جن کی تمام زندگی تلخیوں کا عذاب جھیلتے گزر جاتی ہے

وہ محنت کش جن کی تمام زندگی تلخیوں کا عذاب جھیلتے گزر جاتی ہے۔ فوٹو: فائل

کچھ لوگوں کی زندگی جہدِ مسلسل کی تصویر ہوتی ہے۔وہ تمام عمر مشقتوں کی نذر کر دیتے ہیں۔گمنامی کی زندگی گزارتے ہیں اور یوں ہی مر جاتے ہیں۔ ایسے لوگ زندہ رہنے کے لئے مسلسل حالت جنگ میں رہتے ہیں۔

خواہشات کی جنگ کا تصور تو بعد میں آتا ہے یہ بے چارے تو ضروریات کے لئے جنگ لڑتے لڑتے ہی مر جاتے ہیں۔ ان لوگوں کے دن اور رات بس رزق کی تلاش میں گزرتے ہیں۔

معاشرے کے ایک اہم حصہ کا حصہ ہوتے بھی یہ لوگ اپنا صحیح حق وصول نہیں کر پاتے۔معاشرے کا ایک ایسا طبقہ جو تا عمر کسمپرسی کا شکار رہتا ہے، رزقِ حلال کمانے کی دورڑ اسے بڑھاپے میں بھی چین لینے نہیں دیتی آج اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کی داستانِ حیات قارئین کی نذرہے۔ یہ تحریرایک سچی کہانی سے ماخوذ ہے ۔ کرداروں اور مقامات کے نام فرضی جبکہ کہانی کا پلاٹ تخلیقی ہے کسی بھی شخص سے مطابقت محض اتفاقیہ ہوگی۔

اصغر پہلی اذان سے بھی قبل بستر چھوڑ کر آنے والے دن کے لئے تیار ہوچکا ہے۔ دو کمروں کے مکان میںرہائش پذیر چھ افراد میں سے ایک اصغر جو اس گھر کے سربراہ ہے بارش کی وجہ سے شدید پریشان ہے، کیونکہ چھت جگہ جگہ سے ٹپکنے لگی ہے۔ نماز فجر کے بعد وہ کمرے سے ملحقہ چھوٹے سے باورچی خانہ میں جہاں مٹی کا چولہا لگا ہے آگ سنیکنے کے ساتھ ساتھ ناشتہ کرتا ہے۔ اصغر کی بیوی اسے رات کی بچی ماش کی دال کے ساتھ پراٹھا دیتی ہے اور اسی دوران ان کا چھوٹا بیٹا بھی ان کے ساتھ ناشتہ کر کے نکلتا ہے۔

یہ ان کے روز کے معمول کا حصہ ہے اور یوں وہ دونوں باپ بیٹا سخت سردی کے موسم میں علی الصبح کام پر جا تے ہیں۔ دانیال(ان کا بیٹا) ابھی صرف اٹھارہ برس کا ہے سکول سے بھاگنے اور آوارہ لڑکوں کی صحبت اختیار کرنے کی پاداش میں والد کے ساتھ کام پہ جاتا ہے۔ اصغر ایک گاؤں میں رہتا ہے اور یہاں کی مقامی بس میں گزشتہ چالیس برس سے کنڈکٹر کی ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔ وہ سوریوں کی بکنگ سے سامان اٹھانے تک تمام کام سرانجام دیتا ہے۔اصغر کی زندگی کیسے گزری اور کیسے گزر رہی ہے اس احوال کی طویل نشت کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

''گھر کا گزارہ کیسے ہوتا ہے یہ آپ نہ ہی پوچھیں بس۔۔۔''ایک پُر درد مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کہا تو مزید اصرار کرنا فی الوقت مناسب نہ لگا۔ اپنے کام کے بارے میں بتاتے ہوئے کہنے لگا کہ وہ پچھلے چالیس برس سے بس کنڈکٹر ہیں اور روزانہ سولہ گھنٹے سفر ہی میں رہتا ہے ۔ ایک شخص دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے سولہ گھنٹے سفر میں گزار رہا ہو اس کی بھلا کیا معاشرتی زندگی ہوگی۔

بقیہ آٹھ گھنٹوں میں بھی وہ اپنے گھر اور خاندان کو کتنا وقت سے پائے گا۔ایک کنڈکٹر کی زندگی کے تلخ حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے اصغر بتانے لگا کہ کنڈکٹر اور ڈرائیور کی زندگی کوئی اتنی اچھی زندگی نہیں، ساری زندگی اسی کام میں گزر جاتی ہے اور بندہ روٹی بھی پوری نہیں کر پاتا۔ معاشرہ ہمیں اچھی نگاہ سے بھی نہیں دیکھتا، عموماً لوگوں کے تلخ اور بُرے رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور گھر کو بھی وقت نہیں دے پاتے۔اسی وجہ سے اکثریت کی تو شادیاں ہی نہیں ہو پاتیںاور اگر خوش قسمتی سے شادی ہو بھی جائے تو کم ہی لوگوں کی چل پاتی ہیں۔


جب کسی کنڈکٹر کا رشتہ لینے جاتے ہیں تو لوگ یہ سنتے ہی منع کردتے ہیں کے لڑکا اچھے پیشے سے منسلک نہیں پھر اس کام میں وقت کا بھی کوئی حساب نہیں لمبے روٹس پہ چلنے والے ڈرائیور اور کنڈکٹر تو چوبیس چوبیس گھنٹے سفر میں ہوتے ہیں گھر کو کہاں دیکھ سکتے ہیں۔

اصغر نے بتایا کہ میں نے تو اپنی زندگی اسی کام میں گزار دی اور آج تک اپنا گھر نہیں بنا پایا۔ جو کمایا اس سے ضروریات بمشکل پوری کیں،اور اولاد کو پڑھانے کی کوشش کی مگر اولادامیدوں پہ پوری نہ اتری، تین بیٹیوں کی شادی کر دی اور تین بیٹوں نے پڑھا نہیں ایک بیٹا رکشہ چلاتا ہے، دوسرا ڈرائیور ہے تو تیسرے کو مجبور ہو کر کنڈکٹر ہی بننا پڑا کیونکہ بارہا کوشش کے باوجود سکول نہیں پڑھا اور آوارہ لڑکوں کے ساتھ دوستی کر کے اسکول سے بھاگ جاتا تھا۔

محدود وسائل میں بھی بچوں کی ہر خواہش پوری کی دانیال کو دو مرتبہ پچاس ہزار والے موبائل قسطوں پر اور ایک موٹر سائیکل لے کر دیا جسے دوستوں کے ساتھ مل کر برباد کر دیا۔ ہمیں بس کے پھیروں کے حساب سے کمیشن ملتا ہے جو کبھی پندارہ سو تو کبھی دوہزار یا خوش قسمتی سے اس سے زیادہ ہوتا ہے،اگرکسی خوشی غمی میں چھٹی ہو تو دھاڑی گئی۔مہنگائی کے اس دور میں جینا مشکل ہے حصوصاً حلال کمانے والوں کا۔

یہ کہانی ہمیں بیسیوں ایسے محنت کشوں کی زندگیوں میں کسمپرسی کا احوال بتاتی ہے جو روزی کمانے کے چکر میں فطری زندگی سے دور ہونے پر مجبور ہیں، نہ دن میں آرام ہے نہ رات میںچین ،ایک جہدِمسلسل ہے ، جس سے نہ صرف وہ سماجی زندگی سے کٹ جاتے ہیں بلکہ ذہنی اور جسمانی مسائل کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں جہاں پہلے ہی محنت کش اور مزدور طبقے کا استحصال کیا جاتا ہے وہاں قوانین کی پاسداری اوراعلٰی حکام کی نظرِ خاص ہی اس طبقے کی مفلوک الحالی کی داد رسی کر سکتی ہے۔کنڈکٹروں اور ڈرائیور حضرات کے لئے کم سے کم اجرت ،اوقاتِ کاراور تحفظِ ملازمت کے قوائد و ضوابط کو نا صرف ازِسرنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ان پر سختی سے عمل درآمد کرانا بھی ناگزیر ہے۔حکومتِ وقت کو معاشرے کے اس اہم طبقہ کی حالت پر بھی نظرِثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

اب تو ایک ہی خواہش ہے مریں تو جنت میں چلے جائیں
اصغر سے جب پوچھا کہ زندگی میں آپ نے بھی تو کوئی خواہش کی ہوگی کوئی خواب ہوں گے تو وہ مسکرا کر کہنے لگا ہماری تو اب ایک ہی خواہش ہے مریں تو جنت میں چلے جائیں۔ساری عمر رزقِ حلال کمانے کی تگ و دو میں گزر گئی اور اب عمر کے آخری حصہ میں ہوں بچوں کو اپنے گھروں کا کردیا اب ان کی زندگیاں ہیں وہ جانیں اور ان کی مرضی ہم نے ہر حد تک ان کے لئے محنت کی اور کبھی لقمۂ حرام ان کے حلق میں نہیں اترنے دیا۔اُس دورمڈل تک تعلیم حاصل کی اب تو اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں عمر پینسٹھ برس ہوگئی ہے اب تو کسی وقت بھی وقت آخر آ سکتا ہے۔

''جاہل لوگوں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی''
چھ برس قبل بیٹے کی شادی عزیروں میں پڑھی لکھی لڑکی سے کی ۔اسے الگ کمرہ سامان اور خرچ دیا مگر اس نے ہمارے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں ان جاہل لوگوں کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ وہ سولہ جماعتیں پاس تھی اور میرے بیٹے کی پسند جو ڈرائیور ہے۔ہمارے پاس رہنے کو تیار ہی نہ تھی تو ہم کیسے روکتے۔جب تک وہ ہمارے ساتھ رہی اس نے کبھی ہمارا کوئی کام نہیں کیا مگر ہم پھر بھی چپ رہے۔ وہ شادی سے پہلے شہر میں نوکری کرتی تھی اور اچھا کما لیتی تھی، بس جس بندے کو اپنی مرضی اورآزادی کی عادت پڑ جائے تو وہ سب کے ساتھ گزارہ نہیں کرپاتا۔ ماں باپ کو یہی کہوں گا کہ بیٹیوں کو تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت بھی دیں تاکہ وہ خاندانوں کو جوڑ کر رکھیںاور رشتوں کا تقدس پامال نہ کریں۔
Load Next Story