حضرت ابوبکر صدیق ؓ
اُمت مسلمہ کے عظیم مدبر
جب آنحضورؐ نے اس دنیا سے وصال فرمایا تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ مکہ میں نہیں تھے اور اس کے قرب و جوار کے علاقے ''سخ'' میں تھے جو نہی آپؓ کو اطلاع ہوئی دیوانہ وار وہاں سے دوڑے اور صدیقہ ٔ کائنات کے حجرے مین پہنچ کر دیکھا کہ رسالت مآب پر چادر پڑی ہوئی ہے آپؓ نے فوراً چادر اٹھائی اور فرمانے لگے کتنے پاکیزہ تھے زندگی میں اور کتنے پاکیزہ ہیں وصال کے بعد بھی۔''
اس غم ناک موقع پر تمام صحابہ کرامؓ حواس باختہ تھے۔ حضرت عمرؓ کا حال تو سب سے برا تھا جوش اور غم کے عالم میں کہتے جاتے تھے کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ محمدؐ کا انتقال ہو گیا تو اس کی گردن ماردوں گا۔ بس اسی وقت حضرت ابو بکر ؓ پہنچے اور فرمانے لگے۔ ''اے لوگو ! جو لوگ محمدؐ کی پرستش کررہے تھے ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ زندہ ہے۔
اور وہ کبھی نہیں مرے گا۔'' اس کے بعد قرآن حکیم کی ایک آیت تلاوت فرمائی ترجمہ ''محمدصرف اللہ کے رسول ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ کیا وہ اگر مر گئے یا قتل ہو گئے تو تم پیٹھ پیچھے پھر جاؤ گے، وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچائیں گے ۔ اللہ شکر گزاروں کو عنقریب بدلہ دے گا۔'' (سورہ آلعمران آیت144) حضرت عمرؓ نے جب یہ آیت سنی تو یقین کامل ہوگیا کہ واقعی رسول اللہ ؐؐ اس دنیا سے انتقال فرما چکے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓکی بصیرت ایمانی حضرت عمرؓ کو اپنی اصل کیفیت میں لے آئی۔ اس موقع پر جہاں مہاجرین کی حالت غیر تھی وہاں انصار کی حالت بھی کافی دگرگوں تھی۔
انہوں نے سقیفۂ بنوساعدہ میں جمع ہو کر کافی تندوتیز تقریریں شروع کردیں وہ اپنے آپ کو خلافت کا مستحق تصور کررہے تھے ۔ خزرج کے ایک راہ نما سعد بن عبادہؓ کی راہ نمائی میں انصار نے یہ فیصلہ کیا کہ خلافت صرف انصار کا حق ہے، مہاجرین کا نہیں، جب کہ انہی میں سے ایک کم زور حلقے کی یہ رائے تھی کہ خلیفہ دونوں حلقوں سے باری باری منتخب کیا جائے۔
مہاجرین میں سے حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ مسجد نبوی میں آنحضرت ؐکی وفات پر غوروخوض فرما رہے تھے جب کہ حضرت علیؓ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ آپؐ کی تجہیزوتکفین کی تیاریوں میں مشغول تھے۔ اتنے میں ایک شخص نے مسجد نبوی میں آکر حضرت عمرؓ کو سقیفۂ بنی ساعدہ کی تمام صورت حال سے آگاہ کردیا ۔
حضرت عمر ؓ نے صورت حال کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کو باہر بلایا تو پہلے آپؓ نے باہر آنے سے معذرت کرلی مگر حضرت عمرؓ کے اصرار پر باہر آئے اور تفصیل معلوم کرنے کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ کو لے سقیفہ ؓ بنی ساعدہ پہنچ گئے۔ وہاں پہنچنے کے بعد دیکھا کہ انصار کی جانب سے تندوتیز تقاریر کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے اذہان تبدیل ہو چکے ہیں فرط جذبات سے مغلوب حضرت عمرؓ ان تقاریر کا جواب دینا چاہتے تھے مگر فکر ابوبکر ؓصدیق نے ان کے سخت مزاج کے باعث انہیں روکا اور خود تقریر فرمائی ۔
یہ تقریر اتنی فصیح و بلیغ اتنی مدلل اور ایسی منصفانہ اور حکیمانہ تھی کہ بدلے ہوئے اذہان پھر سے پلٹ آئے وہ انصار کی تعریف و توصیف میں جو کچھ کہہ سکتے تھے کہہ گئے۔ اس تقریر کے بعد انصار و مہاجرین میں کسی کو جواب میں کچھ کہنے کی نوبت نہ پیش آئی۔ پ
ھر آپؓ نے حضرت عمر ؓ اور حضرت ابوعبیدہ ؓ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ دونوں حضرات امت میں بہترین افراد میں سے ہیں ان میں سے کسی بھی ایک کے ہاتھ پر بیعت کرلیں ۔ حضرت عمر ؓ نے سنا تو قبل اس کے کہ ان کا یا ابوعبیدہؓ کا نام آئے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا،''ہاتھ لائیے! ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ آپ کو آنحضورؐ نے اپنی جگہ مسلمانوں کو نماز پڑھانے کے لیے منتخب کیا۔ اس وجہ سے آپ ہی مسلمانوں کے خلیفہ بننے کے مستحق ہیں۔ ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرکے درحقیقت اس شخص کے ہاتھ پر بیعت کریں گے جو ان تمام لوگوں میں بہترین ہیں جن سے رسول اللہ ؐ نے محبت کی۔
اسی طرح حضرت ابوعبیدہؓ بھی آگے بڑھے اور حضرت ابو بکر ؓ سے فرمانے لگے ''آپ تمام مہاجرین میں افضل ترین ہیں۔ آپ غارثور کے تنہا ساتھی تھے اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دینی فریضے نماز کے قیام و اہتمام میں رسول اللہ کے جان نشین ہیں تو آپ کے ہوتے ہوئے بھلا کوئی اور اس اہم منصب پر کیسے فائز ہوسکتا ہے؟ مہاجرین کے ان دونوں سربراہوں نے جن الفاظ میں حضرت ابوبکرؓ کو خراج عقیدت پیش کیا ان کے ان الفاظ سے پوری امت مسلمہ کی نمائندگی ہوگئی۔ چناںچہ کچھ ہی دیر میں تمام انصار نے بجز سعد ابن عبادہؓ کے آپؓ کے ہاتھوں پر بیعت کرلی۔ بعض راویوں نے اس کی منظرکشی اس طرح کی ہے کہ ''لوگ ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کے لیے اس جوش و خروش سے بڑھ رہے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ لوگوں کی اس ریل پیل میں سعد بن عبادہؓ روند دیے جائیں گے۔''
مصر کے ایک عظیم مصنف محمد حسین ہیکل اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں کہ ''اس میں شبہہ نہیں کہ یہ اجتماع اسلام کی زندگی میں ایک نہایت اہم اجتماع تھا اور اگر حضرت ابوبکرؓ نے اس موقع پر غیرمعمولی عزم و حزم کا ثبوت نہ پیش کیا ہوتا تو اندیشہ تھا کہ اس نئے دین کے خلاف خود اس کے گہوارے کے اندر بھی اس طرح کی بغاوت پھوٹ پڑے جس طرح کی بغاوت عرب کے دوسرے مقامات سے پھوٹ پڑی تھی اور یہ بغاوت ایسے وقت میں پھوٹتی جب کہ پیغمبراسلام کا جسدِخاکی ابھی سپردخاک بھی نہیں ہوا تھا۔''
حضرت ابوبکرؓ نے جب خلافت کی ذمے داری سنبھالی تو اس وقت ملک کی اندرونی حالت ابتر تھی۔ آنحضور ؐ کے وصال کے بعد آبادی کی اکثریت ارتداد کی جانب مائل ہو گئی تھی کچھ عناصر جانشین کے مسئلے کو ہواد ے رہے تھے۔ مدینہ کی اطراف کے قبائل جن میں ذبیان، بنی کنانہ، غطفان اور فزارہ وغیرہ نے اگر وہ اپنے ارتداد کا اعلان تو نہیں کیا تھا مگر پھر بھی مدینہ کی حکومت کو زکوٰۃ نہ دینے اور اپنی حمایت سے دست برداری کا اعلان کردیا تھا۔ اس کے علاوہ کئی نبوت کے جھوٹے دعوے داروں نے سر اٹھالیا۔
ان میں بنی اسد میں طلحہ، بنی تمیم میں سجاح، یمامہ میں مسلمہ، عمان میں لقیط جب کہ یمن میں اسود عنسی جیسے باغی اور سرکش تھے، جنہوں نے اپنے اپنے قبیلوں کے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ اس کے علاوہ خارجی طور پر رومیوں کے بھی حملے کا زبردست خطرہ ہر لمحے درپیش تھا۔
یہ وہ خطرات تھے کہ مسند خلافت سنبھالتے ہی حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو ان سے نمٹنا تھا۔ اب دیکھیے کہ انہوں نے کس عزم اور ہمت کے ساتھ ان خطرات کا مقابلہ کیا۔ آنحضور ؐ نے اپنی حیات مبارکہ ہی مین ایک لشکر رومیوں کی سرکوبی کے لیے ترتیب دیا تھا جس کی قیادت حضرت اسامہؓ بن زید کے ذمہ تھی۔ حضور ؐ کی ناسازی طبع کی وجہ سے لشکر جا نہیں سکا تھا۔ اس وقت اس لشکر میں اکابر صحابہؓ موجود تھے۔ آنحضور ؐ کی وفات کے بعد اس لشکر پر دو اعتراض ہو رہے تھے کہ اگر اکابر صحابہؓ اس لشکر میں چلے گئے تو مدینہ خالی ہو جائے گا اور تجربہ کار صحابہؓ کے ہوتے ہوئے اسامہ ؓ جیسے نوخیز کا تقرر درست معلوم نہیں ہوتا، لہٰذا قیادت کسی اور کو سونپی جائے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے یہ دونوں اعتراضاتِ تسلیم نہ کیے اور فرمایا کہ جو جھنڈا آنحضور ؐ نے باندھا ہے اسے میں نہیں کھول سکتا۔
لوگوں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر ؓ اپنی رائے پر قائم ہیں تو انہوں نے حضرت عمرؓ کو ذریعہ بنایا ۔ انہوں نے آپؓ کی خدمت میں اپنی رائے پیش کی کہ ملک کی حالت اس وقت خراب ہے لہٰذا اس مہم کو فی الحال ملتوی کردیں اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو پھر عسکری قیادت اکابر میں سے کسی ایک کو دے دی جائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب میں فرمایا کہ ''اگر مجھے کُتے اور بھیڑے بھی اچک لے جائیں تو بھی رسول اللہ ؐ کی بنائی ہوئی اس مہم کو مسترد نہیں کروں گا۔'' پھر حضرت عمرؓ کے بال پکڑتے ہوئے فرمایا،''اے ابن خطاب! تمہاری ماں تمہیں روئے جس کو نبیؐ نے تقرر کیا ہو تم مشورہ دیتے ہو کہ اسے معزول کردوں؟''
ان تمام مخالف حالات کے باوجود حضرت ابوبکر ؓنے حضرت اسامہؓ کی ہی قیادت میں لشکر رومیوں پر حملہ کرنے کے لیے بھیج دیا۔ یہ ان کے عزم اور حوصلے کی برکت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس لشکر کو نہایت ہی شان دار فتح نصیب کی۔ اس فتح کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی نکلا کہ اندر کے دشمن بھر مرعوب ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔
بیرونی دشمنوں کا حال تو اس سے بھی برا ہوا ان کی کمر ٹوٹ کے رہ گئی۔ عرب کے جو قبائل بغاوت کے لیے پر تول رہے تھے جب انہیں پتا چلا کہ لشکرِگراں رومیوں سے لڑنے جا رہا ہے تو ان میں ازخود یہ بات پھیل گئی کہ اگر مدینہ والوں کے پاس اتنی فوج نہ ہوتی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اتنے دوردراز ایک مضبوط ملک پر فوج کشی کا ارادہ کرتی، اور اس چیز نے ان کے بغاوت کے اس حوصلے کو اور بھی سرد کردیا۔ دوسری طرف ہر قل کو اپنی سرحدوں کی حفاظت کی فکر پڑگئی۔ گویا حضرت ابوبکرؓ ایک تیر سے دو شکار کرکے بلاشبہہ اپنے منصوبوں میں کام یاب رہے۔
اس کے بعد آپؓ نے منکرین زکوٰۃ کی جانب توجہ فرمائی۔ اگرچہ صحابہؓ کی اکثریت ان کے خلاف جہاد کرنے کی مخالف تھی۔ دلیل میں آپؓ نے فرمایا کہ اسلام میں زکوٰۃ نماز کے ہم پایہ ہے اس وجہ سے اگر نماز کے لیے جنگ کی جا سکتی ہے تو پھر زکوٰۃ کے لیے کیوں نہیں کی جا سکتی؟ پھر حضرت عمرؓ کی جانب مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ اپنی رائے میں لچک پیدا کریں ایام جاہلیت میں تو آپ بڑے بہادر تھے۔ اب اسلام کے دور میں یہ بزدلی کیوں؟ اور پھر پورے جوش اور عزم کے ساتھ فرمایا اگر کوئی بھی میرے ساتھ نہ نکلا تو میں تنہاان مانعین زکوٰۃ سے جنگ کروں گا۔ ان کے اس عزم نے مسلمانوں کے دل میں ایک نئی لہر اور حرارت پیدا کردی اور کچھ ہی دنوں میں آپ کی کوششوں سے اس اندرونی بغاوت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ مدینہ مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔ بغاوت مدینہ اور اس کے اطراف میں کافی دور تک پھیل گئی تھی جب کہ اکثر صحابہؓ کی رائے بھی یہی تھی کہ ان باغیوں کے خلاف لشکرکشی کے بجائے مصلحت پر مبنی رویہ اختیار کرکے معاف کردیا جائے۔ لیکن آپؓ نے ان سمجھوتوں کے خیالی نکات کو یکسر مسترد کرکے آنے والے دنوں میں اپنی رائے کو درست ثابت کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ''اسلام کے مقرر کیے ہوئے حقوق میں سے بکری کا ایک بچہ بھی میں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔''
ایسے مواقع پر اگر صدیق اکبرؓ نے اپنے مضبوط عزم اور حوصلے کا اظہار کا ثبوت نہ فراہم کیا ہوتا اور بڑھتی ہوئی بغاوت وسرکشی سے مغلوب ہو کر مرتدین اور باغیوں سے سمجھوتا کرلیا ہوتا تو آج تاریخ اسلام میں رقم ّ واقعات کتنے مختلف ہوتے؟ آپؓ نے مشکل سے مشکل حالات میں وہی فیصلہ کیا جو عزم اور تدبرّ کا حقیقی تقاضا تھا اور یہ انہی کے عزائم کا ثمرہ تھا کہ سوا دو سال سے بھی کم مدت میں انہوں نے نہ صرف عالم عرب کو اسلام کی طاقت کے آگے سرنگوں کردیا بلکہ عراق کی تسخیر سے فارغ ہو کر ان کی فوجوں نے شام پر حملے کردیے۔
آپ کی سیرت، فضیلت، کردار پر ایک جامع حدیث ملتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،''جو شخص اللہ کی راہ میں دو جوڑے تقسیم کرے وہ جنت کے دروازوں میں سے بلایا جائے گا۔ (فرشتے پکاریں گے) اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ اچھا ہے (اس میں سے آجا) پھر جو کوئی نماز ادا کرنے والوں میں سے ہوگا اور جو کوئی روزہ داروں میں سے ہوگا وہ ریّان (روزہ داروں کا دروازہ) کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ جو کوئی صدقہ دینے والا ہوگا تو صدقے کے دروازے سے پکارا جائے گا تو ابوبکر نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! جو شخص ان تمام دروازوں سے پکارا جائے اس کو تو پھر کوئی ضرورت ہی نہیں رہے گی تو کیا کوئی شخص ان تمام دروازوں سے بھی پکارا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور میں امید رکھتا ہوں کہ تم انہی میں سے ہوگے۔''
(صحیح بخاری جلد1)
اس غم ناک موقع پر تمام صحابہ کرامؓ حواس باختہ تھے۔ حضرت عمرؓ کا حال تو سب سے برا تھا جوش اور غم کے عالم میں کہتے جاتے تھے کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ محمدؐ کا انتقال ہو گیا تو اس کی گردن ماردوں گا۔ بس اسی وقت حضرت ابو بکر ؓ پہنچے اور فرمانے لگے۔ ''اے لوگو ! جو لوگ محمدؐ کی پرستش کررہے تھے ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ زندہ ہے۔
اور وہ کبھی نہیں مرے گا۔'' اس کے بعد قرآن حکیم کی ایک آیت تلاوت فرمائی ترجمہ ''محمدصرف اللہ کے رسول ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ کیا وہ اگر مر گئے یا قتل ہو گئے تو تم پیٹھ پیچھے پھر جاؤ گے، وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچائیں گے ۔ اللہ شکر گزاروں کو عنقریب بدلہ دے گا۔'' (سورہ آلعمران آیت144) حضرت عمرؓ نے جب یہ آیت سنی تو یقین کامل ہوگیا کہ واقعی رسول اللہ ؐؐ اس دنیا سے انتقال فرما چکے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓکی بصیرت ایمانی حضرت عمرؓ کو اپنی اصل کیفیت میں لے آئی۔ اس موقع پر جہاں مہاجرین کی حالت غیر تھی وہاں انصار کی حالت بھی کافی دگرگوں تھی۔
انہوں نے سقیفۂ بنوساعدہ میں جمع ہو کر کافی تندوتیز تقریریں شروع کردیں وہ اپنے آپ کو خلافت کا مستحق تصور کررہے تھے ۔ خزرج کے ایک راہ نما سعد بن عبادہؓ کی راہ نمائی میں انصار نے یہ فیصلہ کیا کہ خلافت صرف انصار کا حق ہے، مہاجرین کا نہیں، جب کہ انہی میں سے ایک کم زور حلقے کی یہ رائے تھی کہ خلیفہ دونوں حلقوں سے باری باری منتخب کیا جائے۔
مہاجرین میں سے حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ مسجد نبوی میں آنحضرت ؐکی وفات پر غوروخوض فرما رہے تھے جب کہ حضرت علیؓ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ آپؐ کی تجہیزوتکفین کی تیاریوں میں مشغول تھے۔ اتنے میں ایک شخص نے مسجد نبوی میں آکر حضرت عمرؓ کو سقیفۂ بنی ساعدہ کی تمام صورت حال سے آگاہ کردیا ۔
حضرت عمر ؓ نے صورت حال کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کو باہر بلایا تو پہلے آپؓ نے باہر آنے سے معذرت کرلی مگر حضرت عمرؓ کے اصرار پر باہر آئے اور تفصیل معلوم کرنے کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ کو لے سقیفہ ؓ بنی ساعدہ پہنچ گئے۔ وہاں پہنچنے کے بعد دیکھا کہ انصار کی جانب سے تندوتیز تقاریر کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے اذہان تبدیل ہو چکے ہیں فرط جذبات سے مغلوب حضرت عمرؓ ان تقاریر کا جواب دینا چاہتے تھے مگر فکر ابوبکر ؓصدیق نے ان کے سخت مزاج کے باعث انہیں روکا اور خود تقریر فرمائی ۔
یہ تقریر اتنی فصیح و بلیغ اتنی مدلل اور ایسی منصفانہ اور حکیمانہ تھی کہ بدلے ہوئے اذہان پھر سے پلٹ آئے وہ انصار کی تعریف و توصیف میں جو کچھ کہہ سکتے تھے کہہ گئے۔ اس تقریر کے بعد انصار و مہاجرین میں کسی کو جواب میں کچھ کہنے کی نوبت نہ پیش آئی۔ پ
ھر آپؓ نے حضرت عمر ؓ اور حضرت ابوعبیدہ ؓ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ دونوں حضرات امت میں بہترین افراد میں سے ہیں ان میں سے کسی بھی ایک کے ہاتھ پر بیعت کرلیں ۔ حضرت عمر ؓ نے سنا تو قبل اس کے کہ ان کا یا ابوعبیدہؓ کا نام آئے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا،''ہاتھ لائیے! ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ آپ کو آنحضورؐ نے اپنی جگہ مسلمانوں کو نماز پڑھانے کے لیے منتخب کیا۔ اس وجہ سے آپ ہی مسلمانوں کے خلیفہ بننے کے مستحق ہیں۔ ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرکے درحقیقت اس شخص کے ہاتھ پر بیعت کریں گے جو ان تمام لوگوں میں بہترین ہیں جن سے رسول اللہ ؐ نے محبت کی۔
اسی طرح حضرت ابوعبیدہؓ بھی آگے بڑھے اور حضرت ابو بکر ؓ سے فرمانے لگے ''آپ تمام مہاجرین میں افضل ترین ہیں۔ آپ غارثور کے تنہا ساتھی تھے اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دینی فریضے نماز کے قیام و اہتمام میں رسول اللہ کے جان نشین ہیں تو آپ کے ہوتے ہوئے بھلا کوئی اور اس اہم منصب پر کیسے فائز ہوسکتا ہے؟ مہاجرین کے ان دونوں سربراہوں نے جن الفاظ میں حضرت ابوبکرؓ کو خراج عقیدت پیش کیا ان کے ان الفاظ سے پوری امت مسلمہ کی نمائندگی ہوگئی۔ چناںچہ کچھ ہی دیر میں تمام انصار نے بجز سعد ابن عبادہؓ کے آپؓ کے ہاتھوں پر بیعت کرلی۔ بعض راویوں نے اس کی منظرکشی اس طرح کی ہے کہ ''لوگ ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کے لیے اس جوش و خروش سے بڑھ رہے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ لوگوں کی اس ریل پیل میں سعد بن عبادہؓ روند دیے جائیں گے۔''
مصر کے ایک عظیم مصنف محمد حسین ہیکل اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں کہ ''اس میں شبہہ نہیں کہ یہ اجتماع اسلام کی زندگی میں ایک نہایت اہم اجتماع تھا اور اگر حضرت ابوبکرؓ نے اس موقع پر غیرمعمولی عزم و حزم کا ثبوت نہ پیش کیا ہوتا تو اندیشہ تھا کہ اس نئے دین کے خلاف خود اس کے گہوارے کے اندر بھی اس طرح کی بغاوت پھوٹ پڑے جس طرح کی بغاوت عرب کے دوسرے مقامات سے پھوٹ پڑی تھی اور یہ بغاوت ایسے وقت میں پھوٹتی جب کہ پیغمبراسلام کا جسدِخاکی ابھی سپردخاک بھی نہیں ہوا تھا۔''
حضرت ابوبکرؓ نے جب خلافت کی ذمے داری سنبھالی تو اس وقت ملک کی اندرونی حالت ابتر تھی۔ آنحضور ؐ کے وصال کے بعد آبادی کی اکثریت ارتداد کی جانب مائل ہو گئی تھی کچھ عناصر جانشین کے مسئلے کو ہواد ے رہے تھے۔ مدینہ کی اطراف کے قبائل جن میں ذبیان، بنی کنانہ، غطفان اور فزارہ وغیرہ نے اگر وہ اپنے ارتداد کا اعلان تو نہیں کیا تھا مگر پھر بھی مدینہ کی حکومت کو زکوٰۃ نہ دینے اور اپنی حمایت سے دست برداری کا اعلان کردیا تھا۔ اس کے علاوہ کئی نبوت کے جھوٹے دعوے داروں نے سر اٹھالیا۔
ان میں بنی اسد میں طلحہ، بنی تمیم میں سجاح، یمامہ میں مسلمہ، عمان میں لقیط جب کہ یمن میں اسود عنسی جیسے باغی اور سرکش تھے، جنہوں نے اپنے اپنے قبیلوں کے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ اس کے علاوہ خارجی طور پر رومیوں کے بھی حملے کا زبردست خطرہ ہر لمحے درپیش تھا۔
یہ وہ خطرات تھے کہ مسند خلافت سنبھالتے ہی حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو ان سے نمٹنا تھا۔ اب دیکھیے کہ انہوں نے کس عزم اور ہمت کے ساتھ ان خطرات کا مقابلہ کیا۔ آنحضور ؐ نے اپنی حیات مبارکہ ہی مین ایک لشکر رومیوں کی سرکوبی کے لیے ترتیب دیا تھا جس کی قیادت حضرت اسامہؓ بن زید کے ذمہ تھی۔ حضور ؐ کی ناسازی طبع کی وجہ سے لشکر جا نہیں سکا تھا۔ اس وقت اس لشکر میں اکابر صحابہؓ موجود تھے۔ آنحضور ؐ کی وفات کے بعد اس لشکر پر دو اعتراض ہو رہے تھے کہ اگر اکابر صحابہؓ اس لشکر میں چلے گئے تو مدینہ خالی ہو جائے گا اور تجربہ کار صحابہؓ کے ہوتے ہوئے اسامہ ؓ جیسے نوخیز کا تقرر درست معلوم نہیں ہوتا، لہٰذا قیادت کسی اور کو سونپی جائے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے یہ دونوں اعتراضاتِ تسلیم نہ کیے اور فرمایا کہ جو جھنڈا آنحضور ؐ نے باندھا ہے اسے میں نہیں کھول سکتا۔
لوگوں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر ؓ اپنی رائے پر قائم ہیں تو انہوں نے حضرت عمرؓ کو ذریعہ بنایا ۔ انہوں نے آپؓ کی خدمت میں اپنی رائے پیش کی کہ ملک کی حالت اس وقت خراب ہے لہٰذا اس مہم کو فی الحال ملتوی کردیں اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو پھر عسکری قیادت اکابر میں سے کسی ایک کو دے دی جائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب میں فرمایا کہ ''اگر مجھے کُتے اور بھیڑے بھی اچک لے جائیں تو بھی رسول اللہ ؐ کی بنائی ہوئی اس مہم کو مسترد نہیں کروں گا۔'' پھر حضرت عمرؓ کے بال پکڑتے ہوئے فرمایا،''اے ابن خطاب! تمہاری ماں تمہیں روئے جس کو نبیؐ نے تقرر کیا ہو تم مشورہ دیتے ہو کہ اسے معزول کردوں؟''
ان تمام مخالف حالات کے باوجود حضرت ابوبکر ؓنے حضرت اسامہؓ کی ہی قیادت میں لشکر رومیوں پر حملہ کرنے کے لیے بھیج دیا۔ یہ ان کے عزم اور حوصلے کی برکت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس لشکر کو نہایت ہی شان دار فتح نصیب کی۔ اس فتح کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی نکلا کہ اندر کے دشمن بھر مرعوب ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔
بیرونی دشمنوں کا حال تو اس سے بھی برا ہوا ان کی کمر ٹوٹ کے رہ گئی۔ عرب کے جو قبائل بغاوت کے لیے پر تول رہے تھے جب انہیں پتا چلا کہ لشکرِگراں رومیوں سے لڑنے جا رہا ہے تو ان میں ازخود یہ بات پھیل گئی کہ اگر مدینہ والوں کے پاس اتنی فوج نہ ہوتی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اتنے دوردراز ایک مضبوط ملک پر فوج کشی کا ارادہ کرتی، اور اس چیز نے ان کے بغاوت کے اس حوصلے کو اور بھی سرد کردیا۔ دوسری طرف ہر قل کو اپنی سرحدوں کی حفاظت کی فکر پڑگئی۔ گویا حضرت ابوبکرؓ ایک تیر سے دو شکار کرکے بلاشبہہ اپنے منصوبوں میں کام یاب رہے۔
اس کے بعد آپؓ نے منکرین زکوٰۃ کی جانب توجہ فرمائی۔ اگرچہ صحابہؓ کی اکثریت ان کے خلاف جہاد کرنے کی مخالف تھی۔ دلیل میں آپؓ نے فرمایا کہ اسلام میں زکوٰۃ نماز کے ہم پایہ ہے اس وجہ سے اگر نماز کے لیے جنگ کی جا سکتی ہے تو پھر زکوٰۃ کے لیے کیوں نہیں کی جا سکتی؟ پھر حضرت عمرؓ کی جانب مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ اپنی رائے میں لچک پیدا کریں ایام جاہلیت میں تو آپ بڑے بہادر تھے۔ اب اسلام کے دور میں یہ بزدلی کیوں؟ اور پھر پورے جوش اور عزم کے ساتھ فرمایا اگر کوئی بھی میرے ساتھ نہ نکلا تو میں تنہاان مانعین زکوٰۃ سے جنگ کروں گا۔ ان کے اس عزم نے مسلمانوں کے دل میں ایک نئی لہر اور حرارت پیدا کردی اور کچھ ہی دنوں میں آپ کی کوششوں سے اس اندرونی بغاوت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ مدینہ مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔ بغاوت مدینہ اور اس کے اطراف میں کافی دور تک پھیل گئی تھی جب کہ اکثر صحابہؓ کی رائے بھی یہی تھی کہ ان باغیوں کے خلاف لشکرکشی کے بجائے مصلحت پر مبنی رویہ اختیار کرکے معاف کردیا جائے۔ لیکن آپؓ نے ان سمجھوتوں کے خیالی نکات کو یکسر مسترد کرکے آنے والے دنوں میں اپنی رائے کو درست ثابت کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ''اسلام کے مقرر کیے ہوئے حقوق میں سے بکری کا ایک بچہ بھی میں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔''
ایسے مواقع پر اگر صدیق اکبرؓ نے اپنے مضبوط عزم اور حوصلے کا اظہار کا ثبوت نہ فراہم کیا ہوتا اور بڑھتی ہوئی بغاوت وسرکشی سے مغلوب ہو کر مرتدین اور باغیوں سے سمجھوتا کرلیا ہوتا تو آج تاریخ اسلام میں رقم ّ واقعات کتنے مختلف ہوتے؟ آپؓ نے مشکل سے مشکل حالات میں وہی فیصلہ کیا جو عزم اور تدبرّ کا حقیقی تقاضا تھا اور یہ انہی کے عزائم کا ثمرہ تھا کہ سوا دو سال سے بھی کم مدت میں انہوں نے نہ صرف عالم عرب کو اسلام کی طاقت کے آگے سرنگوں کردیا بلکہ عراق کی تسخیر سے فارغ ہو کر ان کی فوجوں نے شام پر حملے کردیے۔
آپ کی سیرت، فضیلت، کردار پر ایک جامع حدیث ملتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،''جو شخص اللہ کی راہ میں دو جوڑے تقسیم کرے وہ جنت کے دروازوں میں سے بلایا جائے گا۔ (فرشتے پکاریں گے) اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ اچھا ہے (اس میں سے آجا) پھر جو کوئی نماز ادا کرنے والوں میں سے ہوگا اور جو کوئی روزہ داروں میں سے ہوگا وہ ریّان (روزہ داروں کا دروازہ) کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ جو کوئی صدقہ دینے والا ہوگا تو صدقے کے دروازے سے پکارا جائے گا تو ابوبکر نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! جو شخص ان تمام دروازوں سے پکارا جائے اس کو تو پھر کوئی ضرورت ہی نہیں رہے گی تو کیا کوئی شخص ان تمام دروازوں سے بھی پکارا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور میں امید رکھتا ہوں کہ تم انہی میں سے ہوگے۔''
(صحیح بخاری جلد1)